×
روزے سےمتعلق سوالات کے یہ اہم جوابات ہیں جن کو کتابی شکل میں جمع کردیا گیا ہے تاکہ ہرمسلمان کيلئے انکا پڑھنا اوران سے استفادہ کرنا آسان ہوجائے .

    روزے سے متعلق

    اہم فتاوے

    (ما خوذاز: فتاوى ارکان اسلا م )

    فتاوی مہمۃ تتعلق بالصّیام

    (مقتبسة من فتاوی أرکان الإسلام)

    ( باللغۃ الأردیة)

    تالیف

    سماحۃ الشیخ عبد العزیزبن عبد اللہ بن باز ؒ

    سابق مفتی اعظم سعودی عرب

    جمع وترتیب

    محمدبن شایع بن عبد العزیزالشایع حفظہ اللہ

    ترجمة

    ابوالمکرم بن عبد الجلیل ؒ - عتیق الرحمن اثری حفظہ اللہ

    مراجعة (نظرثانى)

    شفیق الرحمن ضیا ءاللہ مدنی

    نشرواشاعت

    دفترتعاون برائے دعوت وارشاد (شعبہ بیرونی شہربان)

    سلطانہ - ریاض - سعودی عرب

    الناشر

    المکتب التعاونی للدعوة والإرشاد وتوعية الجاليات بسلطانة

    الرياض –المملكة العربية السعودية

    سوال 1:

    رمضان کے روزے کن لوگوں پرفرض ہیں؟ نیزرمضان کے روزوں کی اورنفل روزوں کی کیا فضیلت ہے؟

    جواب :

    رمضان کے روزے ہرمکلف مسلمان مرد وعورت پرفرض ہیں ,اورجوبچے اوربچیاں سات سال کے ہوجائیں اوروہ روزے رکہ سکتے ہوں توانکے لئے رمضان کے روزے رکھنا مستحب ہے, اورانکے سر پرست حضرات کا یہ فرض ہے کہ طاقت رکھنے کی صورت میں انہیں نمازکی طرح روزے کا بھی حکم دیں- اس مسئلہ کی بنیاد اللہ تعالى کا یہ ارشاد ہے :

    ) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ َ} سورة البقرةَ (183-184) سورة البقرة

    اے ایمان والو! تم پرروزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کئے گئے تھے ,تاکہ تم اللہ کا تقوى' اختیارکرو ,روزے کے چند گنتی کے دن ہیں ,تو جو شخص تم میں سے مریض ہو یا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے-

    اوراسکے بعد ہی اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا:

    ) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} (185) سورة البقرة

    رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ,جولوگوں کوراہ بتلاتا ہے اوراس میں ہدایت کی اورحق کوناحق سے پہچاننے کی کھلی کھلی نشانیاں ہیں, پس تم میں سے جو شخص یہ مہینہ پائے وہ اسکے روزے رکھے اورجو بیمارہو یا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں اسکی گنتی پوری کرے-

    اورابن عمرtکی حدیث ہے کہ نبی ﷺ‬ نے فرمایا:

    "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پرہے:اس بات کی گواہی دیناکہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اورمحمد ﷺ‬ اللہ کے رسول ہیں, اورنمازقائم کرنا ,اورزکاۃ دینا ,اوررمضان کے روزے رکھنا ,اوربیت اللہ کا حج کرنا"(متفق علیہ)

    نیزجبرئیل علیہ السلام نے جب رسول ﷺ‬ سے اسلام کے بارے مں سوال کیا توآپ نے فرمایا :

    " اسلام يہ ہے کہ تم اس بات کی شہادت دوکہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اورمحمد ﷺ‬ اللہ کے رسول ہیں, اورنماز قائم کرو,اورزکاۃدو,اوررمضان کے روزے رکھو, اوراستطاعت ہوتوبیت اللہ کا حج کرو"

    اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں عمربن خطاب t کے طریق سے روایت کیا ہے ,اوراس معنی کی ایک اورحدیث بخاری ومسلم ہی میں ابوہریرہ t کے طریق سے بھی مروی ہے-

    نیز صحیحین –بخاری ومسلم- میں ابوہریرہ t سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ نبی ﷺ‬ نے ارشاد فرمایا:

    " جس نے ایمان کے ساتہ اجروثواب طلب کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اسکے گزشتہ تمام (صغیرہ) گناہ معاف کرئیے گئے "

    دوسری حدیث میں آپ ﷺ‬ نے فرمایا :

    " اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ آدمی کا ہرعمل اسی کے لئے ہے, ایک نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سوگنا تک ہے , البتہ روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اسے اسکا بدلہ دونگا, اسنے میرے لئے اپنی شہوت سے کنارہ کشی کی اورکھانا پینا ترک کیا , اورروزہ دارکے لئے خوشی کے دو موقع ہیں, ایک موقع وہ ہے جب وہ روزہ افطارکرتا ہے , اوردوسراموقع وہ ہوگا جب وہ اپنے پروردگارسے ملاقات کرے گا – اورروزہ دارکے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے" (متفق علیہ)

    رمضان کے روزوں کی اورعام روزوں کی فضیلت کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں جولوگوں میں معروف ومشہوربھی ہیں, واللہ ولی التوفیق-

    سوال 2:

    کیا سوجہ بوجہ رکھنے والے بچے سے روزہ رکھوایا جائے گا؟ اوراگرروزہ رکھنے کے دوران ہی وہ بالغ ہوجائے توکیا یہ روزہ فرض روزہ کی طرف سے کفایت کرے گا؟

    جواب:

    پہلے سوال کے جواب میں یہ بات گزرچکی ہے کہ بچے اوربچیاں جب سات سال یا اس سے زیادہ کے ہوجائیں توعادت ڈالنے کے لئے ان سے روزے رکھوائے جائیں,اوران کے سرپرست حضرات کی ذمہ داری ہے کہ نمازکی طرح انہیں روزے کا بھی حکم دیں , اورجب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں توپھران پرروزہ واجب ہوجاتا ہے ,اوراگردن میں روزہ کے دوران ہی بالغ ہوجائیں توانکا یہ ( نفل) روزہ فرض روزہ کی طرف سے کفایت کرجائیگا, بطورمثال یہ فرض کرلیں کہ ایک بچے نے زوال کے وقت اپنی عمرکے پندرہ سال مکمل کئے, اوروہ اس دن روزہ سے تھا, تو اسکا یہ روزہ فرض روزہ کی طرف سے کافی ہوگا, دن کے اول حصہ کا روزہ نفل اورآخرحصہ کا روزہ فرض شمارہوگا, لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ اس سے پہلے اس کے زیرناف بال نہ آئے ہوں, یا شہوت کے ساتہ اس سے منی نہ خارج ہوئی ہو-بچی کے بارے میں بھی بالکل یہی حکم ہے ,البتہ اسکے تعلق سے ایک چوتھی علامت حیض بھی ہے جس سے اسکے بالغ ہونے کا حکم لگایا جائے گا-

    سوال3:

    مسافرکے لئے سفرمیں, خصوصاً ایسے سفرمیں جسمیں کسی طرح کی مشقت درپیش نہ ہو, مثلاً ہوائی جہاز سے یا دیگرذرائع سے سفرکرنے کی صورت میں روزہ رکھنا افضل ہے یا نہ رکھنا؟

    جواب:

    مسافرکے لئے سفرمیں مطلقاً روزہ نہ رکھنا بہترہے, لیکن اگرکوئی شخص بحالت سفرروزہ رکہ لے توبھی کوئی حرج نہیں, کیونکہ نبی ﷺ‬ سے نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دونوں عمل ثابت ہیں, لیکن اگرسخت گرمی ہواورمشقت زیادہ محسوس ہو تو روزہ نہ رکھنا ہی موکد ہوجاتا ہے, اورایسی صورت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے, کیونکہ نبی ﷺ‬ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ سفرمیں روزے سے ہے اورسخت گرمی کی وجہ سے اسکے اوپرسایہ ڈال دیا گیا ہے توآپ نے فرمایا:

    "سفرمیں روزہ رکھنا بھلائی نہیں ہے"

    اوراسلئے بھی ایسی حالت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے کہ رسول ﷺ‬ کا ارشاد ہے:

    " اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ اسکی دی ہوئی رخصت کو قبول کی جائے ,جسطرح اسے یہ بات ناپسند ہے کہ اسکی نافرمانی کی جائے"

    دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں:

    " جس طرح اسے یہ بات پسند ہے کہ اسکے فرائض پرعمل کیا جائے "

    اس سلسلہ میں گاڑی یا اونٹ یا کشتی یا پانی کے جہازسے سفرکرنے والے میں اورہوائی جہاز سے سفرکرنے والے میں کوئی فرق نہیں ,کیونکہ سفرکا لفظ ہرایک کوشامل ہے اوروہ سفرکی رخصت سے فائدہ اٹھائیں گے-

