×
41899سوال : كيا قربانى كے جانور كے ليے كوئى عمر معين ہے ؟ اور كيا ڈيڑھ سال كى گائے قربانى ميں ذبح کی جا سكتى ہے ؟

قربانی کے جانور میں عمر کا خیال رکھنا ضروری ہے

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی:اسلام سوال وجواب سائٹ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق:عزیزالرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

السنّ الواجب مراعاته في الأضحية

فتوى:موقع الإسلام سؤال وجواب

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي

۴۱۸۹۹:قربانی کے جانور میں عمر کا خیال رکھنا ضروری ہے

سوال : كيا قربانى كے جانور كے ليے كوئى عمر معين ہے ؟ اور كيا ڈيڑھ سال كى گائے قربانى ميں ذبح کی جا سكتى ہے ؟

بتاریخ ۱۰۔۱۰۔۲۰۱۳ کونشرکیا گیا

جواب:

الحمد للہ

علماء كرام (رحمہم اللہ)كا اتفاق ہے كہ شريعت مطہرہ نے قربانى كے جانور كے ليے عمر كى حد متعين كى ہے ، اور اس متعینہ حدود سے كم عمر كا جانور ذبح كيا جائے تو اس كى قربانى نہيں ہو گى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 176).

اس كى دليل كئى ايك احاديث ميں پائى جاتى ہیں ۔

ذيل ميں چند احاديث پيش كى جاتى ہيں:

بخارى اور مسلم نے براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:

''میرے ماموں ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے عید کی نماز سے پہلے ہی قربانی کر لی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا : ( شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ )

''تمہاری بکری صرف گوشت کی بکری ہے''

تو انہوں نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول (ﷺ)! میرےپاس گھر كى ايك بكرى كا جذعہ ہے''.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5556 ),وصحيح مسلم حديث نمبر( 1961 )۔

اور ايك روايت ميں : (‏‏‏‏‏‏عَنَاقٌ جَذَعَةٌ)"ایک سال سے کم کی پٹھیاكے لفظ ہيں.

اور بخارى كى ايك روايت ميں ہے:

''ميرے پاس جذعہ ہے جو(دانت والے جانور سے ) دوندے سے بھى بہتر ہے، كيا ميں اسے ذبح كر لوں ؟ ''

تو رسول اکرم ﷺ نے فرمايا:

(اذْبَحْهَا وَلَنْ تَصْلُحَ لِغَيْرِكَ)

''تم اسے ہی ذبح کر لو لیکن تمہارے بعد (اس کی قربانی) کسی اور کے لیے جائز نہیں ہو گی ''۔

اور ايك روايت ميں ہے:

'' تيرے بعد كسى اور كے ليے جائز نہيں ہے ''

پھر رسول كريم ﷺ نے فرمايا:

(مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا يَذْبَحُ لِنَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِينَ)

''جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی کر لیتا ہے وہ صرف اپنے کھانے کو جانور ذبح کرتا ہے اور جو عید کی نماز کے بعد قربانی کرے اس کی قربانی پوری ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کی سنت کو پا لیتا ہے''۔

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5563 ).

اس حديث ميں ہے كہ بكرى كا جذعہ قربانى كے ليے کفائت نہیں کرے گا، اور جذعہ كا معنى آگے بيان كيا جا رہا ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ ((تھذيب السنن)) ميں كہتے ہيں:

قولہ: ''اور تيرے بعد كسى اور كے علاوہ كفائت نہيں كرے گا''

يہ قطعى نفى ہے كہ اس كے بعد كسى كے ليے بھى جائز نہيں ہے ''۔ انتہى.

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم ﷺ نے فرمايا:

''دو دانتے ( دوندا ) كے علاوہ كوئى جانور ذبح نہ كرو، ليكن اگر تمہيں وہ ملنا مشكل ہو جائے تو پھر بھيڑ كا جذعہ ذبح كر لو ''۔صحيح مسلم حديث نمبر ( 1963 ).

