مدینہ منورہ میں بدعت اللہ کی لعنت کا موجب
زمرے
Full Description
مدینہ طیبہ میں بدعت اللہ تعالى کی لعنت کا موجب
﴿ الإحداث في المدينة المنورة سبب للعنة الله عز و جلّ ﴾
]urdu [ أردو- الأردية -
ترتیب
محمد منير قمر
مراجعہ
شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
ناشر
2009 - 1430
﴿الإحداث في المدينة المنورة سبب للعنة الله عز و جلّ﴾
[باللغة الأردية]
الجمع والترتيب
محمد منير قمر
مراجعة
شفيق الرحمن ضياء الله المدني
الناشر
2009 - 1430
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مدینہ طیبہ میں بدعت اللہ تعالى کی لعنت کا موجب
ترتیب: محمد منیر قمر- الخبر
(ماخوذ از: أردو نیوز جدہ ,جمعہ/17ذوالحجہ 1430ھ)
یوں تو"طوافِ وداع" کے ساتھ ہی حج وعمرہ کے تمام مناسک ,فرائض وواجبات پورے ہوجاتے ہیں- ان میں کسی قسم کی کوئی کمی یا نقص باقی نہیں رہ جاتا- مدینہ طیبہ,مسجد نبوی وحجرہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم اور روضہ شریفہ کی زیارت حج کا حصہ یا رکن تو نہیں مگراسکا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ اس مقدس سفرکے دوران مدینہ طیبہ جانا ہی نہیں چاہئے –تکمیل حج کے بعد مدینہ طیبہ بھی جائیں کیونکہ یہی وہ شہرہے جہاں مسجد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم ہے-
اس میں نماز پڑھنے کی نیت کرکے اورحصول ثواب کی غرض سے شد رحال (سفرکرنا) موسم حج اورغیرموسم حج ہروقت ہی جائز ہے جیساکہ صحیح بخاری ومسلم اورابوداؤد میں ارشاد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم ہے" (حصول ثواب کی غرض سے ) صرف تین مسجدوں کی طرف سفرکرکے جانا جائز ہے- مسجد حرام,میری مسجد( یعنی مسجد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم) اورمسجد اقصى"
لہذا مدینہ منورہ کے سفرکا ارادہ کریں تودل میں نیت مسجد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہی ہونی چاہئے-
جب آپ مسجد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم میں پہنچ جائیں تو پھرحجرہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم اورروضہ شریفہ کی زیارت بھی مشروع ہے- اس طرح سفرکرنے سے مذکورہ ارشاد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی نہ ہوگی اور دیگرشبہات کا ازالہ بھی خود بخود ہوجائے گا-
مسجد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم میں ایک نماز کا ثواب صحیح بخاری ومسلم کی ایک حدیث کی رو سے عام مساجد میں پڑھی گئی ایک ہزارنماز سے زیادہ ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم ہے" میری اس مسجد میں ایک نماز کا ثواب مسجد حرام کوچھوڑکردوسری تمام مساجد سے ایک ہزارگُنا زیادہ ہے" جبکہ سنن ابن ماجہ کی ایک روایت جوکہ متکلّم فیہ ہے اسمیں تو پچاس ہزارنمازوں کے ثواب کا ذکربھی ہے مگروہ ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے- ویسے صحیح بخاری ومسلم میں مذکور ایک ہزارنماز کا ثواب بھی کیا کم ہے-
حجرہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم:
مدینہ طیبہ ہی وہ شہرہے جہاں سرورکائنات, حضرت محمد رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا حجرہ طیبہ ہے جسمیں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی آخری آرامگاہ ہے جہاں مسجد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم میں تحیۃ المسجد پڑہ لینے کے بعد بہ صد ہزارجان درودوسلام پڑھنا چاہئے-
روضہ شریفہ:
مدینہ طیبہ ہی وہ شہرہے جسمیں"روضہ شریفہ"ہے جس کے بارے میں صحیح بخاری ومسلم میں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے "میرے گھرارومیرے منبرکا درمیانی قطعہ ارضی جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے "-
نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے جس مقام کو"روضہ" کا نام دیا وہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے گھر اورمنبرکے مابین والی جگہ ہے جسکے ستونوں پرسفید سنگ مرمرلگا کرنمایاں اور ممتاز کیا گیا ہے کیونکہ باقی ستون وہاں سرخ سنگ مرمرکے ہیں لیکن آج اس مقام کوتو" روضہ " کے نام سے شاید تھوڑے ہی لوگ جانتے ہیں – عوام الناس توصرف نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی قبرمقدس پرمشتمل حجرہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم کوہی روضہ شریفہ سمجھتے ہیں جبکہ وہ حجرہ شریفہ ہے جوکہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا گھرہواکرتا تھا اورآپ صلى اللہ علیہ وسلم کی قبرمقدس اسی جگہ ہے-
جب مدینہ طیبہ پہنچیں توجہاں قیام کا ارادہ ہووہاں اپنا سامان وغیرہ رکھیں- نہا دھوکراورباوضو مسجد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم کا رخ کریں- مسجد کے پاس پہنچنے پرپہلے اپنا دایاں پاؤں مسجد کے اندررکھیں اورصحیح مسلم ,ابوداؤد,ترمذی اورابن ماجہ میں مذکوریہ دعا کریں:
((بسم الله والصلوة والسلام على رسول الله ,أعوذ بالله العظيم وبوجهه الكريم وبسلطانه القديم من الشيطان الرجيم – اللهم افتح لي أبواب رحمتك ))
"اللہ کے نام سے, درود وسلام ہوں اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم پر, میں عظمت والے اللہ ,اسکے رخِ کریم اورسلطان قدیم کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے- اے اللہ ! میرے لئے اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے!"-
یہ پوری دعاء یاد نہ ہوتو کم ازکم اسکا آخری حصہ (اللهم افتح لي أبواب رحمتك) ضرور پڑھ لیں-
مسجد میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کریں کہ تحیۃ المسجد کی دورکعتیں اداکریں اوربہترہوکہ یہ دورکعتیں روضۃ الجنۃ میں ادا کی جائیں (التحقیق والایضاح)- جسکی خاص نشانی ذکرکی جاچکی ہے کہ اتنی جگہ کے تمام ستون سفید سنگ مرمرکے ہیں جبکہ اس کے ارد گرد پرانی تعمیرکے ستون لال رنگ کے ہیں-
درودوسلام:
تحیۃ المسجد سے فارغ ہوکرحجرہ اقدس صلى اللہ علیہ وسلم پرحاضرہوں اورمحسن انسانیت ,نبی رحمت صلى اللہ علیہ وسلم پرکمالِ ادب اورجوش محبت کے ساتھ درودوسلام پڑھیں کیونکہ قرآن کریم میں اسکا حکم دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد الہی ہے" اے ایمان والو! آپ( صلى اللہ علیہ وسلم ) پردرودوسلام پڑھو"( الأحزاب:56) پھرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی قبرپرسلام کہیں جوکہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی آسودہ خاک ہیں اورپھرحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی قبرپرسلام کہیں کہ وہ بھی ساتھ ہی یکے ازآسودگان ہیں اورآپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ان دونوں صاحبین کے لئے دعاء بھی کریں اورہرایک کے لئے رضی اللہ عنہ وأرضاہ کہیں-
یہاں بعض امورکی طرف توجہ مبذول کروانا مناسب معلوم ہوتا ہے:
یہ کہ یہاں کسی خاص ہیئت کے اختیارکرنےکی ضرورت نہیں بلکہ ادب ومحبت سے آئیں اورصلوۃ وسلام کریں-
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں جولکھا ہے کہ" آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے سامنے کھڑا ہو....." اس ہیئت کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں اورنماز کی طرح ہاتھ باندھ کرکھڑے ہونا اورسلام کرنا بھی ناجائز ہے( التحقیق والایضاح لابن باز)
وہاں کیلئے کوئی مخصوص دعاء وسلام ثابت نہیں-
امام غزالى نے ہی اپنی کتاب میں جو2،3 صفحات پرمشتمل صلوۃ وسلام اوردعاءوسلام ذکرکئے ہیں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں –
وہاں حضرت عبد اللہ بن عمرکے عمل سے جوثابت ہے وہ صرف یہ ہے :
((السلام علیکم یا رسول اللہ!))"
اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم ! آپ صلى اللہ علیہ وسلم پرسلامتی ہو"-
((السلام علیک یا أبا بکر!))
"اے ابوبکررضی اللہ عنہ!آپ پرسلامتی ہو"
((السلام علیک یا أبتاہ))
"اے ابا جان!آپ پرسلامتی ہو"
وہ اتنا کہتے اورچل دیتے تھے (بحوالہ التحقیق والایضاح لابن باز)
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی اس اثرکے پیش نظراگرکوئی شخص یہ کہ لے تومضائقہ نہیں:
((السلام عليك يا رسول الله ورحمة الله وبركاته))
"اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم !آپ پرسلامتی ہو,اللہ کی رحمت اوراسکی برکتیں نازل ہوں"
حجرہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی دیواروں اورجالیوں کوچھونا,انھیں چومنا اوراسکا طواف کرنا جائزنہیں-
بعض لوگ توجالیوں یا دیواروں کوچھونے کے بعد پھراپنے ہاتھوں کواپنے منہ اورسینے پرملتے ہیں اورآنکھوں پرلگاتے ہیں – حب رسول صلى اللہ علیہ وسلم کایہ معیارشرعی نہیں بلکہ مصنوعی ہے –
بالفاظِ دیگردرآمدہ ہے کیونکہ خود امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس چوما چاٹی پرنکیرکرتے ہوئے لکھا ہے:" یہ یہودونصاری کی عادت ہے"(احیاء علوم الدین) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی فتوى ہے (مجموع الفتاوى) امام نووی اورابن قدامہ نے بھی ان امورکوناجائزہی لکھا ہے (شرح المھذب للنووى والمغنى لابن قدامة)
بریلوی مکتب فکرکے بانی مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے بھی ان امورکومنع قراردیا ہے چنانچہ وہ "أنوارالبشارات فی مسائل الحج والزیارات" صفحہ 29 پرلکھتے ہیں "خبردار! جالی شریف کوبوسہ دینے اورہاتھ لگانے سے بچو کیونکہ یہ خلاف ادب ہے بلکہ چارہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاؤ" اورآگے صفجہ 74پرلکھتے ہیں "روضہ انورکا نہ طواف کرو,نہ سجدہ ,نہ اتنا جکھوکہ رکوع کے برابرہو, رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی تعظیم انکی اطاعت ہے"-
اوراحکام شریعت حصہ سوم میں لکھتے ہیں "بلا شبہ غیرکعبہ معظمہ کا طوافِ تعظیمی ناجائز ہے اورغیراللہ کوسجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے"( بحوالہ تعلیمات شاہ احمد رضا خاں بریلوی ص 19,ازمولانا محمد حنیف یزدانی رحمۃ اللہ علیہ ,طبع مکتبہ نذیریہ ,لاہور)
اسی طرح ہی مقتدرعلماء ومحقیقینِ احناف (دیوبندی مکتبِ فکر) نے بھی مذکورہ امورکوناجائزگردانا ہے چنانچہ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ "شرح مناسک الحج" میں لکھتے ہیں:" (نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی قبرمقدس کے) بقعہ شریفہ کے گرد طواف نہ کیا جائے کیونکہ یہ طواف صرف کعبہ شریف کا ہی خاصہ ہے- پس انبیاء واولیاء کی قبورکے گرد طواف کرنا حرام ہے- ان جاہلوں کے فعل کا کوئی اعتبارنہیں ہوگا جوکہ بظاہرمشائخ وعلماء ہی نظرآتے ہیں (اوران افعال کا ارتکاب کرتے ہیں) "ایسے ہی معراج الدرایة صفحہ 124 اورعینی شرح ھدایہ جزء دوم ص 136 پرمذکورہے" اگرکعبہ شریف کے سوا کسی مسجد کا بھی طواف کرلیا تواسمیں کفرکا خطرہ ہے "
