×
مؤلف نےاس کتاب میں ان چیزوں کوجمع کیا ہےجن سےعام مسلمانوں کو عقیدہ، احکام ، اخلاق اورمعاملات کے سلسلےمیں ناواقف نہیں رہنا چاہیے۔ مؤلف نے کوشش کی ہے کہ معلومات آسان اسلوب اور عام فہم زبان میں پیش کی جائیں تاکہ عام لوگ آسانی سے سمجھ سکیں، پھر انہوں نے انہیں چھوٹی مجلسوں اورمختصر دروس کے مطابق تقسیم کیا ہے تاکہ ان کا سیکھنا سکھانا آسان ہو۔ امید ہےکہ یہ کتاب مسلمانوں کے ہر طبقہ کےلیے مفید ہوگی۔  مسلمان خاندان وقفہ وقفہ سے ایسی مخصوص نشستیں منعقد کرسکتے ہیں جن میں یہ کتاب اور اس کے علاوہ مفید کتابیں پڑھی جائیں۔  مسجد کے امام نماز کے بعد اپنی مسجد کے نمازیوں کے سامنے اسے پیش کرسکتےہیں۔  دعاۃ الى اللہ اپنے دورس ومحاضرات میں اس کے ذریعہ تذکیر وخطاب کر سکتے ہیں۔  اسکول کے ٹیچرطلباء کےلیے اس میں سےمناسب معلومات منتخب کرکے ان کے سامنے پیش کرسکتےہیں تاکہ انہیں دین کی سمجھ فراہم کرسکیں۔  آڈیو اورویڈیو چینلز اس کی معلومات کواپنے حلقوں میں پیش کرسکتے ہیں۔  مسلم مردو وخواتین انفرادی طور پراسے پڑھ سکتے ہیں اور استفادہ کرسکتے ہیں یا اپنےاقرباء ومحبین کےساتھ مل بیٹھ کراسے پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اس کتاب سے استفادہ کے بہت سارے طریقے ہیں۔

عطر المجالس :ایسے موضوعات پر مختصر دروس جن سے مسلمانوں کو ناواقف نہیں رہنا چاہیے

مقدمہ

ہر طرح کی تعریف اللہ تعالی کےلیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے، درود وسلام نازل ہو نبی امین محمد پر اوران کی آل واولاد اور تمام صحابۂ کرام پر....

اما بعد!

اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ﴾ (الزمر: 9) ترجمہ:"بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر ہوسکتے ہیں؟" نيز اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: «مَنْ يُرِدِ الله بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ»"اللہ تعالی جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے"۔(متفق علیہ) اہل علم نےکہا ہے: حدیث کا مفہوم یہ ہےکہ اللہ تعالی جس کے ساتھ خیر کا ارادہ نہیں کرتا ، اسے دین کی سمجھ نہیں عطا کرتا ہے۔

جس شرعی علم کا سیکھنا واجب ہے اس کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم: وہ علم ہے جس کا سیکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے، اور یہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے عقیدہ ، عبادت اوران معاملات کی تصحیح کرتا ہے جنہیں وہ انجام دیتا ہے،اس کی دلیل نبی کریمﷺ کا یہ قول ہے: «مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ» "جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقہ کے خلاف ہے تووہ مردود ہے"۔ (متفق علیہ) یعنی جس نے اللہ تعالی کی کوئی عبادت کی جواللہ تعالی اور اس کی شریعت کےمطابق نہ ہو تو اس کا عمل اللہ تعالی کےنزدیک مردود ہے، مقبول نہیں۔

دوسری قسم:واجب علم سے زائد کاسیکھنا فرض کفایہ ہے۔ اگر امت کے کچھ لوگ اسے سیکھ لیں اور دوسروں کی طرف سے کافی ہو جائیں تو بقیہ کا گناہ زائل ہوجائے گا۔

میں نے اس کتاب میں ان چیزوں کوجمع کرنے کی کوشش کی ہےجن سےعام مسلمانوں کو عقیدہ، احکام ، اخلاق اورمعاملات کے سلسلےمیں ناواقف نہیں رہنا چاہیے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ معلومات آسان اسلوب اور عام فہم زبان میں پیش کی جائیں تاکہ عام لوگ آسانی سے سمجھ سکیں، پھر میں نے انہیں چھوٹی مجلسوں اورمختصر دروس کے مطابق تقسیم کیا ہے تاکہ ان کا سیکھنا سکھانا آسان ہو۔

