×
سوال: یورپ اسلام پرعورت کی توہین کرنے کی تہمت لگاتا ہے ، توعورت کا اسلام میں کیامقام ومرتبہ ہے ؟

اسلام میں عورت کی عزت وتکریم

اورجاہلیت کی اہانت وتوہین

[الأُردية –اُردو Urdu]

ڈاکٹرمحمد بن عبد اللہ بن صالح سحیم

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق :عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

المرأة بين تكريم الإسلام وإهانة الجاهلية

[الأُردية –اُردو Urdu]

د.محمد بن عبد الله بن صالح السحيم

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي

۱۳۲۹۵۹:اسلام میں عورت کی عزّت وتکریم اورجاہلیت کی اہانت وتوہین

سوال: یورپ اسلام پرعورت کی توہین کرنے کی تہمت لگاتا ہے ، توعورت کا اسلام میں کیامقام ومرتبہ ہے ؟

بتاریخ۱۱-۴-۲۰۰۹ کو نشر کیا گیا

جواب

الحمد للہ:

دینِ اسلام میں عورت کواتنا اونچا مقام و مرتبہ حاصل ہے جواسے پہلے کسی ملت میں حاصل نہیں ہواتھا اورنہ ہی کوئی اور امت اسے پا سکی ۔

دین اسلام نے انسان کوجو‏عزت واحترام دیا ہے اس میں مرد و عورت دونوں برابر کےشریک ہیں ، اوروہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکامات میں برابرہیں اوراسی طرح دار آخرت میں اجرو ثواب میں بھی برابر ہیں ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرمایا ہے :﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ ﴾

''اوریقینا ہم نے اولاد آدم کوبڑی عزت دی ''[الاسراء:۷۰]،

اوراللہ عزوجل کا ایک جگہ پرفرمان کچھ اس طرح سےہے :

﴿لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا﴾[النساء:7]

''ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی۔ (جو مال ماں باپ اور خویش واقارب چھوڑ مریں) خواه وه مال کم ہو یا زیاده (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے ''۔[ النساء : 7 ]

اوراللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ http://tanzil.net/ - 2:228

'' اورعورتوں کے لیے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہيں اچھائی کے ساتھ'' [ البقرۃ : 228 ] ۔

اوراللہ مالک الملک کا فرمان ہے :

﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ﴾

''مومن مرد اور عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے[ مدد گارو معاون اور] دوست اور ولی ہیں '' [ التوبة: 71 ]

اوراللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین کے متعلق کچھ اس طرح فرمایا :﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴾[الإسراء:23-24]

'' اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے '' [الاسراء : 23 - 24 ] ۔

اورفرمان باری تعالیٰ ہے :﴿فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ﴾

'' پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کوخواہ وہ مرد ہویا عورت ہرگز ضائع نہیں کرونگا ''۔[ آل عمران : 195 ] ۔

اوراللہ جل شانہ نے فرمایا :﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾

''جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے''[ النحل :97 ] ۔

اور اللہ عزوجل نے ایک مقام پرکچھ اس طرح فرمایا :

﴿وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا http://tanzil.net/ - 4:124

''جو ایمان واﻻ ہو مرد ہو یا عورت اور وه نیک اعمال کرے، یقیناً ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا ''[ النساء : 124 ] ۔

یہ ہے وہ عزت و تکریم اورمقام ومرتبہ جو اسلام نے عورت کو دی جس کی مثال نہ تو کسی اوردین میں اور نہ ہی کسی قانون میں ملتی ہے ، بلکہ رومن ( اٹلی ) جدّت پسندوں نے تویہ قانون پاس کیا ہے کہ عورت مرد کے تابع رہتے ہوئےاس کی غلام ہے اوراس کے مطلقا کوئی‏ حقوق نہیں ہیں ۔

اٹلی میں ایک بڑے اجتماع کےبعد عورت کے متعلق بحث ومناقشہ کے بعد یہ پاس کیا گيا کہ یہ ایک ایسا حادثہ ہے جسے کچھ اہمیت حاصل نہیں ہے ، اور عورت اخروی زندگی کی وارث نہیں بنےگی اوریہ پلید ہے ۔

جاہلیت میں توعورت ایک گھٹیا سی چيزتھی اسے بیچا اورخریدا جاتا تھا اوراسے شیطانی پلیدی شمار کیا جاتا تھا ۔

اورقدیم ہندوستانی قوانین تویہاں تک کہتے ہیں کہ وبائيں اورموت و جہنم اورآگ اورسانپوں کا زہر عورت سے بہتر ہے ، اوراسے زندہ رہنے کا حق صرف خاوند کے ساتھ ہی تھا اگرخاوند مرجائے اوراسے آگ میں جلایا جاتا توعورت بھی اس کے ساتھ ہی زندہ جل مرتی تھی اوراگروہ خاوند کے ساتھ نہ جلتی تواسے لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا تھا بلکہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں توابھی تک یہ موجود ہے ۔

اوریہودیت میں یہودی عورت کا کیا حال تھا اس کا بھی ہم جائزہ لیتے ہیں عہد قدیم میں یہ مندرجہ ذیل بات موجود ہے :

میں اورمیرا دل حکمت وعقل کے علم اوراسے حاصل اورتلاش کرنے کے لیے گھوما پھرا تا کہ میں شرکوجوکہ جہالت اورحماقت کوجوکہ جنون ہے معلوم کرسکوں ، تومیں نے موت کوپایا عورت جوکہ کھڑکی ہے اوراس کادل تسمہ ہے اوراس کے ہاتھ بیڑیاں ہيں ۔