    اللہ تعالى نے اپنے بندوں کے لئے سفراوراقامت کے احکام رسول ﷺ‬ کی زندگی میں تاقیامت آنے والوں کے لئے مشروع فرمائے ,اوراسے اس بات کا بخوبی علم تھا کہ بعد میں حالات میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں گی اورکیسے کیسے وسائل سفرایجاد ہوں گے, اسلئے اگرحالات اوروسائل سفرکے مختلف ہونے سے احکام بھی بدل جاتے تو اللہ سبحانہ وتعالى نے اس بات پرمتنبہ کیا ہوتا- جیسا کہ اسکا ارشاد ہے :

    ) وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ} (89) سورة النحل

    ہم نے آپ پرکتاب (قرآن) نازل کی جو ہرچیز کوبیان کرنے والی ہے اورمسلمانوں کے لئے ہدایت اوررحمت اوربشارت ہے-

    نیز فرمایا :

    ) وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ} (8) سورة النحل

    اوراس نے گھوڑے اورخچراورگدھے تمہاری سواری اورزینت کے لئے پیدا کئے ,اوروہ چیزیں پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے –

    سوال 4:

    ماہ رمضان کا شروع ہونا اوراختتام کو پہنچنا کس چیز سے ثابت ہوگا؟ اوراگررمضان کے شروع ہونے یامکمل ہونے کے وقت صرف ایک شخص نے اکیلے چاند دیکھا تو اسکا کیا حکم ہے؟

    جواب :

    ماہ رمضان کا شروع ہونا اورختم ہونا دویا دو سے زیادہ عادل گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے, البتہ اس ماہ کے شروع ہونے کے لئے صرف ایک گواہ کی گواہی کا فی ہے ,نبی ﷺ‬ کا ارشاد ہے:

    " اگردو گواہ گواہی دیدیں توروزہ رکھو اورافطارکرو"

    نیزنبی ﷺ‬ سے ثابت ہے کہ آپ نے صرف ابن عمرd کی شہادت اورایک موقع پرصرف ایک دیہاتی کی شہادت کی بنیاد پرلوگوں کوروزہ رکھنے کا حکم دیا تھا, اورمزید کوئی شہادت نہیں طلب کی تھی ,اسکی حکمت – واللہ اعلم یہ ہے کہ اس ما ہ کے شروع ہونے اوراختتام کو پہنچنے میں دین کے لئے احتیاط ملحوظ رکھا جائے, جیسا کہ اہل علم نے اسکی صراحت کی ہے-

    اگرکسی شخص نے رمضان کے شروع یا اختتام کے وقت اکیلے چاند دیکھا اوراسکی شہادت پرعمل نہ کیا گیا تواہل علم کے صحیح ترین قول کے مطابق وہ عام لوگوں کے ساتہ روزہ رکھے اورافطارکرے اورخود اپنی شہادت پرعمل نہ کرے , کیونکہ نبی ﷺ‬ کا ارشادھے:

    "روزہ اس دن کا ہے جس دن تم سب روزہ رکھتے ہو, اورافطاراس دن ہے جس دن تم سب افطارکرتے ہو, اورقربانی اسدن ہے جس دن تم سپ قربانی کرتے ہو- واللہ ولی التوفیق-

    سوال 5:

    مطلع بدل جائے تولوگ کسطرح روزے رکھیں؟ اورکیا دوردرازملکوں مثلا امریکہ اورآسٹریلیا وغیرہ میں رہنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سعودی عرب والوں کی رویت کی بنیاد پرروزہ رکھیں, کیونکہ وہ چاند نہیں دیکھتے؟

    جواب:

    اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ چاند کی رویت پراعتماد کیا جائے اورمطلع بدل جانے کا اعتبارنہ کیا جائے, کیونکہ نبی ﷺ‬ نے رویت ہی پراعتماد کرنے کا حکم دیا ہے, اوراس بارے میں کوئی تفصیل نہیں فرمائی ,جیساکہ صحیح حدیث میں آپ کا یہ ارشاد ثابت ہے:

    "چاند دیکہ کرروزہ رکھو, اورچاند دیکہ کرافطارکرو ,اوراگرابرکی وجہ سے تم پرچاند ظاہرنہ ہو تو تیس کی گنتی پوری کرو"(متفق علیہ)

    اورآپ ﷺ‬ سے یہ حدیث بھی ثابت ہے :

    "تم روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکہ لویا (شعبان کی ) گنتی پوری کرلو, اورافطارنہ کرویہاں تک کہ چاند دیکہ لویا (رمضان کی ) گنتی پوری کرلو"

    اس معنی کی اوربھی بہت سی احادیث وارد ہیں-

    ان احادیث میں رسول ﷺ‬ نے جاننے کے باوجود اختلاف مطلع کی جانب کوئی اشارہ نہیں فرمایا – لیکن کچہ اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ مطلع بدل جانے کی صورت میں ہرشہروالوں کے لئے چاند دیکھنے کا اعتبارہوگا ,انکی دلیل ابن عباس d کا یہ اثرہے کہ وہ مدینہ طیبہ میں تھے اورانہوں نے اہل شام کی رویت کا اعتبارنہ کیا, ملک شام والوں نے معاویہ t کے زمانہ میں جمعہ کی رات رمضان کا چاند دیکھا اوراسی کے مطابق روزہ رکھا, لیکن اہل مدینہ نے وہی چاند ہفتہ کی رات دیکھا ,اورجب حضرت کریب نے ابن عباس d سے اہل شام کے چاند دیکھنے اورروزہ رکھنے کا تذکرہ کیا توابن عباس d نے فرمایا کہ ہم نے ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے ,اسلئے ہم روزہ رکھیں گے یہاں تک کہ (عیدکا) چاند دیکہ لیں یاپھر(رمضان کی ) گنتی پوری کرلیں, ابن عباس d نے نبی کریم ﷺ‬ کی اس حدیث سے استدلا ل کیا :

    " چاند دیکھکرروزہ رکھو,اورچاند دیکھکرافطارکرو"

    اہل علم کے اس قول کے اندرتقویت پائی جاتی ہے ,اورسعودی عرب کی "مجلس ہیئت کبارعلماء" کے ممبران کی رائے بھی یہی ہے ,کیونکہ اس سے مختلف دلائل کے درمیان تطبیق ہوجاتی ہے ,واللہ ولی التوفیق-

    سوال 6:

    جن ملکوں میں دن اکیس گھنٹے تک بڑا ہوتا ہے وہاں کے لوگ کس طرح روزہ رکھیں ؟ کیا وہ روزہ رکھنے کے لئے کوئی وقت متعین کریں گے ؟ اسی طرح جن ملکوں میں دن بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے وہ کیا کریں ؟ اوراسی طرح وہ ممالک جہاں دن اوررات چہ چہ ماہ تک لمبے ہوتے ہیں وہاں کے لوگ کس طرح روزہ رکھیں ؟

    جواب :

    جن ممالک میں دن اوررات کی گردش چوبیس گھنٹے کے اندراندرپوری ہوجاتی ہے وہاں کے لوگ دن میں روزہ رکھیں گے, خواہ دن چھوٹا ہویا بڑا ,اوریہ ان کے لئے –الحمد للہ – کفایت کرجائیگا ,بھلے ہی دن چھوٹا ہو- البتہ وہ ممالک جہاں دن اوررات کی گردش چوبیس گھنٹے کے اندرپوری نہیں ہوتی , بلکہ رات یا دن چہ چہ ماہ تک لمبے ہوتے ہیں , وہاں کے لوگ نماز اورروزہ کے وقت کا اندازہ متعین کرکے اسی حساب سے نمازپڑھیں گے اورروزے رکھیں گے ,جیساکہ نبی کریم ﷺ‬ نے دجال کے ظاہرہونے کے ایام کے بارے میں حکم دیا ہے, جسکا پہلادن ایک سال کے اوردوسرادن ایک ماہ کے اورتیسرادن ایک ہفتہ کے برابرہوگا, کہ نماز کے وقت کا اندازہ کرکے نمازپڑھ لیں-

    سعودی عرب کی "مجلس ہیئت کبارعلماء " نے مذکورہ بالا مسئلہ میں غوروفکرکرنے کے بعد ایک قرارداد حوالہ نمبر61 ,مورخہ 12/4/1398ھ پاس کی ہے ,جودرج ذیل ہے:

    الحمد للہ ,والصلاۃ والسلام على رسولہ وآلہ وصحبہ ,وبعد:

    مجلس ہیئت کبارعلماءکے بارہویں اجتماع منعقدہ ریاض ,ماہ ربیع الثانی 1398ھجری میں رابطۂ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل کا خط , حوالہ نمبر555,مورخہ 16/1/1398 هجري پیش ہوا جوسویڈن کے شہرمالو کے صدررابطہ برائے اسلامی تنظیمات کے خط میں وارد موضوع پرمشتمل تھا, جس میں صدرمحترم مذکورنے یہ وضاحت کی ہے کہ" سکنڈے نیوین" مما لک میں وہاں کے جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظرموسم گرما میں دن انتہائی لمبا اورموسم سرما میں انتہائی چھوٹا ہے, جبکہ وہاں کے شمالی علاقوں میں موسم گرم میں آفتاب غروب ہی نہیں ہوتا ,اورموسم سرما میں اسکے برعکس آفتاب طلوع ہی نہیں ہوتا – ایسی صورت میں ان ممالک میں بسنے والے مسلمان روزہ رکھنے اورافطارکرنے نیزاوقات نمازکی تعیین کی کیفیت جاننا چاہتے ہیں – رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری نے اپنے خط میں اس بارے میں فتوى' صادرکرنے کی درخواست کی ہے ,تاکہ مذکورہ ممالک کے مسلمانوں کو اس فتوى' سے باخبرکرسکیں-

