×
امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت وسیرت

امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت وسیرت

تألیف: شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے سزاوار ہیں، جو تمام كائنات کا پروردگار ہے اور درود وسلام نازل ہو اُس کے بندے، رسول اور مخلوق میں سب سے بہتر، یعنی ہمارے امام وآقا محمد بن عبداللہ پر، نیز آپ کے آل واصحاب اور آپ کے جملہ وابستگان پر۔

حمد و صلاۃ کے بعد: فاضل بھائیو اور عزیز بچو! یہ مختصر محاضرہ (لیکچر) جسے لے کر میں آپ کے سامنے حاضر ہوا ہوں، اس کا مقصد, افکار وخیالات کو جلا بخشنا، حقائق کو آشکار کرنا، اللہ اوراس کے بندوں کے تئیں خیرخواہیکو پورا کرنا، نیز جس عظیم ہستی کے بارے میں مجھے اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی ہے، اس کے مجھ پر عائد بعض حقوق کی ادائیگی کی ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہونے کی کاوش ہے۔ اس محاضرے (لیکچر) کا عنوان ہے: "شیخ امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت وسیرت"

چوں کہ مصلحین کرام، داعیانِ حق اور مجددینِ اسلام کے حوالے سے گفتگو کے بارے میں، اوردعوت واصلاح میں ان کے اخلاص وسچائی پر دلالت کرنے والى ان کی حالاتِ زندگی، اخلاقِ فاضلہ اور روشن کارناموں کے ذکرِ جمیل کے بارے میں, سننے کا لوگوں میں بڑا اشتیاق ہوتا ہے اور اس سے ان کے دلوں کو سکون ملتا ہے۔ اسی طرح دین کے تئیں ہر غیور فرد اور اصلاح وراہ حق کی طرف دعوت دینے کى رغبت رکھنے والا ہر شخص, اس تذکرے کو سننے کے تئیں مشتاق ہوتا ہے، اس لیے اس مناسبت سے میں نے بہتر سمجھا کہ آج آپ کے سامنے ایک عظیم ہستی، چوٹی کے ایک مصلح اور ایک غیور داعی کے بارے میں اظہارِ خیال کروں۔ اُن سے میری مراد بارہویں صدی ہجری میں جزیرۂ عرب کے مجددِ اسلام اور امامِ وقت شیخ محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان بن علی تمیمی حنبلی کی شخصیت ہے۔

عوام الناس، بطورِ خاص جزیرۂ عرب کے اندر وباہر کے علما و داعیان اور اکابرین وعمائدین کے درمیان امام رحمہ اللہ کی شخصیت کافی معروف ہے۔ بہت سے لوگوں نے مفصل ومختصر انداز میں آپ کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ چنانجہ بعض افراد نے آپ کے بارے میں مستقل کتابیں تالیف کى ہیں, یہی نہیں، بلکہ مستشرقین نے بھی آپ کے بارے میں کافی کچھ لکھا ہے۔ اسی طرح دیگر قلم کاروں نے بھی عام مصلحین کے متعلق اپنیتحریروں نیز تاریخ سے متعلق اپنى تحریروں میںآپ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ان میں سے انصاف پسند مصنفین نے آپ کو عظیم مصلح اور اسلام کا مجدد قرار دیا ہے اور یہ کہ آپ اپنے رب کی طرف سے ہدایت و بصیرت پر تھے۔ اس طرح کے اہل قلم کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کا احاطہ مشکل ہے۔

اُن قلم کاروں میں سے ایک عظیم مؤلف ابوبکر شیخ حسین بن غنام احسائی بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔چنانچہ انہوں نے شیخ کے بارے میں بہترین انداز میں لکھا ہے، مفید معلومات یکجا کی ہیں، ان کی سیرت وسوانح اور غزوات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ان کے رسائل اور قرآن کریم سے ان کے اخذ کردہ مسائل کا بھی کافی تذکرہ کیا ہے۔ اُن اہلِ قلم میں سے شیخ عثمان بن بشر بھی ہیں، جنھوں نے اپنی کتاب “عنوان المجد“میں شیخ کی دعوت وسیرت، سوانح حیات، اور ان کے غزوات وجہاد سے متعلق بہت اچھا لکھا ہے۔ ان مصنفین میں سے ایسے قلم کار ، جن کا تعلق بیرون جزیرۂ عرب سے ہے۔ انہیں میں سے میں ڈاکٹر احمد امین بھی شامل ہیں، جنھوں نے اپنی کتاب “ زعماء الاصلاح“میں شیخ کے متعلق لکھتے ہوئے نہایت انصاف سے کام لیا ہے۔اُنہیں میں سے ممتاز عالم دین مولانا مسعود عالم ندوی بھی ہیں، جنھوں نے آپ کی سیرت کے متعلق اپنی کتاب “محمد بن عبدالوہاب ایک مظلوم اور بدنام مصلح“ میں بہت اچھا لکھا ہے۔ کچھ دیگر علما نے بھی شیخ کی دعوت وسیرت پر خامہ فرسائی کی ہے، جن میں سے ایک شیخ کبیر امیر محمد بن اسماعیل صنعانی ہیں، جو امام محمد بن عبد الوہاب کے ہم عصر اور آپ کی دعوت کےموافق تھے۔ جب ان کے پاس شیخ کی دعوت کے بارے میں خبر پہنچی، تو کافی خوش ہوئے اور اس پر اللہ کى حمد وثنا بیان کى۔

اسی طرح آپ کے بارے میں صاحب 'نیل الاوطار' علامہ شیخ محمد بن علی شوکانی نے بھی لکھا ہے اور ایک نہایت مؤثر مرثیہ کہا ہے۔ ان حضرات کے علاوہ دوسرے بہت سے لوگوں نے بھی آپ کی سوانح ودعوت پر قلم اُٹھایا ہے، جن سے پڑھے لکھے لوگ اور علما بخوبی واقف ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگ اس عظیم شخصیت کے احوال اور ان کی سیرت و دعوت سے ناواقف ہیں، اس لیے مناسب سمجھا کہ ان کی سوانح حیات، حسن سیرت، اصلاحی دعوت اور جہاد صادق پر میں بھی کچھ روشنی ڈال دوں اور امام ممدوح کے بارے میں جو کچھ مَیں جانتا ہوں، اس کی ایک مختصر سی جھلک پیش کردوں، تاکہ جو شخص اس عظیم ہستی کی زندگی، ان کی دعوت اور ان کے موقف کے سلسلے میں التباس یا شک وشبہ کا شکار ہے، اس کو شیخ کے معاملے میں بصیرت حاصل ہو۔ مشہور قول کے مطابق امام رحمہ اللہ کی ولادت باسعادت 1115ہجری میں ہوئی۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپ 1111 ہجری میں پیدا ہوئے۔ لیکن پہلا قول ہی زیادہ معروف ہے۔

آپ نے شہرعینیہ میں اپنے والد سےتعلیم حاصل کی۔ یہی شہرآپ رحمه الله کی جائے ولادت بھی ہے۔ یہ جگہ ریاض شہر کے شمال مغرب میں سرزمیں نجد میں واقع یمامہ علاقہ کى ایک مشہور بستی ہے،۔ اس کے اور ریاض کے مابین تقریبًا ستّر (۷۰) کلو میٹر کی مسافت ہے۔ آپ رحمہ اللہ اس بستی میں پیدا ہوئے اور یہیں آپ کی بہترین نشوونما ہوئی۔ بچپن ہی میں قرآن کریم ختم کر لیا اور اپنے والد شیخ عبدالوہاب بن سلیمان سے جو ایک عظیم فقیہ، جید عالم اور قصبہ عینیہ کے قاضی تھے، دینی تعلیم حاصل کرنے او رتفقہ فی الدین کے لئے کوششیں صرف کیں ۔ پھر سن رشد کو پہنچنے کے بعد حج اور بیت اللہ کا قصد کیا اور حرم شریف کے بعض علما سے علم حاصل کیا۔ پھر مدینہ منورہ کا رُخ کیا (درود سلام نازل ہو اس کے مکین پر)، وہاں کے علما سے ملے، ایک عرصے تک وہاں قیام فرمایا اور اُس وقت کے مدینہ کے دو بڑے مشہور عالموں سے علم حاصل کیا۔ان دونوں میں سے ایک ہیں: شیخ عبداللہ بن ابراہیم بن سیف نجدی، جو اصلًا مجمعہ کے باشندہ اور کتاب 'العذب الفائض فی علم الفرائض' کے مصنف شیخ ابراہیم بن عبداللہ کے والد تھے۔ اسی طرح آپ نے مدینے میں وہاں کے عظیم عالمِ دین شیخ محمد حیات سندی کے سامنے بھی زانوے تلمذ تہہ کیا۔ ان دو عالموں سے علم حاصل کرنے کی بات مشہور ہے۔ تاہم ممکن ہے کہ آپ نے وہاں ان کے علاوہ دیگر علما سے بھی استفادہ کیا ہو، جو ہمارے علم میں نہیں ہے۔شیخ نے طلب علم کے لیے عراق کا بھی سفر کیا، بصرہ میں قیام پذیر رہے اور وہاں کے علماء سے ملاقاتیں کیں، اللہ تعالٰی نے جتنی توفیق دی علم حاصل کیا، وہاں لوگوں کو اللہ کی وحدانیت اور سنت کی دعوت دی اور بتایا کہ تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ دینی علم قرآن وحدیث سے حاصل کریں۔ اس موضوع پر آپ نے وہاں کے علما سے بحث ومذاکرہ اور مناظرہ بھی کیا۔ وہاں آپ کے مشائخ میں سے شیخ محمد المجموعی نامی ایک شخص کو شہرت حاصل ہے۔ بصرہ کے بعض علماء سوء ان کے درپے آزار ہوگئے اور انہوں نے آپ کو اور آپ کے استاد کو گزند پہنچائی۔ چنانچہ آپ شام جانے کی نیت سے وہاں سے نکل گئے۔ لیکن زادِ راہ کی کمی کی وجہ سے شام کا سفر نہ کرسکے۔ بصرہ سے الزبیر اور پھر الزبیر سے احساء چلے آئے اور وہاں کے علما سے ملے اور دین کے اُصول سے متعلق بہت سے مسائل میں ان سے علمی مذاکرہ کیا۔پھر شہر حریملاء کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے حریملاء کا سفر غالبًا (واللہ اعلم ) بارہویں صدی ہجری کی پانچویں دہائی میں کیا، اس لیے کہ آپ کے والد عینیہ کے قاضی تھے اور عینیہ کے امیر سے اختلاف کی وجہ سے 1139 ہجری میں وہاں سے حریملاء منتقل ہوگئے تھے۔ چنانچہ آپ اپنےوالد کے سن مذکور میں حریملاء منتقل ہونے کے بعد ان کے پاس حریملا ہی آئے۔ لہذا حریملاء میں آپ کی تشریف آوری 1140 ہجری میں یا اُس کے بعد ہوئی۔ آپ وہیں ٹھہر گئے اور تعلیم اور دعوت و ارشاد میں مشغول رہے، تا آں کہ 1153 ہجری میں آپ کے والد کی وفات ہوگئی۔ والد کی وفات کے بعد حریملاء کے بعض لوگوں نے آپ کے ساتھ بدسلوکی کی، بلکہ کچھ شرپسندوں نے آپ کو قتل کرنا چاہا۔ کہا جاتا ہے کہ بعض شرپسند عناصر غلط ارادے سے آپ کے گھر کی دیوار پر چڑھ بھی چکے تھے۔ لیکن کچھ لوگوں کو اس کا علم ہوگیا، جس کی وجہ سے وہ بھاگ نکلے۔ اس حادثے کے بعد آپ عینیہ کی طرف کوچ کر گئے۔ اللہ تعالٰی آپ پر رحم فرمائے۔

