×
سوال: حيض كے پہلے دن بيوى اپنے خاوند كو بتانا بھول گئى كہ اسے حيض شروع ہو چكا ہے، اور خاوند سے طلاق كا مطالبہ كر ديا، خاوند نے تيسرى طلاق بھى دے دى، پھر بيوى كو ياد آيا كہ اسے تو حيض آيا ہوا ہے لہذا اس نے خاوند كو بتايا، برائے مہربانى آپ يہ بتائيں كہ اس سلسلہ ميں شرعى موقف كيا ہے ؟

حيض كى حالت ميں طلاق دينا

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی:شعبۂ علمی اسلام سوال وجواب سائٹ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق :عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

الطّلاق في الحيض

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوى:القسم العلمي بموقع الإسلام سؤال وجواب

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي


72417 :حيض كى حالت ميں طلاق دينا

سوال: حيض كے پہلے دن بيوى اپنے خاوند كو بتانا بھول گئى كہ اسے حيض شروع ہو چكا ہے، اور خاوند سے طلاق كا مطالبہ كر ديا، خاوند نے تيسرى طلاق بھى دے دى، پھر بيوى كو ياد آيا كہ اسے تو حيض آيا ہوا ہے لہذا اس نے خاوند كو بتايا، برائے مہربانى آپ يہ بتائيں كہ اس سلسلہ ميں شرعى موقف كيا ہے ؟

بتاریخ 2013-05-06 کو نشر کیا گیا

جواب

الحمد للہ:

حائضہ عورت كى طلاق ميں فقہاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا اسے دى گئى طلاق واقع ہو گى يا نہیں ؟

جمہور فقہاء كرام كے یہاں يہ طلاق واقع ہو جائيگى، ليكن كچھ فقہاء كے یہاں حيض كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہیں ہوتى ہے ، اس دور كے اكثر فقہاء جن ميں شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہم اللہ شامل ہيں كا فتوى بھى یہی ہے كہ يہ طلاق واقع نہیں ہوتى ہے .

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مشروع قرار دیا ہے كہ عورت كو حيض اور نفاس سے پاكى كى حالت ميں طلاق دى جائے، اور اس حالت ميں كہ اس طہر ميں خاوند نے بيوى سے جماع نہ كيا ہو، تو يہ شرعى طلاق ہے، اس ليے اگر اسے حيض يا نفاس ميں يا پھر ايسے طہر ميں طلاق دى جس ميں اس نے بيوى سے جماع كيا ہو ، تو يہ طلاق بدعى ہے، اور علماء كے صحيح قول كے مطابق يہ طلاق واقع نہیں ہوگى كيونكہ اللہ عزوجل كا فرمان ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ﴾[الطلاق:1]

'' اے نبى ( اپنى امت سے كہو كہ ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دينا چاہو تو ان كى عدت ( كے دنوں كے آغاز ) ميں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو ''۔[الطلاق: 1]

اس كا معنیٰ يہ ہے كہ وہ جماع كيے بغير طہر كى حالت ميں ہوں، اہل علم نے اس عدت ميں طلاق كے متعلق یہی كہا ہے، كہ وہ جماع كے بغير طہر ميں ہوں يا پھر حاملہ ہوں، یہی طلاق عدت ہے ''۔ انتہى

ديكھيں: فتاوى الطلاق ( 44 ).

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں آیا ہے کہ:

''طلاق بدعى كى كئى قسميں ہيں:اور انہی میں سے یہ ہے كہ آدمى اپنى بيوى كو حيض يا نفاس كى حالت ميں يا پھر ايسے طہر ميں طلاق دے جس ميں بيوى سے جماع كيا ہو، صحيح يہ ہے كہ يہ طلاق واقع نہیں ہوگى ''۔ انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 58).