    مجلس ہیئت کبارعلماء کے اس اجتماع میں مسئلہ ہذا سے متعلق دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء کا تیارکردہ بیان اورفقہاء سے منقول دیگرنصوص بھی پیش کئے گئے اوران پربحث ونظراورمناقشہ کے بعد مجلس نے درج ذیل بیان جاری کیا:

    1- جن ممالک میں دن اوررات ایک دوسرے سے جداجدا ہوں, بایں طورکہ وہاں فجرطلوع ہوتی ہو اورآفتاب غروب ہوتا ہو, البتہ موسم گرما میں دن بہت ہی طویل ہوتا ہواوراسکے برعکس موسم سرما میں بہت ہی چھوٹا ہو,ایسے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انہی اوقات میں نمازاداکریں جوشرعاً متعین اورمعروف ہیں, کیونکہ اللہ تعالی کا یہ حکم عام ہے :

    ) أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا} (78) سورة الإسراء

    سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو ,اورفجرکے وقت قرآن پڑھنا بھی ,یقیناً فجرمیں قرآن پڑھنے کے وقت فرشتے حاضرہوتے ہیں- اوراللہ تعالی کا یہ ارشاد بھی:

    ) إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا} (103) سورة النساء

    یقیناً نماز مومنوں پرمقررہ وقت میں فرض ہے –

    نیزبریدہ t سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ‬ سے نماز کے وقت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا :

    " ہمارے ساتہ دودن نماز پڑھو ,چنانچہ جب آفتاب ڈھل گیا توآپ نے بلال – t– کو اذان دینے کا حکم دیا, انہوں نے اذان دی,پھرآپ نے حکم دیا اورانہوں نے ظہرکی اقامت کہی,پھرجبکہ آفتاب ابھی بلند, سفید اوربالکل صاف تھا آپ نے حکم دیا اورانہوں نے عصرکی اقامت کہی ,پھرجب آفتاب غروب ہوگیا توآپ نے حکم دیا اورانہوں نے مغرب کی اقامت کہی,پھرجب آسمان کی سرخی غائب ہوگئی توآپ نے حکم دیا اورانہوں نے عشاء کی اقامت کہی ,پھرطلوع فجرکے بعد آپ نے حکم دیا انہوں نے فجرکی اقامت کہی –

    پھرجب دوسرا دن شروع ہوا توآپ –ﷺ‬– نے بلال کو حکم دیا اورانہوں نے ٹھنڈا ہونے پراقامت کہی, اورعصرکی نماز اسوقت پڑھی جبکہ آفتاب ابھی بلند ی پرتھا , لیکن پہلے دن سے دیرکرکے پڑھی ,اورمغرب کی نماز سرخی غائب ہونے سے پہلے پڑھی , اورعشاء کی نماز ایک تہائی رات گزرجانے پرپڑھی , اورفجرکی نمازاجالا ہوجانے پرپڑھی ,پھرفرمایا :

    نماز كے وقت کے بارے میںسوال کرنے والا شخص کہاں ہے؟اسنے جواب دیا : اے اللہ کے رسول ! میں ہوں ,آپ نے فرمایا ": تمہاری نمازوں کے اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں "(بخاری ومسلم)

    عبد اللہ بن عمروبن عاص- d- سے روایت ہے کہ رسول ﷺ‬ نے فرمایا:

    "ظہرکا وقت وہ ہے جب آفتاب ڈہل جائے اورآدمی کا سایہ اسکے مثل ہوجائے- اسوقت سے لے کرعصرتک ہے, اورعصرکا وقت اسوقت تک ہے جب تک کہ آفتاب میں زردی نہ آجائے , اورمغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سرخی غائب نہ آجائے, اورمغرب کا وقت اسوقت تک ہے جب تک کہ سرخی غائب نہ ہوجائے , اورعشاء کا وقت متوسط رات کے نصف تک ہے , اورفجرکا وقت طلوع فجرکے بعد سے لیکرآفتاب طلوع ہونے سے پہلے تک ہے, پھرجب آفتاب طلوع ہونے لگے تو نمازسے رک جاؤ,کیونکہ آفتاب شیطان کی دوسینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے " (صحیح مسلم)

    ان کے علاوہ اوربھی قولی وفعلی احادیث ہیں جوپانچوں فرض نمازوں کے اوقات کے تعیین کے سلسلے میں وارد ہیں ,ان احادیث میں دن یارات کے چھوٹے یابڑے ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے, جبتک کہ نمازوں کے اوقات رسول ﷺ‬ کی بیان کردہ علامتوں کے مطابق ایک دوسرے سے جداجدا ہوں-یہ رہا مسئلہ اوقات نمازکی تعیین کا –

    رہی بات ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کے اوقات کی تعیین کی , تو جن ممالک میں دن اوررات ایک دوسرے سے جداجدا ہوں اورانکا مجموعی وقت چوبیس گھنٹے ہو,وھاں کے مکلف مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ پورے دن یعنی طلوع فجرسے لے کرآفتاب غروب ہونے تک کھانے ,پینے اوردیگرتما م مفطرات سے رکے رہیں, اورصرف رات میں , خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو,کھانا ,پینا اوربیوی سےہمبستری وغیرہ حلال جانیں, کیونکہ شریعت اسلام ہرملک کے باشندوں کے لیے عام ہے , اوراللہ تعالى کا ارشادہے :

    ) وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّليْلِ } (187) سورة البقرة

    اورکھاتے اورپیتے رہو,یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی کالی دھاری سے تم کوصا ف دکھائی دینے لگے –

    البتہ وہ شخص جودن کے طویل ہونے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو, یا آثاروعلامات سے یاتجربہ سے یا کسی معتبرماہرڈاکٹرکے بتانے سے یا اپنے گمان غالب سے یہ جانتا ہوکہ روزہ رکھنا اسکی ہلاکت کا یا شدید مرض میں مبتلا ہوجانے کا سبب بن سکتا ہے , یاروزہ رکھنے سے اسکا مرض بڑہ جائیگا ,یا اسکی شفایابی کمزورپڑجائے گی ,تو ایسا شخص روزہ نہ رکھے , اورانکے بدلے دوسرے مہینہ میں ,جسمیں اسکے لئے روزہ رکھنا ممکن ہو, قضا کرلے, اللہ تعالى ' کا ارشاد ہے:

    ) فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ } (185) سورة البقرة

    جوشخص رمضان كا مہینہ پائے وہ اسکا روزہ رکھے , اورجو مریض ہویا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے –

    نیزاللہ تعالی نے فرمایا:

    ) لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا } (286) سورة البقرة

    الله كسی نفس کو اسکی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا-

    اورفرمایا :

    ) وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ } (78) سورة الحـج

    اوراس (اللہ) نے دین کے معاملے میں تم پرکوئی حرج وتنگی نہیں رکھی-

    2- جن ممالک میں موسم گرما میں آفتاب غروب ہی نہ ہوتا ہو اورموسم سرما میں آفتاب طلوع ہی نہ ہوتا ہو, اسی طرح وہ ممالک جہاں مسلسل چہ مہینے رات اورچہ مہینے دن رہتا ہو,وہاں کے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک جہاں فرض نمازوں کے اوقات جداجدا ہوں ,وہاں کے اوقات نمازکے پیش نظراپنی پنج وقتہ فرض نمازوں کے اوقات متعین کرلیں, اورہرچیز چوبیس گھنٹے کے اندرپانچوں فرض نمازیں اداکریں, کیونکہ اسراء ومعراج والی حدیث میں وارد ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت پرایک دن اورایک رات میں پجاس نمازیں فرض کیں تو رسول اللہ ﷺ‬ اپنے رب سے امت کے لئے تخفیف کرواتے رہے ,یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا :

    "اے محمد( ﷺ‬) ایک دن اوررات میں اب یہ کل پانچ نمازیں ہیں, اورہرنماز دس کے برابرہے ,گویا یہ پچاس نمازیں ہیں "

    طلحہ بن عبید اللہ t سے مروی ہے کہ علاقۂ نجد سے ایک دیہاتی صحابی رسول اللہ ﷺ‬ کے پاس آئے ,جنکا سرپراگندہ تھا ,ہم ان کی آواز تو سن رہے تھے مگربات نہیں سمجہ پارھے تھے , یہاں تک کہ وہ رسول ﷺ‬ سے قریب ہوگئے ,وہ آپ سے اسلا م کے بارے میں دریافت کررہے تھے, آپ نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا:

    " ایک دن اوررات میں پانچ نمازیں فرض ہوتی ہیں"

    اس دیہاتی نے سوال کیا کہ کیا ان کے علاوہ بھی مجہ پرکچہ ہے؟ آپ نے فرمایا:

    نہیں,الایہ کہ تم نفل پڑھو"

