اعتكاف كی فضیلت اوراسکے شروط وآداب
زمرے
Full Description
اعتكاف کی فضیلت اوراسکے آداب وشرائط
﴿ الاعتكاف : فضله وآدابه وشروطه ﴾
[ أردو- الأردية - urdu]
ترتیب
عبد المجید مدنی
مراجعہ
شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
ناشر
م2009 - ھ1430
﴿ الاعتكاف:فضله وآدابه وشروطه ﴾
(باللغة الأردية)
الجمع والترتيب
الشيخ/عبد المجيد المدني
مراجعة
شفيق الرحمن ضياء الله المدني
الناشر
م2009 - ھ1430
سم الله الرحمن الرحيم
اعتكاف
لغوي معنى:
لفظ اعتکاف باب اعتکف یعتکف (افتعال) کا مصدرہے جسکا لغوى معنى ہے کسی چیزسے چمٹ جانا اوراپنے نفس کواس پرروکے رکھنا خواہ وہ چیزاچھی ہو یا بری-
اللہ تعالى کا ارشاد ہے:( وانظرإلى الھلک الذی ظلت علیھ عاکفا) (طہ:97)
"اپنے معبود کودیکھوجس کی عبادت پرتم جمے رہے تھے"-
شرعى معنى:
اللہ تعالى کی قربت حاصل کرنے کی نیت سے مسجد کولازم کرلینا اوراسی میں ٹھرنا-(تحفۃ الاحوذی 3,501)
مشروعیت:
ماہ رمضان اورغیررمضان میں اعتکاف سنت ہے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے" من اعتكف يوما ابتغاء وجه الله تعالى جعل الله بينه وبين النارثلاث خنادق كل خندق ابعد ما بين الخافقين"(شعب الايمان ضعفه الألباني في صحيح الجامع الصغير662)
اللہ تعالى کی رضا وخوشنودی کے خاطرایک دن بھی کوئی اعتکاف میں بیٹھاتواللہ تعالى اسکے اورعذاب جہنم کے مابین تین خندقوں کوحائل کردے گا ایک خندق کا دوسری خندق سے فاصلہ بعد المشرقین سے بھی زیادہ ہوگا-
معلوم ہوا کہ اعتکاف ایک دن کا بھی درست اورجائزہے ہاں مگرمسجد میں ,کیونکہ مسجد کے سوا اورمقام میں رہنے کوشرعا اعتکاف نہیں کہتے –
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے شوال کے آخری عشرہ کا بھی اعتکا ف ثابت ہے- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں... فترک الاعتکاف ذالک الشھرثم اعتکف عشرامن شوال "(صحیح بخاری- الاعتکاف : 6 حدیث:2033,صحیح مسلم حدیث :1173,ابوداود76حديث رقم:2464)
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ (یعنى ماہ رمضان) کا اعتکاف چھوڑدیا اورشوال کے عشرے کا اعتکاف کیا-
مذکورہ حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اعتکاف غیررمضان میں بھی جائزاوردرست ہے لیکن اتنی بات ضرورہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف زیادہ افضل ہے اسی ناطے آپ صلى اللہ علیہ وسلم ہرسال رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے-
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالى عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں:"أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشرالأواخرمن رمضان حتى توفاه الله حتى اعتكف ازواجه من بعده"(صحيح بخارى-الاعتكاف:1,2026,صحيح مسلم حديث 1173,ابوداود76حديث رقم :2462)
"نبی صلى اللہ علیہ وسلم رمضا ن کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے حتى کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے پھرآپ صلى اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتیں"-
حدیث مذکورہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ عورت بھی اعتکاف کرسکتی ہے ہاں مگرشوہرکی اجازت کے بعد-
