×
سوال : اگر کوئی شخص دو عقیقے کرے یا دو قربانیاں کرے تو کیا ان میں ایک مکمل جانور کو خود کھا سکتا ہے، اور دوسرے جانور کا پورا صدقہ کر سکتا ہے؟ پہلے جانور کا کچھ بھی حصہ صدقہ نہیں کیا اور دوسرے جانور میں سے کچھ بھی گوشت خود نہیں کھایا، تو کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ یا پھر دونوں میں سے صدقہ کرنا لازم ہے؟

قُربانی کا پورا گوشت خودکھانے

یا پورے کو صدقہ کرنے کا حُکم

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی:اسلام سوال وجواب سائٹ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ و تنسیق:عزیزالرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

حكم أكل جميع الأضحية

أو التصدّق بجميعها

فتوى:موقع الإسلام سؤال وجواب

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي

۱۴۹۴۱۵:قُربانی کا پورا گوشت خود کھانے

یا پورے کوصدقہ کرنے کا حکم

سوال : اگر کوئی شخص دو عقیقے کرے یا دو قربانیاں کرے تو کیا ان میں ایک مکمل جانور کو خود کھا سکتا ہے، اور دوسرے جانور کا پورا صدقہ کر سکتا ہے؟ پہلے جانور کا کچھ بھی حصہ صدقہ نہیں کیا اور دوسرے جانور میں سے کچھ بھی گوشت خود نہیں کھایا، تو کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ یا پھر دونوں میں سے صدقہ کرنا لازم ہے؟

بتاریخ :۲۴۔۹۔۲۰۱۵ کونشرکیا گیا

جواب:

الحمد للہ

شرعی نصوص کی روشنی میں حج یا عید کی قربانی میں سے صدقہ کرنا واجب ہے، چاہے تھوڑی سی مقدار میں ہی کیوں نہ ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
(فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ)
''تم قربانی کے گوشت میں سے خود کھاؤ، سفید پوش اور مانگنے والوں کو بھی کھلاؤ، ہم نے اس جانور کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے، تا کہ تم شکر گزار بنو''۔[الحج : 36]
آیت میں مذکور: ( اَلْقَانِعَ ) سے مراد ایسا تنگ دست آدمی ہے جو قناعت اور عفت پسندی کی وجہ سے لوگوں کے سامنے دست دراز نہ کرتا ہو۔

اور ( اَلْمُعْتَرَّ ) سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں سے مانگتا پھرتا ہو۔

چنانچہ ان فقراء کا حج کی قربانی میں حق ہے، یہ آیت اگرچہ حج کی قربانی کیلئے ہے، لیکن عید کی قربانی کا بھی یہی حکم ہے'' انتہی ۔(الموسوعة الفقهية :6/115)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عید کی قربانی سے متعلق فرمان ہے کہ: ''اس میں سے کھاؤ، ذخیرہ کرو، اور صدقہ دو''۔( صحیح مسلم ,حدیث نمبر:1971)

شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کے ہاں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہ کچھ صدقہ کرنا واجب ہے، اور یہی موقف شرعی نصوص کی روشنی میں صحیح معلوم ہوتا ہے۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''کم از کم اتنی مقدار میں صدقہ کرنا واجب ہے جس پر "صدقہ" کا لفظ صادق آ سکے؛ کیونکہ قربانی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مساکین کے ساتھ رفق و نرمی کا اظہار ہو، چنانچہ اس بنا پر اگر کوئی شخص مکمل قربانی کا جانور خود ہی کھا جاتا ہے تو اسے کم از کم اتنی مقدار میں صدقہ کرنا لازم ہوگا جس پر صدقہ کا لفظ صادق آ سکے'' انتہی
( روضة الطالبين وعمدة المفتين :3/223)

مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''اگر قربانی کا مکمل جانور خود ہی کھا لے تو کم از کم اتنا صدقہ ضرور کرے جس سے اس کا صدقہ ادا ہو جائے''انتہی۔(الإنصاف :6/491)