    نیزانس بن مالک t کی حدیث ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم کو رسول ﷺ‬ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے منع کردیا گیا تھا, اسلئے ہماری یہ خواہش ہوتی تھی کہ دیہات سے کوئی سمجھدارشخص آئے اورآپ سے کچھ دریافت کرے اورہم سنیں ,چنانچہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی آیا اورکہا کہ اے محمد (ﷺ‬) ہمارے پاس آپ کا قاصد پہنچا اورکہاکہ آپ کہتے ہیں کہ اللہ نے آپکو بھیجاہے ,آپ نے فرمایا : قاصد نے سچ کہا- اسنے سوال کرتے کرتے کہاکہ آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا کہ ہم پرایک دن اوررات میں پانچ نمازیں فرض ہیں, آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا – دیہاتی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپکو بھیجا ہے, کیا اللہ نے آپ کو اسکا حکم دیا ہے؟آپ نے فرمایا :ہاں-

    نبی ﷺ‬ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے صحابۂ کرام کو مسیح دجال کے بارے میں بتایا, توانہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ وہ کتنے دن زمین پرٹہرے گا ؟آپ نے فرمایا : چالیس دن,لیکن اسکا ایک دن ایک سال کے برابر,ایک دن ایک ماہ کے برابر, ایک دن جمعہ (ہفتہ) کے برابر, اورباقی دن عام دنوں کے برابرہوں گے- سوال کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول!

    اسکا جودن ایک سال کے برابرہوگا کیا اسمیں ایک دن کی نمازیں ہمارے لئے کافی ہوں گی؟آپ نے فرمایا :نہیں ,بلکہ ایک ایک دن کا اندازہ کرلیاکرنا-

    اس حدیث میں آپ ﷺ‬ نے دجال کے ظاہرہونے کے وقت ایک سال کے برابروالے دن کوایک دن نہیں شمارفرمایا ,جسمیں صرف پانچ نمازیں کافی ہوں ,بلکہ ہرچوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں فرض قراردیں, اوریہ حکم دیا کہ لوگ اپنے اپنے ملکوں میں عام دنوں کے اوقات کے اعتبارسے نمازوں کے اوقات متعین کرلیں-

    لہذا ان ممالک کے مسلمان جن کے تعلق سے نمازوں کے اوقات کے تعیین کامسئلہ دریافت کیا گیا ہے, ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے قریب ترین ملک ,جہاں دن اوررات ہرچوبیس گھنٹے کے اندرمکمل ہوجاتے ہوں , اورشرعی علامتوں کے ذریعہ پنجوقتہ نمازوں کے اوقات معروف ہوں, اس ملک کے اوقات نماز کی روشنی میں نمازوں کے اوقات متعین کرلیں-

    اسی طرح رمضان کے روزے کا مسئلہ بھی ہے, انکے لئے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک ,جہاں دن اوررات جداجدا ہوں اورہرچوبیس گھنٹے کے اندرانکی گردش مکمل ہوجاتی ہو, اس ملک کے اوقات کے اعتبارسے ماہ رمضان کی ابتداء اوراسکے اختتام ,اوقات سحروافطار,نیزطلوع فجراورغروب آفتاب وغیرہ کے اوقات میتعین کرلیں, اورروزہ رکھیں, جیساکہ مسیح دجال سے متعلق حدیث میں بات گزرچکی ہے ,اورجسمیں آپ ﷺ‬ نے صحابۂ کرام کواس بڑے دن میں اوقات نماز کی تعیین کرنے کی کیفیت کی جانب رہنمائی فرمائی ہے, اورظاہربات ہے کہ اس مسئلہ میں روزہ اورنمازکے درمیان کوئی فرق نہیں- واللہ ولی التوفیق-

    وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ –

    سوال 7:

    کیا اذان شروع ہونے کے ساتہ ہی سحری کھانے سے رک جانا ضروری ہے یا اذان ختم ہونے تک کھا ,پی سکتےہیں؟

    جواب :

    موذن کے بارے میں اگریہ معروف ہو کہ وہ فجرطلوع ہونے کے ساتہ ہی اذان دیتا ہے توایسی صورت میں اسکی اذان سنتے ہی کھانے پینے اوردیگرتمام مفطرات سے رک جانا ضروری ہے ,لیکن اگرکلینڈرکے اعتبارسے ظن وتخمین سے اذان دی جائے توایسی صورت میں اذان کے دوران کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں, جیسا کہ نبی کریم ﷺ‬ کی حدیث ہے, آپ نے فرمایا:

    " بلال رات میں ا ذان دیتے ہیں سوکھاؤ اورپیو, یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں"

    اس حدیث کے آخرمیں راوی کہتے ہیں کہ ابن ام مکتوم نابینا شخص تھے , وہ اسوقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک کہ ان سے یہ نہ کہاجاتا کہ تم نے صبح کردی(متفق علیہ)

    اہل ایمان مرد وعورت کے لئے احتیاط اسی میں ہے کہ نبی کریم ﷺ‬ کی درج ذیل احادیث پرعمل کرتے ہوئے وہ طلوع فجرسے پہلے ہی سحری سے فارغ ہوجائیں ,آپ نے فرمایا :

    " جوچیز تمہیں شبہ میں ڈالے اسے چھوڑکرجوشبہ میں ڈالنے والی نہ ہو اسے لے لو"

    نیزفرمایا:

    "جوشخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اوراپنی عزت کو بچالیا "

    لیکن اگریہ بات متعین ہوکہ موذن کچہ رات باقی رہنے پرہی طلوع فجرسے پہلے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے اذان دیتا ہے ,جیساکہ بلال کرتے تھے , توایسی صورت میں مذکورہ بالا احادیث پرعمل کرتے ہوئے کھاتے پینے رہنے میں کوئی حرج نہیں ,یہاں تک کہ طلوع فجرکے ساتہ اذان دینے والے موذن کی اذان شروع ہوجائے-

    سوال 8:

    کیا حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کے لئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اورکیا ایسی عورتوں کوچھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنی ہوگی , یاروزہ نہ رکھنے کے بدلے کفارہ دینا ہوگا؟

    جواب :

    حاملہ اوردودھ پلانے والی عورتوں کا حکم مریض کا حکم ہے ,اگرروزہ رکھنا انکے لئے بھاری ہوتو روزہ نہ رکھیں , اوربعد میں جب وہ روزہ رکھنے کے لائق ہوجائیں تو مریض کی طرح وہ بھی چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرلیں ,بعض اہل علم کا یہ خیال ہے کہ حاملہ اوردودھ پلانے والی عورتوں کو ہردن کے بدلے ایک ایک مسکین کو کھاناکھلانا ہوگا, لیکن یہ ضعیف اورمرجوح قول ہے ,صحیح بات یہی ہے کہ انہیں بھی مریض اورمسافرکی طرح چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنی ہوگی, اللہ تعالى کا ارشاد ہے:

    ) فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ } (184) سورة البقرة

    پس جو تم میںسے مریض ہویا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے-

    انس بن مالک کعبی t کی درج ذیل حدیث بھی اسی بات پردلالت کرتی ہے جسمیں یہ ذکرہے کہ رسول ﷺ‬ نے فرمایا:

    " اللہ تعالى نے مسافرسے روزہ کی اورآدھی نمازکی تخفیف کردی ہے اورحاملہ اوردودھ پلانے والی عورتوں سے روزہ کی " (صحیح مسلم وسنن اربعہ)

    سوال 9:

    وہ لوگ جنکے لئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے مثلاً عمررسیدہ مرد وعورت اورایسا مریض جس کے شفایاب ہونے کی امیدنہ ہو , ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا روزہ نہ رکھنے کے عوض انہیں فدیہ دینا ہوگا؟

    جواب :

    جوشخص بڑھاپے کی وجہ سے یا کسی ایسی بیماری کی وجہ سے جس سے شفایاب ہونے کی امیدنہ ہو, روزہ رکھنے پرقادرنہ ہو اسے ہردن کے بدلے بصورت استطاعت ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا , جیساکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت جن میں ابن عباس d بھی ہیں-کافتوى'ہے-

    سوال10:

    حيض اورنفاس والي عورتوں کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے ؟ اوراگرانہوں نے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا آئندہ رمضان تک موخرکردی تو ان پرکیا لازم ہے؟

    جواب :

    حيض اورنفاس والي عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ حیض اورنفاس کے وقت وہ روزہ توڑدیں ,حیض اورنفاس کی حالت میں روزہ رکھنا اورنمازپڑھنا جائزنہیں ,اورنہ ہی ایسی حالت کی نماز اورروزہ صحیح ہے, انہیں بعد میں صرف روزوں کی قضا کرنی ہوگی, نمازکی نہیں,عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے, ان سے سوال کیاگیا کہ کیا حائضہ عورت نمازاورروزے کی قضا کرے؟ توانہوں نے فرمایا:

    "ہمیں روزوں کی قضا کرنے کا حکم دیا جاتا تھا اورنمازکی قضا کرنے کا حکم نہیں دیا جاتا تھا"(متفق علیہ)

    عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ حدیث پرعلماء –رحمۃ اللہ علیہم- کا اتفاق ہے کہ حیض ونفاس والی عورتوں کو صرف روزوں کی قضا کرنی ہے نماز کی نہیں- اوریہ اللہ سبحانہ کی طرف سے ابک طرح کی رحمت اورآسانی ہے, کیونکہ نمازایک دن میں پانچ مرتبہ پڑھی جاتی ہے, اسلئے نمازکی قضا مذکورہ عورتوں پربھاری تھی,اسکے برخلاف روزہ سال میں صرف ایک بارفرض ہے, اوروہ ماہ رمضان کا روزہ ہے ,اسلئے اسکے قضا میں کوئی مشقت ودشواری نہیں-

    رہا مسئلہ چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا میں تاخیرکا, توجس عورت نے رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے کسی شرعی عذرکے بغیردوسرے رمضان کے بعد تک موخرکردئے, اسے قضا کرنے کے ساتہ ہی ہرروزکے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلانا ہوگااوراللہ تعالی سے توبہ کرنی ہوگی,یہی حکم مریض اورمسافرکا بھی ہے, اگرانہوں نے رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے کسی شرعی عذرکے بغیردوسرے رمضان کے بعد تک موخرکردئیے توانہیں قضا کرنے کے ساتہ ہی ہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا اوراللہ سے توبہ کرنی ہوگی, البتہ اگرمرض یا سفردوسرے رمضان تک مسلسل جاری وبرقراررہا تومرض سے شفایاب ہونے اورسفرسے لوٹنے کے بعد صرف روزوں کی قضا کرنی ہوگی, ہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا نہیں کھلانا ہوگا-

    سوال 11:

    جس شخص کے ذمہ رمضان کے روزوں کی قضا ہو اسکے لئے نفلی روزے مثلاً شوال کے چہ روزے ,عشرذی الحجہ کے روزے اورعاشوراء کا روزہ رکھنا کیسا ہے؟

    جواب :

    جس کے ذمہ رمضان کے روزوں کی قضا ہوعلماء کے صحیح ترین قول کے مطابق نفلی روزوں سے پہلے اس پررمضان کے روزوں کی قضا واجب ہے ,کیونکہ فرائض نوافل سے اہم ہیں –

    سوال 12:

    ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جومریض تھا, پھراس پررمضان کا مہینہ آیا مگروہ روزہ نہ رکہ سکا, اوررمضان کے بعد انتقال کرگیا, کیا اسکی طرف سے روزوں کی قضا کی جائے گی یا مساکین کو کھانا کھلایا جائیگا ؟

    جواب :

    مسلمان اگررمضان کے بعد بیماری کی حالت میں انتقال کرجائے تواس پرروزوں کی قضا اورمساکین کوکھانا کھلانا نہیں ہے, کیونکہ وہ شرعاً معذورہے, اسی طرح مسافراگرحالت سفرمیں یا سفرسے واپس آتے ہی انتقال کرجائے تواس پربھی روزوں کی قضا اورمسکینوں کو کھانا کھلانا نہیں ہے, کیونکہ وہ شرعا معذورہے-

    البتہ وہ مریض جس نے شفایاب ہونے کے بعد روزوں کی قضا کرنے میں سستی برتی, پھرانتقال کرگیا, یا وہ مسافرجسنے سفرسے واپس آنے کے بعد زوزوں کی قضا کرنے میں سستی برتی , پھرانتقال کرگیا ,ایسے لوگوں کے اقرباء کوچاہئے کہ وہ ان کی طرف سے روزوں کی قضا کریں , کیونکہ نبی ﷺ‬ کا ارشاد ہے :

    "جو شخص انتقال کرگیا اوراسکے ذمہ روزہ تھا تو اسکا ولی اسکی طرف سے روزہ رکھے" ( متفق علیہ)

    لیکن اگرانکی طرف سے کوئی روزہ رکھنے والا نہ ہوتو انکے ترکہ میں سے ان کے ہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کونصف صاع ,جو تقریباً ڈیڑھ کلوہوتا ہے, کھانا دینا ہوگا, جیسا کہ عمررسیدہ (بوڑھے ) اوردائمی مریض کی طرف سے دیا جاتا ہے, جیساکہ اسکی تفصیل سوال نمبر9 کے جواب میں گزرچکی ہے –

    اسی طرح حیض اورنفاس والی عورتوں سے اگررمضان کے روزوں کی قضا میں سستی ہوئی اورپھروہ انتقال کرگئیں تو اگرانکی طرف سے کوئی روزوں کی قضا کرنے والا نہ ہوتو ہرروزہ کے بدلے ان کی طرف سے ایک ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا –

    مذکورہ اشخاص میں سے اگرکسی نے کوئی ترکہ بھی نہیں چھوڑا کہ جس سے مسکینوں کو کھانا دیا جاسکے تواسکے ذمہ کچہ نہیں, اللہ تعالى کا ارشاد ہے :

    ) لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا (286) سورة البقرة

    اللہ تعالى کسی نفس کو اسکی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا –

    اورفرمایا :

    ] فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ } (16) سورة التغابن

    اللہ سے ڈرو جتنا تم میں طاقت ہو- واللہ ولی التوفیق-

    سوال 13:

    روزه داركے لیے رگ میں اورعضلات میں انجکشن لگوانے کا کیا حکم ہے نیزان دونوں قسم کے انجکشن میں کیا فرق ہے؟

    جواب:

    صحیح بات یہ ہے کہ رگ مین اورعضلات میں انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ,البتہ غذا کے انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ,اسی طرح چیک اپ کے لئے خون نکلوانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا ,کیونکہ اسکی شکل پچھنہ لگوانے کی نہیں ہے, ہاںبچھنہ لگوانے سے علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق لگوانے والے اورلگانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے ,کیونکہ نبی کریم ﷺ‬ کا ارشاد ہے:

    "پچھنہ لگانے والے اورلگوانے والے نے روزہ توڑدیا"

    سوال 14:

    روزہ دارکے لئے دانت کے پیسٹ (منجن) استعمال کرنے ,نیز کان کے , ناک کے اورآنکہ کے قطرے (دوائیں) ڈالنے کا کیا حکم ہے ؟ اوراگرروزہ دارپیسٹ (منجن) کا اوران قطروں کا اپنی حلق میں ذائقہ محسوس کرے توکیا کرے؟

    جواب :

    پیسٹ (منجن) کے ذریعہ دانت صاف کرنے سے مسواک کی طرح روزہ نہیں ٹوٹتا , البتہ روزہ دارکواسکا سخت خیال رکھنا چاہئے کہ منجن کا کچہ حصہ پیٹ کے اندرنہ جانے پائے , لیکن غیرارادی طورپراگرکچہ اندرچلا بھی جائے تو س پر قضانہیں ہے-

    اسی طرح آنکہ اورکان کے قطرے ڈالنے سے بھی علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق روزہ نہیں ٹوٹتا ,اوراگران قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے تو اس روزہ کی قضا کرلینا احوط ہے , واجب نہیں ,کیونکہ آنکہ اورکان کھانے پینے کے راستے نہیں ہیں, البتہ ناک کے قطرے استعمال کرنا جائزنہیں ,کیونکہ ناک کھانے پینے کا راستہ شمارہوتی ہے ,اوراسی لیے نبی ﷺ‬ نے فرمایا ہے:

    " اورناک میں (وضوکے وقت) خوب اچھی طرح پانی چڑھاؤ, الایہ کہ تم روزہ سے ہو"

    لہذا مذکورہ حدیث نیز اس معنی کی دیگراحادیث کی روشنی میں اگرکسی نے روزہ کی حالت میں ناک کے قطرے استعمال کئے اورحلق میں اسکا اثرمحسوس ہوا تو اس روزہ کی قضا کرنی واجب ہے – واللہ ولی التوفیق-

    سوال 15:

    کسی شخص نے دانتوں میں تکلیف محسوس کی اورڈاکٹرکے پاس گیا , ڈاکٹرنے دانتوں کی صفائی کردی, یاتکلیف کی جگہ دانت میں کچہ بھردیا, یا کسی دانت کو اکھاڑدیا, توکیا اس سے روزہ پرکوئی اثرپڑتا ہے؟ اوراگرڈاکٹرنے دانت سن کرنے کا انجکشن بھی دیدیا ,توکیا اس سے روزہ متاثرہوتا ہے؟

    جواب :

    سوال میں مذکورہ صورت پیش آنے سے روزہ کی صحت پرکوئی اثرنہیں پڑتا ,بلکہ یہ چیز معفوعنہ ہے, البتہ اسکے لئے یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ دوا یا خون کا کچہ حصہ نکل نہ جائے- اسی طرح مذکورہ انجکشن سے بھی روزہ کی صحت پرکوئی اثرنہیں پڑتا ,کیونکہ یہ کھانے پینے کے حکم میں نہیں ہے, اورروزہ کا صحیح اوردرست ہونا ہی اصل ہے-

    سوال 16:

    جس شخص نے روزہ کی حالت میں بھول کرکچہ کھا پی لیا اسکا کیا حکم ہے؟

    جواب :