ان کم عقلوں کی آپ سے ناراضگی کے اسباب یہ تھے کہ آپ نیکی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے تھے؛ امراء وسلاطین کو ان جرائم پیشہ افراد کو سزا دینے پر آمادہ کرتے تھے جو لوگوں پر ظلم ڈھاتے تھے، ان کے مال چھینتے اور اُن کو تکلیف پہنچاتے تھے۔ ایسے لوگوں کے گروہ میں وہ بے وقوف لوگ شامل تھے، جن کو وہاں 'عبید' کہا جاتا تھا۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ شیخ ان کے خلاف ہیں، ان کے کرتوت سے ناخوش ہیں اور امرا کو انہیں سزا دینے اور جرائم سے باز رکھنے کی ترغیب دلاتے ہیں، تو یہ کم عقل لوگ شیخ پر غصہ ہوگئے اور آپ کو قتل کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے شیخ کو ان کے ناپاک ارادوں سے محفوظ رکھا اور اس کے بعد آپ عینیہ منتقل ہوگئے۔ اس وقت عینیہ کے امیر عثمان بن محمد بن معمر تھے۔ آپ ان کے پاس گئے توامیر نے آپ کا اچھا استقبال کیا اور کہا کہ آپ دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ سے خیر خواہی، محبت اور دعوت کے مشن پر اپنی موافقت کا کا اظہار کیا۔

چنانچہ شیخ تعلیم اور دعوت وارشاد کے کام میں جُٹ گئے۔ لوگوں کو خیر کی اور اللہ کے لیے باہم محبت والفت رکھنے کی تعلیم دیتے رہے۔ آپ کو عینیہ میں کافی شہرت حاصل ہوگئی، ہر طرف چرچا ہونے لگا اور قریبی بستیوں سے لوگ آپ کے پاس آنے لگے۔ ایک دن شیخ نے حاکم عیینہ عثمان سے کہا کہ آپ ہمیں زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قبہ (گنبد) ڈھانے کی اجازت دیں۔ اس لیے کہ اس کی بنیاد خلاف شرع پڑی ہے۔ اللہ تعالٰی کو یہ بات ناپسند ہے اور رسول ﷺ نے قبروں پر عمارت تعمیر کرنے اور ان پر مسجد بنانے سے منع فرمایا ہے۔ اس قبہ نے لوگوں کو فتنے میں ڈال دیا ہے، عقائد خراب کردیے ہیں اور اس سے شرک کو رواج مل رہا ہے۔ اس لیے اسے ڈھانا ضروری ہے۔ حاکم عیینہعثمان نے جواب دیا کہ اس نیک کام سے آپ کو کوئی روک نہیں سکتا۔شیخ نے فرمایا کہ ڈر ہے کہ اس سے جبیلہ والے بھڑک اٹھیں گے! جبیلہ قبر زید بن خطاب سے قریب واقع ایک گاؤں کا نام ہے۔ چنانچہ امیر عثمان اپنے چھ سو فوجیوں کے ہمراہ قبہ (گنبد) کو ڈھانے کے لیے نکلے۔ ان کے ساتھ شیخ رحمہ اللہ بھی تھے۔ جب یہ لوگ قبہ کے قریب پہنچے اور جبیلہ والوں کو اس کی خبر ہوئی، تو اسے بچانے کے لیے سب نکل پڑے۔ لیکن جب ان کی نظر میر عثمان اور ان کے ساتھ آئے لشکر پر پڑی، تو رُک گئے اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ شیخ نے خود اس قبے کو منہدم کیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں اس قبے کو مٹا دیا۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ نجد میں شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے مستقل قیام اور پھر دعوت وتبلیغ کے اسباب سے پہلے نجد کی حالت کیا تھی، یہاں اس کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے:شیخ رحمہ اللہ کی دعوت سے پہلے اہلِ نجد ایسی حالت میں تھے، جسے کوئی بھی مسلمان پسند نہیں کرسکتا۔ نجد میں شرک اکبر کا رواج عام ہوچکا تھا۔ یہاں تک کہ گنبد، درخت، پتھر اور غاروں کی پوجا پاٹ شروع ہوگئی تھی۔ جو بھی ولی ہونے کا دعوٰی کرتا، اُس کی عبادت کی جاتی تھی۔ حالاں کہ وہ آوارہ گرد اور بے وقوف لوگ ہوا کرتا تھے۔ نیز اللہ تعالٰی کے علاوہ کچھ ایسے ولایت کے دعویدار پوجے جانے لگے تھے، جو پاگل اور بےعقل تھے۔ نجد میں جادوگروں اور کاہنوں کی شہرت عام ہوگئی تھی۔ لوگ ان سے سوال کرتے اور ان کے جواب و پیشین گوئیوں کی تصدیق کرتے تھے۔ کوئی اس پر نکیر کرنے والا نہیں تھا۔ اِلّا یہ کہ جسے اللہ تعالٰی نے توفیق دی ہو۔ لوگوں پر دنیا طلبی اور دنیاوی خواہشات کا غلبہ ہوچکا تھا۔ اللہ والوں اور اس کے دین کے مددگاروں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی تھی۔ اس طرح حرمین شریفین اور یمن میں شرک وبدعت، قبروں پر گنبدوں کی تعمیر اور اولیاے کرام سے فریاد طلبی کا رواج جڑ پکڑ گیا تھا۔ یمن میں اس طرح کی بہت سی برائیاں پائی جاتی تھیں اور نجد کے شہروں میں تو شرک و بدعت کا کوئی شمار نہیں تھا۔ اس کا تعلق چاہے قبر سے ہو یا غار سے، درخت سے ہو یا مجنوں، مجذوبوں اور سرپھرے آوارہ گردوں سے، اللہ کے علاوہ انہیں پکارا جاتا اور اللہ کے ساتھ ان سے بھی فریاد طلب کی جاتی تھی۔ اسی طرح نجد میں جنوں کو پکارنا، ان سے مدد طلب کرنا، ان کے نام کا ذبیحہ پیش کرنا اور ان سے مدد کی اُمید اور شر کے خوف سے ان ذبیحوں کو گھروں کے گوشوں میں رکھنا، یہ سب عام ہو چلا تھا۔جب شیخ رحمہ اللہ نے دیکھا کہ لوگوں میں شرک پنپتا اور پھیلتا جارہا ہے اور کوئی اس پر نکیر بھی نہیں کر رہا ہے، نہ ہی کوئی دین کی دعوت دینے والا ہے، ایسی ناگفتہ بہ حالت کو دیکھ کر ان برائیوں کی اصلاح اور لوگوں کو خالص دین کی دعوت دینے کے لیے آپ پوری شجاعت ودلیری کے ساتھ کمربستہ ہوگئے اور دعوت کے راستے میں پیش آنے والی تکلیفوں پر صبر کیا۔ اور آپ کو یہ بخوبی علم ہوگیا کہ جہاد اور اذیت پر صبروتحمل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے, چنانچہ آپ نے عینیہ میں قیام کے دوران ہی اسلامی تعلیم وتربیت، صحیح راستے کی طرف رہنمائی اور دعوت ارشاد میں اپنی تگ ودو تیزتر کردی اور یہ اُمید لے کر علما سے خط وکتابت اور علمی مذاکرے کا سلسلہ شروع کیا کہ وہ اللہ تعالٰی کے دین کی نصرت وتائید نیز شرک و بدعت اور مروجہ خرافات کا قلع قمع کرنے کے لیے ان کا ساتھ دیں گے۔ چنانچہ نجد، حرمین شریفین، یمن اور دوسری جگہوں کے بہت سے علما نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور آپ کے پاس تائیدی خطوط بھیجے۔ لیکن دوسری طرف کچھ علما نے آپ کی سخت مخالفت کی۔ آپ کی دعوت میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ آپ کی مذمت اور آپ سے لوگوں کو متنفر کرنا شروع کردیا۔ ایسے لوگ دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے: ایک گروہ خرافاتیوں اور جا ہلوں کا تھا۔ اسے نہ اللہ کے دین کا علم تھا، نہ ہی اللہ کی وحدانیت سے واقفیت تھی۔ ہاں!۔ اپنے آبا واجداد سے وراثت میں ملی جہالت و گمراہی، شرک وبدعت اور خرافات کا علم ان کو اچھی طرح تھا۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا ہے:''ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم اُنہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں''۔[سورہ الزخرف آیت: 23],اور ان معاندین کا دوسرا گروہ جو اہل علم پر مشتمل سمجھا جاتا تھا، محض دشمنی اور حسد کی وجہ سے آپ کی دعوت کی تردید کی، تاکہ عوام کو یہ کہنے کا موقع نہ رہے کہ کیوں آپ لوگوں نے اب تک اس چیز پر ہماری نکیر نہیں کی تھی؟یہ عبدالوہاب کا بیٹا ہی کیوں آتے ہی صاحب حق بن گیا اور آپ لوگ علما ہیں، آپ نے کبھی اس باطل کا انکار نہیں کیا؟!چنانچہ انہوں نے آپ رحمہ اللہ سے حسد کیا۔ عوام الناس کی طرف سے انہیں شرمندگی کا احساس کھانے لگا, اور حق کے کھلم کھلا معاند بن گئے, اور اس کى وجہ ان کا دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا تھا, اور اس فعل میں یہ یہود کے پیروکا بن گئے جن کى سرشت یہی ہے کہ وہ دنیا کو أخرت پر ترجیح دیا کرتے ہیں۔ ہم اللہ سے عافیت اور سلامتی کے خواستگار ہیں۔

مگر شیخ نے صبر وتحمل سے کام لیا اور دعوت کے کام میں پوری طاقت سے لگے رہے۔ جزیرے کے اندر وباہر کے بعض علما و امرا نے آپ کی حوصلہ افزائی کی۔ آپ اپنے مشن میں ڈٹے رہے اور اپنے رب سے مدد طلب کرتے رہے۔ اس سے پہلے آپ قرآن کریم پر پوری توجہ دے چکے تھے اور اس کی تفسیر و توضیح اور اس سے مسائل کے استنباط میں مکمل دسترس حاصل ہوچکی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت اور صحابہ کرام کی تاریخ کا بھی گہرا مطالعہ کرچکے تھے۔ اس سے آپ کو روشنی ملی، علمی بصیرت حاصل ہوئی اور جب وہ حوصلہ مل گيا، جو آپ کے حق میں معین و مددگار ہو اور حق پر ثابت قدم رکھ سکے، تو اپنی مہم کی اشاعت میں پوری طرح کمربستہ ہوگئے اور لوگوں کے درمیان دعوتِ حق پھیلانے اور علما اور امرا سے اس سلسلے میں خط کتابت کرنے کی ٹھان لی، خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔

