×
پیش نظر مقالہ میں ماہ رمضان کی فضیلت واہمیت اور اسکی خصائص کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

    فضیلت ماہِ رمضان

    حماد چاؤلہ

    بسم اللہ والحمدللہ والصّلٰوۃ والسلام علٰی رسول اللہ وعلی اٰلہ وصحبہ وأزواجہ ومن والاہ وبعد !

    ہر مسلمان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیےکہ اسکا مقصدِ حیات اپنے خالق و مالک اور معبودِ برحق رب کی خالص عبادت کرنا ہے جیساکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

    اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی (اور اس کی عبادت اس لیے کرو) کہ تم پرہیزگار بن سکو . البقرة: ٢١

    اور اسی مقصد کی تکمیل اور اسکی عملی تنفیذ کیلیے رب تعالیٰ نے انبیاء و رسل علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور کتب کو نازل فرمایا۔ اور عبادت سے مراد یہ ہیکہ انسان کے تمام ظاہری اور پوشیدہ (باطنی) اقوال (باتیں) و اعمال ایک اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت و فرمانبرداری میں اور اسکی رضا و خوشنودی کے حصول کیلیے ہوں ۔اور جب ہم شریعتِ اسلامیہ میں موجود عبادات جیسے نماز ،روزہ، زکوٰۃ،حج وغیرہ میں غور و فکر کرتے ہیں تو ہمیں سمجھ آتا ہیکہ ان میں کچھ عبادات تو صرف جسمانی و بدنی ہیں اور کچھ صرف مالی ہیں جبکہ کچھ عبادات جسمانی و مالی دونوں ہیں اور ان تینوں اقسام پر اسلام کی بنیادیں قائم ہیں ۔ کیونکہ کچھ لوگ جسمانی عبادات کا تو بہت اہتمام کرتے ہیں لیکن اللہ کے راستے میں خرچ کرنے میں بہت بخیل ہیں ، اسی طرح اسکے برعکس کچھ لوگ مال خرچ کرنے میں بہت آگے ہیں لیکن بدنی عبادت میں صفر ہیں ،اسی لیے شریعت نے عبادات میں تنوّع رکھا ہےتا کہ عبادات کی ان تمام اقسام کو عملاً اپنا کر انسان اپنے جسم اور جو کچھ بھی اسکے پاس ہے ، ہر لحاظ سے اپنےمعبودِ برحق کا عبادت گذار بن جائے، اور اسی جذبہ کے حصول کے لیے ،اسے روزانہ نماز کی ادائگی کی صورت میں عبادت کا حکم دیا گیا ۔اورہر سال ایک مہینہ ایسا مقرر کیاکہ اس میں انسان جسمانی و مالی ہر لحاظ سےعبادت کے مفہوم کو سمجھتے ہوئےاسکے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی تربیت کرسکے ۔

    انتہائی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں زندگی میں ایک مرتبہ یہ ماہِ مبارک نصیب ہو جائے، چہ جائے کہ وہ لوگ جنہیں بار بار ماہِ رحمت نصیب ہو ۔ جی ہاں! اہل ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعامات میں یہ ماہِ مبارک بہت بڑا انعام و احسان ہے۔ کیونکہ:

    اس ماہ کو خود رسول اکرم ﷺنےبا برکت قرار دیا ، اس ماہ میں کتاب ہدایت قرآن کریم کو نازل کیا گیا ، اس میں جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں اورجہنم کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ، اس میں اس ملعون شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے جو دنیا میں ہر قسم کی چھوٹی بڑی برائی کی وجہ و سبب ہو ، اور اس ماہِ مبارک میں روزانہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو جہنم سے آزاد کیاجاتا ہے،اس میں روزہ و قیام کے مفہوم و ضابطوں کو سمجھتے ہوئے عبادت کرنے والے کے سابقہ تمام صغیرہ گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے ، اور اس ماہ میں ایک رات ایسی ہےجس کا مقابلہ ہزار مہینےبھی نہ کر سکیں ، ایسا مبارک مہینہ کہ اس میں آنے والی'' لیلۃ القدر ''سے جو محروم کر دیا گیا ، اس سے بڑا محروم ہی کوئی نہیں۔

