حج کی ادائیگی فوری طور پر واجب ہے
اس مادہ کے ترجمے
زمرے
- حج و عمرہ << عبادات << فقہ
- دعوت الی اللہ
- فتاوی << فقہ
- ضيوف الرحمن
مصادر
Full Description
حج کی ادائیگی فوری طور پر واجب ہے
[الأُردية –اُردو Urdu–]
فتوی :اسلام سوال وجواب سائٹ
ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ
مراجعہ وتنسیق :عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ
وجوب الحج على الفور
فتوى:موقع الإسلام سؤال وجواب
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي
حج کی ادائیگی فوری طور پر واجب ہے
: 41702سوال:کیا حج پر قادر شخص کے لئے کئی سال تک حج(واجب)کو مؤخّر کرنا جائز ہے؟
جواب:
الحمد للہ :
جو شخص حج كى استطاعت ركھتا ہو اور اس کے اندر حج كے وجوب كى تمام شرطیں متوفر ہوں تو اس پرفوری طور پر حج فرض ہے،اس کے لئے اسے مؤخرکرنا جائز نہیں۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى اپنى مايہ ناز كتاب (( المغنى ))ميں كہتے ہيں:
''جس پر حج واجب ہو چكا ہو اور اس كے ليے حج كرنا ممكن بھى ہو تو اس پر حج فوری طور پر واجب ہو گا، اور اس كے ليے حج كى ادائيگى ميں تاخير كرنى جائز نہيں، امام ابو حنيفہ اور امام مالك رحمہما اللہ تعالىٰ كا يہى قول ہے، كيونكہ اللہ تعالىٰ كا فرمان ہے:
﴿وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ﴾
'' اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راه پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا گیا ہے۔ اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ (اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بے پرواه ہے ''[ سورہ آل عمران : 97]
اورامر فوری طور پر دلالت كرتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: ( مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْيَتَعَجَّلْ )
''جو حج كرنا چاہتا ہے وہ جلدى كرے ''۔
اسے امام احمد،ابوداود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے،اوراحمد وابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے:مسند احمد، ابو داود، اور ابن ماجہ نے اسے روايت كيا ہے، اور مسند احمد اور ابن ماجہ كى ایک روايت ميں ہے كہ: ( فَإِنَّهُ قَدْ يَمْرَضُ الْمَرِيضُ ، وَتَضِلُّ الضَّالَّةُ ، وَتَعْرِضُ الْحَاجَةُ )
'' ہو سكتا ہے مريض بيمار ہو جائے، اور سوارى گم ہو جائے اور كوئى ضرورت پيش آجائے '' ۔
علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كوصحیح ابن ماجہ میں حسن قرار ديا ہے''.کچھ تصرّف کے ساتھ ابن قدامہ کا کلام ختم ہوا۔
امر فوری طورپر دلالت كرتا ہے كا معنىٰ ہے:
''مكلف پر واجب ہے كہ اسے جس كام كا حكم ديا جارہا ہے جيسے ہى اس كا كرنا ممكن ہو اسے فورى طور پر سرانجام دے، اور اس ميں بغير كسى عذر كے تاخير كرنى جائز نہيں ہے''۔
اورشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالیٰ سے دريافت كيا گيا:
كيا حج فورى طور پر واجب ہے يا اس ميں تاخير جائزہے؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
''صحيح يہى ہے كہ حج فورى طور پر واجب ہے، اور جو انسان بيت اللہ كا حج كرنے كى استطاعت ركھتا ہو اس كے ليے تاخير كرنا جائز نہيں، اور اسى طرح تمام شرعى واجبات ميں بھى جب اس ميں كسى وقت يا سبب كى قيد نہ لگائى گئى ہو تو وہ فورى طور پر واجب ہوتے ہيں'' انتہى ۔
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين(21/13)
واللہ اعلم .
اسلام سوال وجواب سائٹ
(مُحتاج دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ [email protected])