×
انسان پر اللہ کا کرم ہے کہ اسنے ایسے ایام وزمانے مقرر کئے جن میں بندہ اپنے رب کی عبادت کرکے نیکیوں میں اضافہ کرسکتا ہے اور گنا ہوں سے توبہ کرکے رب کی رحمت کا مستحق بن سکتا ہے , محرم الحرام کا مہینہ بھی انہیں میں سے ایک ہے جسکی دسویں تاریخ کوخاص اہمیت و فضیلت حاصل ہے جسکے اندر روزہ رکھنے سے سال گزشتہ کے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں.زیر نظرمضمون میں اسی یوم عاشوراء کی فضیلت کا مختصر بیان ہے.

یوم عاشوراء کی فضیلت

﴿ فضل يوم عاشوراء ﴾

]Urdu [ أردو- الأردية -

ترتیب

حافظ عبد المحسن حسین

مراجعہ

شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی

ناشر

2009 - 1430

﴿فضل يوم عاشوراء ﴾

[باللغة الأردية]

الجمع والترتيب

الحافظ عبد المحسن حسين

مراجعة

شفيق الرحمن ضياء الله المدني

الناشر

2009 - 1430

یوم عاشوراء کی فضیلت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی اشرف الانبیاءوالمرسلین نبینا محمد وعلیٰ آله وصحبه اجمعین وبعد :

اللہ کا اپنے بندوں پر انعام ہے کہ ایام و شھود کی گردش کے ساتھ ان کے لیے یکے بعد دیگرے نیکی کے مواسم لے کر آتا ہے تا کہ ان کو پورا اجر دے اور انہیں فضیلت میں زیادہ کر دے۔
پس یونہی حج کا موسم گزرتا ہے تو اس کے بعد ایک عزت والا مہینہ آتا ہے اور وہ اللہ کا مہینہ محرم ہے۔

امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((أفضل الصيام بعد شهر رمضان شهر الله الذي تدعونه المحرم وأفضل الصلاة بعد الفريضة قيام الليل ))
” ماہ رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے (محرَّم) کے ہیں اور افضل ترین نماز فرض نمازوں کے بعد رات کا قیام ہے۔ “

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا محرم کو اللہ كا مہینہ کہنا اس کے شرف و فضیلت کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض مخلوقات کو بعض خصائص کے ساتھ مختص کیا ہے اور ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔

((وقال الحسن البصري رحمه الله : إن الله افتتح السنة بشهر حرام واختتمها بشهر حرام , فليس شهر في السنة بعد شهر رمضان أعظم عند الله من شدة تحريمه))

” حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سال کا آغاز حرمت والے مہینے سے کیا۔ اور اختتام بھی حرمت والے مہینے سے کیا ہے۔ پس سال بھر میں رمضان کے بعد اللہ کے ہاں شدت حرمت کے حوالے سے (ماہ محرم سے بڑھ کر) اور کوئی مہینہ نہیں ہے۔ “

 یوم عاشوراءاور اس کے روزے کی فضیلت :

یوم عاشورا اور اس کے روزے کی فضیلت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ احادیث وارد ہیں ان میں سے برسبیل مثال ہم بعض كو ذکر کریں گے۔

صحیحین میں ابن عباس رضي الله عنهما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جن دنوں کو دوسرے دنوں پر اللہ نے فضیلت دی ہے ان دنوں کے روزوں کے آپ بہت متمنی ہوتے تھے یعنی یوم عاشورا اور رمضان کے روزوں کے۔ (صحیح البخاری ، حدیث : 2006 ) جیسے ہم پہلے ذکر کر چکے کہ یوم عاشورا کی عظمت و فضیلت اور حرمت قدیم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام اس دن کی فضیلت کی وجہ سے اس کا روزہ رکھتے۔ اور اسی پر بس نہیں بلکہ اہل کتاب میں بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور اسی طرح قریش بھی جاہلیت میں اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں یوم عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے لیکن لوگوں کو اس کا حکم نہیں دیا مگر جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل کتاب کو اس دن کا روزہ رکھتے اور اس کی تعظیم کرتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور تاکیداً لوگوں کو اس کے روزے کا حکم دیا اور ان کو ابھارا یہاں تک کہ لوگ اپنے بچوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھواتے تھے۔

صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں قدم رنجہ ہوئے تو آپ نے یہود کو اس دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو آپ نے ان سے پو چہا:یہ کون سا دن ہے جسکی وجہ سے تم روزہ رکھتے ہو؟ تو انہوں نے کہا :کہ اللہ نے اس دن موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی ۔ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تو موسیٰ نے اللہ کے شکر کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا۔ پس ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((فنحن احق واولٰی بموسیٰ منکم)) ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں۔ پھراس دن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا۔

صحیحین میں ربیع بنت معوذ کی حدیث ہے ، کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراءکی صبح انصار کی بستیوں کی طرف اپنا ایک قاصد بھیجا کہ تم میں سے جو کوئی روزہ سے ہے وہ اپنے روزے کو پورا کرے اور جس نے روزہ نہیں رکھا وہ باقی دن کو (روزہ دار کی طرح) پورا کرے۔ اس کے بعد ہم اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھوایا کرتے تھے اور جب مسجد جاتے تو بچوں کے لیے روٹی کے بنے ہوئے کھلونے لے جاتے جب کوئی بچہ کھانے کی وجہ سے روتا تو ہم اسے یہ کھلونا دے دیتے۔ یہاں تک کہ افطاری کا وقت ہو جاتا۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب بچے ہم سے کھانا مانگتے تو ہم ان کو کھلونے دے کر مشغول کر دیتے یہاں تک کہ وہ اپنا روزہ پورا کر لیتے تھے۔

جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یوم عاشوراءکے روزے کا حکم اور تاکید ترک کر دی تھی۔ جیسا کہ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراءکا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا پس جب رمضان فرض ہو گیا تو آپ نے اس کو ترک کر دیا (یعنی اس کا حکم ترک کر دیا اور استحباب باقی رکھا)

صحیحین میں ہی معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
((ھذا یوم عاشوراءولم یکتب اللہ علیکم صیامه وانا صائم ، فمن شاءفلیصم ومن شاءفلیفطر))

” یہ عاشوراءکا دن ہے اللہ نے تم پر اس کا روزہ فرض قرار نہیں دیا اگرچہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ پس تم میں سے جو چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے چھوڑ دے۔ “ (صحیح البخاری ، حدیث : 2003 )

((وھذا دلیل علیٰ نسخ الوجوب وبقاءالاستحباب)) ” اور یہ حدیث وجوب کے منسوخ ہونے اور استحباب کے باقی رہنے کی دلیل ہے۔ “

یہ بھی ماہ محرم کے فضائل میں سے ہے کہ یوم عاشوراءکا روزہ رکھنے سے گزشتہ سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابوقتادہ سے ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عاشوراءکے روزے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا :
((أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله)) ” میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ یوم عاشوراءکا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ “

 اے میرے مسلمان بھائی و بہن !:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ آئندہ سال ہم ایک روزہ نہیں رکھیں گے بلکہ اہل کتاب کی مخالفت میں اس کے ساتھ ایک اور دن کا روزہ رکھیں گے۔

صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہتے ہیں کہ
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراءکا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول یہود و نصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((فاذا کان العام المقبل ان شاءاللہ صمنا التاسع))

” آئندہ سال ان شاءاللہ ہم نو محرم کا بھی روزہ رکھیں گے۔ “

یعنی اہل کتاب کی مخالفت میں دس کے ساتھ نو کا بھی روزہ رکھیں گے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ آئندہ سال تو آیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دار فانی سے رحلت فرما گئے۔
ابن قیم رحمہ اللہ زادالمعاد 76/2 میں فرماتے ہیں۔ روزے کے تین مراتب ہیں :
1۔ کامل ترین مرتبہ یہ ہے کہ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد میں روزہ رکھا جائے۔
2۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ نو اور دس کا روزہ رکھا جائے اور اکثر احادیث اسی پر ہیں۔
3۔ یا صرف دس محرم کا ہی روزہ رکھا جائے۔
سب سے بہتر یہ ہے کہ نو ، دس اور گیارہ کا روزہ رکھا جائے یہاں تک کہ یوم عاشوراءکے روزے کو پا لیا جائے۔

 اس دن میں واقع ہونے والی بدعات و مخالفات :

