×
سوال : میں نےاپنی اوراولاد کی جانب سے قربانی کرنے کی نیت کی ہے ، توکیا قربانی کے لیے کچھ خاص اورمعین صفات پائی جاتی ہیں ؟ یا یہ کہ میں کوئی بھی بکری ذبح کرسکتا ہوں ؟

قُربانی کے شروط وضوابط

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی:شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق: عزیزالرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

شُروط الأُضحية

فتوى: الشيخ محمد بن صالح العثيمين

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق: عزيزالرحمن ضياء الله السنابلي

۳۶۷۵۵:قُربانی کے شروط وضوابط

سوال : میں نےاپنی اوراولاد کی جانب سے قربانی کرنے کی نیت کی ہے ، توکیا قربانی کے لیے کچھ خاص اورمعین صفات پائی جاتی ہیں ؟ یا یہ کہ میں کوئی بھی بکری ذبح کرسکتا ہوں ؟

بتاریخ: ۱5۔۱۰۔۲۰۱۲ کو نشر کیا گیا

جواب:

الحمد للہ

قربانی کے لیے چھ شروط وضوابط کا پایا جانا ضروری ہے :

پہلی شرط :

وہ قربانی بھیمۃ الانعام میں سے ہو یعنی: اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری میں سے ہوں، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾[الأنعام:34]

''اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وه ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں ''۔

اوربہیمۃ الأنعام سے مراد: اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری ہيں اور یہی عرب کے یہاں مشہور و معروف ہے اور یہی بات حسن ، قتادہ وغیرہ نے بھی کہا ہے ۔

دوسری شرط :

قربانی کا جانور شرعی محدود کردہ عمرکا ہونا ضروری ہے ، وہ اس طرح کہ بھيڑ کی نسل میں جذعہ یا پھر اس کے علاوہ میں سے ثنیہ ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :(لا تذبحوا إلا مُسِنَّة إلا أن يعسرعليكم فتذبحوا جَذعةً من الضّأن)

''مسنہ ( یعنی دودانت والا ) کے علاوہ کوئی اور جانور ذبح نہ کرو لیکن اگر تمہیں مسنہ نہ ملے توبھيڑ کا جذعہ ذبح کرلو '' (صحیح مسلم) ۔

مسنہ: ثنیہ اوراس سے اوپروالی عمر کا ہوتا ہے اورجذعہ اس سے کم عمر کا ۔

لہذا اونٹ پورے پانچ برس کا ہو تووہ ثنیہ کہلائے گا ۔

گائے کی عمر دوبرس ہوتووہ ثنیہ کہلائے گی ۔

بکری جب ایک برس کی ہوتووہ ثنیہ کہلائے گی ۔

اورجذعہ نصف سال کے جانور کوکہتے ہیں ، لہذا اونٹ ، گائے اوربکری میں ثنیہ سے کم عمرکے جانورکی قربانی نہیں ہوگی، اوراسی طرح بھيڑ میں سے جذعہ سے کم عمرکے جانور کی قربانی صحیح نہيں ہوگی۔

تیسری شرط :

قربانی کا جانورچار ممنوع عیوب سے پاک ہونا چاہیے :

۱۔واضح اندھا پن: یعنی جس کی آنکھ بہہ چکی ہو یا پھر بٹن کی طرح باہر نکلی ہوئی ہو ، یا پھر آنکھ مکمل اورساری سفید ہوجواس کے بھینگے پن پرواضح دلالت کرتا ہے ۔

۲۔واضح بیماری : اس سے مراد وہ بیماریاں ہیں جوجانوروں پرظاہرہوتی ہیں مثلا وہ بخار جس کی بنا پرجانور چرنا ہی ختم کردیتا ہے اوراس کے چرنے کی چاہت ہی ختم ہوجاتی ہے ، اوراسی طرح واضح اورظاہرخارش جواس کے گوشت کوخراب کردینے والی ہو،یااس کی صحت پراثرانداز ہورہی ہو ، اورگہرا زخم جواس کی صحت پراثرانداز ہوتا ہو اور اس کے مثل (دیگربیماریاں)۔

۳۔واضح لنگڑا پن: وہ لنگڑا پن جواسے سیدھا اورصحیح چلنے سے روکدے اورمشکل سے دوچار کرے ۔

۴۔گودے کوزائل کرنے والی کمزوری : کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گيا کہ قربانی کا جانور کن عیوب سے پاک و صاف ہونا چاہیے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکےفرمایا: چارعیوب سے:(العرجاء البيّن ظلعها ، والعوراء البيّن عورها ، والمريضة البيّن مرضها ، والعجفاء التي لا تنقى)

'' لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو ، اندھا جانور جس کا اندھا پن ظاہر ہو، بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، اوروہ کمزورا ورضعیف جانور جس کا گودا ہی نہ ہو '' ۔

اسے امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ۔

اورسنن میں برا‏ء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے ایک روایت ہے جس میں وہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اورفرمایا :

'' چارقسم کے جانور قربانی میں جائز نہيں''اوراسی کے مثل ذکر کیا۔

علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل میں اسے صحیح قرار دیا ہے ، دیکھیں حدیث نمبر ( 1148 ) ۔

لہذا یہ چارعیب ایسے ہیں جن کے پائے جانے کی بنا پرقربانی نہيں ہوتی ، اوران چارعیوب کے ساتھ اس طرح کے اوربھی عیوب ملحق ہوتے ہیں یا وہ عیوب جواس سے بھی شدید ہوں توان کے پائے جانے سے بھی قربانی نہيں ہوتی ، ہم انہيں ذيل میں ذکر کرتے ہیں :