چنانچہ اللہ تعالٰی نے آپ کی پاکیزہ تمنائیں پوری کیں، آپ کے ذریعہ دعوت کو پھیلایا اور حق کی تائید کی۔ اور اللہ تعالٰی نے آپ کو مددگار اور تائید کار افراد عطا کیے، یہاں تک کہ اللہ کے دین کا غلبہ ہوگیا اور کلمۂ توحید کو سربلندی حاصل ہوئی۔ شیخ نے عینیہ میں تعلیم ورہنمائی کے ذریعہ اپنی دعوت جاری رکھی، لیکن جب دیکھا کہ صرف زبانی دعوت اثر انداز نہیں ہورہی ہے، تو اور لگن کے ساـتھ کام کرنے لگے اور بالفعل شرککے آثار مٹانے کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی، تاکہ ممکنہ حد تک آپ کے ہاتھوں شرک کے آثار زائل ہوجائیں۔ شیخ نے امیر عثمان بن معمر سے فرمایا تھا کہ زید کی قبر پر جو قبہ تعمیر ہے، اسے ڈھانا بہت ضروری ہے۔ زید بن خطاب رضی اللہ عنہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سگے بھائی ہیں۔اور بارہویں ہجری میں مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والوں میں سے ایک ہیں۔ بعد میں ان کی قبر پر قبہ بنا دیا گیا، جیسا کہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ ویسے، اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ قبر کسی دوسرے کی رہی ہو۔ لیکن عام لوگوں کے بیان کے مطابق یہ قبر زید رضی اللہ عنہ ہی کی تھی۔ چنانچہ آپ کی طلب پر امیر عثمان نے قبہ گرا دینے کی اجازت دے دی۔ جیسا کہ پیچھے بھی گزر چکا ہے۔ الحمدللہ قبہ ڈھا دیا گیا اور اللہ تعالٰی کا بڑا شکر و احسان ہے کہ اب تک اس کا نام و نشان غا‎ئب ہے۔ خلوص نیت، نیک ارادے اور حق کی سربلندی کے خیال سے اسے منہدم کیا گیا، تو اللہ تعالٰی نے اس کا نام ونشان مٹاڈالا۔ وہاں اور بھی بہت ساری قبریں تھیں، ان میں ایک قبر کو صحابیٔ رسول ضرار بن أزور کی طرف منسوب کیا جاتا تھا، جس پر ایک قبہ تعمیر تھا۔ اُسے بھی منہدم کردیا گیا۔ علاوہ ازیں وہاں دوسری زیارت گاہیں بھی تھیں۔ اللہ تعالٰی نے ان سب کو مٹادیا۔ نیز وہاں اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر کچھ غار اور درختوں کی بھی عبادت کی جاتی تھی، جس کے مٹانے اور بیخ کنی کا مبارک کام شیخ کے ہاتھوں انجام پایا اور آپ نے لوگوں کو اس سے باز رکھا۔

مقصود یہ ہے کہ شیخ رحمہ اللہ قولی اور عملی دونوں طرح اپنی دعوت میں مصروفِ عمل رہے۔ جیساکہ اس کا بیان گزر چکا ہے۔ اسی دوران شیخ کے پاس ایک عورت آئی، جس نے زنا سرزد ہونے کا کئی بار اعتراف کیا۔ جب شیخ نے اس کی دماغی حالت کے بارے میں دریافت کیا، تو معلوم ہوا کہ وہ صاحب عقل ہے اور اس میں کوئی دماغی خلل نہیں ہے۔ چنانچہ جب وہ اقرارِ جرم پر اڑی رہی، اس سے باز نہیں آئی اور نہ کسی زور و زبردستی یا شک وشبہ کا دعوى نہیں کیا، نیز وہ شادی شدہ بھی تھی، تو شیخ رحمہ اللہ نے عیینہ کا قاضی ہونے کی حیثیت سے اُسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد قبّہ کو ڈھانے، عورت کو رجم کرنے اور اللہ کی طرف عظیم دعوت نیز عیینہ کی طرف مہاجرین کی ہجرت جیسے واقعات کی وجہ سے آپ کا چرچا عام ہو گیا۔

جب احساء اور اس کے نواحی علاقوں کے حاکم سلیمان ابن عریعر الخالدی, جس کا تعلق قبیلہ بنی خالد سے تھا, کو شیخ رحمہ اللہ کے حالات کے بارے میں معلوم ہوا, اور اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، قبوں کو ڈھاتے ہیں اور حدود قائم کرتے ہیں، تو اس بدو پر یہ باتیں بہت گراں گزریں۔ اس لیےکہ اہل بادیہ کى عام طور سے یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ظلم کرنے، خون بہانے, مال لوٹنے اور عزتیں پامال کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، ماسوا ان لوگوں کے جنھیں اللہ ہدایت دے دیتا ہے۔ چنانچہ وہ خائف ہوگیا کہ کہیں اس شیخ کى شأن بڑھتی نہ جائے اور جس کى وجہ سے اس بدو امیرکو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے! اس لیے اُس نے امیر عثمان کو دھمکی آمیز خط لکھا اور حکم دیا کہ وہ اپنے یہاں عیینہ میں موجود اُس مطوّع (عالم دین) کو قتل کردے۔ اُس نے لکھا کہ جو مطوّع تمہارے یہاں ہے، اُس کے بارے میں ہمیں ایسی ایسی باتیں معلوم ہوئی ہیں! اس لیے یا تو تم اُسے قتل کردو، ورنہ ہمارے یہاں سے جو تم کو آمدنی ہوتی ہے، ہم اُسے روک لیںگے !!

اُس کے علاقے سے امیر عثمان کو سونے کى آمدنی ہوتی تھی۔ اس لیے امیر عثمان نے اُس امیر کی بات کو بڑی سنجیدگی سے لیا اور ڈر گئے کہ اگر اُس کی نافرمانی کی، تو وہ ان کا خراج روک لے گا یا اُن سے جنگ کرے گا۔

چنانچہ انہوں نے شیخ سے کہا کہ اُس امیر نے ہمیں کچھ اس اس طرح کی باتیں لکھ بھجی ہیں، تاہم یہ ہمارے لیے صحیح نہیں کہ ہم آپ کو قتل کریں۔ ساتھ ہی ہم اُس حاکم سے ڈرتے بھی ہیں، اور اُس سے جنگ مول لینے کی سکت ہمارے اندر نہیں ہے، اس لیے اگر آپ یہاں سے نکل جائیں، تو بہتر ہوگا! یہ سن کر شیخ نے اُن سے کہا:

میں جس چیز کی طرف دعوت دیتا ہوں، وہ اللہ کے دین اور کلمۂ 'لالہ الٰہ الّا اللہ محمد رسول اللہ' کی تحقیق سے عبارت ہے، لہذا جو شخص اس دین کو مضبوطی سے تھامے گا، سچے دل سے اس کی نصرت وتائید کرے گا، اللہ تعالی اُس کی مدد اور تائید فرمائے گا اور اُسے دشمنوں کے علاقوں کا والی بنائے گا۔ لہذا اگر آپ صبر کریں، استقامت اختیار کریں اور اس خیر کو قبول کریں، تو یہ خوش خبری قبول فرمائیں کہ اللہ تعالی عنقریب آپ کی مدد فرمائے گا، اس بدو نیز دیگر دشمنوں سے آپ کی حفاظت بھی فرمائے گا۔ ساتھ ہی اس کی اور اس کے قبیلے کے علاقوں کو آپ کے سپرد کردے گا۔

لیکن اُنہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا: شیخ! ہمارے اندر اُس سے جنگ کرنے کی سکت ہے، نہ ہی ہم اُس کی مخالفت کرسکتے ہیں۔

چنانچہ شیخ رحمہ اللہ اُس وقت عیینہ سے نکل کر سرزمین درعیہ کی طرف چلے گئے۔ لوگوں کا بیان ہے کہ آپ وہاں پیادہ گئے۔ دن کے آخری پہر وہاں پہنچے، جب کہ آپ عیینہ سے دن کے پہلے پہر پیدل چلتے ہوئے نکلے تھے۔ امیر عثمان نے آپ کے لئے سوارى کا انتظام نہیں کیا تھا۔ آپ عیینہ کے ایک مرد صالح کے یہان پونچے, جو اس شہر کے بالائی حصہ میں سکونت پذیر تھے, اور جن کا نام محمد بن سویلم عرینی تھا, چنانچہ آپ انہی کے یہاں قیام پذیر ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ شیخ کےاپنے یہاں آنے سے گھبرایا ہوئے تھے اور اپنی تمام وسعتوں کے باوجودزمین ان کو اپنے لئے تنگ محسوس ہونے لگى تھی, نیز ان کو امیرِ درعیہ کا خوف دامن گیر تھا، مگر شیخ نے انہیں دلاسہ دیا اور کہا:

میں تمہیں خیر وبھلائی کی بشارت دیتا ہوں۔ میری دعوت اللہ کے دین کی طرف ہے اور عنقریب ہی اللہ تعالی اسے غالب کردے گا۔

چنانچہ محمد بن سعود تک شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی خبر پہنچ گئی۔ کہا جاتا ہے یہ خبر ان کی اہلیہ کی معرفت اُن تک پہنچی، جن کے پاس ایک بزرگ گئے اور کہا کہ اپنے شوہر کو شیخ کے بارے میں اطلاع دو اور ان کی دعوت قبول کرنے اور اُن کی نصرت وتائید پر ابھارو! وہ ایک نیک اور اچھی خاتون تھیں۔ چنانچہ جب درعیہ اور مضافات کے امیر محمد بن سعود ان کے پاس آئے، تو نیک بی بی نے کہا: اس عظیم نعمت کو بشارت جانو۔

یہ ایک عظیم نعمت ہے، جسے اللہ تعالی نے تمہارے حصہ میں ڈال دیا ہے۔ یہ عظیم داعی ہیں، جو اللہ کے دین، اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی طرف بُلاتے ہیں۔ کتنی عظیم نعمت ہے یہ!

جتنی جلد ممکن ہو، اسے قبول کریں اور شیخ کی مدد کریں۔ اس میں قطعی تاخیر نہ کریں۔ امیر نے نیک بی بی کا یہ مشورہ مان لیا، تاہم ابھی تردّد میں تھے کہ آیا وہ خود چل کر شیخ کے پاس جائیں یا انہیں بُلا بھیجیں!

