×
کیا میری بیوی جواپنے دس ماہ کے بچے کودودھ پلارہی ہے کے لیے رمضان کے روزے چھوڑنا جائز ہیں ؟

دودھ پلانے والی اور حاملہ کے روز ے کا حکم

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی :شعبۂ علمی اسلام سوال وجواب سائٹ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق:عزیز الرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

حكم صيام المرضع والحامل

فتوى: القسم العلمي بموقع الإسلام سؤال وجواب

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي

دودھ پلانے والی اور حاملہ کے روز ے کا حکم

: 50005سوال: میری بیوی جواپنے دس ماہ کے بچے کودودھ پلارہی ہے کیا اس کے لیے رمضان کا روزہ چھوڑنا جائز ہے؟

بتاریخ: 2004-03-20کو نشر کیا گیا

جواب:

الحمد للہ

دودھ پلانے والی اور اسی طرح حاملہ عورتوں کی دوحالتیں ہوتی ہیں :

پہلی حالت :

اس کی وجہ سے روزہ اثرانداز نہ ہو ، اورنہ ہی اسے روزہ رکھنے میں کوئی مشقت اور تکلیف ہو ، اورنہ ہی اسے اپنے بچے کا ڈر اور خدشہ ہو ، ایسی عورت پرروزہ رکھنا واجب ہے اوراس کے لیے جائز نہیں کہ وہ روزہ ترک کرے ۔

دوسری حالت :

روزہ رکھنے کی صورت میں عورت کواپنے آپ پر یا پھر بچے کونقصان لاحق ہونے کا خدشہ ہو ، اوراسے روزہ رکھنے میں مشقت ہو توایسی عورت کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے لیکن بعد میں وہ اُن چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرے گی ۔

اوراس حالت میں اس کے لیے روزہ نہ رکھنا افضل اوربہتر ہے، اور روزہ رکھنا مکروہ ہے ، جبکہ کچھ اہل علم نے تویہ کہا ہے کہ اگر اسے اپنے بچے کا خطرہ ہو تو اس پر روزہ ترک کرنا واجب ہے اور روزہ رکھنا حرام ہے ۔

مرداوی رحمہ اللہ تعالیٰ((الانصاف )) میں کہتے ہیں :

''ایسی حالت میں اس کے لیے روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔۔۔ اور ابن عقیل رحمہ اللہ تعالیٰ نے ذکرکیا ہے کہ :'' اگر حاملہ کو اپنے حمل کا اور دودھ پلانے والی عورت کو حالت رضاعت میں اپنے بچے کو نقصان لاحق ہونے کا خطرہ ہو، توان کے لیے روزہ رکھنا حلال نہیں ہے ، اوراگر ان کوکسی بھی چیز کا خدشہ اور ڈر نہ ہو تو پھر روزہ رکھنا حلال ہے'' ۔ ا ھـ اختصار کے ساتھ ۔ دیکھیں : الانصاف للمرداوی ( 7 / 382 ) ۔

اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ سے درج ذیل سوال کیا گيا :

''جب حاملہ اوردودھ پلانے والی قوی اور چاک وچوبند اور بغیر کسی عذر کے روزہ نہ رکھے اورنہ ہی وہ روزہ سے متاثر ہوتواس کے بارے میں کیا حکم ہوگا ؟

" حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کے لیے بغیر کسی عذر کے روزہ ترک کرنا جائز نہيں ہے ، اوراگر وہ کسی عذر کی بنا پر روزہ نہ رکھیں توان پر بعد میں ان روزوں کی قضاکرنا واجب ہوگی ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : } وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ{

'' اورجوکوئی مریض ہویا مسافر اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنا ہوگی''

یہ دونوں عورتیں بھی مریض کی مانند ہی ہیں ، اور جب ان کا عذر ہو کہ روزہ رکھنے سے انہیں بچے کونقصان لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تووہ روزہ نہ رکھیں اوربعد میں ان ایام کی قضا کرلیں اوربعض اہل علم نے قضا کے ساتھ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو گندم یا چاول یا کھجور وغیرہ بھی دینے کی بات کہی ہے ۔