    ایسے شخص پرکچہ نہیں, اوراسکا روزہ صحیح ہے , کیونکہ نبی ﷺ‬م کا ارشاد ہے:

    ] رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا } (286) سورة البقرة

    اے ہمارے رب! ہم اگربھول گئے یا غلطی کربیٹھے توہماری گرفت نہ کر-

    اس آیت کی تفسیرمیں رسول اللہ ﷺ‬ کی صحیح حدیث ہے کہ بندے کے جواب میں اللہ تعالى نے فرمایا :

    "میں نے تمہاری بات قبول کرلی "

    نیز ابوہریرہ t سے مروی ہے کہ نبی ﷺ‬ نے فرمایا :

    "جس نے روزہ کی حالت میں بھول کربیوی سے جماع کرلی تو مذکورہ بالاآیت کریمہ اورحدیث شریف کی روشنی میں علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق اسکا روزہ صحیح ہے ,نیزرسول ﷺ‬ کی حدیث ہے:

    "جس نے رمضان میں بھول کرروزہ توڑدیا تواسپرنہ قضا ہے نہ کفارہ "

    اس حدیث کی امام حاکم نے تخریج کی ہے اورصحیح قراردیا ہے-

    اس حدیث کے الفاظ جماع اوردیگرتمام مفطرات کو شامل ہیں, اگرروزہ دارنے بھول کرایسا کیا ہو, اوریہ اللہ تعالى کی رحمت اوراسکا فضل واحسان ہے- فللہ الحمد والشکرعلی ذالک –

    سوال 17:

    اس شخص كا كيا حكم هے جس نے رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے قضا نہ کئے یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا اوراسکے پاس کوئی عذربھی نہیں تھا, کیا ایسے شخص کے لئے روزوں کی قضا اورتوبہ کرلینا کافی ہے, یا اسکے ساتہ ہی کفارہ بھی دینا ہوگا؟

    جواب :

    ايسے شخص کے لئے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنے کے ساتہ ہی اللہ تعالى سے سچی توبہ کرنی ہوگی اورہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلانا ہوگا ,جسکی مقدارصاع نبوی –ﷺ‬–سے نصف صاع یعنی تقریباً ڈیڑہ کلو گرام غلہ مثلاً کجھوریا گیہوں یا چاول وغیرہ ہے-

    اسکے علاوہ اس پراورکوئی کفارہ نہیں, صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت جسمیں عبد اللہ بن عباس d بھی ہیں ,کا یہی فتوى' ہے – لیکن اگروہ کسی مرض یا سفرکی وجہ سے معذورتھا , یاعورت حمل یا رضاعت (بچہ کودودھ پلانے ) کی وجہ سے معذورتھی اورروزہ رکھنا اسکے لئے دشوارتھا, توایسی صورت میں چھوٹے ہوئے روزوں کی صرف قضا کرنی ہوگی-

    سوال 18:

    تارک نماز کے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے ؟ اوراگرروزہ رکھے تو کیا اسکا روزہ درست ہے؟

    جواب :

    صحیح بات یہ ہےکہ عمداً نمازترک کرنے والا کافرہے, لہذا جب تک وہ اللہ تعالى سے توبہ نہ کرلے اسکا روزہ اوراسی طرح دیگرعبادات درست نہیں, کیونکہ اللہ تعالى کا ارشادھے:

    ] وَلَوْ أَشْرَكُواْ لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ} (88) سورة الأنعام

    اوراگرانہوں نے شرک کیا ہوتا تووہ سب اکارت ہوجاتا جووہ کرتے تھے- نیزاس معنی کی دیگرآیات اوراحادیث بھی تارک نماز کے اعمال اکارت ہوجانے کی دلیل ہیں-

    لیکن کچہ اہل علم اسطرف گئے ہیں کہ تارک نمازاگرنمازکی فرضیت کا معترف ہے لیکن سستی ولاپروائی کی وجہ سے نمازچھوڑتا ہے , تواسکا روزہ اوردیگرعبادات برباد نہیں ہوں گی , لیکن پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے , یعنی عمداً نمازترک کرنے والا کافرہے , بھلے ہی وہ نماز کی فرضیت کا معترف ہو, کیونکہ اس قول پربے شماردلائل موجود ہیں, انہیں دلائل میں سے رسول ﷺ‬ کا یہ ارشاد گرامی ہے:

    " بندہ کے درمیان اورکفروشرک کے درمیان بس نماز چھوڑنےکا فرق ہے"

    اس حدیث کوامام مسلم نے اپنی صحیح میں جابربن عبد اللہ d کی طریق سے روایت کیا ہے –

    اورآپ ﷺ‬ کی یہ حدیث بھی :

    "ہمارے اوران (کافروں) کے درمیان جومعاہدہ ہے وہ نمازہے, تو جس نے نماز چھوڑدی اسنے کفرکیا"

    اس حدیث کو امام احمد نیز ائمہ اربعہ ( ابوداؤد ,نسائی ,ترمذی اورابن ماجہ ) نے بریدہ بن حصین اسلمی t کے طریق سے صحیح سند کے ساتہ روایت کیا ہے-

    اس بارے میں امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے نماز کے احکام اورنماز چھوڑنے کے احکام پرمستقل ایک رسالہ میں سیرحاصل گفتگوکی ہے,یہ رسالہ بڑا مفید اورقابل مطالعہ ہے ,اس سے استفادہ کرنا چاہئے-

    سوال 19:

    جس شخص نے رمضان کے روزہ کی فرضیت کا انکارکئے بغیرروزہ چھوڑدیا اسکا کیا حکم ہےے؟ اورجولاپروائی برتتے ہوئے ایک سے زیادہ مرتبہ رمضان کے روزے چھوڑدے توکیا اسکی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا؟

    جواب :

    جب کسی نے شرعی عذرکے بغیرعمداً رمضان کا روزہ چھوڑدیا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا, اسکی وجہ سے وہ علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق کافرقرارنہیںدیا جائیگا ,البتہ اسکو چھوڑے ہوئے روزے کی قضا کرنے کے ساتہ ہی اللہ تعالى سے توبہ کرنی ہوگی – بے شماردلائل سے ثابت ہوتاہے کہ روزہ کی فرضیت کا انکارکئے بغیرمحض سستی ولا پروائی کی بنا پراگرکوئی شخص رمضان کا روزہ چھوڑدے تو اسکی وجہ سے وہ کافرشمارنہیں ہوگا , البتہ اگرچھوٹے ہوئے روزوں کی قضا بغیرکسی شرعی عذرکے اس نے دوسرے رمضان تک موخرکردی تو اسے ہرروزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا بھی کھلانا ہوگا, جیسا کہ سوال نمبر17 کے جواب میں گزرچکا ہے –

    اسی طرح زکاۃ نہ دینے اوراستطاعت کے باوجود حج نہ کرنے کا مسئلہ بھی ہے, کہ بندہ اگران کی فرضیت کا منکرنہ ہوتو اسکی وجہ سے وہ کافرنہیں قراردیا جائیگا, البتہ اسے پچھلے سالوں کی زکاۃ نکالنی ہوگی , اورحج کرنا ہوگا, اوران فرائض کی ادائیگی میں جوتاخیرہوئی ہے اس سلسلہ میں اللہ تعالی سے سچی توبہ کرنی ہوگی, کیونکہ اس بارے میں جوشرعی دلائل ہیں وہ عام ہیں , اوراس بات پردلالت کرتے ہیں کہ بندہ اگرزکاۃ اورحج کی فرضیت کا منکرنہ ہو تو ان کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے وہ کافرنہیں قراردیا جائیگا,انہی دلائل میں سے رسول اللہ ﷺ‬ کی وہ حدیث بھی ہے جس میں یہ مذکورہے کہ تارک زکاۃ کو قیامت کے دن اسکے مال کے ذریعہ عذاب دیا جائیگا ,پھرجنت یا جہنم کی طرف اسکا ٹھکانہ دکھایا جائیگا-

    سوال 20:

    حائضہ عورت اگررمضان کے مہینہ میں دن میں ناپاک ہوجائے تواسکا کیا حکم ہے؟

    جواب :

    علماء كے صحیح ترین قول کے مطابق اس عورت کو بقیہ دن کھانے پینے اوردیگرمفطرات سے رک جانا ہوگا , کیونکہ روزہ نہ رکھنے کا جوشرعی عذرتھا وہ زائل ہوچکا ہے, اوراسے اس دن کے روزہ کی قضا بھی کرنی ہوگی , یہ مسئلہ اسی طرح ہے کہ اگردن میں رمضان کے چاندکی رویت ثابت ہوجائے تو جمہوراہل علم کے نزدیک مسلمان اس دن کھانے پینے اوردیگرمفطرات سے رک جائیں گے اوربعد میں اس دن کے روزہ کی قضا کریں گے , اوراسی طرح مسافراگردن میں سفرسے وطن واپس آجائے تو علماءکے صحیح ترین قول کے مطابق وہ بقیہ دن کھانے پینے اورمفطرات سے رک جائےگا, کیونکہ سفرکا حکم اب ختم ہوچکا, لیکن بعد میں اسے اس دن کی قضا کرنی ہوگی – واللہ ولی التوفیق-

