مسجد حرام میں بعض انبیاء کے مدفون ہونے کی مزعومہ روایات کا تنقیدی وتحقیقی جائزہ
زمرے
- مسجد حرام کے احکام << حج و عمرہ << عبادات << فقہ
Full Description
مسجد حرام میں بعض انبیاء کے مدفون ہونے کی مزعومہ روایات کا تنقیدی وتحقیقى جائزہ
﴿تحقيق وتخريج الروايات المزعومة في دفن بعض الأنبياء داخل المسجد الحرام ﴾
]Urdu [ أردو- الأردية -
محفوظ الرحمن فیضى
مراجعہ
شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
ناشر
2010 - 1431
﴿ تحقيق وتخريج الروايات المزعومة في دفن بعض الأنبياء داخل المسجد الحرام ﴾
[باللغة الأردية]
الجمع والترتيب
محفوظ الرحمن فيضى
مراجعة
شفيق الرحمن ضياء الله المدني
الناشر
2010 - 1431
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسجد حرام میں بعض انبیاء کے مدفون ہونے کی مزعومہ روایات کا تنقیدی وتحقیقی جائزہ
شیخ محفوظ الرحمن فیضى / مئو- نوائے اسلام –جنورى 2010ء- دہلى
مسجد حرام اور مکہ مکرمہ کی تاریخ پر تصنیف شدہ بہت سی قدیم وجدید عربی واردو کتابوں مثلاً" اخبارمکہ" ( مولفہ ابوالولید ازرقى متوفى 250ھ) و" شفاء الغرام" مولفہ تقى الدین الفاسى,متوفى 832ھ ) اور تاریخ مکہ ( اردو/ تالیف استاذ محمد عبد المعبود) وغیرہ وغیرہ میں بلا تکلف وتردد یہ مذکور ہے کہ مسجد حرام میں فلاں فلاں جگہ , فلاں فلان انبیاء مدفون ہیں- یہ علماء اسے اس طرح بلاتامل ذکرکرتے ہیں جیسے یہ منجملہ مسلمات ہے اور اس پرکسی نقدونظرکی ضرورت نہیں ہے , حلانکہ یہ سب قطعى بے ثبوت ہے-
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی معروف کتاب "تحذیرالساجد عن اتخاذ القبورمساجد" میں تحریرفرماتے ہیں:-
حضرت اسماعیل علیہ السلام وغیرہ انبیاء کرام کے مسجد حرام میں مدفون ہونے کی بات کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے- حدیث کی مستند کتابوں صحاح ستہ ,مسند احمد اورمعاجم طبرانی وغیرہ مشہور دواوین حدیث میں کسی میں اس کے متعلق کوئی حدیث وارد نہیں ہے –یہ بہت سے محقیقین کے نزدیک کسی حدیث کے ضعیف بلکہ موضوع ہونے کی علامت ہے , اس سلسلہ میں بعض آثاراور روایات جن کو ازرقی نے " اخبارمکہ " میں ذکرکیا ہے وہ سب واہی تباہی سندوں سے مروی ہیں اوردارقطنى ناقابل قبول اور مردود ہیں- (تحذیرالساجد ص 75فصل چہارم ,جواب شبہ چہارم)
علامہ البانى رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب مذکور میں ان آثاروروایات کے بارے میں مختصراً اتنا ہی تحریرفرمایا ہے ,ان پرتفصیلى کلام نہیں کیا ہے-