۱۔اندھا پن: وہ جانور جس کی آنکھوں سے نظرہی نہ آتا ہو ۔

۲۔وہ جانورجس نے اپنی طاقت سےزيادہ کھا لیا ہو اس کی قربانی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ صحیح نہیں ہوجاتا اوراس سے خطرہ نہيں ٹل جاتا ۔

۳۔وہ جانور جسےجننے میں کوئی مشکل درپیش ہو جب تک اس سے خطرہ زائل نہ ہوجائے ۔

۴۔زخم وغیرہ لگا ہوا جانور جس سے اس کی موت واقع ہونے کا خدشہ ہوگلا گھٹ کر یا بلندی سے نيچے گر کریا اسی طرح کسی اوروجہ سے اس وقت تک ایسے جانورکی قربانی نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس سے خطرہ زائل نہيں ہوجاتا ۔

۵۔کسی آفت کی وجہ سے چلنے کی سکت نہ رکھنے والا جانور ۔

۶۔دونوں ہاتھوں یا دونوں پیروں میں سے ایک ہاتھ یا پیر کاکٹا ہوا جانور۔

جب ان چھ عیوب کوحدیث میں بیان کردہ چارعیوب کے ساتھ ملادیا جائے توان(جانور) کی تعداد دس ہوجاتی ہے جن کی قربانی صحیح نہیں ہوگی ۔

چوتھی شرط :

وہ جانور قربانی کرنے والے کی ملکیت میں ہو یا پھر شریعت یا مالک کی جانب سے اس کو اجازت ملی ہو ۔

لہذا جوجانوراس کی ملکیت میں نہ ہو اس کی قربانی صحیح نہیں ہے ، مثلا غصب یا چوری کا جانور اور اسی طرح باطل اورغلط دعوے سے لیا گيا جانور ، کیونکہ اللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی کے ساتھ اس کا تقرب حاصل نہيں کیا جا سکتاہے ۔

اورجب عادتا یتیم کی سرپرست کی طرف سے یتیم کے مال میں قربانی ہوتی رہی ہو،اور قربانی نہ ہونے سے اس(یتیم) کی دل آزاری ہوتی ہو تو(یتیم کی سرپرست کی طرف سےیتیم کے لئے اس کے مال سے) قربانی کرنا صحیح ہوگی۔

اسی طرح موکل کی اجازت سے اس کے مال میں وکیل کی قربانی صحیح ہوگی۔

پانچویں شرط :

اس سے کسی دوسرے کا حق متعلق نہ ہو ،لہذا رہن رکھے گئے جانور کی قربانی صحیح نہیں ہوگی۔

چھٹی شرط :

قربانی کوشرعی حدود اور شرعی وقت کے اندر ذبح کیا جائے ، اوریہ وقت دس ذی الحجہ کونمازِ عید کے بعد سے شروع ہوکرایامِ تشریق کے آخری دن سورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے ، ایام ِ تشریق کا آخری دن ذی الحجہ کی تیرہ تاریخ بنتا ہے ، تواس طرح ذبح کرنے کے چار دن ہیں ۔

عید کے دن نمازِ عید کے بعد ، اوراس کے بعد تین دن یعنی گیارہ ، بارہ اورتیرہ ذی الحجہ کے ایام ، لہذا جس نے نماز عید سے قبل ہی قربانی کرلی یا پھر تیرہ ذی الحجہ کوغروب شمس کے بعد کوئی شخص قربانی کرتا ہے تواس کی یہ قربانی صحیح نہیں ہوگی۔

اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے :

وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

'' جس نے نماز ِ( عید ) سے قبل ذبح کیا تو وہ صرف گوشت ہے جووہ اپنے اہل عیال کوپیش کررہا ہے اوراس کا قربانی سے کوئی تعلق نہيں ہے '' ۔

اورجندب بن سفیان البجلی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ حاضرتھا توانہوں نے فرمایا :

''جس نے نمازِ عید سےقبل ذبح کرلیا وہ اس کے بدلے میں دوسرا جانور ذبح کرے '' ۔

اورنبیشہ ھذلی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

'' ایامِ تشریق کھانے پینے اوراللہ تعالیٰ کے ذکرواذکار کے ایام ہیں''۔(اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے )۔

لیکن اگراسے ایامِ تشریق سے قربانی کوتاخیرکرنے کا کوئی عذر پیش آجائے مثلا : اس کی قربانی کا جانور اس سے بھاگ گيا اوراس میں اس کی کوئی کوتاہی نہيں تھی اوروہ جانورایامِ تشریق کے بعد واپس ملے ، یااس نے کسی کوقربانی ذبح کرنے کا وکیل بنایا تووہ وکیل اسے ذبح کرنا ہی بھول گیا اوروقت گزر گیا ، تواس عذر کی بنا پروقت گزرنے کے بعد ذبح کرنے میں کوئی حرج نہيں ، نماز کے وقت میں سوئے ہوئے یابھول جانےوالے شخص پرقیاس کرتے ہوئے کہ وہ جب سوکراٹھے یا جب اسے یاد آئے تو وہ نماز ادا کرے گا ۔

اوروقت مقررہ کے اندر دن یا رات میں کسی بھی وقت قربانی ذبح کی جاسکتی ہے ، قربانی دن کے وقت ذبح کرنا اولیٰ اوربہتر ہے ، اورعید والے دن نمازِ عید کے خطبہ کے بعد ذبح کرنا افضل اوراولی ٰہے ، اوراسی طرح اس کے بعدوالے دن میں یعنی جتنی جلدی ذبح کی جائے بہتراور افضل ہوگی کیونکہ اس میں خیروبھلائی کے حصول کرنے میں سبقت ہے ۔ انتھی .

دیکھیں کتاب : (احکام الأضحیۃ والذکاۃ: للشیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ )

(طالبِ دُعا:azeez90@gmail.com)