اس حديث ميں بھى اس بات كى صراحت پائى جاتى ہے كہ دو دانتا جانور ہى ذبح كرنا ضرورى ہے، ليكن بھيڑ كى نسل سے جذعہ كفائت كر جائے گا.

صحیح مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

علماء كرام كا كہنا ہے كہ:

''مسنّہ، اونٹ، گائے، بكرى ميں سے دو دانتے اور اس سے زيادہ والے كو كہتے ہيں، يہ صراحت اس ليے ہے كہ بھيڑ كے جذعہ كے علاوہ كوئى بھى جذعہ كسى بھى حالت ميں جائز نہيں ہے ''۔ انتہى.

اور حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

''حديث كا ظاہر يہ تقاضا كرتا ہے كہ: بھيڑ كا جذعہ بھى اس وقت جائز ہے جب دو دانتا نہ ملے، اور اجماع اس كے خلاف ہے، چنانچہ اس كى تاويل كرنا ضرورى ہے كہ اسے افضليت پر محمول كيا جائےگا، اور اس كى تقدير يہ ہو گى كہ: مستحب يہ ہے كہ دو دانتے كے علاوہ كچھ نہ ذبح كيا جائے ''۔ انتہى . ديكھيں: التلخيص ( 4 / 285 ).

اور امام نووى رحمہ اللہ نے بھى مسلم كى شرح ميں ايسے ہى كہا ہے.

اور عون المعبود ميں ہے:

'' يہی تاويل لازمى اور متعين ہے ''۔ انتہى.

پھر قربانى ميں بھيڑ كے جذعہ كے جواز ميں كچھ حدیثیں ذكر كى ہيں جن ميں سے ايك يہ بھى ہے:

عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

''ہم نے رسول كريم ﷺ كے ساتھ بھيڑ كے جذعہ كى قربانى كى''۔سنن نسائى حديث نمبر ( 4382 )، حافظ رحمہ اللہ نے اس كى سند كو قوى كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں قربانى كى شروط ميں ہے:

دوسرى شرط:

وہ جانور قربانى كى عمر كو پہنچا ہوا ہو، وہ اس طرح كہ اونٹ، گائے اور بكرى ميں سے دو دانتا ہو يا اس سے زيادہ ہو، يا پھر بھيڑ میں سے جذعہ سے بڑا ہو، بھيڑ كے علاوہ دو دانتے سے كم عمر كا كوئى جانور قربانى كے ليے جائز نہيں ہے ، اور نہ ہى بھيڑ كے جذعہ سے كم عمر كا...

اس شرط پر سب فقہاء متفق ہيں، ليكن جذعہ اور دو دانتا كى تفسير ميں ان كے مابين اختلاف پايا جاتا ہے ''۔ انتہى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 5 / 83 ).

اور ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

''جن جانور كى قربانى کی جاتى ہے ان ميں سے بكرى كے جذعہ كى قربانى كرنا جائز نہيں ہے ، صرف بھيڑ كے جذعہ كى قربانى ہو سكتى ہے، بلكہ سب جانوروں ميں سے دو دانتا يا اس سے زيادہ عمر كا جانور ذبح كرنا جائز ہے، اور سنت نبويہ كے مطابق بھيڑ كا جذعہ قربانى كيا جا سكتا ہے ''۔انتہى .ديكھيں: ترتيب التمھيد ( 10 / 267 ).

اور ((المجموع )) ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

''امت كا اس بات پر اجماع ہے كہ اونٹ، گائے اور بكرى ميں سے دو دانتا ہى قربانى كرنا جائز ہے، اور بھيڑ كا جذعہ ذبح كيا جا سكتا ہے، اور يہ مذكورہ اشياء قربانى ميں كفائت كرتى ہيں، الا يہ كہ جو ہمارے اصحاب ابن عمر اور امام زھرى نے بيان كيا ہے كہ:

''بھيڑ ميں سے جذعہ كفائت نہيں كرتا''

اور عطاء، اوزاعى كہتے ہيں كہ: اونٹ، گائے، بكرى اور بھيڑ سب كا جذعہ كفائت كرےگا ''۔ انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 8 / 366 ).