محترم ڈاکٹروصى اللہ عباس (مقیم مکہ مکرمہ) حفظہ اللہ نے مسجد حرام کی مفصل تاریخ اوراحکام کے موضوع پرایک انتہائی مستند,وقیع اورمبسوط کتاب" المسجد الحرام تاریخه واحکامه" تالیف فرمائی ہے جو گزشتہ دنوں سعودی حکومت کی طرف سے شائع ہوکرتقسیم ہوئی ہے, ڈاکٹرصاحب موصوف نے اس کتاب کا ایک نسخہ جامعہ فیض عام (مئو) کوبھی عنایت فرمایا ہے,(فجزاہ اللہ خیرالجزاء)
موصوف نے اس کتاب میں موضوع کے ہرہرپہلو کونہایت تفصیل وتحقیق کے ساتھ لکھا ہے – زیرعنوان مذکورہ آثاروروایات کا بھی تنقیدی وتحقیقی جائزہ لیا ہے-
خاکسار نے علامہ البانى رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ کتاب " تحذیرالساجد....... " کا عرصہ ہوا ترجمہ کیا تھا جو "قبروں پر مساجد اوراسلام" کے نام سے1988ء میں پہلى بار جامعہ سلفیہ (بنارس) سے شائع ہوا تھا, اورپھراسکے متعدد ایڈیشن شائع ہوتے رہے- جیسا کہ ذکرکیا گیا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان آثاروروایات کے متعلق اجمالى کلام پراکتفا کیا ہے-اس لئے مناسب معلوم ہواکہ ان پرڈاکٹرصاحب موصوف کے قدرے تفصیلى کلام کا ترجمہ افادہ عام کیلئے شائع ہوجائے, عام لوگوں کوبھی یہ معلوم رہے کہ بدعتى وقبوری جوان ہى آثاروروایا ت سے بزرگوں کی قبروں پرقبہ ومساجد تعمیرکرنے کے جواز پراستدلال کرتے ہیں , وہ بالکل بے بنیاد اورباطل ہے-
ان آثاروروایات کا بڑاماخذمورخ ابوالولیدازرقى (متوفى250ھ) کی کتاب "اخبارمکہ" ہے ڈاکٹرصاحب موصوف نے اسکے حوالہ سے آٹھ آثارکا ذکرکیا ہے اور ان پرعلمى وفنى اعتبارسے بحث کی ہے اورانکا تنقیدی وتحقیقى جائزہ لیا ہے جومندرجہ ذیل ہے-
(1) اخبارمکہ ) (1/312) میں صفوان بن عبداللہ بن صفوان جمحى سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے (اپنے عہد حکومت میں خانہ کعبہ کی ازسرنوتعمیر کیلئے) جب حطیم کی طرف کھدائی کرائی تووہاں سنگ سبزکا بنا ایک صندوق ملا ,حضرت ابن زبیررضی اللہ عنہ نے حضرات قریش سے اس بارے میں دریافت کیا ,کوئی کچہ نہ بتا سکا ,توانہوں نے عبداللہ بن صفوان کے پاس قاصد بھیج کران سے دریافت کیا , انھوں نے بتایا کہ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبرہے,اسے یوں ہی رہنے دیجئے اسے چھیڑئے نہیں-چنانچہ عبداللہ بن زبیرنے اسے وہیں چھوڑدیا-
عبد اللہ بن صفوان تابعی اورثقہ ہیں, اس اثرکی سند یہ ہے – "قال الازرقی حدثنى جدى عن خالد بن عبدالرحمن ,قال حدثنى الحارث بن ابى بکرالزھری عن صفوان بن عبداللہ بن صفوان "
یہ روایت سخت ضعیف اورغیرمعتبرہے- مذکورہ سند میں ایک راوی خالد بن عبدالرحمن بن خالد بن سلمہ مخزومى مکی ہے جوسخت ضعیف متہم بالوضع اورمتروک ہے- اسکے بارے میں امام بخاری اورامام ابوحاتم نے فرمایا:" وہ ذاہب الحدیث ہے,امام ابوحاتم نے مزید فرمایا: " محدثین نے اسکی حدیث کو ترک کردیا ہے-(تہذیب:3/103, وتقریب التہذیب)