اس بنا پر اگر طلاق حيض كى حالت ميں دى گئى ہے تو يہ طلاق واقع نہیں ہوگی اور نہ ہی یہ شمار بھی ہوگى، اور عورت اپنے خاوند كى عصمت ميں ہى رہےگى.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص نے بيوى كو حيض كى حالت ميں طلاق دے دى اسے علم نہ تھا كہ بيوى كو حيض آيا ہوا ہے، تو كيا يہ طلاق واقع ہو جائيگى يا نہیں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

'' ماہوارى كى حالت ميں دى گئى طلاق كے متعلق علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اور اس ميں بہت لمبى بحث كى گئى ہے كہ آيا يہ طلاق لاگو ہو گى يا شمار نہیں ہوگى ؟

جمہور اہل علم كے یہاں يہ طلاق لاگو ہو جائيگى، اور عورت پر ايك طلاق شمار ہوگى، ليكن اسے واپس لانے كا حكم ديا جائيگا كہ وہ اسے واپس لائے اور حيض ختم ہونے تك چھوڑے ركھے پھر دوبارہ حيض آئے اور جب پاك ہو تو اگر چاہے تو اسے اپنى عصمت ميں ركھ لے اور اگر چاہے تو اسے طلاق دیدے.

جمہور اہل علم اسى پر ہيں جن ميں آئمہ اربعہ امام احمد، امام شافعى، امام مالك اور امام ابو حنيفہ رحمہم اللہ شامل ہيں، ليكن ہمارے نزديك راجح وہى جو شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اختيار كيا ہے كہ حيض كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہیں ہوتى ہے ، اور نہ ہى لاگو ہوگى.

كيونكہ يہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے خلاف ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

( مَنْ عَمِلَ عَمَلا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ)

'' جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہیں ہے ، تو وہ مردود ہے ''

اور پھر اس مسئلہ ميں تو خاص دليل بھى پائى جاتى ہے وہ يہ كہ عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالیٰ عنہما نے اپنى بيوى كو حيض كى حالت ميں طلاق د یدى اور جب اس كى خبر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو دى گئى تو آپ ناراض ہوئے اور فرمايا:

( مُره فليراجعها ثم يتركها حتى تطهر ثم تحيض ثم تطهر ، ثم إن شاء أمسك بعد وإن شاء طلق )

'' اسے حكم دو كہ وہ اپنى بيوى سے رجوع كرے پھر اسے چھوڑ كر ركھے حتىٰ كہ وہ پاك ہو جائے پھر اسے حيض آئے اور پھر وہ پاك ہو پھر وہ چاہے تو اسے ركھے يا پھر اسے طلاق دے دے ''۔

پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ( فتلك العِدّة التي أمر الله أن تطلق لها النساء)

'' يہ وہ عدت ہے جس كے ليے اللہ تعالیٰ نے طلاق دينے كا حكم ديا ہے''۔

چنانچہ وہ عدت جس كے ليے اللہ تعالیٰ نے طلاق دينے كا حكم ديا ہے وہ يہ ہے كہ انسان بيوى كو اس حالت ميں طلاق دے كہ وہ پاك ہو اور خاوند نے اس سے جماع نہ كيا ہوا ہو، اس بنا پر اگر كوئى شخص اسے حيض كى حالت ميں طلاق ديتا ہے تو اس نے اللہ كے حكم كے مطابق طلاق نہیں دى، تو يہ طلاق مردود اور ناقابلِ قبول ہوگى۔ اس ليے ہمارى رائے ميں تو اس عورت كو جو طلاق دى گئى ہے وہ شمار اور لاگو نہیں ہوگى، اور ابھى تك يہ عورت اپنے خاوند كى عصمت ميں ہے، اور طلاق ديتے وقت مرد كا عورت كے بارے ميں پاك ہونے يا حيض كى حالت ميں ہونا كوئى معتبر نہیں ہے ، جى ہاں اس كے علم كا اعتبار نہیں ہے .

ليكن اگر اسے علم ہوگيا كہ وہ حيض كى حالت ميں ہے تو پھر اس نے طلاق دے دى تو گناہ خاوند پر ہے اور يہ طلاق واقع نہیں ہوگى، اور اگر وہ علم نہیں ركھتا تھا تو پھر نہ تو طلاق واقع ہوگى اور نہ ہی خاوند پر کوئی گناہ ہوگا ''۔ انتہى ۔

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 268(.

واللہ اعلم

اسلام سوال وجواب

(طالبِ دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔazeez90@gmail.com: )