    سوال 21:

    روزہ دارکے جسم سے اگرخون نکل جائے ,مثلاً نکسیروغیرہ پھوٹ جائے تو اسکا کیا حکم ہے ؟ اورکیا روزہ دارکے لئے روزہ کی حالت میں اپنے خون کے کچھ حصہ کا صدقہ کرنا یا چیک اپ کے لئے خون نکلوانا جائز ہے؟

    جواب :

    روزہ دارکے جسم سے اگرخون نکل جائے , مثلاً نکسیرپھوٹ جائے یا استحاضہ ہوجائے تو اس سے روزہ پرکوئی اثرنہیں پڑتا, البتہ حیض اورنفاس آنے سے نیز پچھنہ لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے –

    بوقت ضرورت چیک اپ کے لئے خون نکلوانے میں کوئی حرج نہیں , اس سے روزہ پرکوئی اثرنہیں پڑتا , البتہ روزہ کی حالت میں خون کا صدقہ (تبرع) کرنے کی بابت احتیاط اسی میں ہے کہ یہ کا م روزہ افطارکرنے کے بعد کیا جائے , کیونکہ اس صورت میں عموماً خون زیادہ نکالا جاتا ہے, اسلئے یہ پچھنہ لگوانے کے مشابہ ہے – واللہ ولی التوفیق-

    سوال 22:

    کسی روزہ دارنے یہ سمجہ کرکہ آفتاب غروب ہوچکا ,یا یہ سمجہ کرکہ ابھی صبح صادق نہیں طلوع ہوئی ہے , کچہ کھاپی لیا , یا بیوی سے جماع کرلیا تو اسکا کیا حکم ہے؟

    جواب:

    صحیح بات یہ ہےکہ روزہ کے سلسلہ میں احتیاط برتتے ہوئے اورتساہل کا سد باب کرنے کے لئے ایسے شخص کو اس روزہ کی قضا کرنی ہوگی اوربیوی سے جماع کرنے کی صورت میں جمہوراہل علم کے نزدیک ظہارکا کفارہ بھی دینا ہوگا-

    سوال 23:

    جس شخص نے رمضان کے روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیا اسکا کیا حکم ہے؟ اورکیا مسافرکے لئے روزہ نہ رکھنے کی صورت میں بیوی سے جماع کرنا جائزہے؟

    جواب :

    جس نے رمضان میں روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیا اوراس پرروزہ فرض تھا ,تو اس پرکفارۂ ظہار- واجب ہے,ساتہ ہی اسے اس روزہ کی قضا نیزجوغلطی سرزد ہوئی ہے اس پراللہ تعالى سے توبہ کرنی ہوگی- لیکن اگروہ سفرمیں تھا, یا کسی ایسے مرض کا شکارتھا جس سے اسکے لئے روزہ نہ رکھنا درست ہے ,تو ایسی صورت میں اسے صرف اس روزہ کی قضا کرنی ہوگی, کوئی کفارہ وغیرہ لازم نہیں ہوگا, کیونکہ مسافراورمریض کے لئے روزہ توڑدینا جائز ہے خواہ وہ جماع (ہمبستری) کے ذریعہ ہو یا کسی اورچیز کے ذریعہ ,اللہ تعالى کا ارشاد ہے:

    ) فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ } (184) سورة البقرة

    پس تم میں سے جوشخص بیمارہویا سفرپرہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرلے –

    اس سلسلہ میں عورت کا حکم بھی وہی ہے جو مردکا حکم ہے, یعنی اگروہ فرض روزہ سے تھی تواس پرکفارہ اورقضا دونوں واجب ہیں, اوراگرسفرمیں تھی یا کسی ایسے مرض کا شکارتھی جس سے اسکے لئے روزہ رکھنا دشوارتھا توایسی صورت میں اس پرکفارہ نہیں, بلکہ صرف اس روزہ کی قضا لازم ہے-

    سوال 24:

    تنفس( دمہ) وغیرہ کے مریض کے لئے روزہ کی حالت میں منہ میں بخاخ (اسپرے) استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟

    جواب :

    مریض اگربخاخ (اسپرے) استعمال کرنے کے لئے مجبورہوتوجائز ہے ,اللہ تعالى کا ارشاد ہے:

    ) وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ } (119) سورة الأنعام

    اورالله نے تمہارے لئے بیان کردیا ہے جو اسنے تم پرحرام کیا ہے , ہاں مگروہ چیزیں جن کے لئے تم مجبورہوجاؤ-

    اوراسلئے بھی بخاخ (اسپرے) کا استعمال جائز ہے کہ یہ کھانے پینے کے قبیل سے نہیں , بلکہ چیک اپ کے لئے خون نکلوانے اورغیرمغذی انجکشن لگوانے کے زیادہ مشابہ ہے –

    سوال 25:

    روزه داركے لئے بوقت ضرورت پائخانہ کے راستہ سے حقنہ لگوانا کیسا ہے ؟

    جواب :

    مريض اگرضرورتمند ہے تو علماءکے صحیح ترین قول کے مطابق مذکورہ حقنہ لگوانے میں کوئی حرج نہیں ,شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نیزدیگربہت سے اہل علم کا یہی مسلک ہے, کیونکہ حقنہ لگوانا کھانے پینے سے مشابہت نہیں رکھتا-

    سوال 26:

    روزہ کی حالت میں کسی کو خود بخود قے ہوجائے تو اسکا کیا حکم ہے ؟ وہ اس روزہ کی قضا کرے یا نہ کرے؟

    جواب :

    روزہ کی حالت میں خودبخود قے ہوجانے سے روزہ کی قضا نہیں, لیکن اگرکسی نے عمداً قے کیا ہے تو اسے اس روزہ کی قضا کرنی ہوگی , کیونکہ نبی ﷺ‬ کا ارشادہے:

    "جسے خود بخود قے ہوجائے اس پرقضا نہیں ,اورجس نے عمداً قے کی اس پرقضا ھے" –

    اس حدیث کو امام احمد نیز اصحاب سنن اربعہ (ابوداؤد ,نسائی ,ترمذی اورابن ماجہ ) نے ابوہریرہ t کے طریق سے صحیح سند کے ساتہ روایت کیا ہے_

    سوال 27:

    گردہ کے مریض کے لئے روزہ کی حالت میں خون تبدیل کرانا کیسا ہے؟ وہ اس روزہ کی قضا کرے یانہ کرے؟

    جواب :

    مسئولہ صورت میں روزہ کی قضا کرنی ہوگی, کیونکہ اس سے مریض کو تازہ خون مل جاتا ہے ,خون کے ساتہ ہی اگراسے اورکوئی مادہ دے دیا گیا تووہ ایک دوسرا مفطر(روزہ توڑنے والا) شمارہوگا-

    سوال 28:

    مرد اورعورت کے لئے اعتکاف کا کیا حکم ہے؟ اورکیا اعتکا ف کرنے کے لئے روزہ شرط ہے؟ اورمعتکف بحالت اعتکاف کیا کرے؟ نیزوہ اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ) میں کس وقت داخل ہو اورکب باہرنکلے؟

    جواب:

    اعتكاف مرد اورعورت دونوں کے لئے سنت ہے, کیونکہ نبی ﷺ‬ سے ثابت ہے کہ آپ رمضان میں اعتکاف فرماتے تھے , اورآخرزندگی میں صرف آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے ,آپ کے ساتہ بعض ازواج مطہرات بھی اعتکاف کرتی تھیں, اورآپ کی وفات کے بعد بھی انہوں نے اعتکاف کیا-

    اعتکاف کرنے کی جگہ وہ مساجد ہیں جن میں باجماعت نماز قائم کی جاتی ہو,اعتکاف کے دوران اگرجمعہ پڑے توافضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کیا جائے –

    اعتکاف کرنے کے لئے علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق کوئی متعین وقت نہیں , اورنہ ہی اسکے لئے روزہ رکھنا شرط ہے ,البتہ روزہ کی حالت میں اعتکاف افضل ہے-

    سنت یہ ہے کہ معتکف نے جس وقت سے اعتکاف کرنے کی نیت کی ہے اسوقت وہ اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ ) میں داخل ہو اورجتنی دیرکے لئے اعتکاف کی نیت کی تھی وہ وقت پورا ہونے پرباہرآجائے – کوئی ضروت پیش آجائے تو اعتکاف توڑبھی سکتا ہے ,کیونکہ یہ سنت ہے, اسکا پورا کرنا ضروری نہیں ,البتہ اس صورت میں اعتکاف پورا کرنا ضروری ہے جب اسکی نذرمانی گئی ہو-

    نبی کریم ﷺ‬ کی اتباع میں رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا مستحب ہے ,اورجوشخص اس عشرہ میں اعتکاف کی نیت کرے اسکے لئے مستحب یہ ہے کہ نبی ﷺ‬ کی اقتدا کرتے ہوئے اکیسویں رمضان کو فجرکی نماز پڑھ کراپنے معتکف میں داخل ہو اورآخری عشرہ مکمل ہونے پرباہرآئے- درمیان میں اگروہ اعتکاف توڑدے تو اسمیں کوئی حرج نہیں ,الایہ کہ اس نے اعتکاف کرنے کی نذرمانی ہو , تو اس صورت میں اعتکاف پوراکرنا ضروری ہے ,جیساکہ اوپرمذکورہوا,