حاصل یہ کہ عبد اللہ بن زبیرنے ایسا کچہ پایا ہو, اورانکے اورعبداللہ بن صفوان تابعى کے درمیان اس سلسلہ میں کوئی سوال وجواب ہواہو یہ ثابت ہی نہیں ہے, یعنى ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا ہے کہ اسے دلیل وحجت بنایا جائے-
)پھرحضرت اسماعیل علیہ السلام کا زمانہ ہزاروں برس پہلے کا ہے, آخرعبداللہ صفوان تابعى کویہ کیسے معلوم ہوگیا کہ یہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام مدفون ہیں اوریہ ان کی قبرہے, انہوں نے یہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے توروایت نہیں کیا ہے –نہ نبى کریم صلى اللہ علیہ وسلم سے ایسا کچھ بیان کرنا ثابت ہے, الغرض یہ بے بنیاد بات ہے, اسکی کوئی حقیقت نہیں ہے-
(2)ازرقی نے اپنے دادا سے بطریق سفیان بن عیینہ عن الزہری روایت کیا ہے – زہری نے عبداللہ بن زبیرکومنبرپریہ بیان کرتے سنا ہے کہ خانہ کعبہ کے رکن شامی کی جانب جوکوہان نما قطعہ زمین ہے وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے صاحبزادیوں کی قبریں ہیں- یہ اول روزسے ایسے ہی ہے,اسے فرش مسجد کے برابرکرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی, جب برابرکیا جاتا ہے توپھروہ حصہ فرش مسجد سے کوہان نما بلند ہوجاتا ہے-(اخبارمکہ:2/66)-
یہ روایت بھی ثابت نہیں ہے,بعض وجوہ درج ذیل ہیں:
مصنف عبدالرزاق (5/120) میں بھی یہ روایت ہے لیکن اسمیں زہری کے بجائے زہیرہے-
(عن ابن عیینہ عن زہیربن ابن الزہیر) اوریہ مستبعد نہیں ہے کہ یہ بعض رواۃ سے تصحیف ہوگئی ہے اور زہیرکے بجائے زہری ہوگیا, کیوں کہ دونوں لفظاً متقارب اورایک دوسرے سے مشابہ ہیں اوریہ زہیرمعلوم نہیں کون ہے- اس طبقہ میں زہیرنام کا ایک راوی زہیربن سالم ابوالمخارق العنسی الشامى تھے- اگرسند میں مذکورزہیریہی ہے تویہ ضعیف ہے امام دارقطنى نے کہا :منکرالحدیث ہے (تہذیب :3/343)
اوراگریہی صحیح ہوکہ سند مذکورمیں زہری ہی ہے توبھی یہ روایت صحیح نہیں ,منقطع السند ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ,کیوں کہ تلاش بسیارکے باوجود میں نے کہیں کسی سے یہ تصریح نہیں پائی کہ زہری کوعبد اللہ بن زبیرسے سماع
حاصل ہے.
نیزمتن روایت میں شدید نکارت پائی جاتی ہےجواس کے منکرہونے کی بڑی داخلى شہادت ہے اسمیں یہ بیان ہواکہ مذکورہ جگہ ابتداء سے ایسے ہی کوہان نمابلند ہے اورجب بھی اسے فرش مسجد کے برابرکیا جاتا ہے وہ پھرحسب سابق کوہان نما بلند ہوجاتی ہے, لیکن یہ مبینہ صورت بالکل خلاف واقع ہے ایسا کسی معتبرروایت میں وارد نہیں ہے ,خانہ کعبہ کے اردگرد اورپوری مسجد حرام کا فرش ہرناحیہ میں مسطح اروبرابرہے ,کہیں کسی ناحیہ میں وہ مزعومہ صورت پیش نہیں آئی جومذکورہ حدیث میں بیان ہوئی ہے یہ روایت بہرحال منکراورغیرمستندہے.