[سفر الجامعة , الإصحاح 7 : 25 , 26] ۔

یہ تومعلوم ہی ہے کہ عہد قدیم پریہودی اورعیسائی دونوں کا ایمان ہے اوروہ اسے مقدس سمجھتے ہیں ۔

زمانہ قدیم میں عورت کا یہ حال تھا اورموجودہ اوراس سے پہلے ماضی قریب کے دورمیں عورت کوکیا کچھ حاصل ہے اس کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعات کریں گے :

ڈانمارک کا ایک مصنف (wieth kordsten ) عورت کے بارے میں کیتھولک چرچ کےنقطۂ نظرکی تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے :

'' دورِ وسطی میں یورپی عورت کا بہت ہی کم خیال رکھا جاتا تھا اس لیے کہ کیتھولک چرچ کےمذہب میں عورت دوسرے درجہ کی مخلوق شمارہوتی ہے۔ ((586 میلادی کوفرانس میں عورت کے بارے میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیاجس میں اس بات پرغورو خوض کیا گيا کہ آیا عورت انسان شمار ہوتی ہے یا نہیں ؟

اوراسی کانفرنس میں مناقشہ کرنے کے بعد یہ قرار پا یاکہ عورت ایک انسان ہے لیکن وہ مرد کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے ۔

اورفرانسیسی قانون کی شق نمبر ( 217 ) میں مندرجہ ذیل بات کہی گئی ہے :

( شادی شدہ عورت [ اگرچہ اس کی شادی اس بنیاد پرہوئی ہوکہ اس کی اوراس کے خاوند کی ملکیت علیحدہ ہی رہے گی ] کا کسی کے لیے ہبہ کرنا جائز نہیں ہے اورنہ ہی وہ اپنی ملکیت کومنتقل کرسکتی اورنہ ہی اسے رہن رکھ سکتی ہے ، اورنہ ہی وہ عوض یا بغیرعوض اپنے خاوند کی معاہدے میں شرکت کے بغیر یا پھر اس کی موافقت جوکہ لکھی ہوئی ہوکے بغیر مالک بن سکتی ہے )

اورانگلیڈ میں ہنری ہشتم نے انگریز عورت پرکتاب مقدس پڑھنا حرام قرار دیا ، حتی کہ ( 1850 ) میلادی تک عورتوں کوشہری ہی شمار نہیں کیا گیا ، اوران کے لیے ( 1882 ) میلادی تک کسی قسم کے کوئی حقوق شخصی نہیں تھے ۔ دیکھیں کتاب : سلسلۃ مقارنۃ الادیان ۔ تالیف احمد شلبی جلد ( 3 ) صفحہ ( 210 - 213 ) ۔

اوردورحاضرمیں یورپ اورامریکہ اوردوسرے صنعتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑی مخلوق ہے جوصرف اورصرف تجارتی اشیاء کی خرید وفروخت کےلیے استعمال ہوتی ہے ، وہ اشتہاری کمپنیوں کا جزلاینفصل ہے ، بلکہ حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس کے کپڑے تک اتروا دیئے گئے ہیں اوراس کے جسم کوتجارتی اشیاء کے لیے مباح کرلیا گيا ہے ،اورمردوں نے اپنے بنائے ہوئے قانون سے اسے اپنے لیے ہر جگہ پراس کے ساتھ کھیلنا ہی مقصد بنا لیا ہے ۔

اس کا خیال اس وقت رکھا جاتا ہے جب تک وہ اپنے ہاتھ یا پھر فکروسوچ سے مال وغیرہ خرچ کرے اورجب وہ بڑی عمر کی ہوجائے اور اپنے حواس کھو بیٹھے اورکسی کو کچھ نہ دے سکے تومعاشرہ اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے اوراسی طرح ادارے بھی اس کوچھوڑ دیتے ہیں اوروہ اکیلی یا تو اپنے گھر میں زندگی گزارتی ہے یا پھر نفسیاتی ہسپتالوں میں ۔

توآپ اس کا مقارنہ و موازنہ ( اس میں کو‏ئی کسی قسم کی برابری نہیں ہے ) اس (تکریم )سے کریں جو(عورت کے بارے میں)قرآن مجید میں آیا ہے :

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ﴾

''مومن مرد اور عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے [ مدد گارو معاون اور] دوست اور ولی ہیں ''[ التوبة: 71 ] ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾

'' اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ '' ۔[ البقرۃ : 228 ] ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴾[الإسراء:23-24]

'' اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے '' [الاسراء : 23 - 24 ] ۔

اورجب عورت کواس کے رب نے اسے یہ عزت واحترام دیا توساری بشریت کے لیے واضح کردیا کہ عورت کواس لیے پیدا کیا ہے کہ یاتووہ ماں اور بیوی ہوگی یا پھر بیٹی اوربہن کے روپ میں ، اوراس کے لیے خصوصی قوانین بھی مشروع کیے جوکہ صرف عورت کے ساتھ خاص ہیں نہ کہ مرد کے ساتھ ۔

یہ مضمون ڈاکٹر محمد بن عبداللہ بن صالح السحیم کی کتاب : (الإسلام أصوله ومبادئه ) سے لیا گيا ۔ واللہ اعلم

اسلام سوال وجواب

(طالبِ دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہazeez90@gmail.com: )