    ماہِ رمضان ایک مبارک مہینہ ، تلاوتِ قرآن کریم کامہینہ ،عبادات و ریاضتوں کا مہینہ،جنت کے حصول اور جھنّم سے نجات کا مہینہ ،رحمتوں برکتوں اور مغفرت کا مہینہ ،صبرو برداشت کا مہینہ، فراخی رزق کا مہینہ،بھائی چارگی اور ایک دوسرے سے خیر خواہی کرنے کا مہینہ، صدقات و خیرات کا مہینہ، اپنے آپ کو سدھارنے اور سنوارنے اور تربیت کا مہینہ ہے۔

    مذکورہ فضائل مندرجہ ذیل احادیثِ رسول ﷺمیں بیان کیے گئے ہیں:

    · سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ ماہِ رمضان کی آمد پر فرماتے: یقیناً تمہارے پاس مبارک مہینہ آیاہے ، جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کیے ہیں۔ جس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، شیطان کو جکڑ کر قید کر دیا جاتا ہے، اور اس ماہِ مبارک میں ایک رات ایسی عظمت والی ہے کہ وہ ایک اکیلی رات ہی ایک ہزار مہینوں سے بہتر اور شرف و عظمت والی ہے، اور پھر فرمایا کہ: جو اس رات کی بھلائی سے محروم ہو گیا حقیقت میں وہی محروم ہے۔[1]

    · اسی طرح رسول اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: اس ماہِ مبارک میں اللہ تعالیٰ کا فرشتہ پکار پکار کے یہ کہتا ہے کہ اے خیر و بھلائی چاہنے والے خوش ہو جا ( کہ خوشی کا مہینہ ، خیر و بھلائی کا مہینہ، برکات اور رحمتوں کا مہینہ آگیا ہے) اور اے شر و برائی کے چاہنے والے اب تو رک جا (اور برائی چھوڑ دے)۔[2]

    · اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے: ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک تمام صغیرہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ بشرطیکہ دونوں رمضانوں کے درمیان کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ [3] اسی طرح فرمایا: کہ جوشخص اس ماہِ مبارک کے روزے رکھے، اور اس رمضان کے مہینہ کی حدود کو پہچان کر ان کی حفاظت کرے ،اور جن چیزوں سے اس ماہِ مبارک میں خیال رکھنا چاہیے ان کا عملاًخیال رکھے، تو اس کے سابقہ تمام (صغیرہ) گناہوں کو بخش دیا جائے گا[4]

    · اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ (اس ماہ مبارک میں) ہر رات اللہ تعالیٰ لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے۔[5]

    · اسی طرح آپ ﷺکے پاس ایک شخص حاضر ہوا، اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اگر میں نے یہ گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور آپ اللہ کے رسول ہیںﷺ، اور میں (دن میں)پانچوں نمازوں کو ادا کروں، زکوٰة ادا کروں اورماہِ رمضان کےروزے رکھوں، اور اس ماہ کا قیام کروں (یعنی تراویح و تہجد پڑہوں) تو میں کن لوگوں میں شمار ہوں گا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ (تمہارا شمار) صدّیقین(سچوں)اور شہدا میں ہوگا۔ [6]

    · اسی طرح مسند حاکم کی صحیح روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ بد دعا فرمائی کہ اس شخص کے لیے ہلاکت و بربادی ہو جو رمضان المبارک کو پا لے اور اپنے گناہوں ، بد اعمالیوں پر (پشیمان و شرمندہ ہو کر اور آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ رب کے حضور خلوصِ دل سے معافی مانگ کر) اپنی بخشش نہ کرا سکا۔

    اس ماہ کے شرف کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ماہ ِمبارک مذکورہ بد نصیبی و بد بختی سے

    نجات کا موقع ہے۔ یہ مغفرت و بخشش اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے۔

    اللہ تعالیٰ ہمیں ان خوش نصیبوں میں سے بنا دے جن کے لیے یہ مبارک مہینہ رحمت، مغفرت، برکت ، جنت اور رب کی رضا کے حصول کا پیغام لایا ہے۔


    رواہ احمد والنسائی والبیہقی

    رواہ احمد والنسائی باسناد جید

    رواہ مسلم

    رواہ احمد، والبیہقی باسناد جید

    صحیح ابن ماجہ للالبانی، ج۱۳۳/۱

    رواہ ابن خزیمہ والبزار