(2) ازرقی نے بطریق عثمان بن ساج محمد بن اسحاق (صاحب السیرۃ) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :"حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے والدہ کے ساتھ حِجر(حطیم) میں مدفون ہیں –لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت ہاجرہ بھی حطیم میں دفن کی گئی تھیں- (اخبارمکہ:1/81, وسیرۃابن ہشام :1/5)
یہ روایت بھی ضعیف ہے :
اولاً: تو عثمان بن ساج راوی ضعیف ہے – (تقریب) اسلئے امام المغازی محمد بن اسحاق کی طرف اس قول کی نسبت درست نہیں یعنى یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے ایسا کچہ بیان فرمایا ہے –
ثانیاٍ: اگریہ قول امام موصوف سے جوتابعى ہیں اور150ھ میں ان کی وفات ثابت ہے – تب بھی انکا مجرد قول اس سلسلہ میں دلیل وحجت نہ ہوتا کیوں کہ انھوں نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے مسنداً روایت نہیں کیا ہے یہ انکا اپنا قول ہے آخر انہیں یہ ہزاروں برس کا واقعہ کیسے معلوم ہوا ؟ بہرحال یہ بے سند بات ہے-
(4)ازرقی نے بطریق خالد بن عبدالرحمن بن سلمہ المخزومى ,قال حدثنى المبارک بن حسان الانماطى روایت کیا ہے –مبارک انماطى نے بیان کیا کہ میں نے عمربن عبدالعزیزکوحطیم میں دیکھا ,میں نے سنا وہ فرماتے تھے : حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے رب سے مکہ مکرمہ کی گرمی کی شکایت کی تو اللہ تعالى نے ان سے بذریعہ وحى فرمایا کہ میں تمہارے لئے حطیم میں جنت سے ایک دروازہ کھول دیتا ہوں جس سے جنت کی ہوا قیامت تک تمہارے لئے رواں رہے گی- حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وفات اسی جگہ ہوئی – راوی خالد مخزومی آگے کہتے ہیں: لوگوں کا خیال ہے کہ حطیم میں میزاب اورحطیم کے مغربی دروازہ کے درمیان حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر ہے- (اخبارمکہ: 1/32)
یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے- خالد مخزومى جیسا کہ بیان کیا گیا , متروک اورمتہم بالوضع راوری ہے- وہ قطعى اعتماد واعتبارکے لائق نہیں ہے-
(5) ازرقی نے اپنے دادا سے بطریق یحي' بن سلیم عن ابن خیثم قال سمعت عبدالرحمن بن سابط یقول سمعت عبدالرحمن بن ضمرہ- روایت کیا ہے- عبداللہ بن ضمرہ نے بیان کیا مقام ابراہیم اورچاہ زمزم کے درمیان ننانوے انبیاء علیہم السلام کی قبریں ہیں- وہ مکہ مکرمہ حج کیلئے آتے رہے ,یہیں ان کی وفات ہوئی اورمسجد حرام میں مدفون ہوئے-
(اخبارمکہ:1/6)-
عبد الرحمن بن ضمرہ تک سند حسن ہے,لیکن عبدالرحمن ضمرہ تابعى ہیں-آگے کا سلسلہ سند معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے یہ کس سے سنا ہے- ہزاروں برس پہلے کے انبیاء کے احوال کا علم انہیں کیسے ہوا- یہ توامورغیب سے ہے- نبی معصوم صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان نہیں فرمایا ہے – کسی تابعى کا بیان بلاسند ان امورمیں کیسے دلیل وحجت بن سکتا ہے-
(6) ازرقی نے بطریق حدثنى مہدی بن ابى مہدی قال حدثنا عبدالرحمن بن عبداللہ مولى بن ہاشم عن حماد بن سلمہ عن عطاء بن السائب عن محمد بن سابط عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے : نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: گزشتہ بہت سے انبیاء کا یہی معاملہ رہا کہ جب ان کی قوم نبی کی تکذیب کرنے اوراپنی بداعمالیوں کی بنا پرہلاک کردی گئی تووہ نبی مکہ مکرمہ آگئے-یہاں اللہ کی عبادت میں مصروف رہے-