امید ہےکہ یہ کتاب مسلمانوں کے ہر طبقہ کےلیے مفید ہوگی۔

v مسلمان خاندان وقفہ وقفہ سے ایسی مخصوص نشستیں منعقد کرسکتے ہیں جن میں یہ کتاب اور اس کے علاوہ مفید کتابیں پڑھی جائیں۔

v مسجد کے امام نماز کے بعد اپنی مسجد کے نمازیوں کے سامنے اسے پیش کرسکتےہیں۔

v دعاۃ الى اللہ اپنے دورس ومحاضرات میں ان کے ذریعہ تذکیر وخطاب کر سکتے ہیں۔

v اسکول کے ٹیچرطلباء کےلیے اس میں سےمناسب معلومات منتخب کرکے ان کے سامنے پیش کرسکتےہیں تاکہ انہیں دین کی سمجھ فراہم کرسکیں۔

v آڈیو اورویڈیو چینلز اس کی معلومات کواپنے حلقوں میں پیش کرسکتے ہیں۔

v مسلم مردو وخواتین انفرادی طور پراسے پڑھ سکتے ہیں اور استفادہ کرسکتے ہیں یا اپنےاقرباء ومحبین کےساتھ مل بیٹھ کراسے پڑھ سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی اس کتاب سے استفادہ کے بہت سارے طریقے ہیں، میں اللہ تعالی سےدعا کرتا ہوں کہ وہ ا س کےپڑھنے ، سننے اور لکھنے والے کےلیے اسے مفید بنادے۔

میں نے اس کتاب کے اندر موجود معلومات کو اہلِ علم وفضل کی کتابوں اورمؤقر علماء کے فتاوی سے جمع کیا ہے۔ میں نے نئے سرے سے انہیں ترتیب دے کر حوالۂ قرطاس کیا ہے۔ یہ انسانی کوشش ہے جسے نقص وخطا لاحق ہوسکتی ہے۔ یہ کوشش پہلے اللہ کی رہنمائی وہدایت اورپھر ان لوگوں کے مشورے اور اصلاح کی محتاج ہے،جو اس سے مطلع ہوں۔

میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ اسےخالص اپنی خوشنودی کےلیے قبول فرمائے او رنافع بنائے۔ اس میں جو غلطی ونقص ہے اسے معاف فرمادے۔ میں اس پاک ذات سے یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ اس تالیف میں جس نے بھی میری مدد کی ہے، اسے بہترین بدلہ دے اور مجھے خیر کی ہدایت وتوفیق عطا فرمائے ۔آمین

ترکی بن ابراہیم الخنیزان

05/12/1440 ہجری

[email protected]


تمہید

اس کتاب کے اندر موجود دروس میں ہم ان شاء اللہ ان موضوعات سےمتعلق باتیں کریں گے جو ایمان، عبادات اور معاملات کے سلسلے میں ہر مسلمان کےلیے اہم ہیں۔ ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں ان سے فائدہ پہنچائے۔ آمین۔

آج کے درس میں ہماری گفتگوایمان کے متعلق ہوگی۔ ایمان ہی ہے جسے اللہ تعالی نے عمل کی قبولیت اور جنت میں داخل ہونے کی شرط قرار دی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا ١٩﴾ (اسراء:19). ترجمہ: "اور جس کا اراده آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لیے ہونی چاہیے، وه کرتا بھی ہو اور وه باایمان بھی ہو، یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی"۔

ايمان : زبان سےاقرار، دل سےاعتقاد اور اعضاء سے عمل کا نام ہے۔ ایمان اطاعت کے ذریعہ بڑھتا ہے او ر معصیت کی وجہ سے کم ہوتا ہے۔ ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ایمان میں اضافہ فرمائے اور ہمارے دلوں میں اس کی تجدید فرمادے۔

اللہ کےنبیﷺ نے حدیثِ جبریل میں ایمان کے ارکان کو بیان کیا ہے۔جب جبریل نے ان سےپوچھا: «ہمیں ایمان کےمتعلق بتائیے»، تو نبی کریم ﷺنے فرمایا: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ» "ایمان یہ ہےکہ آپ اللہ ، اس کےفرشتے، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں ، آخرت کے دن اور تقدیر کے اچھے اور برے ہونے پر یقین رکھیں"۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