واضح رہے کہ خواتین بھی مساجد میں ہی اعتکاف کریں گی کیونکہ شریعت میں اعتکاف کے متعلق جوحکم واردہوا ہے اسمیں مسجد کی صراحت ہے اوریہ حکم دونوں کویکساں شامل ہے-الا یہ کہ عورت کیلئے کوئی مخصوص حکم الگ سے شامل ہواورایسا کوئی حکم عورتوں کے تعلق سے الگ سے شریعت میں موجود نہیں ہے اورنہ ہی کسی حدیث سے یہ ثابت ہے کہ عہد رسالت میں عورتوں نے گھروں میں اعتکاف کیا ہو –
لہذا دونوں کے درمیان تفریق من مانی ہوگی-
شروط اعتکاف:
· نیت ,نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(إنما الأعمال بالنیات ) صحیح بخاری بدء الوحى حدیث رقم:1,صحیح مسلم الامارۃ حدیث رقم 1907)
"تمام اعمال کا دارومدارنیتوں پرہے "-
v-مسجد: اعتکاف صرف مسجد میں مشروع ہے- اللہ تعالى کا ارشاد ہے : ( ولاتباشروھن وأنتم عاکفون فی الساجد) (البقرۃ:187)
"عورتوں سے اسوقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم اسوقت مسجدوں میں اعتکاف میں ہو"
حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگرمسجد کے علاوہ جگہ میں اعتکاف درست ہوتا تومباشرت کی تخیص آیت کریمہ میں مسجد کے ساتھ نہ ہوتی کیونکہ بیوی سے صحبت بالکل اعتکاف کے منافی عمل ہے-
نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے معمول سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ اعتکاف مسجد میں کیا کرتے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالى عنہا بیان کرتی ہیں "أنھا کانت ترجل النبی صلى اللہ علیہ وسلم وھی حائض وھومعتکف فی المسجد"(صحیح بخاری الاعتکاف :2حدیث 2028,صحیح ابوداؤد2467)
"وہ ایام ماہواری میں رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی مانگ نکالاکرتی تھیں اورآ پ صلى اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوتے-
v -جامع مسجد:اعتکاف والی مسجد کیلئے بعض علماء نے ایک شرط یہ بھی لگائی ہے کہ اسمیں جمعہ ہو,تاکہ معتکف نمازجمعہ کیلئے اس سے باہرنکلنے پرمجبورنہ ہو-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کے سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے-
اس سلسلے میں صحیح اوردرست بات یہ لگتی ہے کہ جس پرجمعہ فرض نہیں وہ ہراس مسجد میں اعتکاف کرسکتا ہے جس میں نمازباجماعت ہوتی ہو,لیکن جس پرجمعہ فرض ہے اسکوایسی مسجد میں اعتکاف کرنا چاہئے جہاں نمازجمعہ بھی ہوتی ہو-
اس سلسلے میں شیخ البانی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ مساجد ثلاثہ یعنى مسجد حرام مسجد نبوی اوربیت المقدس کے علاوہ میں اعتکاف درست نہیں ہے شیخ محترم نے جس روایت سے استدلال کیا ہے علماء اس روایت کوشاذ قراردیتے ہیں-
4-صوم: معتکف کیلئے سنت ہے کہ وہ صوم سے ہوکیونکہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے بغیرصوم کے اعتکاف ثابت نہیں ہے-
لیکن اعتکاف کے لئے اس سے صوم شرط ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ کوئی واضح نص اس بارے میں منقول نہیں – واللہ اعلم
اس کے برخلاف جمہوراہل علم کی رائے یہ ہے کہ بغیرصوم کے اعتکاف درست نہیں (تفصیل کے لئے دیکھیں زادالمعاد 2/87)
انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالى عنہا کے اس قول سے بھی استدلال کیا ہے وہ بیان فرماتی ہیں"لا اعتکاف إلابصوم"(سنن ابوداؤد 2473,مصنف عبدالرزاق 8037)
معتكف ميں داخل ہونے اوراس سے نکلنے کا وقت:
جورمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا چاہے رمضان کی 21/تاریخ کی صبح کوفجرپڑھ کے اپنے معتکف میں داخل ہواورمسجد ہی میں رہے پھروہیں سے نمازعید کیلئے نکلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالى عنہا فرماتی ہیں"کان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم إذا أراد أن یعتکف صلى الفجرثم دخل فی معتکفه"(صحیح بخاری الاعتکاف 6(2033) صحيح مسلم الاعتكاف 2(1172)سنن ابوداؤد 2464)
"رسول صلى اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف بیٹھنے کا ارادہ فرماتے توفجرکی نمازپڑھکرمعتکف میں داخل ہوتے-
مستحبات ومکروہات:
مستحب یہ ہے کہ معتکف مسجد میں ایک حجرہ بنالے اوراسی میں رہے بلاضرورت اس سے نہ نکلے – اس حجرہ میں تزکیہ نفس کرے اوراپنے آپ کونماز,تلاوت قرآن ,تسبیح وتحمید,تہلیل وتکبیر,درودواستغفار,دعا اوردیگراطاعت کے کاموں میں مشغول رکھے عبث وفضول گفتگواورلایعنى باتوں اورکاموں سے اپنے آپ کوبچائے-
رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (من حسن اسلام المرء ترکه مالایعنیہ) (صحیح ترمذی1886,9511,صحيح الجامع الصغير)
"آدمی کے اسلام کی خوبی سے ہے کہ وہ فضول ولایعنى کاموں کوچھوڑدے"-
آج کل چونکہ عام طورپرایمانی لحاظ سے طبیعتوں میں صلاح کی جگہ فساد نے اورعلم کی جگہ جہل نے لے لی ہے اسلئے بعض معتکفین دوران اعتکاف فرصت کے لمحات کوگلہ,شکوہ,غیبت اورچغلى نیزدیگرخرافات کواللہ کے گھرمیں سرانجام دیکرثواب کے بجائے گناہ کماتے ہیں- یہ سب کام توعام حالت میں بھی مناسب نہیں چہ جائیکہ انہیں دوران اعتکاف اختیارکیا جائے-
معتکف کیلئے جائزامور:
معتکف مسجد میں بسترچارپائی استعمال کرسکتا ہے,قضائے حاجت کے لئے باہرجاسکتا ہے,غسل اوربالوں میں کنگھی کیلئے سربھی باہرنکال سکتا ہےاپنے بیوی بچوں کی رخصت کی رخصت کرسکتا ہے ,سرمونڈانے کیلئے باہرنکل سکتا ہے,بدن کی صفائی ستھرائی غسل وخوشبووغیرہ کرسکتا ہے,اگرکوئی گھرسے کھانا لانے والا نہیں ہے تووہ گھرجاکرکھانا کھاسکتا ہے اورافطاری بھی کرسکتا ہے-
ایک شخص مصروف کارہے وہ اگراعتکاف کرنا چاہے توعصرکی نمازکے بعد مسجدمیں داخل ہوجائے رات بھرمسجد میں بسرکرے فجرکی نمازاداکرکے اپنے مشاغل میں مصروف ہوجائے-
اعتکاف کوباطل کردینے والی چیزیں:
v - کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنا: اگراعتکاف کرنے والا کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرے گا تواسکا اعتکاف باطل ہوجائے گا کیونکہ کبیرہ گناہ عبادت کی ضد ہے جیسا کہ حدث (ناپاکی) طہارت اورصلاۃ کی ضد ہے-(قرطبی 2/330)
v - بلاضرورت عمدا مسجد سے نکلنے کی وجہ سے خواہ تھوڑی ہی دیرکیلئے ہواعتکاف باطل ہوجائے گا- حضرت عائشہ رضی اللہ تعالى عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں "ولا یخرج إلا لما لا بد منھ"(سنن ابوداؤد الصوم:80حدیث :2473)
"اعتکاف کرنے والا کسی ضرورت کیلئے مسجد سے باہرنہ نکلے الا کہ جس کے بغیرکوئی چارہ نہ ہو"-
ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگراعتکاف بیٹھنے والا کسی ایسے کام کیلئے مسجد سے باہرنکلا جس کے بغیرگزارہ ممکن تھا تواسکا اعتکاف باطل ہوجائےگا خواہ وہ کچہ ہی دیرکیلئے نکلے(المغنى4/472)
v - جماع سے اعتکاف باطل ہوجائے گا –ارشاد باری تعالى ہے: ( ولا تباشروھن وأنتم عاکفون فی المساجد) (البقرۃ: 187)
"عورتوں سے اسوقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو"-
v -عورت کیلئے حیض ونفاس کا خون شروع ہونے سے اعتکاف باطل ہوجائے گا کیونکہ ایسی صورت میں طہارت وپاکیزگی کی شرط فوت ہوجاتی ہے-