نیز بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
'' اگر قربانی کے تازہ گوشت میں سے کچھ بھی صدقہ نہ کرے تو کم از کم اتنا صدقہ ضرور کرے جس پر صدقہ کا لفظ بولا جا سکے، مثلاً: ایک اوقیہ [تقریباً 200 گرام] صدقہ کرے''
( كشاف القناع :7/444)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو قربانی کا مکمل گوشت پکا کر رشتہ داروں کو کھلا دیتا ہے، اس میں سے کچھ بھی صدقہ نہیں کرتا تو کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
''ان کا یہ عمل غلط ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ)
'' تاکہ فوائد حاصل کریں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر ایّام میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دیے ہیں ، اس میں سے خود بھی کھائیں اور تنگ دست لوگوں کو بھی کھلائیں'' ۔ [الحج : 28[

اس بنا پر اب ان کیلئے یہ ضرور ی ہے کہ وہ قربانی کے ہر جانور میں سے کچھ نہ کچھ گوشت کے ضامن ہوں گے، اس کیلئے انہیں گوشت خرید کر صدقہ نکالنا لازم ہے '' انتہی۔ ) مجموع فتاوى ابن عثیمین:25/132)

دوم:

قربانی کے گوشت میں سے کھانا واجب ہے یا نہیں؟ اہل علم کے یہاں دو موقف ہیں، جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اس میں سے کھانا واجب نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، اور یہی موقف ائمہ اربعہ کا ہے۔

جبکہ کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ قربانی کے گوشت میں سے کھانا واجب ہے، چاہے تھوڑا سا ہی کیوں نہ کھایا جائے؛ کیونکہ شرعی نصوص میں قربانی کے گوشت کو کھانے کا حکم دیا گیا ہے۔

چنانچہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''قربانی کے گوشت میں سے کھانا مستحب ہے، واجب نہیں ہے، ہمارا اور دیگر تمام علمائے کرام کا یہی موقف ہے، تاہم چند سلف صالحین سے یہ منقول ہے کہ قربانی کا گوشت کھانا بھی واجب ہے۔۔۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں قربانی کا گوشت کھانے کا حکم دیا گیا ہے، اور فرمانِ باری تعالی میں بھی کھانے کا حکم ہے: ۔( فَكُلُوا مِنْهَا) اس میں سے کھاؤ۔[الحج : 28] لیکن جمہور اہل علم نے اس حکم کو مندوب اور مباح کے حکم میں شمار کیا ہے کیونکہ یہ حکم قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے کی ممانعت کے بعد دیا گیا ہے'' انتہی۔
(شرح صحيح مسلم :13/131)

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''اگر کوئی قربانی کا سارا گوشت ہی صدقہ کر دے ، یا نصف سے زیادہ صدقہ کر دے تو جائز ہے'' انتہی
(المغنی :13/380)

مزید کیلئے سوال نمبر: (146159) دیکھیں۔

سوم:

عقیقے کے گوشت کے بارے میں تقسیم کرنے کی کیفیت شریعت میں بیان نہیں ہوئی، اور نہ ہی اس میں سے کھانے اور صدقہ کرنے کے متعلق کوئی حکم ہے۔

اس لئے انسان کسی بھی انداز سے عقیقہ کے گوشت میں تصرف کر سکتا ہے، چاہے تو مکمل صدقہ کردے، اور چاہے تو مکمل ہی کھا لے، تاہم افضل یہی ہے کہ عقیقہ کے گوشت کے بارے میں بھی وہی طریقہ ٔ کار اپنایا جائے جو قربانی کے گوشت کے ساتھ اپنایا جاتا ہے۔

چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ اسے کیسے تقسیم کریں ؟
تو انہوں نے جواب دیا: ''جیسے چاہو تقسیم کرو''، اور ابن سیرین رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ: ''اپنی مرضی سے جیسے چاہو کرو'' انتہی۔( تحفة المودود بأحكام المولود :ص 55)مزید کیلئے سوال نمبر: (8423) اور (90029) کا مطالعہ کریں۔