اے میرے مسلمان بھائی!
یہ بات آپ کو معلوم ہونی چاہیے کہ کوئی بھی عمل اس وقت تک مشروع نہیں ہوتا جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو۔
اس دن واقع ہونے والی بدعات و مخالفات میں سے سرمہ لگانا ، خضاب لگانا ، غسل کرنا ، اہل و عیال پر دل کھول کر خرچ کرنا ، اور خاص طور پر اس دن کھانا وغیرہ پکانا ان تمام امور کے بارے میں وارد احادیث ضعیف اور موضوع ہیں۔

اسی طرح لوگ اس دن جو بدعات کرتے ہیں ان میں سے اس دن مخصوص دعا کرنا ، اہل بدعت کے ہاں معروف عاشوراءکادم اور رافضہ اس دن جو کام کرتے ہیں شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
اسی طرح ھجری سال کی ابتداء پر محفلوں کا اہتمام کرنا ، تحفہ و تحائف تقسیم کرنا اور اس دن کو عید شمار کرنا منکرات اور بدعات محرم میں سے ہے۔ نیز اس دن خاص اہتمام کے ساتھ قبرستان جانا ، قبروں پر مٹی ڈالنا ، پانی چھڑکنا ، جانوروں کے لیے دانہ وغیرہ ڈالنا اور قبروں پر درختوں کی سبز ٹہنیاں لگانا بھی بدعات محرم میں سے ہے قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل اور ثبوت نہیں ہے۔ (از مترجم)

 نیا سال اور محاسبہ نفس :

نئے ھجری سال کی ابتدا پر ایک مسلمان کو جلدی اور دقت نظری سے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے محاسبہ کا یہ عمل طریق نجات اور سبیل ہدایت ہے۔ پس عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور مرنے کے بعد کے لیے کچھ عمل کر لے اور ذہین آدمی وہ ہے جو خیر کے راستے سے لگا رہے اور اپنے آپ کو لبادہ شریعت پہنائے رکھے۔

اور انسان کبھی بھی دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتا اگر وہ نیکوکار ہے تو اس کی نیکیوں میں اضافہ ہو گا اور اگر خطا کار ہے تو نادم ہو اور توبہ کرے۔
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ (الحشر : 18 )
” اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ لے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا ہے۔ “

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور دیکھو کہ تم نے یوم آخرت اور اپنے رب کے سامنے حاضری کے نیک اعمال سے اپنے لیے کیا ذخیرہ کیا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ نے بڑے خوبصورت انداز میں محاسبہ نفس کا طریقہ اور اس کی کیفیت بیان کی ہے جسکا حاصل یہ ہے کہ پہلے فرائض پر محاسبہ کرے اگر فرائض کی ادائیگی میں کمی پائے تو قضا یا اصلاح کرکے اس کا تدارک کرے پھر منہیات پر محاسبہ کرے اگر معلوم ہو کہ منہیات کا مرتکب ہوا ہے تو توبہ و استغفار اور نیکیوں سے اس کا تدارک کرے ۔ پھر غفلت پر اپنا محاسبہ کرے۔ اگر مقصد تخلیق سے اپنے آپ کو غافل پائے تو ذکر و اذکار اور اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اس کا تدارک کرے۔

اے میرے مسلمان بھائی!
اس نئے سال کی شروعات توبہ اور اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے ساتھ کیجئے۔ تیرے سامنے تیرا صاف و شفاف اعمال نامہ ہے جس پر ابھی تک کچھ نہیں لکھا گیا اللہ! اللہ! تو اسے معاصی و گناہ سے سیاہ کرے گا ، اپنا محاسبہ کر قبل اس کے کہ تیرا محاسبہ کیا جائے۔ کثرت سے اللہ کا ذکر اور استغفار کر۔ صحبت صالح اختیار کر ، نیکی کی کوشش کر جو خیر کی طرف تیری راہنمائی کرے, اللہ تعالیٰ اس سال کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے خیر کا سال بنائے ، حسن اطاعت اور گناہوں سے دوری کی وجہ سے ہماری عمروں کو لمبا کر دے اور ہماری مہلت کو بڑھا دے اور ہمیں ان لوگوں میں سے کر دے جو جنت میں باغات کے وارث ہوں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔

وصلی اللہ وسلم علیٰ نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم۔