جب ایمان کامفہوم واضح ہوگیا تو اب آپ کے سامنے ایمان کے بعض ثمرات اور اس کے مبارک اثرات بیان کیے جارہے ہیں، جو آپ کے ایمان کے بقدر آپ کو حاصل ہوں گے:

§ ان میں سےدونوں جہاں میں پاکیزہ زندگی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ ﮛﮜ﴾ (نحل:97) ترجمہ:"جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے"

§ انہیں میں سے امن وہدایت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿الَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يَلْبِسُواْ إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُوْلَـئِكَ لَهُمُ الأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُون ٨٢﴾ (انعام: 82). ترجمہ: "جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راهِ راست پر چل رہے ہیں"۔

§ انہیں میں سےدل کی ثابت قدمی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ﴾ (ابراہیم : 27). "ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔"

§ انہیں میں سےمؤمن کےلیے فرشتوں کا مغفرت طلب کرنا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا﴾ (غافر:7) "عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس کے (فرشتے) اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے ہیں"۔

§ انہیں میں سے مؤمن پر شیطان کا مسلط نہ ہونا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُون ٩٩﴾ (نحل: 99) "ایمان والوں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھنے والوں پر اس کا زور مطلقاً نہیں چلتا"۔

§ انہیں میں سے مؤمنین کی جانب سے اللہ تعالی کا دفاع کرنا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿ إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ (حج: 38)"سن رکھو! یقیناً سچے مؤمنوں کے دشمنوں کو خود اللہ تعالیٰ ہٹا دیتا ہے"۔

ہم اسی پر اکتفا ء کرتےہیں، اللہ کے حکم سے اگلی ملاقات میں ایمان کے ارکان میں سے پہلے رکن : اللہ تعالی پر ایمان، کےسلسلے میں باتیں کریں گے۔

اللہ تعالی پر ایمان

اس درس میں ہماری گفتگو ایمان کے ارکان میں سے پہلے رکن کے سلسلے میں ہے۔ایمان کا پہلا رکن اللہ تعالی پر ایمان ہے۔ یہ چار امور پر مشتمل ہے:

1) اللہ تعالی کے وجود پر ایمان: اللہ سبحانہ کے وجود پر عقل اور فطرت دونوں دلالت کرتی ہیں۔ بہت سارے شرعی دلائل تو اس کے علاوہ ہیں۔ ہر مخلوق اپنے خالق پر ایمان کے ساتھ پیدا کی گئی ہے، جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: «مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ»(متفق علیہ) ترجمہ:"ہر مولودفطرت پر پیدا کیا جاتا ہے، لیکن اس کے باپ اسےیہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتےہیں" جہاں تک اللہ تعالی کے وجود پر عقل کی دلالت کی بات ہےتو ارشاد ربانی ہے: ﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُون ٣٥﴾ (طور:35) ترجمہ: "کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ یعنی یہ مخلوقات اچانک بغیر خالق کے پیدا نہیں ہوگئی، اسی طرح وہ خود بھی نہیں پیدا ہوئی، تو اب کچھ اور نہیں بچا سوائے اس کےکہ وہ غالب جاننے والی پاک ذات کی تدبیر سے پیدا کیے گئے، جس نے پیدا کیا اور درست بنادیا اور جس نے اندازه لگایا اور راہ دکھائی۔

2) اللہ تعالی پر ایمان اللہ تعالی کی ربوبیت کو شامل ہے، یعنی ہم ایمان لائیں کہ اللہ عزوجل ہی ہر چیز کا تنہا پروردگار اور خالق ہے۔ ہر چیز کا مالک ہے، تمام امور جیسے رزق، زندہ کرنا، مارنا اوربارش نازل کرنا وغیرہ کی تدبیر کرنے والا ہے۔ارشاد ربانی ہے: ﴿أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللّهُ رَبُّ ﮦﮧ﴾ (اعراف:54) ترجمہ:"یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے"۔

3) اسی طرح ایمان باللہ، اللہ سبحانہ کی الوہیت پر ایمان کو شامل ہے،وہ اس طرح کہ ہم ایک اللہ تعالی کی عبادت کریں،غیر اللہ کے لیے ہم کچھ بھی اور کسی بھی قسم کی عبادت نہ کریں، اللہ عزوجل کے علاوہ کےلیے جو بھی عبادتیں کی جاتیں ہیں ہم ان سے برأت کا اظہار کریں، اور یہی لاالہ الااللہ کی گواہی کاتقاضا ہے۔