یہیں ان کی وفات ہوئی – چنانچہ حضرت نوح,حضرت ہود,حضرت صالح اورحضرت شعیب علیہم السلام کی وفات یہیں مکہ میں ہوئی اوران کی قبریں یہیں زمزم اورحطیم کے درمیان ہیں –(اخبارمکہ:1/68)
یہ روایت بھی ضعیف اور نا معتبر ہے- محمدبن سابط تابعى ہیں وہ اگرثقہ بھی ہوتے توبھی یہ سند مرسل ہونے کی بنا پرضعیف ہوتی ,لیکن وہ تو ضعیف اورمجہول راوی ہیں- امام ابوحاتم نے فرمایا:"لاأعرفه" میں اسکونہیں پہچانتا ( الجرح والتعدیل:3/2/283)
امام بخاری نے تاریخ کبیر(1/104) میں محمد بن سابط کا ذکرکیا ہے- لیکن اسکا حال نہیں بیان کیا ہے,کوئی جرح وتعدیل ذکرنہیں کی ہے-
امام فاکہى نے (اپنی کتاب اخبارمکہ میں) اسے بہ طریق سفیان ثوری عن على ابن السائب عن ابن سابط مرفوعا نہیں مقطوعاً روایت کیا ہے- یعنى یہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں بلکہ ابن سابط کا اپنا قول ہے کہ حطیم اورمقام ابراہیم اورچاہ زمزم کے درمیان ننانوے انبیاء کی قبریں ہیں اوریہ کہ ہود,شعیب ,صالح اوراسماعیل علیہم السلام اسی جگہ مدفون ہیں-(شفاء الغرام:1/218)
امام حاکم نے مستدرک(2/563) میں اسے بطریق مومل بن اسماعیل حدثنا حمادبن سلمہ انبأنا عطاءبن السائب عن عبدالرحمن بن سابط (؟) روایت کیا ہے- عبدالرحمن بن سابط نے کہا کہ جب کسی نبى کی امت ہلاک کردی جاتى تونبی مکہ معظمہ آجاتے,یہیں تا وفات عبادت میں مشغول رہے- ہود علیہ السلام کی قبرحطیم اورزمزم کے درمیان ہے-
یہ روایت بھی ضعیف ہے- مؤمل بن اسماعیل صدوق ہیں ,جوسئ الحفظ ہیں- (تہذیب :10/380)
اورسند میں محمد بن سابط کے بجائے عبدالرحمن بن سابط کہنا انہی کے سوء حفظ کا نتیجہ ہے اورجیسا کہ بیان ہوا محمدبن سابط ضعیف اورمجہول ہے-
نیزیہ عبدالرحمن بن سابط کا قول ہویا محمدبن سابط کا یہ دونوں تابعى ہیں- ماضى یا مستقبل سے متعلق امورغیب نبى معصوم صلى اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی امتى کا قول دلیل وحجت نہیں ہوتا-
(7) ازرقى ہی نے بطریق عثمان بن ساج عن مقاتل بن سلیمان روایت کیا ہے- مقاتل بن سلیمان نے کہا:مسجد حرام میں زمزم اورحجراسود کے درمیان سترانبیاء ہود,صالح, اسماعیل علیہم السلام وغیرہم مدفون ہیں- اورحضرت آدم ,حضرت ابراہیم,حضرت اسحاق ,حضرت یعقوب اورحضرت یوسف علیہم السلام کی قبریں بیت المقدس میں ہیں-
(اخبارمکہ:1/73)
یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے- سند میں عثمان بن ساج ضعیف ہے اورمقاتل بن سلیمان سخت ضعیف, متہم بالکذب اورمتروک ہے- پھرمقاتل تابعى ہیں اورجیسا کہ بیان کیا گیا وہ ثقہ ہوئے تب بھی ان امورغیب کے بارے میں انکا قول دلیل وحجت نہ ہوتا-
(8) ازرقی ہی نے بطریق عثمان بن ساج عن وہب بن منبہ روایت کیا ہے- وہب بن منبہ نے بیان کیا ہے کہ : حضرت صالح علیہ السلام نے اپنے متبعین سے کہا کہ دیکھواس دیارپراوراسکے باشندوں پراللہ تعالى سخت ناراض ہے- یہاں سے ہجرت کرچلو,مومنین نے کہا بیشک آپ کی رائے واجب الاتباع ہے – کہاں کیلئے ہجرت کا حکم ہے؟ حضرت صالح نے کہا اللہ کے حرم اورجائے امن وسلامتى یعنى مکہ مکرمہ – اس کے علاوہ اورکوئی دوسری جگہ نہیں ہے- چنانچہ سب لوگوں نے اسی وقت بیت اللہ کا احرام باندھا ,مکہ پہنچے, حج کیا اوروہیں بس گئے- وہیں ان لوگوں کی وفات ہوئی- چنانچہ دارالندوہ اورداربنى ہاشم کے درمیان مغربی گوشہ میں انکی قبریں ہیں- حضرت شعیب علیہ السلام کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے- (اخبارمکہ:1/73-74)
