حاجی کے آداب
زمرے
Full Description
- حاجی کے آداب
- بسم اللہ الرحمن الرحیم
- حج کے آداب
- قبولیت کی نشانیاں
- پہلاادب:اخلاص
- دوسرا ادب : عبادت کا شعور
- تیسرا ادب: حلال کمائی کا اختیار
- چوتھا ادب: توبہ
- پانچواں ادب:نیک صحبت کا اختیار
- چھٹا ادب :اعمال حج کے احکام کی معرفت
- ساتواں ادب:صبر
- آٹھواں ادب:اللہ کے شعائر کی تعظیم
- نواں ادب:اچھے اخلاق
- دسواں ادب:نئی زندگی کی شروعات کا عزم
حاجی کے آداب
تالیف:ڈاکٹر حبیب بن معلا اللویحق-حفظہ اللہ-
ترجمہ: اسد اللہ عثمان مدنیؔ
مراجعہ: شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنیؔ
ناشر: وزارت امور اسلامیہ واوقاف ودعوت وارشاد
شعبۂ مطبوعات وعلمی تحقیقات
مملکتِ سعودی عرب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حج کے آداب
قبولیت کی نشانیاں
اے مبارک حاجی ! حج کے یہ چند آداب آپ کے پیش خدمت ہیں، جبکہ آپ حج کے لئے کمر بستہ ہیں، نغماتِ شوق نے آپ کو بے چین کر رکھا ہے اور ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نداء پر لبیک کہتے ہوئے آپ سفر کے لئے بے تاب ہیں۔
یہ صرف چند آداب ہی نہیں بلکہ قبولیت کی نشانیاں اور رضا مندی کی علامتیں ہیں، لہذا مندرجہ ذیل سطور میں یہ آداب وعلامتیں ملاحظہ فرما ئیں:
پہلاادب:اخلاص
جی ہاں ، اخلاص۔ اے مبارک حاجی ! آپ اپنے رب کی رضا کی خاطر اس کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں اور اس کا فضل طلب کر رہے ہیں اور اس کی پکار پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ دنیوی عزت، مادی منفعت یا کسی کی تعریف کے پیش نظر آپ نےآپ نے یہ مسافتیں طے نہیں کیں اور نہ یہ مشقتیں آپ نے اٹھائی ہیں، اگر یہ باتیں مد نظر ہوں تو پھر آپ ہرگز سعادت بخش مقبول بندوں میں شامل نہ ہوں گے، لیکن اس عظمت والی عبادت میں آپ سچا اخلاص کیسے حاصل کریں؟؟ سچے اخلاص کے حصول کے لئے آپ اس عظیم عبادت کی ادائیگی کی نیت کے وقت سے ہی اللہ عز وجل کی رضا کو نصب العین بنالیں اور اس مقصد کو اپنے دل کی گہرائیوں میں اتارلیں، کسی بھی دنیوی مقصد کی جانب متوجہ نہ ہوں بلکہ آپ کے دل کے اندر اللہ عز وجل کی پکار پر لبیک کے علاوہ کچھ نہ رہے اور رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے تحت (اجر وثواب) کے حصول کے امیدوار بنیں جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:( اَلْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةِ)
ترجمہ:’’عمرہ پچھلے عمرہ کے ما بین کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزاء جنت ہی ہے([1])۔‘‘ ، اور رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان بھی مد نظر رہے: (مَنْ جَحَّ هَٰذَا الْبَيْتَ، فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ)
