×
سوال : كيا طلاق رجعى والى عورت اپنے خاوند كے گھر ميں ہى سارى عدت گزارے گى يا كہ خاوند كے رجوع كرنے تك ميكے ميں رہے گى ؟

طلاق رجعی والی عورت عدّت ختم ہونے تک خاوند کے گھر میں ہی رہے گی

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی:شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق :عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

المطلّقة طلاقاً رجعياً تبقى في بيت زوجها حتى تنقضي عدّتها

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوى: الشيخ/محمد بن صالح العثيمين-رحمه الله-

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي


14299: طلاق رجعی والی عورت عدّت ختم ہونے تک خاوند کے گھر میں ہی رہے گی

سوال : كيا طلاق رجعى والى عورت اپنے خاوند كے گھر ميں ہى سارى عدت گزارے گى يا كہ خاوند كے رجوع كرنے تك ميكے ميں رہے گى ؟

بتاریخ 2013-08-20کو نشر کیا گیا

جواب

الحمد للہ:

"طلاق رجعى والى عورت پر دوران عدت خاوند كے گھر ميں ہى رہنا واجب ہے، اور اس كے خاوند پر بھى اسے طلاق رجعى كى عدت كے دوران گھر سے نكالنا حرام ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالیٰٰ كا فرمان ہے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّـهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا ﴾

'' اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وه (خود) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وه کھلی برائی کر بیٹھیں، یہ اللہ کی مقرر کرده حدیں ہیں، جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے ''۔[سورہ طلاق:۱]

آج كل جو رواج بن چكا ہے كہ جيسے ہى عورت كو طلاق رجعى ہو جاتى ہے تو وہ فورا اپنے ميكے چلى جاتى ہے، يہ بہت بڑى غلطى اور حرام عمل ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالیٰٰ نے فرمايا ہے كہ:

''تم انہيں مت نكالو'' اور يہ بھى فرمايا كہ'' وہ خود بھى نہ نكليں''

اس سے صرف استثناء اسى صورت ميں ہے كہ اگر وہ عورت كوئى واضح فحش كام كا ارتكاب كرتى ہو.

اس كے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمايا كہ:

﴿وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ﴾

''يہ اللہ تعالیٰ كى حدود ہيں؛ اور جو كوئى اللہ تعالیٰ كے حدود سے تجاوز كرتا ہے اس نے اپنے آپ پر ظلم كيا ''

پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس كے بعد عورت كے اپنے گھر ميں ہى طلاق رجعى كى عدت گزارنے كى حكمت بيان كرتے ہوئے فرمايا: ﴿ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّـهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا﴾

''آپ نہيں جانتے كہ ہو سكتا ہے شائد اس كے بعد اللہ تعالیٰ كوئى نئى بات پيدا كر دے۔ ''

(كيونكہ ہو سكتا ہے اس عورت كا خاوند كے گھر ميں ہى رہنا خاوند كى جانب سے طلاق سے رجوع كرنے كا سبب بن جائے اور وہ بيوى سے رجوع كر لے، اور يہى چيز مقصود و مطلوب اور شريعت كو بھى محبوب ہے )۔

چنانچہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ كے حدود كا خيال كرنا واجب ہے؛ اورجو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہيں حكم ديا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑلیں، اور اپنے رسم و رواج اور عادات كو شرعى امور اور احكام كى مخالفت كا ذريعہ نہ بنائيں.

اہم يہ ہے كہ ہم پر اس مسئلہ كا خيال ركھنا واجب ہے اور رجعى طلاق والى عورت پر خاوند كے گھر ميں ہى عدت پورى كرنا واجب ہے، اس عدت كے دوران عورت كے ليے اپنے خاوند كے سامنے چہرہ ننگا كرنا اور بناؤ و سنگھار كر كے سامنے آنا اور خوشبو لگانا اور اس سے بات چيت كرنا اور خلوت ميں بيٹھ كر ہنسى مذاق كرنا جائز ہے؛ ليكن وہ ہم بسترى اور مباشرت نہيں كريگى، كيونكہ يہ تو رجوع كے وقت ہوتا ہے.

خاوند كو حق ہے كہ وہ اپنى طلاق رجعى والى بيوى سے قول کے ذریعہ رجوع کرےاور کہے کہ: میں نے اپنی بیوی سے رجوع کیا۔یا فعل کے ذریعہ رجوع کرے ،یعنی رجوع كى نيت سے مجامعت و مباشرت كرے تو (رجوع مانا جائے گا) "۔ انتہى

فضيلۃ الشيخ محمد بن عثيمين.

ماخوذ از: مجموعةأسئلةتھمّ الأسرۃ المسلمة ( 61(

(طالبِ دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔazeez90@gmail.com: )