وہب بن منبہ کی طرف مذکورہ بیان کی نسبت ثابت نہیں ہے- کیوں کہ اسے ان سے روایت کرنے والا راوى وہى عثمان بن ساج ہے جو ضعیف ہے- اگران سے یہ قول ثابت بھی ہوتا تو بھی یہ دلیل وحجت نہیں ہوتا – جیسا کہ مکرربیان کیا گیا یہ سب ازقسم امورغیب ہے- ان کوہزاروں برس پہلے کے اموروحالات کا آخرکیسے علم ہوا- نبى معصوم صلى اللہ علیہ وسلم نے تویہ کچھ بیان نہیں کیا ہے- کسی صحابی کا آپ سے ایسا کچہ روایت کرنا ثابت نہیں ہے- درحقیقت یہ سب اسرائیلى قصے کہانیاں ہیں – جنکی کوئی اصلیت نہیں ہے- یہ سب ہمارے عقیدہ اورشریعت کے خلاف ہے- اسلئے اسکی تکذیب وتردید ضروری ہے-
(9) سیرۃ ابن اسحاق میں منجملہ زیادات راوى بطریق احمد بن عبدالجبارقال لنا یونس بن بکیرعن النذربن ثعلبہ قال شہدت عبداللہ بن زبیرایک روایت یہ ہے : منذربن ثعلبہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیراپنے عہد حکومت میں خانہ کعبہ کی ازسرنوتعمیرکیلئے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قائم کردہ بنیادوں کی کھدائی کررہے تھے تو حطیم کی طرف ایک جگہ زردمٹى نظرآئی – حضرت عبداللہ بن زبیرنے حکم دیا کہ اسے پاٹ دیا جائے- یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبرہے-
اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے- راوى احمدبن عبدالجبار ابو عمرالعطاردی الکوفى سخت ضعیف ہے- امام ابوحاتم نے فرمایا : محدثین نے اس پربہت کلام کیا ہے- اسلئے میں اس سے روایت نہیں لیتا, امام ابن معین نے فرمایا: یہ جھوٹ بولتا تھا- امام حاکم نے فرمایا: وہ محدثین کے نزدیک قوى نہیں ہے – امام ابن عدى نے فرمایا: میں نے اہل عراق کو اسکے ضعیف ہونے پرمتفق پایا- وہ ہرکسی سے روایت کرتا تھا کوئی احتیاط نہیں کرتا تھا- اسکی کوئی منکرحدیث تو معلوم نہیں, لیکن وہ ایسے شیوخ سے روایت کرتا تھا جن سے اسکو لقاء وسماع حاصل نہیں ہے- اما م دارقطنى نے کبھی تواسکی تحسین کی اورکبھی فرمایا : ہمارے شیوخ کی رائے اسکے بارے میں مختلف ہے- وہ اصحاب الحدیث میں سے نہ تھا – اسکی ولادت 177ھ میں اوروفات 272ھ میں ہوئی ہے- (میزان الاعتدال : 1/112, تہذیب التہذیب : 1/51)
(10) امام سیوطی نے جامع صغیرمیں کتاب الکنى للحاکم کے حوالہ سے حضرت عائشہ رضى اللہ عنہا سے مرفوعا نقل کیا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبرحجرحطیم میں ہے-"
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "ضعیف الجامع الصغیر" میں ذکرکیا ہے –(حدیث نمبر 1907)
اوراس پرسوالیہ نشان لگایا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ یہ بے سند روایت ہے- اسکا حال معلوم نہیں ہے- لہذا حضرت عائشہ صدیقہ یا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت ہرگزثابت نہیں ہے- علامہ نے "تحذیرالساجد" میں اسکے ازقسم خرافات اورناقابل التفاق ہونے کی تصریح فرمائی ہے-
(11) مورخ نجم بن فہد( متوفى 855ء) نے " اتحاف الورى باخبارام القرى" (1/454) میں 415ء کے بعض حوادث وواقعات کا ذکرکرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ اس سال کسی ضرورت سے حطیم اورمقام ابراہیم کے درمیان کھدائی ہوئی تووہاں بہت سی کھونپڑیاں اورہڈیاں برآمد ہوئیں تووہاں کھدائی روک دی گئی اوراسے پھرپاٹ دیا گیا-