شرح عین المعلم میں علامہ قاری لکھتے ہیں " کسی قبر,تابوت اوردیوارکونہ چھواجائے کیونکہ ان کاموں کی ممانعت توقبرنبوی صلى اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہے توپھردوسرے لوگوں کی قبروں کیلئے یہ کیسے جائزہوں گے؟ اورنہ کسی قبرکوبوسہ دیا جائے یہ توچھونے سے بھی زیادہ براہے- بوسہ دینا توصرف حجراسود کے ساتھ خاص ہے"-
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جوتقریبا ہرمکتب فکرکے ہاں بڑی محبت واحترام سے دیکھے جاتے ہیں بالخصوص فاضل بریلوی نے موصوف کواپنی تصنیفات میں بڑے اچھے لفظوں سے یاد کیا ہے اورانہیں "شیخ محقق" کا خطاب دیا ہے – انہوں نے تاریخ وفضائل مدینہ کے موضوع پراپنی کتاب" جذب القلوب الی دارالمحبوب" صفحہ 171 پرلکھا ہے" (آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی قرشریف پرحاضرہوکر) سجدہ نہ کرے اوراپنا منہ خاک پرنہ ملے اورجالی شریف کونہ چومے اورجوایسے خلاف شرع امورہیں ان سے اجتناب کرے اگرچہ وہ ظاہربینوں کی نظرمیں ادب کی قبیل سے معلوم ہوتے ہیں لیکن اس بات کا یقین رکھئے کہ حقیقتِ ادب آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی اتباع وفرمانبردای میں ہے اورجواس باب سے نہیں وہ توہم وباطل ہے"(بحوالہ تعلیمات شاہ احمد رضاخاں بریلوی)-
صلوۃ وسلام کے وقت یہاں زیادہ دیرتک رکے رہنا اوربھیڑکا سبب بننا جس کے نتیجہ میں شورپیدا ہو, یہ بھی درست نہیں کیونکہ یہ ادب گاہِ عالم ہے یہاں آوازوں کوپست رکھنا ضروری ہے-
قرآن کریم میں سورہ حجرات کی آیت 2 میں ارشاد الہی ہے" نبی کی آوازسے اپنی آوازوں کواونچا مت کرو" اس ارشاد الہی پرآپ صلى اللہ علیہ وسلم کی موت وحیات ہردوشکلوں میں ہی عمل کریں کہ اسمیں احترام رسالت پنہاں ہے (التحقیق والایضاح لابن باز)
جب صلوۃ وسلام سے فارغ ہوجائیں توقبلہ رو ہوکراللہ تعالى سے دین ودنیا کی بھلائیوں کی دعائیں مانگیں-
بعض لوگ جوشِ محبت میں ہوش کا دامن چھوڑدیتے ہیں اورمذکورہ بالاناجائزامورکے ارتکاب کے ساتھ ساتھ دعاء مانگتے وقت بھی قبلہ روہونے کی بجائے قبرشریف کی طرف ہی منہ کئے رہتے ہیں حالانکہ یہ صحیح نہیں- دعاء قبلہ روہوکرہونی چاہئے-ایسے امورکوبدعات کہا جاتا ہے –
سفرحج وعمرہ پرروانگی سے لے کرواپسی تک سے تعلق رکھنے والی بدعات کی فہرست خاصی طویل ہے حتى کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مناسک الحج والعمرۃ میں ایسی 176 بدعات ذکرکی ہیں – اس کتاب کا ترجمہ کئی سال پہلے راقم الحروف نے کیا تھا-
بدعات کی مذمت تونبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے ویسےہی بہت کی ہے, صحابہ کرام ,تابعین وائمہ عظام اوربعد کے علماء نے بھی انکی سخت مذمت کی ہے- اگرایسے افعال کا ارتکاب خاص مدینۃ الرسول صلى اللہ علیہ وسلم میں کیا جائے توظاہرہے کہ یہ معاملہ انتہائی خوف ناک انجام کا سبب بن سکتا ہے جسکا اندازہ اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ صحیح بخاری ومسلم میں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
