×
كولونيا يا الكحل پر مشتمل خوشبو اور عطر استعمال كرنے كا حكم كيا ہے ؟

    الكحل والى خوشبو اور عطر

    العطور الكحولية

    [ أردو - اردو - urdu ]

    محمد بن صالح العثيمين

    ترجمہ: اسلام سوال وجواب ویب سائٹ

    تنسیق: اسلام ہا ؤس ویب سائٹ

    ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
    تنسيق: موقع islamhouse

    2013 - 1434

    الكحل والى خوشبو اور عطر

    كولونيا يا الكحل پر مشتمل خوشبو اور عطر استعمال كرنے كا حكم كيا ہے ؟

    الحمد للہ:

    جن خوشبو جات اور پرفيومز ميں كولونيا يا الكحل پائى جاتى ہے، ان كے متعلق تفصيلا كلام كرنا ضرورى ہے، اس ليے ہم يہ كہيں گے كہ:

    اگر الكحل كى مقدار بہت ہى كم ہو، تو يہ نقصان دہ نہيں اور انسان كو يہ خوشبو بغير كسى قلق اور پريشانى كے استعمال كر لينى چاہيے، مثلا اس ميں الكحل پانچ فيصد ہو، يا اس سے بھى كم مقدار ميں، تو يہ مؤثر نہيں.

    ليكن اگر اس كى مقدار زيادہ ہو كہ يہ اثرانداز ہو تو انسان کیلئے بہتر يہى ہے كہ بغير ضرورت اسے استعمال نہ كرے، مثلا زخم وغيرہ كو سن کرنے کیلئے۔

    ليكن اگر ضرورت نہ ہو تو بہتر اور اولى يہى ہے كہ استعمال نہ كى جائے، اور ہم يہ نہيں كہتے كہ يہ حرام ہے، كيونكہ اس زيادہ تناسب ميں ہم زيادہ سے زيادہ يہى كہہ سكتے ہيں كہ يہ نشہ آور ہے، اور نشہ آور چيز كو پينا بلاشك و شبہ نص اور اجماع كے اعتبار سے حرام ہے.

    ليكن كيا يہ پينے كے علاوہ بھى حرام ہے ؟

    يہ محل نظر ہے، اور احتياط اسى ميں ہے كہ اسے استعمال نہ كيا جائے، ميں نے محل نظر اس ليے كہا ہے كہ: كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ‌ وَالْمَيْسِرُ‌ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِ‌جْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾ إِنَّمَا يُرِ‌يدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ‌ وَالْمَيْسِرِ‌ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ‌ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ﴿٩١﴾

    ‘‘اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر، یہ سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ’’ [سورہ مائدہ:90 - 91 ]

    چنانچہ جب ہم اللہ کے عمومی قول ‘‘ان سے بالکل الگ رہو’’ کو دیکھتے ہیں تو عموم کو لیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ: بے شک شراب سے ہر حال میں بچا جائے گا خواہ پینے کیلئے ہو یا تیل وغیرہ کی مالش ہو۔

    اور جب ہم علت وسبب کی طرف دیکھتے ہیں : ‘‘شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ’’ تو ہم کہتے ہیں کہ ممانعت صرف پینے کی ہے؛ کیونکہ محض اسکے مالش کرنے سے نشہ نہیں ہوتا، تو خلاصہ یہ ہوا کہ:

    اگر الكحل كا تناسب اس خوشبو ميں بہت ہى كم مقدار میں ہو، تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور نہ ہى اس ميں كوئى اشكال اور پريشانى و قلق ہے.

    ليكن اگر اسکا تناسب زيادہ ہو تو پھر اس سے اجتناب كرنا اولى اور بہتر ہے، صرف ضرورت كے وقت استعمال ہو سكتى ہے، اور ضرورت يہ ہے كہ انسان كو زخم وغيرہ كى جگہ سن كرنے كى ضرورت پيش آئے.

    ديكھيں: لقاء الباب المفتوح شيخ ابن عثيمين ( 240 )۔