اور جہاں تک ایک اللہ کےعلاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کیے جانے کی بات ہےتووہ ظاہری وباطنی اقوال و افعال میں سے ہر اس عبادت کو شامل ہے جسے اللہ پسند فرماتا ہے اور جس سے راضی ہوتا ہے۔ وہ نماز، دعاء، ذبح، نذر، مدد طلب کرنے، پناہ مانگنے، خوف اور امید وغیرہ سب کوشامل ہے۔

توحید الوہیت کو توحید عبادت بھی کہا جاتاہے۔ وہ تمام آسمانی رسالتوں کی اصل وبنیاد ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ ﭾ﴾ (نحل:36) ترجمہ:"ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو"۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ تعالی نے کہا ہے: " طاغوت کا معنی یہ ہےکہ بندہ جس کی عبادت یا اتباع یا اطاعت کررہا ہو اس کے تئیں اس کی حد کو پار کر جائے"۔

امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ تعالی نے کہا ہے: طاغوت بہت سے ہیں، اور ان کے سردار پانچ ہیں:

v ابلیس ، اللہ کی اس پرلعنت ہو۔

v جس کی عبادت کی جائے اور وہ راضی ہو۔

v جو لوگوں کو اپنے نفس کی عبادت کی طرف دعوت دے۔

v جوعلم غیب میں سے کسی چیز کا دعوی کرے۔

v اور جو، اللہ نے جو کچھ نازل کیا ہے، اس کے علاوہ سے فیصلہ کرے([1])"۔

4) اور ان چیزوںمیں سے جنہیں ایمان باللہ شامل ہےاللہ تعالی کےاسماءحسنى پر ایمان لانا ہے، اور وہ یہ ہےکہ ہم ان چیزوں پر ایمان لائیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنےنفس کےلیےثابت کیا ہے اور جنہیں اس کے نبی محمدﷺ نے اسماء وصفات میں سےاس کے لیے ثابت کیا ہے، ان پربغیر تحریف، تعطیل ، تکییف اور تمثیل کےاسی طریقہ سے ایمان لایا جائے جیسا اس ذات عزوجل کے لائق ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ ﭧﭨ﴾ (شوری:11) ترجمہ: "اس جیسی کوئی چیز نہیں وه سننے اور دیکھنے والاہے"

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں کوایمان سے بھر دے، انہیں یقین پر ثابت قدم فرمائے، انہیں اخلاص سے مزین کردے، ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، اگلی ملاقات میں ہم ان شاء اللہ سب سے عظیم ترین گناہ کے بارے میں بات کریں گے جس کے ذریعہ اللہ تعالی کی نافرمانی کی جاتی ہے اور وہ شرک ہے۔

شرك -سب سے عظیم گناہ

اس درس میں ہماری گفتگو اس عظیم ترین گناہ سےمتعلق ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی کی نافرمانی کی جاتی ہے، یہ اللہ پر ایمان اوراس کی توحید کے منافی ہے،جان لو اور وہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ ﭴﭵ﴾ (لقمان:13) ترجمہ:"بےشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے"۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتےہیں میں نے نبی کریم ﷺسے پوچھا کہ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے عظیم ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: «أَنْ تَجْعَلَ لِله نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ» ترجمہ:"یہ کہ تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراؤ اور اس نےتم کو پیدا کیا ہے" (متفق علیہ) "ند" کامعنی شریک ہے۔

شرک کی دو قسمیں ہیں:شرک اکبر اور شرک اصغر

شرک اکبر: وہ گناہوں میں سب سے زیادہ عظیم ہے۔ اللہ تعالی اسے معاف نہیں کرے گا مگر اس سے جو توبہ کرلے۔وہ تمام اعمال کو برباد کرنے والا گناہ ہے۔ جو اس گناہ پر مرا تو -العیاذ باللہ- وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا ﯗﯘ﴾ (النساء: 48) ترجمہ:"یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناه کیا اور بہتان باندھا"۔

اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِين ٦٥ بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنْ الشَّاكِرِين ٦٦﴾ (الزمر:65-66) ترجمہ:"یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہوجائے گا۔ بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا"۔

شرک اکبر کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اللہ کی ربوبیت ، الوہیت اور اس کے اسماء وصفات میں اس کا شریک یامثیل بنائے۔