چنانچہ اس سلسلے میں انہیں مشورہ دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مشورہ دینے والی بھی اُن کی نیک بیوی ہی تھیں۔ مشیران دولت نے مشورہ دیا کہ شیخ کو یہاں بُلانا مناسب نہیں، بلکہ آپ خود ان کے گھر تشریف لے جائیں اور عالم دین اور خیر کی طرف بُلانے والے کی عزت وتکریم کریں۔ لہذا انہوں نے یہ نیک مشورہ قبول کر لیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالی نے ان کے حق میں نیک بختی، خیر وبھلائی، رحمت اور بہتر ٹھکانہ لکھ دیا تھا۔ چنانچہ وہ بذاتِ خود شیخ کے پاس محمد بن سویلم کے گھر تشریف لے گئے، آپ کو سلام کیا اور آپ کے ساتھ بات چیت کی اور کہا: شیخ محمد! ہماری طرف سے تائید ونصرت اور امن وتعاون کی خوش خبری سُن لیں۔ شیخ نے اُن سے کہا:

ہم آپ کو بھی نصرت الہی، سلطنت واختیار اور نیک انجام کی خوش خبری سناتے ہیں۔ یہ اللہ کا دین ہے، جو اُس کی مدد کرے گا، اللہ اُس کی مدد کرے گا۔ جو اُس کی تائید کرے گا، اللہ اُس کی تائید کرے گا۔جلد ہی آپ کو اس کے آثار نظر آجائیں گے۔

انہوں نے کہا: اے شیخ! میں جلد ہی اللہ اور اس کے رسول کے دین نیز اللہ کے راستے میں جہاد کرنے پر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کروں گا، تاہم مجھے خدشہ ہے کہ جب ہم آپ کی نصرت وتائید کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور اللہ تعالی آپ کو دشمنوں پر غالب کردے، تو کہیں آپ کو دوسرى جگہ نہا بھا جائے اور ہماری یہ سرزمین چھوڑ کر کسی اور جگہ نہ چلے جائیں!

آپ نے کہا: میں اس پر تمہارى بیعت نہیں کرتا، بلکہ اس بات پر تمہاری بیعت کر رہا ہوں کہ تمہارا خون میرا خون اور تمہاری تباہی میرى تباہی ہے۔ میں آپ کے علاقے سے ہر گز نہیں نکلوں گا۔ چنانچہ نصرت وتائید اور اسی جگہ سکونت پذیر رہنے، امیر کے ساتھ رہ کر ان کی مدد کرنے اور اللہ کے دین کے غالب ہوجانے کے وقت تک ان ۔کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے پر, ان ( امیر محمد بن سعود) کے ہاتھوں پر آپ نے بیعت کی۔

اس بات پر بیعت تمام ہوئی۔ عیینہ، عرقہ، منفوحہ، ریاض اور دیگر قرب وجوار سے لوگ درعیہ آنے لگے۔ درعیہ مسلسل دار الہجرت بنا رہا اور وہاں ہر طرف سے لوگ ہجرت کرکے آتے رہے۔ لوگوں کے بیچ, شیخ کے احوال, درعیہ میں آپ کے دورس, او راللہ کى طرف آپ کى دعوت ورہنمائى کا شہرہ ہوگیا, تو لوگ جوق در جوق آپ کے پاس آنے لگے۔ شیخ وہاں عزت واحترام اور محبت کے ساتھ تائید ونصرت کے سایہ میں رہنے لگے۔ آپب اقاعدہ طور پر وہاں عقائد، قرآنِ کریم اور اس کی تفسیر، فقہ، حدیث، مصطلح الحدیث, اور عربی وتاریخی علوم نیز دیگر نفع بخش علوم کے دروس دینے لگے۔

ہر جگہ سے لوگ آپ کے پاس آنے لگے۔ بوڑھے بچے اور جوان سبھی درعیہ آکر آپ سے علم حاصل کرنے لگے۔ آپ نے عام وخاص ہر ایک کے لیے بہت سے دروس ترتیب دیے۔ درعیہ میں علم کى نشرواشاعت کا کرتے رہے۔ اور دعوتی کاز میں ہمہ تن مصروف رہے۔ پھر جہاد شروع کیا۔ اور لوگوں کو اس میدان میں شرکت کرنے نیز اپنے علاقوں سے شرک کو مٹانے کا پیغام دیا۔ آپ نے اس مشن کا آغاز اہلِ نجد سے کیا۔ وہاں کے علما اور حاکموں سے خط وکتابت کی۔ شہر ریاض کے علما اور اس کے حاکم دہام بن دواس، خرج کے علما اور امرا، جنوبی علاقوں, قصیم، حائل، وشم اور سدیر وغیرہ کے علما، اسی طرح أحساء اور حرمین شریفین نیز بیرون ممالک جیسے مصر، شام، عراق ,ہندوستان اور یمن وغیرہ کے علما وحکّام سے بھی برابر خط وکتابت کرتے رہے۔ لوگوں سے آپ برار خط وکتابت کرتے رہے, ان پر اتمام حجت کرتے رہے اور خلقِ خدا کی اکثریت کے یہاں پائے جانے والے شرک وبدعات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کراتے رہے۔ تاہم اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ اُس وقت دین کی نصرت وتائید کرنے والے لوگ بالکل ناپید ہوچکے تھے، بلکہ ہمیشہ سے اس کے انصار ومددگار پائے جاتے رہے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ جلّ وعلا نے اس دین کی ضمانت جو لے رکھی ہے اور فرمانِ نبوی ''اس امت میں ہمیشہ ایک جماعت حق پر گامزن اور غالب رہے گی'' کے بمصداق کئی خِطّوں میں حق کے انصار واعوان موجود تھے، لیکن اس وقت میں صرف نجد کے حوالے سے بات کررہا ہوں۔ جہاں شر و فساد، شرک وخرافات اس قدر موجود تھا کہ جس کى واقعی کیفیت صرف اللہ ہی جان سکتا ہے۔ لیکن وہاں ایسے علما بھی تھے جن میں خیر تھا، تاہم انہیں دعوت کے میدان میں مناسب طور پر سرگرمِ عمل ہونے نیز اس کے لیے کماحقّہ کوشش کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی تھی!

یمن اور غیر یمن میں بھی داعیانِ حق اور انصارِ حق موجود تھے، جنہوں نے اس شرک وخرافات کو محسوس کیا (اور اس کے خلاف جد وجہد بھی کی) تاہم ان کی دعوت کو وہ کامیابی نہیں ملی، جو شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت کے حصے میں آئی۔ اس کے کئی اسباب ہیں، جن میں چند یہ ہیں: 1۔ ان کو مناسب مددگار اور معاون میسّر نہ آسکے۔ 2۔ بہت سے داعی راہ دعوت اور جہاد فی سبیل اللہ کی تکلیفوں کی تاب نہ لاسکے اور اس میں ثابت قدم نہ رہ سکے۔

3۔ بہت سے داعیان, علمی کم مائیگی کا شکار رہے, کیونکہ داعی علمى قوت کے ذریعہ ہی لوگوں کی مناسب طریقۂ کار، بہتر اسلوب، حکمت وموعظتِ حسنہ کے ساتھ رہنمائی کرسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں دیگر اسباب بھی ہوسکتے ہیں۔ ان بے شمار رسائل وخطوط اور جہاد کی وجہ سے شیخ کی شہرت عام ہو گئی اور ان کی دعوت کو استحکام حاصل ہو گیا۔ اُن کے خطوط ورسائل جزیرۂ عرب اور بیرونِ جزیرہ علما کو پہنچنے لگے۔ آپ کی دعوت سے ہندوستان، انڈونیشیا، افغانستان، افریقہ، مراکش، اسی طرح مصر وشام اور عراق میں عوام کی ایک جمِّ غفیر متاثر ہوئی۔ وہاں بھی بہت سے داعیانِ حق تھے، جن کے پاس حق کی معرفت تھی اور وہ دعوت وتبلیغ کے کام میں بھی لگے ہوئے تھے, جب ان کو شیخ کی دعوت پہنچی تو اُن کی سرگرمیاں مزید بڑھ گئیں، ان کی قوت میں اضافہ ہوا اور ان کی دعوت شہرت پکڑ گئی۔ شیخ کی دعوت برابر پھیلتی رہی، اسلامی دنیا اور اس سے باہر اس کا ظہور ہوتا رہا۔

اب اس آخری دور میں بھی آپ کی کتابیں ورسائل، نیز آپ کے بیٹوں و پوتوں اور جزیرۂ عرب کے اندر اور اس کے باہر موجود آپ کے اعوان و انصار کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اسی طرح آپ کی دعوت وسوانح نیز آپ کے معاونین کے احوال پر مبنی کتابوں کی نشر واشاعت ہو چکی ہے۔ یہ لٹریچر دنیا کے بیشتر خِطّوں اور شہروں میں پھیل چکا ہے۔ یہ بھی ایک معلوم شدہ حقیقت ہے کہ ہر نعمت کے کچھ حاسد اور ہر داعی کے بہت سے دشمن بھی ہوتے ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے، جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں۔ اگر تمہارے رب کی مشیت یہ ہوتی کہ وہ ایسا نہ کریں، تو وہ کبھی نہ کرتے۔ پس تم اُنہیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ اپنی افترا پردازیاں کرتے رہیں-}

[سورۂ أنعام، آیت: 112]۔

جب شیخ اپنی دعوت کی بنا پر مشہور ہوگئے، آپ نے کئی کتابیں تصنیف کرکے اور بیش قیمت تالیفات کرکے لوگوں کے مابین نشر کیا اور علما نے آپ سے خط وکتابت شروع کردی، تو آپ کے حاسدین اور مخالفین کی ایک بڑى جماعت تیار ہوگئی، نیز دوسرے دشمن بھی میدان میں آگئے۔

آپ کے مخالفین اور دشمن دو طرح کے تھے: ایک وہ لوگ تھے جنہوں نے علم اور دین کے نام پر ان سے دشمنی کی، دوسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے علم اور دین کی آڑ میں سیاسی بنیاد پر ان سے عداوت کی اور ان کے مخالف اور دشمن علما سے فائدہ اُٹھایا جنہوں نے علانیہ طور پر ان سے دُشمنی ٹھان رکھی تھی اور جو شیخ کو حق سے بعید گردانتے تھے۔ تاہم شیخ اپنی دعوت میں جُٹے رہے، شبہات کا ازالہ فرماتے اور دلائل کو واضح کرتے رہے، اللہ کی کتاب اور سنتِ رسول کی روشنی میں حقائق کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ لیکن آپ کو دشمنوں کی طرف سے کبھی خارجی کہا جاتا، تو کبھی کہا جاتا کہ آپ اجماع کے مخالف اور اجتہادِ مطلق کے دعویدار ہیں، اپنے پیش رو علما وفقہا کو خاطر میں نہیں لاتے، اور کبھی دیگر تہمتیں بھی لگائی جاتیں۔ اس کی وجہ بعض لوگوں کی علمی کم مائیگی تھی۔

