امہات المؤمنین کی تعظیم
اس مادہ کے ترجمے
زمرے
Full Description
امہات المؤمنین کی تعظیم
توقير زوجات المصطفى صلى الله عليه وسلم
از قلم:ماجد بن سلیمان الرسی۔
لفضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه الله
باللغة الأردية
ترجمة : سيف الرحمن حفظ الرحمن التيمي
موضوع:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی ازواج مطہرات کی تعظیم کی جائے
إن الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا، من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا هادي لہ، وأشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ۔
(يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون)
(يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام إن الله كان عليكم رقيبا)
(يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولا سديدا يصلح لكم أعمالكم ويغفر لكم ذنوبكم ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزا عظيما)
أما بعد فإن خير الكلام كلام الله وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم، وشر الأمور محدثاتها، وكل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار.
اے مسلمانوں! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس سے ہمہ وقت خوف کھاتے رہو، اس کی فرماں برداری کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو، جان رکھو کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی تعظیم کرتے ہیں، اللہ تعالی نے انہیں بلند مقام عطا کیا ہے، بلکہ اللہ نے انہیں تمام مومنوں کی ماں کا مرتبہ عطا کیا ہے، جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے: (النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم وأزواجه أمهاتهم)
ترجمہ: پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔
اس کے اندر حرمت واحترام اور عزت واکرام کی تعلیم دی گئی ہے جس کی وجہ سے ہر مسلمان پر ان کے اس حق کی حفاظت کرنا اور جس طرح شریعت نے اس کا مطالبہ کیا ہے ، اسی طرح اسے ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی تعظیم کو جو چیزیں واجب ٹھہراتی ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے درون خانہ انجام پانے والے طریقہ نبوی کو یاد رکھا اور اسے امت تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، بطور خاص عائشہ رضی اللہ عنہا ، کیوں کہ وہ ان صحابہ میں سر فہرست ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت احادیث روایت کی ہیں۔
رہی بات خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی زوجہ محترمہ ہیں، وہ آپ کو حوصلہ اور اس بات کا اطمنان دلاتیں کہ آپ جس پر قائم ہیں وہی حق ہے، اور یہ کہ اللہ تعالی آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، جیسا کہ یہ قصہ مشہور ہے کہ جب جبریل پہلی دفعہ غار حراء میں آپ پر وحی لے کر نازل ہوئے تو آپ ان کے پاس لرزتے اور کانپتے ہوئے آئے ، اس وقت انہوں نے آپ کو اطمنان دلایا، پھر آپ کو اپنے چچا زاد ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر گئیں، جوکہ زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے، اور آپ کو انہوں نے مزید اطمنان اور حوصلہ دیا، اور یہ واضح کیا کہ جو چیز آپ پر نازل ہوئی ہے وہ اللہ تعالی کی جانب سے وحی ہے[1]۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں: اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مومنوں کی مائیں تسلیم کرتے ہیں، اور یہ ایمان رکھتے ہیں کہ وہ آخرت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہوں گی، بطور خاص حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جن سے آپ کی اکثر اولاد ہوئیں، جنہوں نے سب سے پہلے آپ پر ایمان لایا اور آپ کو اپنے معاملے میں مدد اور تقویت پہنچائیں اور ان کے نزدیک آپ کا بڑا بلند مقام تھا۔
صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ عنہا جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں پر عائشہ کی وہی فضیلت ہے جو فضیلت ثرید کو تمام کھانوں پر حاصل ہے[2]۔ابن تیمیہ کی بات ختم ہوئی۔
امہات المومنین کی عظمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان پر بطور خاص درود بھیجنے کی تعلیم دی گئی ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے لئے دعا کی جائے کہ اللہ (فرشتوں کی مجلس میں) ان کی تعریف کرے اور ان کا مقام ومرتبہ بلند کرے، ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں؟
آپ نے فرایا: کہو: اللهم صل على محمد وأزواجه وذريته كما صليت على آل إبراهيم وبارك على محمد وأزواجه وذريته كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد[3].