§ شرک کبھی تو ظاہر ی ہوتاہے جیسا کہ کوئی بتوں کی پوجا کرے اوراہل قبور بتوں کو پکاریں۔

§ کبھی شرک خفی ہوتا ہے جیسا کہ اللہ کےعلاوہ مختلف معبود وں پر بھروسہ کرنے والوں یا منافقین کا شرک وکفر۔

§ کبھی شرک اعتقاد میں ہوتا ہے، جیسے کوئی شخص یہ اعتقاد رکھے کہ وہاں کوئی اور ہے جو پیداکرتا ، روزی دیتا اور اللہ تعالی کے ساتھ غیب جانتا ہے، یا غیراللہ کی عبادت کے جواز کا اعتقاد رکھے، یا یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ کے ساتھ وہاں کوئی اورہے جس کی مطلق اطاعت کی جائے گی یا وہ کسی مخلوق سے معبود والی ایسی محبت کرے جیسا کہ وہ اللہ عزوجل سے محبت کرتا ہے۔

§ کبھی شرک اقوال میں ہوتا ہے جیسا کہ دعاء، پناہ طلب کرنا، مردوں اور غائبوں سے مدد طلب کرنا۔

§ کبھی شرک افعال میں ہوتا ہے جیسا کہ کو ئی شخص غیر اللہ کےلیے ذبح کرے، یا نماز پڑھے یا سجدہ کرے، اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِين ١٦٢ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِين ١٦٣﴾ (انعام:162-63) ترجمہ: "آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے،اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں"۔

اللہ تعالی ہمیں شرک جلی وخفی سے محفوظ رکھے، ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں ، اگلے درس میں اللہ کی مشیئت سے ہم شرک کی دوسری قسم : شرک اصغر کے سلسلے میں بات مکمل کریں گے۔

شرك اصغر

ہماری گفتگو شرک کی قسموں کے متعلق چل رہی ہے، آج ہماری بات شرک کی دوسری قسم سےمتعلق ہوگی اور وہ شرک اصغر ہے:

§ شرک اصغر سے مراد شریعت کے ذریعہ منع کی گئی ہر وہ چیز جو شرک اکبر کا وسیلہ وذریعہ ہے اورجسےکتاب وسنت میں شرک کہا گیا ہے۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا: «إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكَ الأَصْغَرَ» قالوا: وما الشرك الأصغر يا رسول الله؟ قال: «الرِّيَاءُ، يَقُولُ الله لَهُمْ يَوْمَ يُجَازِي الْعِبَادَ بِأَعْمَالِهِمُ: اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُم تُرَاءُونَ فِي الدُّنْيَا، فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً» ترجمہ:" میں سب سے زیادہ جس چیز سے تم لوگوں کے سلسلے میں ڈرتا ہوں وہ شرک اصغر ہے، صحابۂ کرام نے عرض کیا: شرک اصغر کیا ہے اے اللہ کے رسول؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ریاء، اللہ تعالی بندوں سے اس دن کہے گا جس دن انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دےگا، تم ان لوگوں کے پاس چلے جاؤ جنہیں تم دنیا میں دکھلاتے تھے، تو دیکھو کیا تم ان کے پاس جزاء پاتے ہو"۔ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ ریاء ظاہری طور پر عبادت کو اچھی طرح ادا کرنا یا لوگوں کو دکھانے کی نیت سے اور ان کی تعریف حاصل کرنے کےلیے اس کا اظہار کرنا یا اس کے بارے میں بتانا ہے۔

§ شرک اصغر میں جو چیزیں داخل ہیں ، ان میں سے یہ ہیں:

1. کسی ایسی چیز کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ نفع حاصل کرنے یا مصیبت دور کرنے کا سبب ہے، جسے اللہ نے اس کا سبب نہیں بنایا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا: «إنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ» ترجمہ: "جھاڑ پھونک، تعویذ گنڈہ اور تولہ (جادوئی عمل) شرک ہے"۔ اسے ابوداؤد نےروایت کیا ہے اور علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

رقی سےمراد : ایسا جھاڑ پھونک ہے جس کا معنی نہ سمجھا جائے،یا ایسا جھاڑ پھونک جو شرک باللہ پر مشتمل ہو۔

تمائم : ہر وہ چیز جو نظر بد سے دور رکھنے کےلیے انسان یا حیوان یا اثاثوں پر لٹکایا جائے۔