ترجمہ:’’جس نے اس گھر کا حج کیا اور شہوت کا کوئی کام نہ کیا اور نہ کوئی نافرمانی کی تو وہ ایسے واپس لوٹتا ہے گویا کہ آج ہی اس کی ماں نے اس کو جنم دیا ہو([2])۔‘‘، جی ہاں یہ آپ کا مقصود ہو۔
او ر یہ مقصد ہرگز نہ رہے کہ آپ کو حاجی صاحب کے لقب سے پکارا جائے، اور آپ کی تعریف کی جائے، بلکہ صرف اس بات کو مقصود بنائیں کہ آپ کا یہ حج قبول ہوجائے اور اللہ کی رضامندی آپ کو مل جائے۔
دوسرا ادب : عبادت کا شعور
حج کی نیت لے کر گھر واپس لوٹنے تک حج پورے کا پورا توحید پر مبنی ہے، اس کی تمام عبادتیں اور تمام حرکات وسکنات اللہ کی نشانیوں کے قیام کے لئے ہیں۔
اے محترم حاجی! جب آپ اس معنی کو اپنے دل میں بٹھا لیں اور اللہ کے لئے خضوع اور تذلل کے معانی کا ادراک کرلیں اور اپنی زندگی، اپنے احساسات، اپنے اعضاء اور اپنے نفس کو اللہ کی غلامی میں دے دیں تو پھر حج کا ثمرہ آپ کو حاصل ہوگا اور مقبول بندوں میں آپ کا شمار ہوگا۔
آپ ذرا بتائیں تو سہی کہ ایسا حاجی جو اس عبادت میں خشوع کے ساتھ اللہ کے شعائر کی تعظیم بجالاتے ہوئے تلبیہ ادا کرتے ہوئے داخل ہوا ہو کیا یہ شخص اور وہ جو صرف زبان سے تلبیہ ادا کرے او ر باقی شعائر کو بھی دنیوی عمل کی طرح انجام دے دونوں ہم پلہ ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، یہ دونوں کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔
اگر آپ عبادت اور اللہ کے احکام کی قبولیت کے معنوں کا ادراک کرلیں تو پھر آپ کو کبھی بھی راستے کی تھکن، بھیڑ کی پریشانی او ر تکالیف کی صعوبت محسوس نہ ہو گی۔
تیسرا ادب: حلال کمائی کا اختیار
اے محترم حاجی! میرے ساتھ رسول اللہ ﷺکی اس عظیم حدیث پر ذرا غور فرمائیں، آپ نے فرمایا: ’’جب حاجی پاک کمائی کے ذریعہ سفر حج اختیار کرتا ہے اور پائے دان میں اپنا پیر رکھتا ہے اور لبیک اللھم لبیک پکارتا ہے تو آسمان سے ایک منادی جواب دیتا ہے: (لبیک وسعدیک) تیری حاضری قبول ہو، تجھے سعادت نصیب ہو، تیری زاد راہ حلال کی ہے، تیری سواری حلال کی ہے اور تیرا حج بغیر کسی گناہ کے مبرور ہے۔ اور جب حرام اور ناپاک کمائی کے ذریعہ حج پر نکلتا ہے اور سواری کے پائے دان میں پیر رکھ کر (لبیک اللھم لبیک) کی نداء دیتا ہے تو آسمان سے منادی جواب دیتا ہے: تیری حاضری قبول نہ ہو اور تجھے سعادت نصیب نہ ہو، تیری زاد راہ حرام کی ہے اور تیری سواری حرام کی ہے اور تیرا حج گناہ سے آلود غیر مبرور ہے([3]) ۔‘‘
جی ہاں، اسی لئے پہلے شخص کا حج قبول ہوا اور دوسرے کا حج اس کے منہ پر دے مارا گیا؟ اس لئے کہ پہلے نے اپنی پوری زندگی میں حرام کمائی سے اجتناب کیا اور خاص طور پر حج کے اخراجات میں حرام سے بچا اور دوسرے نے سود، رشوت، غصب اور حرام چیزوں کی تجارت سے کمائی کی اور حج کے اخراجات بھی اسی سے پورے کئے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حج کے اخراجات کس اہمیت کے حامل ہیں؟؟ اگر حرام کمائی سے حج ہو تو پھر حج کی ابتداسے پہلے ہی اس کا حج مردود ہے، لہذا حاجی صاحب! حرام سے بچو اور پاک مبارک حلال کمائی کو اختیار کرو۔