چہارم:

مذکورہ بالا حکم کہ قربانی کے جانور میں سے کچھ نہ کچھ صدقہ کرنا واجب ہے، یا قربانی کا گوشت کھانا واجب ہے یا مستحب ہے، یہ حکم ہر جانور کیلئے الگ الگ ہے۔

چنانچہ اگر کسی نے دس بکریاں ذبح کی ہیں تو اسے ہر بکری میں سے کچھ نہ کچھ صدقہ کرنا لازم ہوگا، اور کچھ نہ کچھ حصہ تناول کرنا مستحب ہوگا۔

لہذا ان تمام بکریوں میں سے ایک مکمل بکری بقیہ 9 بکریوں کی طرف سے صدقہ کرنا درست نہیں ہوگا؛ کیونکہ ہر بکری الگ سے مستقل قربانی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی حج کی قربانیاں نحر کی تو سب کی ایک ایک بوٹی ہنڈیاں میں جمع کر کے پکانے کا حکم دیا۔

چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربان گاہ کی طرف گئے اور وہاں آپ نے 63 اونٹ اپنے ہاتھوں سے نحر کیے، اور پھر بقیہ اونٹ علی رضی اللہ عنہ کو نحر کرنے کیلئے سپرد کردیا ، اس کے بعد آپ نے ہر اونٹ کے گوشت میں سے تھوڑا سا حصہ ایک ہنڈیاں میں ڈالنے کا حکم دیا، پھر اسے پکایا گیا اور دونوں نے ان کا گوشت کھایا اور شوربہ نوش کیا۔۔۔''( صحیح مسلم،حدیث نمبر:1218)

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک قربانی کا الگ سے حکم ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام قربانی کے اونٹوں کا گوشت ایک ہانڈی میں جمع کرنے کا حکم دیا۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''[حدیث کے عربی الفاظ میں مذکور] ( اَلْبَضْعَة ) سے مراد گوشت کا ٹکڑا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج اور عید کی قربانی کا گوشت کھانا مستحب ہے۔

اس بارے میں اہل علم کا کہنا ہے کہ: جب قربانی کے ہر جانور کے گوشت کو کھانا سنت ہے اور ایک سو جانوروں کے گوشت کو کھانے میں مشقت بھی تھی تو اس کے حل کیلئے تمام جانوروں کے تھوڑے تھوڑے گوشت کو ہانڈی میں ڈال دیا گیا ؛ تا کہ ان کے شوربہ کو نوش کر کے سب کا کچھ نہ کچھ حصہ تناول کرنا آسان ہو جائے'' انتہی ۔(شرح صحيح مسلم :8/192)

امام نووی رحمہ اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
''ہر اونٹ کے گوشت میں سے ایک بوٹی لی، اور ان کا شوربہ نوش فرمایا ؛ اس میں حکمت یہ تھی کہ آپ سب کے گوشت میں سے کچھ نہ کچھ تناول فرما لیں'' انتہی
(المجموع شرح المهذب :8/414)

خلاصہ:یہ ہوا کہ جس قربانی کے مکمل گوشت کو آپ تناول کر چکے ہیں اس میں سے کچھ بھی صدقہ نہیں کیا تو اس کے بدلے میں آپ تھوڑا سا گوشت چاہے ایک اوقیہ [تقریباً 200 گرام] ہی لے لیں اور اسے فقراء میں تقسیم کر دیں۔

تاہم جس قربانی کو آپ نے مکمل طور پر صدقہ میں دے دیا تو یہ قربانی سب علمائے کرام کے ہاں درست ہے۔

جبکہ عقیقہ کے بارے میں آپ نے جو بھی کیا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم۔

سائٹ اسلام سوال وجواب

(طالبِ دُعا:[email protected])