اور تولہ سےمراد سحر کی وہ قسم جس کے بارے میں اس کا ارتکاب کرنے والے گمان کرتے ہیں کہ وہ بیوی کو شوہر کا محبوب اور شوہر کو بیوی کا محبوب بناتا ہے۔

2. شرک فی الالفاظ: جیسے اللہ کے بغیر کی قسم کھانا، اور کہنے والے کا یہ کہنا: جو اللہ نے چاہا او رتو نےچاہا، اگر اللہ اور فلان نہیں ہوتا، اور ان دونوں جیسی چیزیں، اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا: «مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ» ترجمہ:"جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی تو اس نے کفر کیا یا شرک کیا"۔( اسےترمذی نےروایت کیا ہے، اور اسے البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔) اور اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «لا تَقُولُوا: "مَا شَاءَ الله وَشَاءَ فُلانٌ، وَلَكِنْ قُولُوا: مَا شَاءَ الله ثُمَّ شَاءَ فُلانٌ»، ترجمہ:"تم لوگ یہ نہ کہو: جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے، لیکن یہ کہو: جو اللہ چاہے پھر فلاں چاہے" (اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اسے البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)

اللہ تعالی ہمیں اخلاص اور حُسنِ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالی ہمیں مکمل طور پر ریا سے محفوظ رکھے۔ ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں۔ اگلے درس میں ہم اللہ کی مشیئت سے ایمان کے ارکان میں سے دوسرے رکن : "فرشتوں پر ایمان" کے سلسلے میں گفتگو کریں گے۔

فرشتوں پر ایمان

ایمان کےارکان کےسلسلے میں ہماری گفتگو چل رہی ہے، اس درس میں ہماری گفتگو ایمان کے دوسرے رکن سے متعلق ہے اوروہ ہے:

فرشتوں پر ایمان: او ر وہ یہ ہےکہ ہم ان کے وجود پر ایمان لائیں اور یہ کہ وہ معزز بندے ہیں، اللہ تعالی نے انہیں نور سے پیدا کیا ہے، انہیں اپنی اطاعت کےلیے استعمال کیا ہے، اللہ تعالی انہیں جو بھی حکم دیتے ہیں ان میں وہ اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ انہیں من وعن انجام دیتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ﴾ ( بقرۃ: 285) ترجمہ:"رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مؤمن بھی ایمان لائے، یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ﻻئے"۔

§ فرشتےاللہ تعالی کے فرمانبردار بندے ہیں۔ اللہ تعالی نےان کے متعلق فرمایا: ﴿لاَ يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ ﭱﭲ﴾ (انبیاء: 27) ترجمہ: "کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر کاربند ہیں"۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿لاَ يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا ﯰﯱ﴾ (تحریم :6) ترجمہ: "انہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے، بجالاتے ہیں"۔

§ اور ان کی تخلیقی صفت کے بارے میں وارد ہوا ہے۔ارشاد ربانی ہے: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلاَئِكَةِ رُسُلاً أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاء إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ ﯙﯚ﴾ (فاطر : 1) ترجمہ:"اس اللہ کے لیے تمام تعریفیں سزاوار ہیں جو (ابتداءً) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والااور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر (قاصد) بنانے والاہے، مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے"۔ اور اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ» ترجمہ:" فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں" ( اسے مسلم نے روایت کیا ہے) اور اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا: «أُذِنَ لِي أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَلَكٍ مِنْ ‏مَلَائِكَةِ الله مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ إِنَّ مَا ‏بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلَى عَاتِقِهِ مَسِيرَةُ سَبْعِ ‏مِائَةِ عَامٍ» "مجھے اجازت دی گئی ہےکہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کے بارے میں بولوں، ان کے کان کے پاس کی چربی سے لے کر ان کے کندھے تک کی مسافت سات سو سال کی ہے"۔ (اسے ابوداؤد نےروایت کیا ہے)

§ ان کے اسماء واعمال کے سلسلے میں جو وارد ہوا ہے وہ یہ ہے: جبریل علیہ السلام وحی کے امین ہیں۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الأَمِين ١٩٣ عَلَى قَلْبِكَ﴾ (شعراء: 193-194)، ترجمہ: "اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے۔ آپ کے دل پر اترا ہے"۔ میکائیل علیہ السلام بارش اور بارش برسانےپر مقرر ہیں۔ اسرافیل علیہ السلام صور پھونکنے پر مقرر ہیں، او ر ان فرشتوں میں سے وہ ہیں جو نگراں اور کراما کاتبین ہیں، جنت اور جہنم کے نگراں ہیں اور ان کے علاوہ ہیں جنہیں اللہ تعالی کےعلاوہ کوئی نہیں جانتا۔