تو دوسرے کچھ لوگوں نے محض غیروں کی تقلید میں اور ان پر اعتماد کرتے ہوئے دشمنی کی، اور کچھ لوگ اپنی کرسیوں کے بارے میں خوف زدہ تھے۔ سو انہوں نے سیاسی بنیاد پر آپ سے دشمنی کی، اور اپنى اس عداوت میں دین اور اسلام کو آڑ کے طور پر استعمال کیا, نیز گمہراہوں اور اہل خرافات کی باتوں کا سہارا لیا۔

درحقیقت شیخ کے مخالفین تین طرح کے تھے۔ ایک قسم اُن خرافاتی علما کی تھی، جو حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتے تھے۔ ان کا اعتقاد تھا کہ قبروں پر عمارت اوران پر مساجد تعمیر کرنا، اللہ کو چھوڑ کر قبر والوں کو پُکارنا، اُن سے فریاد کرنا اور ان جیسی باتیںسب دین وہدایت کا حصہ ہیں۔ اس کے ساتھ ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ جو ان کا انکار کرتا ہے، وہ صالحین اور اولیا سے بغض وعداوت رکھتا ہے اور وہ ایسا دشمن ہے، جس کے خلاف جہاد واجب ہے۔

دوسری قسم ان لوگوں کی تھی، جن کا تعلق علم سے تو تھا، لیکن شیخ کی شخصیت اور ان کے پاس موجود حق سے جس کى طرف وہ دعوت دیتے تھے بے خبر تھے، بلکہ انہوں نے محض غیروں کی تقلید کی اور آپ کے بارے میں گمراہ کن خرافاتی پروپیگنڈہ کاروں کى بات کو صحیح سمجھ لیا تھا اور یہ مان لیا تھا کہ یہ لوگ آپ پر لگائے گئے نبیوں اور ولیوں سے بغض وعداوت اور کراماتِ اولیا کے انکار کے الزامات میں, درست ہیں۔ اس لیے انہوں نے شیخ کی مذمت کی۔ ان کی دعوت پر نکتہ چینی کی اور اس سے خود بھی متنفر رہے۔

تیسری قسم ان لوگوں کی تھی، جنہیں اس دعوت سے اپنے اقتدار اور جاہ ومنصب کے لیے خطرہ محسوس ہوا۔ اس لیے انہوں نے آپ سے دشمنی کی۔ تاکہ دعوتِ اسلامی کے تائید کاروں کے ہاتھ اُن تک نہ پہنچ سکیں اور آخر کار انہیں اُن کے مراکز و مناصب سے بے دخل کردیں اور ان کے علاقوں پر قابض ہوجائیں۔ شیخ اور ان کے مخالفین کے مابین برابر تحریری جنگ، بحث ومباحثے اور مناظرے جاری رہے، چنانچہ طرفین مییں خط وکتابت ہوتی رہی اور بحث ومباحثہ چلتا رہا۔ ایک دوسرے کے اعتراض کا جواب دیتے رہے، اسی طرح آپ کے بیٹوں، پوتوں اور معاونین اور مخالفینِ دعوت کے درمیان بھی یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ اس بنا پر بہت سے رسائل او جوابات تیار ہوگئے۔جب ان رسائل، فتاوے اور جوابات کو یکجا کیا گیا، تو ان کا مجموعہ کئی جلدوں تک پہنچ گیا۔ ان میں سے اکثر چیزیں بحمد اللہ زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ شیخ رحمہ اللہ اپنی دعوت اور جہاد میں جُٹے رہے۔ درعیہ کے حاکم اور آل سعود کے جد امجد امیر محمد بن سعود آپ کی تائید ومدد کرتے رہے۔ 1158ہجری میں عَلم جہاد بلند ہوا۔ یہ جہاد گفت وشنید اور حجت وبراہین سے شروع ہوا۔ پھر یہ دعوت جہاد بالسیف کے ساتھ جاری رہی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر اللہ عزوجلّ کی طرف بُلانے والے داعی کے پاس دین کی حمایت اوراُس کو نافذ کرنے والی قوت نہ ہو، تو بہت جلد دعوت کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اس کی شہرت کا چراغ بُجھ جاتا ہے اور اس کے انصار ومدد گار کم جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مخالفین کے قلع قمع، حق کی نصرت وتائید, نیز دعوتِ اسلامی کی نشر واشاعت میں قوت اور ہتھیار کى خاص اثر انگیزی ہے۔ اللہ تعالی جو اپنی ہر بات میں سچا ہے، اُس نے اس آیت کریمہ میں نہایت ہی درست بات کہی ہے:{ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اُس کو دیکھے بغیر اس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے؟ یقیناً اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔}[سورہ الحديد، آیت: 25]۔یہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ اُس نے رسولوں کو 'بیّنات' یعنی واضح دلائل وبراہین دے کر بھیجا ہے، جن کے ذریعہ اللہ تعالی حق کو واضح فرماتا ہے اور باطل کو نیست ونابود کرتا ہے۔ اُس نے رسولوں کے ساتھ کتاب بھی نازل کی، جس میں تفسیر وتوضیح اور ہدایت کا بیان ہے۔ اُن کے ساتھ میزان بھی اتارا۔ اور یہ وہ عدل ہے، جس کے ذریعہ ظالم اور مظلوم کے درمیان انصاف کیا جاتا ہے، جس سے حق کا بول بالا ہوتا ہے، ہدایت کی روشنی پھیلتی ہے اور جس کی روشنی میں لوگوں کے ساتھ حق اور انصاف کے معاملات طے کیے جاتے ہیں۔ اُس نے لوہا بھی اتارا ہے، جس میں بھر پور طاقت وقوت ہے۔ اور جس میں مخالفینِ حق کے لیے ڈانٹ اور دھمکی ہے، سو یہ ایسے لوگوں کے لیے ہے جن کے سامنے حجت کام نہ آئے اورجن پر دلیل اثر نہ کرے۔ ایسی صورت میں حق کو غالب کرنے اور باطل کے خاتمہ کا یہی واحد ذریعہ رہ جاتا ہے۔

اس مناسبت سے کیا ہی خوب کہا ہے کسی کہنے والے نے ؎

دو ہی چیزیں ہیں یا تو وحی یا پھر ایسی تیز باریک دھار والی تلوار, جس کى دھار ہر کج رو کى گردن اتار کر رکھ دیتی ہے۔

پس یہ (تلوار) ہر جاہل کے بیماری کی دَوا ہے۔ اور یہ(وحی) ہر عاقل کے مرض کا علاج ہے ۔

اس لیے کہ عقل مند اور فطرتِ سلیمہ کا حامل انسان دلیل سے استفادہ کرتا ہے، حق کو دلیل کی بنیاد پر قبول کرتا ہے۔ لیکن خواہشات نفس کے پیروکار ظالم شخص کو صرف تلوار درست کرتی ہے۔ اس لیے شیخ رحمہ اللہ دعوت وجہاد میں پوری طرح جُٹ گئے اور آل سعود ۔طیّبَ اللہُ ثَراھم۔ ان کی مدد کرتے رہے۔ وہ سب جہاد اور دعوت میں 1158 ہجری سے 1206 ہجری میں شیخ کی وفات تک مصروف رہے۔ اس طرح تقریبًا پچاس سال کى مدت تک دعوت وتبلیغ، جد وجہد، حق کی خاطر جدال، اللہ ورسول ﷺ کے اقوال وفرامین کی وضاحت اور دینِ اسلام کی طرف دعوت اور اللہ کے رسول ﷺ کی شریعت کی طرف رہنمائی, کا کام جاری رہا۔ یہاں تک کہ لوگ مطیع وفرماں بردار ہو گئے۔ انہوں نے اللہ کے دین کو حقیقی طور پر قبول کر لیا۔ اپنے یہاں قبّوں، اور قبروں پر بنی ہوئی مسجدوں کو منہدم کردیا۔ شریعت کی تنفیذ اور اس کی پابندی کی، اپنے پیش رَو آبا واجداد اور ان کے قوانین کی اندھی تقلید کو چھوڑ کر از سرِنو جادۂ حق کی طرف واپس آئے، مسجدیں نمازوں اور تعلیمی حلقوں سے آباد ہوگئیں، زکوۃ ادا کی جانے لگی، لوگوں نے شریعت کے مطابق رمضان کے روزے رکھنے شروع کردیے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر پر توجہ ہوئی، شہروں، دیہاتوں، راستوں اور صحراؤں میں امن وامان قائم ہوگیا، دیہات کے اجڈ لوگ اپنی غلط روشوں سے باز آگئے، اللہ کے دین میں داخل ہوئے اور حق کو قبول کیا۔ شیخ نے ان کے اندر دعوت کو عام کیا، صحرا اور دیہاتوں میں مبلغین اور دُعاۃ بھیجے، تمام شہروں اور دیہاتوں کو معلمین، مُرشدین اور قضاۃ فراہم کیے۔ بایں طور سارے نجد اور مضافات میں اس خیر عظیم اور واضح ہدایت کی لہر دوڑ گئی، حق کا پرچار ہوا اور اللہ عزّ وجلّ کے دین کا غلبہ ہوا۔

