×
سوال: کیا قربانی کرنے کا ارادہ رکھنےوالے شخص کے لیے بال اورناخن کاٹنا جائز ہے ؟

قُربانی کرنے والا کِن کِن چیزوں سے اجتناب کرے

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی:شیخ عبدالعزیز ابن باز ۔رحمہ اللہ۔

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ و تنسیق:عزیزالرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

فيما يجتنبه من أراد الأضحية

فتوى:الشيخ عبدالعزيز ابن باز-رحمه الله-

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي

36567:قُر بانی کرنے والا کن کن چیزوں سے اجتناب کرے

سوال: کیا قربانی کرنے کا ارادہ رکھنےوالے شخص کے لیے بال اورناخن کاٹنا جائز ہے ؟

بتاریخ:۱۔۱۱۔۲۰۱۱ کو نشرکیا گیا

جواب:

الحمد للہ
شیخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں :

''جب کوئی شخص قربانی کرنا چاہے اورچاندنظرآجائے، یا ذی القعدہ کے تیس دن پورے ہونے کی بنا پرذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے توقربانی (کاجانور)ذبح کرنے تک اس کے لیے اپنے بال اورناخن یا جلد وغیرہ سے کچھ بھی کاٹنا حرام ہے ۔

اس کی دلیل مندجہ ذیل حدیث ہے ۔

ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(إذا رأيتم هلال ذي الحجّة)

'' جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو ''۔

اورایک روایت کے الفاظ ہيں :

( إذا دخلتِ العشرُ وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره وأظفاره)

''جب عشرہ ( ذی الحجہ ) شروع ہوجائے اورتم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے تووہ اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے '' (مسند احمد اورصحیح مسلم )۔

اورایک روایت کے الفاظ ہيں :

''توقربانی کرنے تک اپنے بال اورناخن میں سے کچھ بھی نہ کٹوائے''۔

اورایک روایت کے الفاظ ہيں :

''تووہ اپنے بال اورجلد میں سے کچھ بھی نہ کاٹے ''۔

اورجب کوئی شخص عشرہ ذی الحجہ کے دوران قربانی کرنے کی نیت کرے تواسے اپنی نیت کے وقت سے ہی اپنے بال اورناخن کٹوانے سے رک جانا چاہیے ، اوراس نےقربانی کرنے کی نیت سے قبل جوکچھ کاٹا ہے اس کا کوئی گناہ نہيں ہوگا ۔

اس ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ قربانی کرنے والا شخص حاجی کے بعض قربانی کے اعمال میں شریک ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قربانی کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ، اسی طرح وہ احرام کے کچھ خصائص میں بھی حاجی کے اعمال کے ساتھ شریک ہوتا ہے جیسے: بال اورناخن وغیرہ کٹوانے سے احتراز کرنا ۔

اوریہ حکم یعنی بال اورناخن وغیرہ نہ کٹوانے کا حکم صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ ہی خاص ہے ، اور جہاں تک رہی بات کسی کی جانب سے قربانی کی جانے کی تو وہ اس سے تعلق نہيں رکھتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

'' اورتم میں سے کوئی قربانی کرنے کاارادہ کرے'' تو آپ نے یہ نہیں فرمایا یا جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہو ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے بارے میں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ نےانہيں یہ حکم دیا ہے کہ وہ لوگ ان تمام چیزوں سے بچیں''۔

تواس بنا پرقربانی کرنے والے کے اہل وعیال کے لیے عشرہ ذی الحجہ میں بال ، ناخن وغیرہ کٹوانے جائز ہیں ۔

اورجب قربانی کرنے کا اراہ رکھنے والا عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بال ، ناخن یا اپنی جلد سے کچھ کاٹ لے تواسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہیے اورآئندہ وہ ایسا کام نہ کرے ، اوراس پرکوئی کفارہ نہيں ہوگا اورنہ ہی یہ اس کے لیے قربانی کرنے میں مانع ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس سے قربانی میں ممانعت پیدا ہوجاتی ہے ۔

اوراگرکسی شخص نے بھول کریا جہالت میں بال وغیرہ کٹوا لیے یا اس کے بال بغیر قصد وارادہ کے گر گئے تواس پرکوئی گناہ نہیں ہے ، اوراگراسے اتارنے کی ضرورت پیش آجائے تواسے کاٹنے میں کوئی گناہ اورحرج نہيں ہوگا مثلا: کسی کا ناخن ٹوٹ جائے اوراسے ٹوٹا ہواناخن تکلیف دیتا ہوتواس کےلیے کاٹنا جائز ہے ، اوراسی طرح اگر اس کے بال آنکھوں میں پڑنے لگیں تواس کے لیے اسےزائل کرنا بھی جائز ہے ، یااسے کسی زخم کے علاج کے لیے بال کٹوانے کی ضرورت ہوتواس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ۔ .

دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 2 / 316 ) ۔

(طالبِ دُعا:[email protected])