§ فرشتوں پر ایمان ان کی محبت ومودت کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ﮝﮞ عَدُوًّا لِّلّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللّهَ عَدُوٌّ ﮨﮩ﴾ (بقرہ: 98) ترجمہ:"جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کا دشمن ہو، ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے"۔

§ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں سے بچے جو انہیں نقصان وتکلیف پہنچائے، انہیں میں سے وہ ہے جو نبی کریمﷺ سے مروی ہے: «مَنْ أَكَلَ الْبَصَلَ، وَالثُّومَ، وَالْكُرَّاثَ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَتَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ بَنُو آدَمَ» "پیاز، لہسن اور كراث(پتے والی پیاز) كھاکر کوئی ہماری مسجد سے ہرگز قریب نہ ہو،اس لیےکہ فرشتوں کو ان چیزوں سے تکلیف پہنچتی ہے جن سے بنی آدم کو تکلیف ہوتی ہے"۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: «لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ» فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے ہیں جس میں کتا ہوتا ہے یا تصویر ہوتی ہے"۔اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

اللہ تعالی ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو فرشتے پر ایمان رکھتےہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں اور ان چیزوں سے بچائے جو انہیں تکلیف پہنچاتی ہیں۔ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں اور اللہ کے حکم سے اگلی ملاقات میں ایمان کے تیسرے رکن : ایمان بالکتب کےسلسلے میں گفتگو کریں گے۔

کتابوں پر ايمان

اس درس میں ہماری گفتگو ایمان کےارکان میں سے تیسرے رکن سے متعلق ہے اوروہ ہے: ایمان بالکتب ۔ ایمان بالکتب یہ ہےکہ ہم ان تمام کتابوں پر ایمان رکھیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے رسولوں پر نازل فرمایا ہے، جو سارے جہاں کے لیے حجت اور ہدایت حاصل کرنے والوں کےلیے ہدایت ہے۔

§ ان میں سے جن کتابوں کا اللہ تعالی نے-بطور خاص- ذکر کیا ہے ہم ان پر ایمان رکھیں: جیسے تورات جسے اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام پر نازل کیا، انجیل جسے اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام پر نازل فرمایا، زبور جسے اللہ تعالی نے داؤد علیہ السلام پر نازل فرمایااور قرآن مجید جسے اللہ تعالی نے محمدﷺ پر نازل فرمایا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿قُولُواْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ﴾ (بقرۃ: 136) ترجمہ:"اے مسلمانو! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان ﻻئے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) دیے گئے"۔

§ قرآن مجید آسمانی کتابوں میں آخری کتاب ہے۔ یہ اس سے پہلےنازل ہونےوالی تمام کتابوں کےلیے ناسخ ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ﴾ (مائدہ:48) ترجمہ:"اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے"۔ اللہ تعالی کا فرمان (مہیمنا علیہ) اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ قرآن مجید تمام سابقہ کتابوں پر حاکم اور اس پر نگہبان ہے، اوروہ سابقہ تمام کتابوں کےلیے ناسخ ہے۔

§ تمام مسلمان پر واجب ہے کہ اللہ کی کتاب کی تعظیم کرے اور اس کے لیےخیرخواہی رکھے، وہ اس طرح کے اس کے حلال کو حلال سمجھے، اس کے حرام کو حرام جانے، اس کے قصص وامثال سے عبرت حاصل کرے، اس کے مطابق عمل کرے، اس کی تلاوت ویسے ہی کرے جیسا اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے اور اس کا دفاع کرے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی کتاب کے فہم ، اس پر غور کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، ہم اللہ کے حکم سے اگلے درس میں ارکانِ ایمان کے چوتھے رکن کے سلسلے میں بات کریں گے جو ایمان بالرسل ہے۔

إيمان بالرسل

اس درس میں ہماری گفتگو ارکان ایمان کے چوتھے رکن کے سلسلے میں ہے اور وہ ایمان بالرسل ہے۔