ہوسکتا ہے کوئی اس مزعومہ قصہ سے یہ استدلال کرے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کچھ انبیاء دفن کئے گئے تھے اوروہاں ان کی قبریں تھیں حالانکہ اولا تومذکورہ بیان محض قصہ ہے, بالکل بے سند اوربے ثبوت ہے-
ثانیاً: اگریہ صحیح ہوتوپھرتویہ اس حقیقت کی بہت بڑی دلیل ہے کہ وہاں انبیاء مدفون نہیں ہیں اوریہ کھونپڑیاں اورہڈیاں کچہ دوسرے نامعلوم لوگوں کی ہیں, کیوں صحیح حدیث میں وارد ہی کہ اللہ تعالى نے زمین پرابنیاء کرام کے جسموں کو حرام کردیا ہے( یعنى زمین انکے جسموں کو کھا نہیں سکتى وہ اپنی قبروں میں صحیح وسالم ہیں) ( ابوداؤد,نسائی ,ابن ماجہ, دارمى ,ابن خزیمہ ,ابن حبان ,مستدرک حاکم)
اورہوسکتا ہے کہ یہ ان حجاج کرام کی کھونپڑیاں اورہڈیاں رہی ہوں جنہیں قرامطہ نے 317ھ میں مکہ مکرمہ اورمسجد حرام پرحملہ اورہنگامہ خیزى وفتنہ انگیزی کے دوران قتل کیا تھا اورانہیں مسجد حرام میں دفن کردیا تھا – واللہ اعلم
اس تفصیل وتحقیق سے یہ حقیقت واشگاف ہوگئی کہ حضرت اسماعیل ودیگربعض انبیاء علیہم السلام کے حطیم یا مسجد حرام میں مدفون ہونے سے متعلق کوئی روایت ثابت نہیں ہے – سب کی سب بہرحال ایسی ضعیف ہیں کہ مجموعى طورپربھی دلیل وحجت بننے کے لائق نہیں ہیں- سخت تعجب ہے کہ اس واشگاف حقیقت کے باوجود امام ابن جریر,امام ابن اسحق,امام ابن کثیر,امام ابن قتیبہ ودیگرعلماء نے کیسے جزم کے ساتھ یہ کہدیا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبرحطیم میں ہے – حالانکہ یہ کسی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہے , جیسا کہ ناظرین کے پیش نظرہے-
مسجد میں قبربنانے یا قبرپرقبہ ومسجد تعمیرکرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے- رسول صلى اللہ علیہ وسلم سے نے اس سے سختى کے ساتھ منع فرمایا ہے اور اس پرشدیدوعید فرمائی ہے – حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ محمد رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں , آخری وقت میں یہ ارشاد فرمایا: " یہودیوں اورعیسائیوں پراللہ کی لعنت ہو کہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کومسجدیں بنالیا – "(صحیح بخاری , صحیح مسلم وغیرہ )
حضرت جندب بجلى رضی اللہ تعالى عنہ اورحضرت حارث نجرانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم کے وصال سے پانچ دن قبل ہم نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ : " خبردار! تم سے پہلى امتیں انبیاء وصالحین کی قبروں کو مسجد بنالیتى تھیں- تم قبروں کومسجد نہ بنانا میں سختى کے ساتھ تم کواس سے منع کرتا ہوں- "(صحیح مسلم, مصنف ابن ابی شیبہ) اس بارے میں متعدد صحابہ حضر ت ابوبکرصدیق ,حضرت ابوہریرہ وغیرہ ودیگرامہات المؤمنین رضی اللہ عنہم سے کثرت سے احادیث مروی ہیں-
علماء نے ان احادیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ ان سے معلوم ہوا کہ قبروں پرنماز پڑھنا ,یعنى ان پرسجدہ کرنا ,قبروں کی طرف رخ کرکے سجدہ کرنا یعنى دعاء ونماز کے وقت قبروں کوقبلہ بنانا اورقبروں پرمسجد تعمیرکرنا اورایسی مساجد میں نماز پڑھنے کا قصد واہتمام کرنا یہ سب بالکل ممنوع اورموجب لعنت ہے-
اس اہم مسئلہ کوعلامہ البانى رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "تحذیرالساجد " میں نہایت بسط وتفصیل سے بیان فرمایا ہے, اسکا یا اسکے اردوترجمہ "قبروں پرمساجد اوراسلام" کا ضرورمطالعہ کرنا چاہئے-