اوربعض علماء کرام کہتے ہیں کہ : ہرحال میں انہيں روزوں کی قضا کرنی ہوگی، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں، اس لیے کہ کتاب وسنت میں کھانا کھلانے کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ہے ، اوراصل توبری الذمہ ہونا ہے ، یہاں تک کہ اس سے کوئی دلیل مشغول کردے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی ٰ کا یہی مسلک ہے اورقوی بھی یہی ہے'' ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی الصیام (ص : 161 )

اورشیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی پوچھا گيا کہ :

''اگرحاملہ عورت کواپنے آپ کو یا اپنے بچے کونقصان ہونے کا اندیشہ ہوتواس کے روزہ افطار کرنے کا حکم کیا ہے ؟ ''

توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

ہم اس کے جواب میں کہيں گے کہ حاملہ عورت دوحالتوں سے خالی نہيں:

پہلی حالت : عورت قوی اورچست ہو، روزہ رکھنے سے اسے کوئی مشقت نہ ہو اورنہ ہی روزہ اس کے بچے پر کچھ اثرانداز ہو، توایسی عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے ، اس لیے کہ روزہ ترک کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی عذر نہيں ۔

دوسری حالت : حاملہ عورت جسمانی کمزوری یا پھر حمل کے بوجھ کی وجہ وغیرہ سے روزہ رکھنے کی متحمل نہ ہو ، تواس حالت میں عورت روزہ نہيں رکھے گی ، اورخاص کرجب بچے کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تواس وقت بعض اوقات روزہ چھوڑنا واجب ہوجاتا ہے ۔

اگروہ روزہ نہ رکھے تو وہ بھی دوسرے ‏عذر والوں کی طرح عذر ختم ہونے کے بعد روزہ قضا کرے گی ، اورجب ولادت سے فارغ ہوجائے تونفاس کے غسل کے بعد اس پران روزوں کی قضا واجب ہے ، لیکن بعض اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حمل سے فارغ ہو تواسے کوئی اورعذر درپیش آ جائے مثلا: دودھ پلانا ، اس لیے کہ دودھ پلانے والی عورتوں کو کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے، اور خاص کر گرمیوں کے موسم میں لمبے دنوں اورشدید گرمی میں تواسے روزہ توڑنے کی سخت ضرورت ہوگی، تاکہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلاسکے

تو اس حالت میں بھی ہم اسے یہ کہيں گے کہ آپ روزہ نہ رکھیں بلکہ جب عذر ختم ہوجائے توترک کیے ہوئے روزوں کی قضا کرلیں گی ''۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی الصیام (ص:162 ) ۔

اورشیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فرمان ہے :

''حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ ترک کرنے کی اجازت دی ہے :

انس بن مالک کعبی کی حدیث ، جسے احمد اوراہل سنن نےصحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان(دونوں) کو روزہ چھوڑے کی رخصت دی ہے اورانہیں مسافرکی مانند قرار دیا ہے ۔

تواس سے یہ علم ہوا کہ وہ دونوں بھی مسافر کی طرح روزہ ترک کرکے بعد میں اس کی قضاکریں گی ، اوراہل علم نے یہ ذکر کیا ہے کہ ان دونوں کے لئے روزہ نہ رکھنا اسی وقت جائز ہوگا جب انہيں مریض کی طرح روزہ رکھنا مشکل ہواور اس میں مشقت ہویا ان دونوں کواپنے بچے کے بارے میں خطرہ محسوس ہو ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ اھـ

دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 15 / 224 ) ۔

اوردائمی کمیٹی کے فتوے میں ہے:

"حاملہ عورت کے لیے حمل کی حالت میں روزہ رکھنا واجب ہے، لیکن جب اسے روزہ رکھنے کی بنا پر اپنے آپ یا بچے پرخطرہ لاحق ہو توروزہ ترک کرنے کی رخصت ہے ، لیکن اسے ولادت اورنفاس کےبعد چھوڑے ہوئے روزے بطور قضا رکھنے ہونگے ''۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 226 ) ۔

واللہ اعلم .

سائٹ اسلام سوال وجواب

(طالبِ دُعا: azeez90@gmail.com)