پھر شیخ رحمہ اللہ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے، پوتے، شاگردان اور دیگر انصار دعوت وجہاد میں لگے رہے۔ ان کی اولاد میں سرفہرست شیخ امام عبداللہ بن محمد، شیخ حسین بن محمد، شیخ علی بن محمد اور شیخ ابراہیم بن محمد اور پوتوں میں شیخ عبدالرحمن بن حسن، شیخ علی بن حسین، شیخ سلیمان بن عبداللہ بن محمد ہیں اور اُن کے علاوہ دوسرے بہت سے لوگ ہیں۔آپ کے شاگردوں میں سے شیخ حمد بن ناصر بن معمر اور علمائے درعیہ کی ایک بڑی تعداد اور ان کے علاوہ دیگر لوگ بھی میدان دعوت وجہاد میں لگے رہے اور، اللہ تعالی کے دین کی نشرواشاعت، رسائل کو تحریر کتابوں کى تصنیف وتالیف اور دشمنانِ دین سے جہاد, کرنے میں پیہم مصروفِ عمل رہے۔ ان داعیوں اور ان کے مخالفین میں جھگڑے کی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ اِنہوں نے اللہ کی توحید اور عبادت کو صرف اسی کے لیے خاص کر دینے اور اس پر استقامت اختیار کرنے، قبروں پر بنائی ہوئی مسجدوں اور قبوں کو گرانے، شریعتِ الہیہ کو قائم کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے نیز امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور شرعی حدود کے نافذ کرنے کی دعوت دی تھی۔ پس یہی اُن کے اور دیگر لوگوں کے مابین نزاع او رمخاصمت کے اسباب تھے۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی توحید کی طرف رہنمائی کی تھی اور لوگوں کو اسی کا حکم دیا تھا۔ لوگوں کو اللہ کے ساتھ شرک کرنے اور شرک تک لے جانے والے اسباب وذرائع سے روکا تھا اور اُن پر شریعتِ اسلام کو لازم کیا تھا۔ پھر دعوت کی وضاحت اور دلائل کے بعد بھی جس نے انکار کیا اور شرک پر جما رہا اس سے انہوں نے اللہ عزّوجلّ کی خاطر جہاد کیا اور اس کے علاقہ کا رُخ کیا، تاکہ وہ حق کے سامنے گھٹنے ٹیک دے او راس کى طرف لوٹ آئے یا پھر اُس پر حق کو بذریعہ قوت وتلوار مسلط کردیا جائے، یہاں تک کہ وہ اور اس کے قلمرو میں رہنے والے لوگ حق کے مطیع وفرماں بردار ہوجائیں۔ اسی طرح لوگوں کو اُن بدعات اور خرافات سے باز رہنے کے لیے بھی کہا، جن کے بارے میں اللہ نے کوئی دلیل نہیں نازل کی تھی۔ جیسے کہ قبروں پر عمارت بنانا اور قبّے تعمیر کرنا، طاغوتوں (غیرُ اللہ) سے فیصلہ کرانا، جادوگروں اور کاہنوں سے سوال کرنا اور اُن کی تصدیق کرنا وغیرہ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے شیخ اور اُن کے معاونین کے ذریعہ ان تمام منکرات اور برائیوں کا خاتمہ کرادیا۔ اللہ تعالى کى رحمت ان سب پر نازل ہو۔(اس دعوتی مشن کے نتیجے میں) مسجدیں کتابُ اللہ اور سنتِ مطہرہ، تاریخِ اسلامی اور مفید عربی علوم کے دروس سے آباد ہوگئیں۔ لوگ مذاکرے، علم وہدایت اور دعوت وارشاد میں لگ گئے۔ کچھ لوگ دنیاوی امور جیسے زراعت وصناعت وغیرہ میں مشغول ہوگئے۔ بایں ہمہ علم وعمل، دعوت وارشاد اور دین ودنیا کا حسین اجتماع ہوا۔ ایک شخص علم حاصل کرتا، مذاکرات میں شامل ہوتا، ساتھ ہی ساتھ زراعتی امور یا صناعت وتجارت وغیرہ میں بھی مشغول رہتا۔ کسی وقت دین میں منہمک تو کبھی دنیاوی امور میں مشغول۔ اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے والے اور اس کے راستہ کی طرف رہنمائی کرنے والے افراد تھے، لیکن ساتھ ہی میں ملک میں موجود طرح طرح کی صنعتوں میں بھی مشغولیت رہتے تھے, جس کے ذریعہ انہیں وہ سب کچھ مل رہا تھا، جو انہیں بیرون ملک سے بے نیاز کرنے کے لیے کافی تھا۔جب داعیانِ حق اور آل سعود نجد سے فارغ ہوگئے، تو ان کى دعوت حرمین شریفین اور جزیرۂ عرب کے جنوبی حصوں میں بھی پھیل گئی۔ علمائے حرمین سے اس سے پہلے اور بعد میں بھی خط وکتابت جاری رہی، لیکن جب اس طرح کی دعوت کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور حرمین کے باشندے, قبروں پر قبّوں کی تعمیر اور ان کى تعظیم, قبروں کے پاس ارتکابِ شرک اور قبر والوں سے سوال کرنے کی, اپنی سابقہ روش پر باقی رہے، تو امام سعود بن عبد العزیز بن محمد نے شیخ کی وفات کے گیارہ سال بعد حجاز کا رُخ کیا۔ پہلے اہلِ طائف سے مُڈبھیڑ ہوئی، پھر مکہ کی طرف بڑھے۔ امیر سعود سے پہلے امیر عثمان بن عبد الرحمن المضایفی طائف پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے امیر درعیہ امام سعود بن عبدالعزیز بن محمد کی بھیجی ہوئی اہلِ نجد اور دیگر لوگوں پر مشتمل ایک عظیم فوج لے کر اُن سے جنگ کی اور طائف پر قبضہ کرلیا۔ وہاں سے شریف کے امرا کو بے دخل کردیا۔ انہوں نے وہاں دعوت الی اللہ کا علم بلند کیا,حق کی طرف رہنمائی کی اور شرک پر قدغن لگائی۔ ابن عباس اور دیگر لوگ جن کی طائف کے جاہل اور گنوار لوگ عبادت کرتے تھے، سب پر روک لگادی۔ پھر وہاں سے امیر سعود نے اپنے والد عبد العزیز کے فرمان کے مطابق حجاز کا رُخ کیا۔ اور ان کى فوجین مکہ کے آس پاس جمع ہوگئیں۔جب شریفِ مکہ کو احساس ہوا کہ گھٹنے ٹیکنے یا راہِ فرار اختیار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا ہے، تو وہ جدہ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ امام سعود اور ان کے ساتھ کے مسلمان بغیر کسی لڑائی کے شہر میں داخل ہوگئے اور مکہ پر سنیچر کے دن بتاریخ آٹھویں محرم 1228 ہجری فجر کے وقت قبضہ کرلیا۔ پھر یہاں بھی دعوت کا غلبہ ہوا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا وغیرہ کی قبروں پر بنے تمام قبّوں کو منہدم کردیا گیا اور یہاں بھی انہوں نے توحید الہی کی طرف دعوت وپکار کو مکمل طور سے انجام دیا, انہوں نے تعلیم دینے والے علما، مُرشدین، ناصحین اور شریعتِ الہیہ کے مطابق فیصلہ کرنے والے قاضیوں کا تقرر کیا۔ پھر اُس کے کچھ ہی مدت بعد مدینہ منورہ بھی ان کے زیرِ نگیں آگیا۔مکہ فتح ہونے کے تقریبًا دوسال کے عرصے بعد 1220 ہجری میں آل سعود کا مدینے پر قبضہ ہوگیا اور حرمین شریفین آلِ سعود کے زیرِ تصرف آگئے۔ انہوں نے یہاں مبلغین اور مرشدین کی تقرری کی، ملک میں عدل وانصاف قائم کیا اور شریعتِ الہیہ کی تنفیذ کی۔ یہاں کے باشندوں کے ساتھ حسن سلوک اور بطورِ خاص فقرا اور ضرورت مندوں کی مالی مدد کی، اُن کے ساتھ مواسات وغم خواری کی، انہیں کتاب اللہ کی تعلیم دی، خیر کی طرف ان کی رہنمائی کی, علما کى تعظیم کى اور تعلیم اور دعوت وارشاد کے لیے ان کی ہمت افزائی کی۔ حرمین شریفین اس وقت سے لے کر 1226ہجری تک آلِ سعود کے زیرِ انتظام رہے۔اس کے بعد مصری اور ترکی افواج نے آلِ سعود سے جہاد کرنے اور انہیں حرمین شریفین سے نکالنے کی غرض سے حجاز کا رُخ کیا۔ اس کے کئی وجوہات ہیں، جن میں کچھ کا تذکرہ آچکا ہے۔وہ اسباب، جیساکہ اُن کا ذکر آچکا ہے، یہ ہیں کہ ان حاملینِ دعوت کے دشمنوں، حاسدوں نیز بصیرت سے محروم خرافاتی لوگوں اور اس دعوت کى وجہ سے اپنے سیاسی مراکز اور طالع آزمائیوں کے ختم ہوجانے اور اس دعوت کا چراغ گُل کرنے کى چاہ رکھنے والے, بعض سیاسی لوگوں، نے شیخ کی دعوت اور ان کے متبعین ومعاونین پر جھوٹے الزامات لگائے اورکہا کہ یہ لوگ اللہ کے رسول ﷺ سے بغض رکھتے ہیں، اولیاء اللہ سے انہیں عداوت ہے، یہ اُن کی کرامات کے منکر ہیں اور یہ بھی کہا کہ یہ لوگ ایسى ایسی باتیں کہتے ہیں، جنھیں یہ لوگ اللہ کے رسول ﷺ کی توہین سمجھتے تھے۔ بعض مفاد پرستوں اور نادانوں نے اس جھوٹے پروپیگنڈے کی تصدیق بھی کردی اور اس کو اُن کی ہتکِ عزت، اُن کے خلاف جہاد، نیز ترکوں اور مصریوں کو اُن کے خلاف آمادۂ جنگ کرنے کا ایک ذریعہ بنالیا۔ اس طرح یہ سارے فتنے اور جنگ وجدال معرضِ وجود میں آئے۔ مصری اور تُرکی نیز اُن کے ہم خیال فوجوں اور آلِ سعود کے مابین نجد اور حجاز میں 1226 ہجری سے 1233 ہجری کی سات سال کی طویل مدت تک برابر جنگ ہوتی رہی۔ اس طرح یہ پورا عرصہ جنگ وجدال اور حق وباطل کی قوتوں کی معرکہ آرائی میں گزرا۔

(اس دعوتی مشن کے نتیجے میں) مسجدیں کتابُ اللہ اور سنتِ مطہرہ، تاریخِ اسلامی اور مفید عربی علوم کے دروس سے آباد ہوگئیں۔ لوگ مذاکرے، علم وہدایت اور دعوت وارشاد میں لگ گئے۔ کچھ لوگ دنیاوی امور جیسے زراعت وصناعت وغیرہ میں مشغول ہوگئے۔ بایں ہمہ علم وعمل، دعوت وارشاد اور دین ودنیا کا حسین اجتماع ہوا۔ ایک شخص علم حاصل کرتا، مذاکرات میں شامل ہوتا، ساتھ ہی ساتھ زراعتی امور یا صناعت وتجارت وغیرہ میں بھی مشغول رہتا۔ کسی وقت دین میں منہمک تو کبھی دنیاوی امور میں مشغول۔ اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے والے اور اس کے راستہ کی طرف رہنمائی کرنے والے افراد تھے، لیکن ساتھ ہی میں ملک میں موجود طرح طرح کی صنعتوں میں بھی مشغولیت رہتے تھے, جس کے ذریعہ انہیں وہ سب کچھ مل رہا تھا، جو انہیں بیرون ملک سے بے نیاز کرنے کے لیے کافی تھا۔

جب داعیانِ حق اور آل سعود نجد سے فارغ ہوگئے، تو ان کى دعوت حرمین شریفین اور جزیرۂ عرب کے جنوبی حصوں میں بھی پھیل گئی۔ علمائے حرمین سے اس سے پہلے اور بعد میں بھی خط وکتابت جاری رہی، لیکن جب اس طرح کی دعوت کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور حرمین کے باشندے, قبروں پر قبّوں کی تعمیر اور ان کى تعظیم, قبروں کے پاس ارتکابِ شرک اور قبر والوں سے سوال کرنے کی, اپنی سابقہ روش پر باقی رہے، تو امام سعود بن عبد العزیز بن محمد نے شیخ کی وفات کے گیارہ سال بعد حجاز کا رُخ کیا۔ پہلے اہلِ طائف سے مُڈبھیڑ ہوئی، پھر مکہ کی طرف بڑھے۔ امیر سعود سے پہلے امیر عثمان بن عبد الرحمن المضایفی طائف پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے امیر درعیہ امام سعود بن عبدالعزیز بن محمد کی بھیجی ہوئی اہلِ نجد اور دیگر لوگوں پر مشتمل ایک عظیم فوج لے کر اُن سے جنگ کی اور طائف پر قبضہ کرلیا۔ وہاں سے شریف کے امرا کو بے دخل کردیا۔ انہوں نے وہاں دعوت الی اللہ کا علم بلند کیا,حق کی طرف رہنمائی کی اور شرک پر قدغن لگائی۔ ابن عباس اور دیگر لوگ جن کی طائف کے جاہل اور گنوار لوگ عبادت کرتے تھے، سب پر روک لگادی۔ پھر وہاں سے امیر سعود نے اپنے والد عبد العزیز کے فرمان کے مطابق حجاز کا رُخ کیا۔ اور ان کى فوجین مکہ کے آس پاس جمع ہوگئیں۔