دوم:

بالتحديد قربانى كى عمر ميں علماء كرام كا اختلاف ہے:

احناف اور حنابلہ كے ہاں بھيڑ ميں سے جذعہ اسے كہتے ہيں جو مكمل چھ ماہ كا ہو.

اور مالكيہ اور شافعيہ كے ہاں جذعہ ايك سال كا شمار ہوتا ہے.

اور مسنہ يعنى دو دانتا جانور : احناف، مالكيہ اورحنابلہ كے ہاں بكرى ميں دو دانتا ايك سال كا ہے، اور شافعيہ كے ہاں دو سال كا.

گائے ميں سے احناف، شافعيہ اور حنابلہ كے ہاں دو دانتا وہ ہے جو مكمل دو سال كا ہو، اور مالكيہ كے ہاں مكمل تين برس كا.

اور اونٹ ميں سے احناف، شافعيہ، مالكيہ، حنابلہ كے ہاں دو دانتا وہ ہے جو مكمل پانچ برس كا ہو.

ديكھيں: بدائع الصنائع ( 5 / 70 ) البحر الرائق ( 8 / 202 ) التاج والاكليل ( 4 / 363 ) شرح مختصر خليل ( 3 / 34 ) المغنى ( 13 / 368 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ (( احكام الاضحيۃ )) ميں كہتے ہيں:

''اونٹ ميں سے دو دانتا وہ ہے جو مكمل پانچ برس كا ہو، اور گائے ميں سے مكمل دو سال كا، اور بكرى ميں سے ايك سال كا.

اور جذعہ جو نصف سال كا ہو، چنانچہ اونٹ، گائے اور بكرى ميں سے دو دانتے سے كم عمر كا جانور قربانى كرنا صحيح نہيں ہے ، اور نہ ہى بھيڑ ميں سے جذعہ سے چھوٹا جانور '' انتہى۔

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

''شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ بھيڑ ميں سے چھ ماہ كا جانور قربانى كے ليے جائز ہے، اور بكرى ميں سے ايك برس اور گائے ميں سے دو سال، اور اونٹ ميں سے پانچ برس كا قربانى كرنا جائز ہے، اس سے چھوٹا جانور نہ تو حج كى قربانى ميں لگےگا اور نہ ہى عام قربانى ميں، كيونكہ كتاب و سنت كے دلائل ايك دوسرے كى تفسير كرتے ہيں '' انتہى۔

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 377 ).

اور كاسانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

''عمروں كا يہ اندازہ جو ہم نے كہا ہے وہ نقص کو منع كرنے كے ليے ہے نہ كہ زيادہ کو؛ تا كہ اگر كوئى شخص اس سے كم عمر كا جانور ذبح كرے تو يہ جائز نہيں ہوگا ، اور اگر وہ اس سے بڑى عمر كا جانور ذبح كرتا ہے تو جائز ہوگا، اور يہ افضل ہوگا، اور قربانى ميں نہ تو حمل اور نہ ہى چھوٹا سا بچہ، اور نہ ہى بچھڑا، اور فصيل ذبح كرنا جائز ہے، كيونكہ شريعت ميں وہى عمريں بيان ہوئى ہيں جو ہم بيان كر چكے ہيں اور ان كا نام نہيں ليا گيا '' انتہى۔

ديكھيں: البدائع الصنائع ( 5 / 70 ).

چنانچہ اس سے يہ واضح ہوا كہ دو سال سے چھوٹى گائے ذبح كرنا جائز نہيں ہے ، كسى بھى امام نے اسے جائز نہيں كہا ہے۔

واللہ اعلم۔

سائٹ اسلام سوال وجواب

(طالبِ دُعا:azeez90@gmail.com)