چوتھا ادب: توبہ
میرے محترم حاجی بھائی! آپ زندگی کی ایک بہت بڑی تبدیلی کے دہانہ پر پہنچ رہے ہیں ، اور اس حج کی طرف آرہے ہیں جو اگر قبول کرلیا گیا تو آپ ایسے واپس ہوں گے گویا آج ہی ماں نے آپ کو جنا ہو، وہ لمحہ کیا ہی بہترین ہوگا اگر اس تبدیلی کے موقعہ پر آپ سچی توبہ سے اس کی ابتدا کریں، ایسی توبہ جو تمام پچھلے گناہوں کو مٹا کر رکھ دیتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)
ترجمہ:’’اے مومنو! تم سب اللہ کے حضور توبہ کرو تاکہ تم فلاح پا ؤ ([4])۔‘‘
مومن کو ہر لمحہ توبہ کرنی چاہئے اور بالخصوص ایسے مقامات پر تو اور بھی اللہ سے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے۔
توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ تمام گناہوں اور نافر مانیوں کو چھوڑدیں اور پچھلی حرکتوں پر نادم ہو جائیں اور کبھی ان گناہوں کی طرف نہ پلٹنے کا عزم کرلیں اور اگر لوگوں کی آبرو پر حملہ کیا ہو یا ان پر کسی طرح کی ظلم وزیادتی کی ہو تو ان کے حقوق واپس لوٹادیں، یا ان سے معافی مانگ کر ان کو راضی کرلیں۔
اے مبارک حاجی! اگر آپ نے اس عظیم عبادت کے لئے روانگی سے پہلے یہ کام لرلیا تو ان شاء اللہ قبولیت سے محرومی نہ ہوگی.۔
پانچواں ادب:نیک صحبت کا اختیار
قبولیت کی بشارتوں تک پہنچانے والی باتوں میں سے ایک عظیم بات یہ ہے کہ آپ نیک لوگوں کا ساتھ چنیں جو آپ کو بھلائی کے کاموں کی نشاندہی کریں اور اس میں آپ کی مدد کریں ،حج مبرور کے سفر میں یہ آپ کے بہترین مدد گار ہیں، ایسے ساتھی جو آپ کو حج کی ہر عبادت میں سنت کے مطابق عمل کروائیں اور ہر نیکی کی طرف آپ کی راہنمائی کریں، جو حج کے ان بیش بہا لمحات کو لغو، گمراہ کن باتوں اور حرام چیزوں کے ارتکاب میں ضائع نہ کریں، جو ہر عبادت، بدعت وانحراف سے پاک ادا کرنے کے حرص مند ہوں، جو اللہ کے شعائر کی تعظیم بجا لاتے ہوں اور اس کے حدود کی پاسداری کرتے ہوں، جو سفر کے آداب اور دعاؤوں کی پابندی کرتے ہوں اور جو اس بات کو جانتے ہوں کہ وہ اللہ کے وفد اور اس کے مہمان ہیں، جو اس بلند وبالا شرف کو باطل لہو اور پراگندہ جارحیت سے مجروح نہ کرتے ہوں، جو اپنے حج کے ذریعہ اللہ کی رضا وخوشنودی تک پہنچنے میں مصروف ہوں۔
جی ہاں، یہی وہ لوگ ہیں جو اس بات کے حقدار ہیں کہ آدمی ان کی صحبت میں اپنا حج ادا کرے چاہے وہ کسی بڑے قافلہ کے ہمراہ چلے ہوں یا کسی چھوٹے گروپ کے ساتھ ہوں۔
چھٹا ادب :اعمال حج کے احکام کی معرفت
اے مبارک حاجی! حج مبرور تک پہنچانے والی باتوں میں سے ایک عظیم بات یہ ہے کہ آپ مناسک حج کے احکام کی معرفت حاصل کریں تاکہ آپ اللہ کی عبادت پوری بصیرت اور علم کے ساتھ کرسکیں اور کسی ایسی غلطی کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں جو آپ کے حج کو فاسد کردے۔