ترجمہ:اے اللہ رحمت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں پر اور ان کی اولاد پر جیسا کہ تونے رحمت نازل فرمائی آل ابراہیم پر اور اپنی برکت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں اور اولاد پر جیسا کہ تونے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر، بے شک تو انتہائی خوبیوں والا اور عظمت والا ہے۔
امہات المومنین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کی جائے، ان کے مدحتیں اور فضائل ذکر کئے جائیں اور ان کی بہتر ثنا خوانی کی جائے، کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان کو بلند مقام حاصل تھا، اور اس امت کی دیگر تمام خواتین پر انہیں زیادہ فضیلت حاصل ہے۔
اے مومنو! قرآن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو ہر طرح کی گندگی سے پاک ہونے کی دلیل دی ہے: (إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا)
ترجمہ: اللہ تعالی یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے۔
ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اے محمد کے اہل خانہ! اللہ تعالی تم سے برائی اور فحاشی کو دور اور تمہیں اس گندگی سے پوری طرح پاک کرنا چاہتا ہے جس میں اللہ کی نافرمانی کرنے والے ملوث ہوتے ہیں۔ انتہی
اسی بنیاد پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی شان میں گستاخی کرنا اور ان پر بے بنیاد تہمت لگانا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے کی ایک عظیم شکل ہے، جب کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے کو حرام قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمان باری تعای ہے:
(إن الذين يؤذون الله ورسوله لعنهم الله في الدنيا والآخرة وأعد لهم عذابا عظيما)
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسوا کن عذاب ہے۔
اے مسلمانو! روافض-اللہ انہیں غارت کرے-جس عقیدے کے حامل ہیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی تعظیم کے منافی ہے، کیوں کہ وہ منافقوں کی روش کی پیروی کرتے ہوئے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں، اس فاسد عقیدہ کو دین الہی کا حصہ سمجھتے ہیں، جوکہ معاذ اللہ کفر ہے، کیوں کہ جو شخص عائشہ پر زنا کی تہمت لگاتاہے وہ قرآن کریم کی سورۃ النور میں وارد ان کی براءت کی خبر کو سچ نہیں مانتا، اللہ تعالی فرماتا ہے:
(إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم لا تحسبوه شرا لكم بل هو خير لكم لكل امرئ منهم ما اكتسب من الإثم والذي تولى كبره منهم له عذاب عظيم، لولا إذ سمعتموه ظن المؤمنون والمؤمنات بأنفسهم خيرا وقالوا هذا إفك مبين)
ترجمہ: جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے، تم اسے اپنے لئے برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سر انجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت ہی بڑا ہے۔اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے۔
یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا: (ولو لا إذ سمعتموه قلتم ما يكون لنا أن نتكلم بهذا سبحانك هذا بهتان عظيم)
ترجمہ: تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں۔یا اللہ ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام تر علمائے کرام رحمہم اللہ کا اجماع ہے کہ اس آیت میں مذکور تنبیہ کے بعد بھی اگر کوئی شخص ان کے خلاف زبانِ طعن دراز کرے اور ان پر تہمت لگائے تو وہ کافر ہے کیوں کہ وہ قرآن کا (منکر و) مخالف ہے[4]۔
یہ چند فوائد تھے جن کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی تعظیم وتوقیر اور اس کے منافی امور سے ہے، اللہ ان تمام سے راضی ہو۔
اللہ مجھے اور آپ سب کو قرآن کریم کی برکت سے فیض یاب کرے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیتوں اور حکمت والی نصیحتوں سے نفع پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے ہر طرح کے گناہوں سے مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ بھی اللہ سے مغفرت کی دعا کریں، یقینا وہ بڑا توبہ قبول کرنے اور بخشنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد:
اے مسلمانو ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے مراد وہ خواتین ہیں جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مباشرت کی،ان کی تعداد گیارہ ہے:
۱-خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا۔
۲-عائشہ بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما ۔
۳-سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا۔
۴-حفصہ بنت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما ۔
۵-ام حبیبہ، رملہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہما ۔
۶-ام سلمہ، ہند بنت ابو امیہ بن مغیرہ قرشیہ رضی اللہ عنہا۔
۷-زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا۔
۸-زینب بنت خزیمہ ہلالیہ رضی اللہ عنہا۔
۹-جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا۔
۱۰-صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا۔
۱۱-میمونہ بنت حارث ہلالیہ رضی اللہ عنہا۔
آپ یہ یاد رکھیں (اللہ آپ کے ساتھ رحم کا معاملہ کرے)کہ اللہ نے آپ کو ایک بہت بڑے عمل کا حکم دیا ہے،اللہ فرماتا ہے: (إن الله وملائكته يصلون على النبي يا أيها الذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما)
ترجمہ:اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں،اے ایمان والو!تم(بھی)ان پر درود بھیجو اور خوب سلام(بھی)بھیجتے رہا کرو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو جمعہ کےدن اپنےاوپر بکثرت درود پڑھنے پر ابھارتے ہوئے فرمایا:"تمہارے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن بھی ایک بہتر دن ہے، اس لئے اس دن میرے اوپر کثرت سے درود بھیجو،کیوں کہ تمہارا درودوسلام میرے اوپر پیش کیا جاتا ہے"اے اللہ تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو ان کے خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اچھائی کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔
اے اللہ اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور اپنے دین اسلام کے دشمنوں کو نست ونابود کر،اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما،اے اللہ تو ہمیں اپنے ملکوں میں امن وسلامتی عطا کر،ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنے والا اور ہدایت پر چلنے والا بنا،اے اللہ جو ہمیں اور اسلام اور مسلمانوں کے تئیں شر کا ارادہ رکھے تواسے اپنی ذات میں مشغول کردے،اور اس کے مکر وفریب کو اس کےلئے وبال جان بنا،اے اللہ مہنگائی ،وباء،سود،زنا،زلزلوں اور آزمائشوں کو ہم سے دورکر دے اور ظاہری وباطنی فتنوں کی برائیوں کو ہمارے درمیان سے اٹھا لے،خصوصی طور پر ہمارے ملک سے اور عمومی طور تمام مسلمانوں کے ملکوں سے ،اے دونوں جہاں کے پالنہار۔
اے اللہ ہم سے بلاء کو دور فرما،یقینا ہم مسلمان ہیں،اے اللہ تو مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کو اپنے کتاب کو نافذ کرنے اور اپنے دین کو سربلند کرنے کی توفیق سے نواز،اور انہیں ان کے رعایہ کے لئے باعث رحمت بنا،اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما،اور عذاب جہنم سے نجات دے ۔
اے اللہ! درود وسلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد پر ' ان کے جانشیں صحابہ ' تابعین اور قیامت تک' احسان کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں سے راضی ہوجا۔
اے اللہ کے بندو!
یقینا اللہ تعالی عدل کا،بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں،ناشائستہ حرکتوں اور ظلم وزیادتی سے روکتا ہے۔ وہ خود تمہیں نصیحتیں کررہاہے کہ تم نصیحت حاصل کرو،اس لئے تم اللہ عظیم کا ذکر کرو وہ تمہارا ذکر کرے گا،اس کی نعمتوں پر اس کا شکر بجالائو وہ تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے گا،اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے،تم جو کچھ بھی کرتے ہو وہ اس سے باخبر ہے۔
از قلم:ماجد بن سلیمان الرسی۔
۱۹ ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ۔
شہر جبیل، مملکہ سعودیہ عربیہ۔
[1] یہ قصہ صحیح بخاری(۳) اور صحیح مسلم(۱۶۰) میں ملاحظہ فرمائیں
[2] دیکھیں: مجموع الفتاوی: ۳/۱۵۴' مذکورہ قول "العقیدۃ الواسطیہ" سے ماخوذ ہے' مذکورہ حدیث کو بخاری (۳۷۶۹) اور مسلم(۲۴۴۶) نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
[3] اس حدیث کو بخاری (۶۳۶۰) اور مسلم (۴۰۷) نے روایت کیا ہے۔
[4] تفسیر ابن کثیر' سورۃ النور: ۲۳