جب شریفِ مکہ کو احساس ہوا کہ گھٹنے ٹیکنے یا راہِ فرار اختیار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا ہے، تو وہ جدہ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ امام سعود اور ان کے ساتھ کے مسلمان بغیر کسی لڑائی کے شہر میں داخل ہوگئے اور مکہ پر سنیچر کے دن بتاریخ آٹھویں محرم 1228 ہجری فجر کے وقت قبضہ کرلیا۔ پھر یہاں بھی دعوت کا غلبہ ہوا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا وغیرہ کی قبروں پر بنے تمام قبّوں کو منہدم کردیا گیا اور یہاں بھی انہوں نے توحید الہی کی طرف دعوت وپکار کو مکمل طور سے انجام دیا, انہوں نے تعلیم دینے والے علما، مُرشدین، ناصحین اور شریعتِ الہیہ کے مطابق فیصلہ کرنے والے قاضیوں کا تقرر کیا۔ پھر اُس کے کچھ ہی مدت بعد مدینہ منورہ بھی ان کے زیرِ نگیں آگیا۔

مکہ فتح ہونے کے تقریبًا دوسال کے عرصے بعد 1220 ہجری میں آل سعود کا مدینے پر قبضہ ہوگیا اور حرمین شریفین آلِ سعود کے زیرِ تصرف آگئے۔ انہوں نے یہاں مبلغین اور مرشدین کی تقرری کی، ملک میں عدل وانصاف قائم کیا اور شریعتِ الہیہ کی تنفیذ کی۔ یہاں کے باشندوں کے ساتھ حسن سلوک اور بطورِ خاص فقرا اور ضرورت مندوں کی مالی مدد کی، اُن کے ساتھ مواسات وغم خواری کی، انہیں کتاب اللہ کی تعلیم دی، خیر کی طرف ان کی رہنمائی کی, علما کى تعظیم کى اور تعلیم اور دعوت وارشاد کے لیے ان کی ہمت افزائی کی۔ حرمین شریفین اس وقت سے لے کر 1226ہجری تک آلِ سعود کے زیرِ انتظام رہے۔

اس کے بعد مصری اور ترکی افواج نے آلِ سعود سے جہاد کرنے اور انہیں حرمین شریفین سے نکالنے کی غرض سے حجاز کا رُخ کیا۔ اس کے کئی وجوہات ہیں، جن میں کچھ کا تذکرہ آچکا ہے۔

وہ اسباب، جیساکہ اُن کا ذکر آچکا ہے، یہ ہیں کہ ان حاملینِ دعوت کے دشمنوں، حاسدوں نیز بصیرت سے محروم خرافاتی لوگوں اور اس دعوت کى وجہ سے اپنے سیاسی مراکز اور طالع آزمائیوں کے ختم ہوجانے اور اس دعوت کا چراغ گُل کرنے کى چاہ رکھنے والے, بعض سیاسی لوگوں، نے شیخ کی دعوت اور ان کے متبعین ومعاونین پر جھوٹے الزامات لگائے اورکہا کہ یہ لوگ اللہ کے رسول ﷺ سے بغض رکھتے ہیں، اولیاء اللہ سے انہیں عداوت ہے، یہ اُن کی کرامات کے منکر ہیں اور یہ بھی کہا کہ یہ لوگ ایسى ایسی باتیں کہتے ہیں، جنھیں یہ لوگ اللہ کے رسول ﷺ کی توہین سمجھتے تھے۔ بعض مفاد پرستوں اور نادانوں نے اس جھوٹے پروپیگنڈے کی تصدیق بھی کردی اور اس کو اُن کی ہتکِ عزت، اُن کے خلاف جہاد، نیز ترکوں اور مصریوں کو اُن کے خلاف آمادۂ جنگ کرنے کا ایک ذریعہ بنالیا۔ اس طرح یہ سارے فتنے اور جنگ وجدال معرضِ وجود میں آئے۔ مصری اور تُرکی نیز اُن کے ہم خیال فوجوں اور آلِ سعود کے مابین نجد اور حجاز میں 1226 ہجری سے 1233 ہجری کی سات سال کی طویل مدت تک برابر جنگ ہوتی رہی۔ اس طرح یہ پورا عرصہ جنگ وجدال اور حق وباطل کی قوتوں کی معرکہ آرائی میں گزرا۔

خلاصۂ کلام یہ کہ یہی شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کى شخصیت ہے, جو اللہ تعالی کے دین کی بالادستی قائم کرنے، لوگوں کو توحیدِ الہی کی طرف بُلانے اور، اس دین میں لوگوں کے ذریعہ داخل کردہ بدعات وخرافات کا انکار کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، نیز لوگوں کو حق کا پابند بنانے، باطل سے دور رکھنے، اور انہیں بھلائی کا حکم دینے نیز بُرائی سے روکنے کے لئے اپنى کوششیں صرف کیں۔

یہ شیخ رحمہ اللہ کی دعوت کا لُبّ لباب ہے۔ اور وہ عقائد میں سلفِ صالحین کے طریقے پر تھے, اللہ اور اس کے اسما وصفات، اُس کے فرشتوں، رسولوں، کتابوں، یوم آخرت اور تقدیر کے اچھے بُرے ہونے پر اُن کا ایمان تھا۔ توحیدِ الہی، اخلاصِ عبادت، بغیر کسی تعطیل وتشبیہ کے اسما وصفات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے شایانِ شان اُن پر ایمان لانے، حشر ونشر، جزا وحساب، جنت وجہنم وغیرہ پر ایمان لانے میں ائمۂ اسلام کے طریقے پر کاربند تھے۔ ایمان کے بارے میں ان کا وہی کہنا تھا جس کے قائل سلف صالحین تھے کہ ایمان قول وعمل کا نام ہے اور اس میں کمی وزیادتی ہوتی ہے؛ اطاعت سے اس میں اضافہ ہوتا ہے اور معصیت سے اس میں کمی آجاتی ہے۔یہی سب آپ کا عقیدہ تھا، اس طرح آپ سلف ہی کے عقیدے پر تھے اور قول وعمل ہر طرح سے ان کے ہی طریقے کے پابند تھے۔ ان کے طریقے سے سرِ مو بھی انحراف نہیں کیا اور نہ اس سلسلہ میں ان کا کوئی خاص مسلک اور خاص طریقہ ہی تھا، بلکہ وہ تو سلف صالحین صحابہ وتابعین کے طریقہ ہی پر تھے۔ اللہ اُن سب سے راضی وخوش ہو!

یہی سب آپ کا عقیدہ تھا، اس طرح آپ سلف ہی کے عقیدے پر تھے اور قول وعمل ہر طرح سے ان کے ہی طریقے کے پابند تھے۔ ان کے طریقے سے سرِ مو بھی انحراف نہیں کیا اور نہ اس سلسلہ میں ان کا کوئی خاص مسلک اور خاص طریقہ ہی تھا، بلکہ وہ تو سلف صالحین صحابہ وتابعین کے طریقہ ہی پر تھے۔ اللہ اُن سب سے راضی وخوش ہو!

شیخ نے نجد اور اس کے اطراف میں اس دعوت کا اعلان کیا اور اُس کی طرف لوگوں کو بُلایا، پھر معاندین ومنکرین کے خلاف اسی کی خاطر عَلم جہاد بلند کیا اور اُن سے اُس وقت تلک برسرِ پیکار رہے، یہأں تک کہ اللہ کا دین واضح اور نمایاں ہوگیا اور حق غالب آگیا۔ دعوت الی اللہ، انکارِ باطل، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے مسائل میں وہ عام مسلمانوں کے عقیدے پر ہی ہیں۔ ہاں! البتہ وہ اور ان کے معاونین عوام الناس کو حق کی طرف بلاتے اور حق کو اُن پر لازم کرتے ہیں۔ انہیں باطل سے روکتے ہیں اور اُس کى وجہ سے ان پر نکیر کرتے ہیں۔ اس سے انہیں منع کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اس سے باز نہیں آجاتے۔ اسی طرح مستعدی کے ساتھ وہ بدعات وخرافات کی بیخ کنی کرنے میں سرگرمِ عمل رہے، یہاں تک کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اُن کی دعوت کی وجہ سے اُن بدعات وخرافات کا خاتمہ کردیا۔ چنانچہ شیخ اور ان کے معاندین کے درمیان نزاع اور دشمنی کی مندرجہ ذیل تین وجوہات ہیں:

پہلی وجہ: شرک پر نکیر اور توحیدِ خالص کی طرف دعوت دینا۔ دوسری وجہ: بدعات وخرافات, جیسے قبروں پر عمارتیں بنانا, انہیں سجدہ گاہ بنالینا، میلاد منانا اور نام نہاد صوفیا کے ذریعہ ایجاد کردہ طریقے, پر نکیر کرنا اور اُن سے روکنا۔ تیسری وجہ: وہ لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے اور اسے طاقت کے بل پر نافذ کرتے تھے۔ جو اللہ کے واجب کردہ احکام کا انکار کرتا، اُس پر اسے لاگو کرتے، اس کے چھوڑنے پر اُسے سزا دیتے، لوگوں کو بُرائیوں سے منع کرتے، اس سے روکتے، شرعی حدود قائم کرتے، حق کی پابندی لازمی قرار دیتے اور باطل سے انہیںروکتے تھے، جس سے حق کا غلبہ ہوا اور وہ پھیل گیا, باطل کا قلع قمع ہوگیا, اور بازاروں اور مسجدوں میں نیزتمام حالتوں میں لوگوں کے اخلاق واطوار سُدھر گئے۔

