ماہ صفر کے مسائل
زمرے
Full Description
ماہ صفر کے مسائل
﴿ مسائل شهر صفر ﴾
]Urdu [ أردو- الأردية -
ترتیب
پروفیسر عبد العزیز جامی
مراجعہ
شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
ناشر
2010 - 1431
﴿مسائل شهر صفر﴾
[باللغة الأردية]
الجمع والترتيب
البروفيسور/ عبد العزیز جامى
مراجعة
شفيق الرحمن ضياء الله المدني
الناشر
2010 - 1431
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 7
جلد نمبر 39 01 تا 07 صفر 1429 ھ 9 فروری تا 15 فروری 2008 ء
جناب پروفیسر عبدالعزیز جامی | ماہ صفر |
ماہ صفر کے مسائل
اسلام کی بنیاد توحید پر ہے۔مسلمانو! دین اسلام کی بنیاد ایمان اور یقین پر رکھی گئی ہے۔ اللہ واحد کی ذات اور اس کی ساری صفات کو دل و جان سے ماننے کا نام توحید ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَإِن يَمْسَسْكَ اللّهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِهِ يُصَيبُ بِهِ مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ} (107) سورة يونس
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ سارے اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بعد نماز ہمیشہ یہ دعا پڑھتے تھے: (( اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت )) ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اے اللہ! اگر تو دینے پر راضی ہو جائے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا اور اگر کسی پر اپنا فضل روک دے تو اسے کوئی دلا نہیں سکتا۔ “ ارشاد الہی ہے: {مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ } (11) سورة التغابن "یعنی آدمی کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ صرف اللہ کے حکم سے پہنچتی ہے۔ “ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ابدی میں یہ بھی ہے کہ وہ مارتا اور جلاتا اور نفع اور نقصان دینے والا بھی وہی ہے، اس میں کسی زمانے کا کوئی دخل نہیں نہ کسی سال کا نہ کسی ماہ کا نہ کسی دن کا۔ یہی عقیدہ توحید ہے۔ اگر نقصان و ضرر کسی کو پہنچنا ہے تو وہ ضرور پہنچ کر رہے گا، خواہ وہ رمضان میں ہو یا ماہ صفر میں۔ ربیع الاول میں ہو یا محرم میں۔ قدرت الٰہی کا اظہار زبان رسالت سے یوں کیا جاتا ہے۔ {قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ} (26) سورة آل عمران ” (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !)آپ کہ دیجئے کہ اے اللہ! تو ہی مالک الملک ہے جس کو چاہتا ہے ملک عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اسکو چھین لیتا ہے اور عزت و ذلت بھی تیرے ہی طرف سے ہے۔ ساری بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ “ ماہ صفر منحوس نہیں ہے:قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو ماہ صفر کی نحوست کی بدعقیدگی دراصل دور جاہلیت کے مشرکین کی پیداوار ہے جو سراپا باطل اور شرکیہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ان چیزوں سے آگاہ فرمایا: چنانچہ ارشاد ہے: (( لا عدویٰ ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولا صفر )) ( بخاری ) (( ولا نوءولا غول )) ( مسلم ) یعنی ہمارے اسلام میں چھوت چھات کا کوئی عقیدہ نہیں ہے اور نہ بدفالی کی کوئی حقیقت ہے۔ اسی طرح الو اور ماہ صفر کی نحوست بھی کوئی چیز نہیں۔ نچھتر اور نہ چڑیل وغیرہ کی کوئی حقیقت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ تمام دور جاہلیت، بت پرستوں اور توہم کے پجاریوں کے غلط اور باطل عقائد ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں ماہ صفر کی نحوست اور تیرہ تیزی کے خوف کے عقائد جو پیدا ہوئے ہیں، یہ صرف ہندوؤں کے میل جول کے اثرات ہیں۔ ہندوستان کے ہنود کے شرکیہ عقائد اور مشرکین مکہ کے باطل عقائد کے درمیان کافی اشتراک ہے اور یہ باتیں رفتہ رفتہ برصغیر کے مسلمانوں میں بھی آگئیں۔ نعوذ باللہ من ذلک ۔ ماہ صفر میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا بیمار ہونا:عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ماہ صفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تھے، اس لحاظ سے بھی ماہ صفر منحوس ہو سکتا ہے۔ حالانکہ یہ ماہ صفر کے منحوس ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج اقدس ماہ صفر میں بگڑا تھا، اس کا یہ معنی نہیں کہ ماہ صفر کی وجہ سے بگڑا تھا۔ اس ماہ میں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار نہ بھی ہوتے تو کسی نہ کسی ماہ میں بیمار ہوتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا سبب بنتا۔ ماہ صفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیمار ہونا صفر کی نحوست کی دلیل ہو سکتی ہے تو ماہ ربیع الاول بھی بدرجہ اولیٰ منحوس ہو گا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس ماہ میں واقع ہوئی اور یہ کسی ادنیٰ مسلمان کا بھی عقیدہ نہیں ہے کہ ماہ ربیع الاول منحوس مہینہ ہے۔ بلکہ وہ سب مسلمانوں کے ہاں مبارک و مسعود مہینہ ہے۔ اب معلوم ہوا کہ نحوست کسی سال یا دن یا ماہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ جہاں کہیں ایمان اور عمل صالح خارج ہو جاتا ہے وہاں یقینا اس کو نحوست گھیر لیتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: {مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاء فَعَلَيْهَا } (15) سورة الجاثية ” یعنی جو کوئی اچھا کام کرے گا اس کا فائدہ اسی کے لئے ہو گا اور جو خرابی کرے گا اس کا وبال بھی اسی پر ہو گا۔ “ آخری چہار شنبہ:آخری چہار شنبہ صفر کے مہینے میں آتا ہے۔ عموماً لوگ اس میں عید مناتے ہیں، غسل کرتے ہیں اور اچھے کپڑے پہنتے ہیں اور تفریح کے لئے اپنے گھروں سے نکل جاتے ہیں اور ہریالی اور سبزہ پر قدم رکھنا سعادت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام باتیں اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ جواب میں یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صفر کے آخری چہار شنبہ میں افاقہ ہوا تھا۔ حالانکہ یہ افاقہ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا پیش خیمہ تھا۔ بہرحال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر انبیاءکی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف رخصت ہونا ضروری تھا , وہ کام اللہ کی رضا مندی کے تحت وجود میں آگیا, اس کا تعلق سعادت یا نحوست سے کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا مسلمان ان عقائد باطلہ سے محفوظ رہیں اور صرف کتاب و سنت سے جو باتیں ثابت ہوتی ہیں ان کو اپنا لائحہ عمل بنائیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام مسلمانوں کو سنت کی راہ پر ہمیشہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور شرک و بدعت سے ہم سب کو بچائے۔ آمین وصلى اللہ وسلم على نبینا محمد وسلم |