اور یہ معرفت آپ کو ان علماء سے پوچھ گچھ اور استفسار سے حاصل ہوگی جو رسول اللہ ﷺ کے طریقہ پر چلنے والے مشہور ومعروف اور قابل اعتماد ہوں، اور اسی طرح اعمال کے احکام کو بیان کرنے والی ان کتابوں کے مطالعہ سے بھی جانکاری ہوگی جو بدعات، منکرات اور منہیات سے پاک، قرآن وسنت سے استدلال کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے طریقہ حج کو جمع کیا ہو۔
ساتواں ادب:صبر
مومنوں کی عظیم صفتوں میں سے ایک صفت صبر ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ) ترجمہ :’’صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا بے شمار اجر دیا جاتا ہے ([5])۔‘‘
صبر ایمان والے کی پوری زندگی کا ساتھی ہے، چنانچہ حج میں مزید بہتر صورت میں جلوہ افروز ہوتا ہے، سچا مومن حاجی اپنے نفس کو سفر کی مشقتوں اور صعوبتوں کا متحمل کرلیتا ہے اور اسے اللہ کے ہاں اس کے میزان حسنات میں اضافے کا باعث سمجھتا ہے۔
گرمی، کھانے کی قلت یا لمبی مسافت پر وہ اف تک نہیں کہتا، احسان جتاکر، تکلیف دے کر، تنگ دل ہوکر یا اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو دکھ پہنچا کر اپنے عمل کو باطل نہیں کرتا۔ لوگوں کی بھیڑ، پے در پے عمل اور اعمال حج کی مشقت اسے گراں نہیں ہوتی۔وہ تفریح اور دل بہلائی کے لئے نہیں نکلا بلکہ اللہ کی رضامندی کے حصول کی خاطر وہ آگے بڑھ رہا ہے، وہ اس بات کو جانتا ہے کہ اللہ کی اطاعت کی راہ میں تکالیف پر صبر کرنا صبر کی اعلی قسموں میں داخل ہے، اور یہ حقیقت بھی اس سے مخفی نہیں ہوتی کہ صبر ہی اجر کو پانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ چنانچہ دار آخرت میں اللہ کی وعدہ کردہ نعمتوں پر نظر رکھتے ہوئے وہ صبر کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے اور یقیناًبہتر انجام متقیوں کا ہے۔
آٹھواں ادب:اللہ کے شعائر کی تعظیم
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ)
ترجمہ ’’اور سنو! اللہ کی نشانیوں کی جو عزت وحرمت کرے اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے یہ ہے ([6]) ۔‘‘
بلا شبہ اللہ عز وجل کی نشانیوں (شعائر) کی تعظیم بجا لانا سچے تقوے کی بہترین دلیل ہے اور اے محترم حاجی! آپ پورے ادب اور شوق سے اللہ کے گھر آئے ہوئے ہیں لہذا نبی ﷺ کے طریقہ کے مطابق اللہ کے شعائر کی تعظیم بجالائیں، اللہ کے شعائر کی تعظیم دلوں پر ان کی عظمت چھا جانے سے ہوتی ہے، اللہ کے شعائر کی تعظیم میں یہ بھی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ چیزوں سے اپنی آنکھ کو بچائیں اور اس کے محرمات سے دور ہو جائیں، اپنی زبان اور دیگر اعضاء کو ہر قسم کے گناہ سے محفوظ رکھیں تاکہ آپ کا حج آپ کے اوپر بوجھ اور وبال نہ بن جائے.