" جس نے اس (مدینہ منورہ) میں کوئی بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتى کوپناہ دی – اس پراللہ تعالی ,فرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت ہو, اس سے اسکی کوئی توبہ وفدیہ یا فرضی ونفلی عبادت قبول نہ کی جائے گی-
مسجد قباء:
مدینۃ الرسول صلى اللہ علیہ وسلم میں قیام کے دوران مسجد قباء میں کسی وقت دورکعتیں ضرورپڑھ لیں کیونکہ ترمذی ونسائی ,ابن ماجہ اورمسند احمد میں ارشاد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم ہے"جوشخص گھرسے وضوکرکے آئے اورمسجد قبا میں نماز(دورکعتیں) اداکرے اسے ایک عمرے کا ثواب ملتا ہے" صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے "نبی صلى اللہ علیہ وسلم قباء کی زیارت کیلئے کبھی پیدل اورکبھی سوارہوکرجایا کرتے تھے (اورایک روایت میں ہے) وہاں دورکعتیں پڑھا کرتے تھے"-
ضمیمہ
جنت البقیع اورشہداء اُحد کی زیارت کے آداب
قیام مدینہ کے دوران مسجد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم میں پنجگانہ نماز باجماعت کی پابندی کریں اورمسجد نبوی صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی جنت البقیع ہے-اسکی زیارت کیلئے جائیں توصحیح مسلم میں مذکوریہ دعاء اہل بقیع کیلئے کریں:
((السلام عليكم دارقوم مؤمنين, وأتاكم ما توعدون غداً مؤجلون,وإنا ان شاء الله بكم لاحقون, اللهم اغفرلأهل بقيع الغرقد))
"اے مومن لوگو! تم پرسلامتی ہو اورتمہیں وہ مل گیا ہے جس کا تم سے وعدہ تھا اورجب اللہ نے چاہا ہم بھی تم سے آملیں گے,اے اللہ! بقیع الغرقد کے آسودگان کی مغفرت فرما"
اورصحیح مسلم کی ہی دوسری روایت میں ہے:
((السلام على أهل الديارمن المؤمنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء الله بكم للاحقون))
"اے اس شہرخاموشاں کے مومن ومسلمان باسیو! تم پرسلامتی ہو – اللہ تعالى ہم میں سے پہلے چلے جانے اورپیچھے رہ جانے والوں پررحم فرمائے اوران شاء اللہ ہم بھی آپ سے ضرورآملیں گے"
اس دعاء کے آخری الفاظ"اللہم اغفرلأھل بقیع الغرقد" چھوڑکرمذکورہ دونوں صیغوں پرمشتمل یا کوئی ایک دعاء وسلام شہدائے اُحد پربھی پڑھیں اورچاہیں توعام قبرستانوں میں پڑھی جانے والی یہ دعاء کرلیں جومسلم شریف میں مذکورہ سابقہ دونوں دعاؤں کے آگے ہی درج ہے:
((السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء الله بكم للاحقون ,أسئل الله لنا ولكم العافية))-
"اے شہرخاموشاں کےمومن ومسلمان باشندو! تم پرسلامتی ہواورہم بھی ان شاءاللہ (تم سے) آملیں گے – ہم اپنے اورتمہارے لئے اللہ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں"-
مذکورہ مقامات اور زیارتوں کے علاوہ مدینہ طیبہ اوراسکے گردونواح میں کتنی ہی تاریخی یا د گاریں – اسی طرح مکہ مکرمہ کے قرب وجوارمیں بھی ایسے ہی مقامات موجود ہیں جن کی شرعی نقطہ نظرسے تونہیں البتہ تاریخی نقطہ نظرسے زیارت کی جاسکتی ہے – اس صورت میں یہ ضروری نہیں کہ جہاں بھی جائیں وہیں دورکعتیں ضرورہی پڑھیں کیونکہ یہ التزام قطعاً ثابت نہیں اورجہاں کچھ ثابت ہے وہ ہم نے ذکرکردیا ہے-