    افضل یہ ہےکہ معتکف مسجد کے اندراپنے لئے کوئی مخصوص جگہ بنالے ,تاکہ ضرورت محسوس ہونے پراسمیں کچہ آرام کرسکے –

    معتکف کو کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاھئے اورذکرواذکاراوردعا واستغفارمیں مشغول رہنا چاھئے ,نیزغیرممنوع اوقات میں بکثرت (نفل ) نمازیں پڑھنی چاہئیں-

    معتکف کے بعض احباب واقارب اگراس سے ملنے کے لئے آئیں اوریہ ان کے سات گفتگو کرلے تو اسمیں کوئی حرج نہیں, نبی ﷺ‬ کے اعتکاف کی حالت میں بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن آپ سے ملنے کے لئے آتیں اورآپ کے ساتہ گفتگوکرتی تھیں , ایک مرتبہ صفیہ رضی اللہ عنہا آپ سے ملنے کے لئے آئیں ,اسوقت آپ رمضان میں اعتکاف میں تھے , جب وہ واپس جانے کے لئے کھڑی ہوئیں تو آپ انہیں رخصت کرنے کے لئے مسجد کے دروازہ تک تشریف لے گئے-

    یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ معتکف سے ملنے اوراسکے ساتہ گفتگو کرلینے میں کوئی حرج نہیں ,نیزاس واقعہ میں مذکورآپ ﷺ‬ کا فعل آپ کے انتہائی تواضع اورازواج مطہرا ت کے ساتہ آپ کے حسن معاشرت کی دلیل ہے-

    وصلی اللہ علی نبینا محمد ,وآلہ وصحبہ ,وأتباعہم بإحسان إلی یوم الدین.

    فہرس

    روزہ

    سوال: صفحہ

    1-رمضان کے روزے کن لوگوں پرفرض ہیں؟ نیزرمضان کے 2-3

    روزوں کی اورنفل روزوں کی کیا فضیلت ہے؟

    2-کیا سوجھ بوجھ رکھنے والے بچے سے روزہ رکھوایا جائے گا ؟ 3

    اوراگرروزہ رکھنے کے دوران ہی وہ بالغ ہوجائے توکیا یہ روزہ فرض

    روزہ کی طرف سے کفایت کرے گا؟

    3-مسافرکے لئے سفرمیں اورخصوصاً ایسے سفرمیں جس میں کسی طرح 3-4

    کی مشقت درپیش نہ ہو, روزہ رکھنا افضل ہے یا نہ رکھنا؟

    4-ماه رمضان كا شروع هونا اوراختتام كوپہنچنا کس چیزسے ثابت ہوگا؟ 4-5

    اوراگررمضان کے شروع ہونے یامکمل ہونے کے وقت صرف ایک شخص

    نے اکیلے چاند دیکھا تواسکا کیا حکم ہے؟

    5-مطلع بدل جائے تولوگ کس طرح روزے رکھیں؟ اورکیا دوردراز ملکوں میں مثلا امریکہ اورآسٹریلیا وغیرہ میں رہنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ

    سعودی عرب والوں کی رویت کی بنیاد پرروزہ رکھیں؟ 5-6

    6-جن ملکوں میں دن اکیس گھنٹے تک بڑا ہوتا ہے وہاں کے لوگ

    کس طرح روزہ رکھیں؟ اسی طرح جن ملکوں میں دن بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے

    وھاں کے لوگ کیا کریں؟ اوراسی طرح وہ ممالک جہاں دن اوررات 6-10

    چھ چہ ماہ تک لمبے ہوتے ہیں وہاں کے لوگ کس طرح روزہ رکھیں؟

    7-کیا اذان شروع ہونے کے ساتہ ہی سحری کھانے سے رک جانا 10-11

    ضروری ہے یا اذان ختم ہونے تک کھا,پی سکتے ہیں؟

    8- کیا حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کے لئے روزہ نہ رکھنے کی 11-12

    اجازت ہے ؟ اورکیا ایسی عورتوں کوچھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنی

    ہوگی یاروزہ نہ رکھنے کے بدلے کفارہ دینا ہوگا؟

    9- وہ لوگ جن کے لئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ,مثلاً 13

    عمررسیدہ مرد وعورت اورایسا مریض جسکے شفایاب ہونے

    کی امید نہ ہو, ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا

    روزہ نہ رکھنے کے عوض انہیں فدیہ دینا ہوگا؟

    10-حیض اورنفاس والی عورتوں کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟

    اگرانہوں نے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا آئندہ رمضان تک موخر

    کردی توان پرکیا لازم ہے؟ 12-13

    11- جس شخص کے ذمہ رمضان کے روزوں کی قضا ہواسکے لئے

    نفلی روزہ رکھنا کیسا ہے؟ 13

    12- ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جومریض تھا, پھراس 13-14

    پررمضان کا مہینہ بھی آیا مگروہ روزہ نہ رکھ سکا ,اوررمضان کے

    بعد انتقال کرگیا؟

    13- روزہ دارکے لئے رگ اورعضلات میں انجکشن لگوانے کا کیا 14

    حکم ہے؟ نیز ان دونوں قسم کے انجکشن میں کیا فرق ہے؟

    14-روزہ دارکے لئے دانت کے پیسٹ استعمال کرنے ,نیزکان کے, 14-15

    ناک کے اورآنکھ کے قطرے ڈالنے کا کیا حکم ہے؟

    15-کسی شخص نے دانتوں میں تکلیف محسوس کی اورڈاکٹرنے اسکے 15

    دانتوں کی صفائی کردی یا تکلیف کی جگہ دانت میں کچہ بھردیا یا

    کسی دانت کو اکھاڑدیا, تو کیا اس سے روزہ پرکوئی اثرپڑتا ہے؟ اور

    اگرڈاکٹرنے دانت سُن کرنے کا انجکشن بھی دیدیا تو کیا اس سے روزہ

    متاثرہوتا ہے؟

    16-جس شخص نے روزہ کی حالت میں بھول کرکچہ کھا ,پی لیا تو 15-16

    اسکا کیا حکم ہے ؟

    17-اس شخص کا کیا حکم ہے؟ جس نے رمضان کے چھوٹے ہوئے 16

    روزے قضا نہ کئے یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا اوراسکے

    پاس کوئی عذربھی نہیں تھا؟

    18-تارک نماز کے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟اوراگروہ روزہ 16-17

    رکھے تو کیا اسکا روزہ درست ہےظ

    19- جس شخص نے رمضان کے روزہ کی فرضیت کا انکارکئے بغیرروزہ

    چھوڑدیا اسکا کیا حکم ہے؟ اورجولاپرواہی برتتے ہوئے ایک سے

    زیادہ مرتبہ رمضان کے روزے چھوڑدے تو کیا اسکی وجہ سے وہ دائرہ اسلام

    سے خارج ہوجائے گا؟ 17-18

    20-حائضہ عورت اگررمضان کے مہینہ میں دن میں پاک ہوجائے تو اسکا

    کیا حکم ہے؟ 18

    21-روزہ دارکے جسم سےاگرخون نکل جائے,مثلاً نکسیروغیرہ پھوٹ جائے

    تواسکا کیا حکم ہے؟ اورکیا روزہ دارکے لئے روزہ کی حالت میں

    اپنے خون کے کچہ حصہ کا صدقہ کرنا یا چیک اپ کیلئے خون

    نکلوانا جائز ہے؟ 18

    22- کسی روزہ دارنے یہ سمجھ کرکہ آفتاب غروب ہوچکا ,یا یہ سمجھکر

    کہ ابھی صبح صادق طلوع نہیں ہوئی ہے, کچہ کھا پی لیا یا بیوی سے

    جماع کرلیا تو اسکا کیا حکم ہے؟ 18-19

    23-جس شخص نے رمضان میں روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیا تو

    اسکا کیا حکم ہے؟ اورکیا مسافرکے لئے روزہ نہ رکھنے کی صورت

    میں بیوی سے جماع کرنا جائزہے؟ 19

    24-تنفس وغیرہ کے مریض کے لئے روزہ کی حالت میں منہ میں بخاخ

    (اسپرے) استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟ 19-20

    25-روزہ دارکے لئے بوقت ضرورت پائخانہ کے راستہ سی 20

    حقنہ لگوانا کیسا ہے؟

    26-روزہ کی حالت میں کسی کو خودبخود قے ہوجائے تواسکا کیا 20

    حکم ہے ؟

    27- گردہ کے مریض کے لئے روزہ کی حالت میں خون تبدیل کرانا کیسا 20

    ہے؟

    28- مرد اورعورت کے لئے اعتکاف کا کیا حکم ہے؟ اورکیا اعتکاف کرنے

    کے لئے روزہ شرط ہے؟ اورمعتکف بحالت اعتکاف کیا کرے ؟ نیز

    وہ اپنے معتکف میں کس وقت داخل ہو اورکب باہرنکلے؟ 20-22