تعظیم شعائر اللہ میں یہ بات بھی داخل ہے کہ ان مقامات کی پاکی وصفائی کا خیال رکھیں، خود بھی پاک وصاف رہیں، مسلمانوں سے احسان وخوش اخلاقی کے ساتھ معاملہ کریں اور حجاج بیت اللہ کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہ پہنچائیں۔
اور شعائر اللہ کی تعظیم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کو نہ بھولیں، مسلمانوں کو نصیحت کرتے رہیں، انہیں ان کے عقائد، عبادات ومعاملات، دین کی روشنی میں حسب استطاعت سمجھاتے رہیں۔
نواں ادب:اچھے اخلاق
محترم حاجی بھائی! آپ اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کیجئے کیوں کہ یہ اس مبارک سفر میں اللہ کی رضا اور آپ کے حج کی مقبولیت کا سبب ہیں۔ اچھے اخلاق آپ کو اس بات پر ابھاریں گے کہ بیت اللہ کے حج پر آئے ہوئے اپنے بھائیوں کے ساتھ احسان کا برتاؤ کریں، کمزوروں کی مدد کریں، حاجت مندوں کی حاجت روائی کریں، بے کسوں کی اعانت کریں، راہ بھٹکے ہوئے لوگوں کی راہنمائی کریں، زخمیوں کی تیمارداری کریں اور لوگوں کے ساتھ شفقت ورحمت کا معاملہ کریں، ان کو تکلیف دینے سے اپنے آپ کو روک لیں، بھیڑ بھاڑ میں انہیں دھکوں سے ایذاء نہ پہنچائیں، ان کی غلطیوں پر صبر کریں اور نادانوں کی اذیتوں کو برداشت کرلیں، بلکہ جب ان سے ملاقات ہو تو بشاشت اور مسکراہٹ کے ساتھ ملیں۔
اچھے اخلاق خیر وبھلائی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں، ان سے آراستہ ہونے والا خاموش طبع ایثار سے کام لینے والا ہوتا ہے، جلد باز نہیں ہوتا اور اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لئے پسند کرتاہو۔
بلا شبہ جو حاجی اپنی جلد بازی کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف دیتا ہو، قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہو، نہ کمزوروں پر رحم کرتا ہو اور نہ ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہو تو ایسا شخص اچھے اخلاق سے بالکل کورا ہے۔
اور جس حاجی نے اپنے حج میں اپنی پہچان ہی (نفسی نفسی) بنالی ہو (یعنی انتہائی خود غرض بن جائے)تو وہ اچھے اخلاق سے کوسوں دور ہوگیا، حج مبرور تو دراصل اچھے اخلاق کا ہی ثمرہ ہے۔
دسواں ادب:نئی زندگی کی شروعات کا عزم
حج کے آداب اور اس کی قبولیت کی ایک عظیم علامت یہ ہے کہ حاجی حج کی نیت کرنے سے لے کر گھر واپسی تک کے ہر مرحلہ میں یہ عزم مصمم رکھے کہ حج کے بعد اس کی ایک نئی زندگی کی شروعات ہوں گی، اس کے حج کے بعد کی زندگی اس کے حج سے پہلے کی زندگی کی طرح نہ ہوگی، بلا شبہ یہی مقبولیت کا راز ہے، اور یہی وہ بدل کر رکھ دینے والا پر تاثیر حج کا معنی ہے جو ان نفوس کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جن کے حج کو اللہ شرف قبولیت سے نوازتا ہے، لہذا جو حاجی حج سے پہلے نماز میں کوتاہ تھا حج کے بعد وہ باجماعت نماز کی پابندی میں آگے رہے، اور جو حرام کے ارتکاب میں ڈوبا تھا اب اس کے قریب بھی نہ پھٹکے، اور جو رشتوں کو کاٹے ہوئے تھا، والدین کا نافرمان تھا، اب وہ رشتوں کو جوڑنے والا اور والدین کا مطیع وفرمانبردار بن جائے۔
اور جو حرام دیکھتا اور سنتا تھا اب حج کے بعد وہ ان باتوں سے کوسوں دور بھاگے، اور جو جھوٹ بولتا تھا اور دھوکے بازیاں کرتا تھا اب ان سب چیزوں سے دور ہو جائے۔
رہا وہ حاجی جوحج کے بعد پھر سے حرام چیزوں کی طرف لوٹ جائے اور ہلاکت میں ڈالنے والے گناہوں کا ارتکاب کرے گویا کہ ان کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو ایسا شخص بڑا ہی محروم اور بد نصیب ہے۔
اللہ ہماری نیکیوں کو قبول فرمائے اور ہمارے گناہوں کو بخش دے اور اپنے مقبول بندوں میں ہمیں شامل فرمالے ، اور درود وسلام ،رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ہمارے نبی محمد ﷺ، ان کی آل واولاد اور ان کے تما م اصحاب رضی اللہ عنہم پر۔
منجانب: شعبۂ مطبوعات وعلمی تحقیقات
وزرات امور اسلامیہ واوقاف ودعوت وارشاد
مملکت سعودی عرب
ریاض: ۳۴۸۱۶ ۔ پوسٹ باکس: ۸۷۴۱۱