ان کے یہاں بدعت کا نام ونشان نہیں رہا، ان کی سرزمین شرک سے پاک ہوگئى اور ان میں منکرات پَر نہیں مار سکتے تھے، بلکہ جس نے اُن کے ملک اوران کے حالات کا مشاہدہ کیا، اسے نبی ﷺ، أپ ﷺ کے صحابہ، اور تابعین کے افضل ترین زمانے میں سلف صالحین کے حالات یاد آگئے۔ چنانچہ یہ لوگ سلف کى سیرت پر کاربند اور ان کے منہج پر، قائم اور ڈٹے رہے،, اس کى خاطر مصائب برداشت کرتے رہے, اس کے واسطے جد وجہد کرتے رہے، اور اس راہ میں انہوں نے جہاد بھی کیا، لیکن جب آخری دور میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کی وفات کے کافی عرصہ بعد نیز آپ کی اکثر اولاد ومعاونین کی وفات کے بعد کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں، تو انہیں تُرکی اور مصری حکومتوں کے ہاتھوں اس آیتِ کریمہ کے بمصداق ابتلا وآزمائش سے دوچار ہونا پڑا:{حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔}[سورہ الرعد، آیت: 11]۔ہم اللہ عزّ وجلّ سے دعا گو ہیں کہ جو پریشانیاں انہوں نے جھیلی ہیں، اللہ اسے ان کی غلطیوں کا کفارہ بنادے، اُن کے گناہوں کی معافی اور بلندیٔ درجات کاذریعہ بنائے اور ان کے مقتولین کو درجۂ شہادت سے سرفراز کرے۔ اللہ اُن سب سے راضی ہو اور اُن پر بارانِ رحمت کا نزول فرمائے۔ الحمد للہ تاہنوز ان کی دعوت زندہ وعام ہے۔ اس لیے کہ مصری لشکر نے نجد میں داخل ہو کر جو خون خرابہ اور قتل وغارت گری کی تھی، اس پر ابھی کچھ سال ہی گزرے تھے کہ یہ دعوت پھر اٹھ کھڑى ہوئی اور پھیلنے لگى, اس کى تفصیل یہ ہے کہ اس واقعہ کےپانچ سال بعد امام ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود رحمہ اللہ نے دعوت کا جھنڈا بلند کیا تو پھر نجد اور اس کے اطراف میں دعوت کا احیاء ہوا۔ نجد کے سارے علاقوں میں علما پھیل گئے، اس کے تمام شہروں اور دیہاتوں سے ترکی ومصری افراد کو نکال باہر کیا گیا۔ اس کے بعد 1240 ہجری میں از سرِنو دعوت کو قوت حاصل ہوئی۔جب کہ درعیہ کی تباہی و ویرانی اور وہاں سے آلِ سعود کے خاتمہ کا سانحہ 1233 ہجری میں پیش آیا۔ نجد میں 1233 ہجری سے 1239 ہجری تک تقریبا پانچ سال کا زمانہ بد نظمی، فتنہ وفساد اور لڑائی جھگڑے کی نذر رہا۔ پھر 1240 ہجری میں امام ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود کے ہاتھوں مسلمان نجد میں ازسرِ نو جمع ہوئے اور سچائی کی جیت ہوئی۔ علما نے دیہاتوں اور شہروں کے باشندوں کو خطوط لکھے، لوگوں کی ہمت افزائی کی، ان کو اللہ کے دین کی طرف بُلایا، جس کی وجہ سے طویل جنگوں سے پیدا ہونے والے فتنوں کا خاتمہ ہوا، جو مصریوں اور ان کے ہم نواؤں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔اس طرح جنگوں کى آگ بجھ گئی اور اُن جنگوں کے نتیجے میں جنم لینے والے فتنے بھی ختم ہوگئے نیز اُن کی چنگاریاں بُجھ گئیں۔ اللہ کا دین پھر غالب ہوا۔ لوگ تعلیم وارشاد اور دعوت وتبلیغ میں پھر سے جُٹ گئے۔ حالات معمول پر آئے اور لوگ ایک بار پھر اس سابقہ حالت پر لوٹ آئے، جس پر شیخ محمد بن عبدالوہاب، ان کے تلامذہ اور ابنا وانصار کے زمانے میں تھے۔ اللہ اُن سب سے راضی وخوش ہو اور اُن پر بارانِ رحمت کا نزول فرمائے۔ بحمد اللہ وہ دعوت 1240 ہجری سے لے کر آج تک جاری ہے۔ آلِ سعود اور آل شیخ وعلمائے نجد کی جانشینی آج تک برقرار ہے۔ چنانچہ آلِ سعود امامت، دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ میں ایک دوسرے کی جانشینی کرتے ہیں۔

{حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔}

[سورہ الرعد، آیت: 11]۔

ہم اللہ عزّ وجلّ سے دعا گو ہیں کہ جو پریشانیاں انہوں نے جھیلی ہیں، اللہ اسے ان کی غلطیوں کا کفارہ بنادے، اُن کے گناہوں کی معافی اور بلندیٔ درجات کاذریعہ بنائے اور ان کے مقتولین کو درجۂ شہادت سے سرفراز کرے۔ اللہ اُن سب سے راضی ہو اور اُن پر بارانِ رحمت کا نزول فرمائے۔ الحمد للہ تاہنوز ان کی دعوت زندہ وعام ہے۔ اس لیے کہ مصری لشکر نے نجد میں داخل ہو کر جو خون خرابہ اور قتل وغارت گری کی تھی، اس پر ابھی کچھ سال ہی گزرے تھے کہ یہ دعوت پھر اٹھ کھڑى ہوئی اور پھیلنے لگى, اس کى تفصیل یہ ہے کہ اس واقعہ کےپانچ سال بعد امام ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود رحمہ اللہ نے دعوت کا جھنڈا بلند کیا تو پھر نجد اور اس کے اطراف میں دعوت کا احیاء ہوا۔ نجد کے سارے علاقوں میں علما پھیل گئے، اس کے تمام شہروں اور دیہاتوں سے ترکی ومصری افراد کو نکال باہر کیا گیا۔ اس کے بعد 1240 ہجری میں از سرِنو دعوت کو قوت حاصل ہوئی۔

جب کہ درعیہ کی تباہی و ویرانی اور وہاں سے آلِ سعود کے خاتمہ کا سانحہ 1233 ہجری میں پیش آیا۔ نجد میں 1233 ہجری سے 1239 ہجری تک تقریبا پانچ سال کا زمانہ بد نظمی، فتنہ وفساد اور لڑائی جھگڑے کی نذر رہا۔ پھر 1240 ہجری میں امام ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود کے ہاتھوں مسلمان نجد میں ازسرِ نو جمع ہوئے اور سچائی کی جیت ہوئی۔ علما نے دیہاتوں اور شہروں کے باشندوں کو خطوط لکھے، لوگوں کی ہمت افزائی کی، ان کو اللہ کے دین کی طرف بُلایا، جس کی وجہ سے طویل جنگوں سے پیدا ہونے والے فتنوں کا خاتمہ ہوا، جو مصریوں اور ان کے ہم نواؤں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔

اس طرح جنگوں کى آگ بجھ گئی اور اُن جنگوں کے نتیجے میں جنم لینے والے فتنے بھی ختم ہوگئے نیز اُن کی چنگاریاں بُجھ گئیں۔ اللہ کا دین پھر غالب ہوا۔ لوگ تعلیم وارشاد اور دعوت وتبلیغ میں پھر سے جُٹ گئے۔ حالات معمول پر آئے اور لوگ ایک بار پھر اس سابقہ حالت پر لوٹ آئے، جس پر شیخ محمد بن عبدالوہاب، ان کے تلامذہ اور ابنا وانصار کے زمانے میں تھے۔ اللہ اُن سب سے راضی وخوش ہو اور اُن پر بارانِ رحمت کا نزول فرمائے۔ بحمد اللہ وہ دعوت 1240 ہجری سے لے کر آج تک جاری ہے۔ آلِ سعود اور آل شیخ وعلمائے نجد کی جانشینی آج تک برقرار ہے۔ چنانچہ آلِ سعود امامت، دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ میں ایک دوسرے کی جانشینی کرتے ہیں۔

اسی طرح علما دعوت وارشاد اور دینی تعلیم اور حق کی طرف رہنمائی کے معاملات میں ایک دوسرے کی جانشینی کرتے ہیں۔ مگر حرمین شریفین ایک لمبے عرصے تک سعودی حکومت کے تسلط سے باہر رہے۔ یہاں تک کہ 1343 ہجری میں یہ اُس وقت اس کی قلمرو میں شامل ہوئے، جب امام عبدالعزیز بن عبدالرحمن بن فیصل بن ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود رحمہ اللہ کے زیر ولایت آگئے۔ الحمد للہ آج تک یہ اسی حکومت کی نگرانی واشراف میں ہیں۔

اس پر اللہ کا شکر ہے۔ ہم اللہ عزّ وجلّ سے دعا کرتے ہیں کہ آلِ سعود اور آل شیخ کے باقی ماندہ افراد اور اس ملک ودیگر بلاد کے سارے علمائے کرام کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھے اور اُن سب کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اسی طرح مسلمانوں کے علما، جہاں کہیں بھی ہوں، ان کے حالات درست فرمائے۔ سب کے ذریعہ حق کی نصرت وتائید اور باطل کو ذلیل کرے۔ داعیانِ ہدایت کو وہ جہاں کہیں بھی ہوں، اپنے فرائض کی انجام دہی کی توفیق بخشے اور ہم سب کی صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے۔ حرمین شریفین اور اس کے مضافات نیز مسلمانوں کے سارے ممالک کو ہدایت، دینِ حق اور کتاب اللہ وسنت نبوی کی تعظیم سے آباد کرے۔ کتاب اللہ وسنت نبوی کو سمجھنے، ان کو مضبوطی سے تھامنے اور اس پر ثابت قدم رہنے نیز ان دوںوں کو حکم اور فیصل بنانے کی, توفیق عطا فرمائے، یہاں تک کہ وہ اپنے رب عزوجلّ سے جا ملیں۔ بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے اور اس سے دعاؤوں کو قبولیت بخشنے کى امید ورجا ہے۔شیخ کے حالاتِ زندگی، ان کی دعوت اور ان کے معاونین ومخالفین کے سلسلے میں جو کچھ مجھ سے ہو سکا، یہ اس کا مختصر سا خاکہ ہے۔ اللہ ہی سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ اسی پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہِ عظیم کے بغیر ممکن نہیں۔ درود وسلام نازل ہو اللہ کے بندے اور رسول، ہمارے نبی اور امام محمد بن عبداللہ پر ، نیز ان کی آل واولاد، صحابہ اور ان کے راستے پر چلنے والے نیز اس راہ سے ہدایت حاصل کرنے والے ہر شخص پر۔ تمام تعریفیں سارے جہان کے رب کے لیے ہی سزاوار ہیں۔

شیخ کے حالاتِ زندگی، ان کی دعوت اور ان کے معاونین ومخالفین کے سلسلے میں جو کچھ مجھ سے ہو سکا، یہ اس کا مختصر سا خاکہ ہے۔ اللہ ہی سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ اسی پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہِ عظیم کے بغیر ممکن نہیں۔ درود وسلام نازل ہو اللہ کے بندے اور رسول، ہمارے نبی اور امام محمد بن عبداللہ پر ، نیز ان کی آل واولاد، صحابہ اور ان کے راستے پر چلنے والے نیز اس راہ سے ہدایت حاصل کرنے والے ہر شخص پر۔ تمام تعریفیں سارے جہان کے رب کے لیے ہی سزاوار ہیں۔