ایمان بالرسل: یہ ہےکہ ہم ا س با ت پر ایمان رکھیں کہ اللہ تعالی نے ہر امت میں انہیں میں سے رسول بھیجے، انہوں نے اپنی امت کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی جس کا کوئی شریک نہیں، طاغوت کی عبادت سے بچنے کی دعوت دی، تمام رسول متقی وامین ہیں، ہدایت کی طرف بلانے والے اور ہدایت یافتہ ہیں، انہوں نےان تما م چیزوں کو پہنچا دیا جو اللہ تعالی نےان کی طرف بھیجا، انہوں نے ان میں سےکچھ بھی نہیں چھپایا اور نہ ہی بدلا،انہوں نے اپنی طرف سے ایک بھی حرف کا نہ تواضافہ کیا اور نہ کمی کی۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا ﮍﮎ﴾ (نساء:165)ترجمہ:"ہم نے انہیں رسول بنایا ہے، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاه کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر ره نہ جائے۔ اللہ تعالی بڑا غالب اور بڑا باحکمت ہے"۔

نیز ارشاد ربانی ہے: ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ ﭾ﴾ (نحل :36) ترجمہ:"ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو"۔

§ ہم ان رسولوں پر-بہ طور خاص- ایمان رکھتےہیں جن کا اللہ تعالی نے نام ذکر کیا ہے، جیسے محمد ،ابراہیم، موسی، عیسی، نوح وغیرہ معزز رسل علیہم السلام۔

§ جس نے بھی ان میں سے کسی ایک رسول کی رسالت کا انکار کیا تو گویا کہ اس نےتمام کا انکار کیا، اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِين ١٠٥﴾ (شعراء:105) ترجمہ: "قوم نوح نے بھی نبیوں کو جھٹلایا" نیز فرمایا: ﴿كَذَّبَتْ عَادٌ ﮣﮤ﴾ (شعراء: 123) ترجمہ: "عادیوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا" یہ بات معلوم ہےکہ ہر امت نے اپنے رسول کو جھٹلایا، ایک رسول کو جھٹلانا تمام رسولوں کوجھٹلانے کی طرح ہے، اس اعتبار سے کہ دین ایک ہے اور اس اعتبار سے کہ رسولوں کو بھیجنے والا اللہ عزوجل ایک ہے۔

§ اللہ تعالی نے رسولوں کا خاتمہ ہمارے نبی محمد ﷺسےکیا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾ ( أحزاب: 40) ترجمہ: لوگو! تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ﷺنہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے"۔ اور اللہ تعالی نے ان کے دین کو پہلے کے تمام ادیان کےلیے ناسخ بنایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ ﭻﭼ﴾ (آل عمران:85) ترجمہ:"جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا" اور اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّار» " قسم ہےاس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اس امت کا کوئی بھی شخص جو ميری بابت سن لے خواہ وہ یہودی ہو یا نصاری اور پھر وہ مرے اوراس چیز پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا"۔اسےمسلم نےروایت کیا ہے۔

§ جس نے اس بات کا گمان کیا کہ اللہ تعالی محمد کی بعثت کے بعد ان کی شریعت کے علاوہ کسی اوردین کو قبول فرمائے گا، تو وہ کافر ہے، اس لیےکہ اس نے قرآن وسنت او رعلماء مسلمین کےاجماع کو جھٹلایا۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو رسولوں پر ایمان لائے، ان کے طریقے کی پیروی کی اور ان کی اقتدا کی، ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ، اگلے درس میں ہم اللہ کے حکم سے ارکانِ ایمان کے پانچویں رکن سے متعلق بات کریں گے اور وہ آخرت کے دن پر ایمان ہے۔

آخرت کے دن پر ایمان

اس درس میں ہماری گفتگو ارکانِ ایمان کے پانچویں رکن کے سلسلے میں ہے اور آخرت کے دن پر ایمان ہے۔

آخرت کے دن پر ایمان کا مطلب قیامت کے دن پر ایمان لاناہے۔وہ یہ ہےکہ ہم اس بات کی پختہ تصدیق کریں کہ اللہ تعالی قبروں سے لوگوں کو اٹھائے گا،پھر ان کا حساب کتاب کرےگا، ان کے اعمال پر انہیں بدلہ دےگا، یہاں تک اہل جنت اپنے ٹھکانوں میں پناہ لیں گے اور اہل جہنم اپنی جگہوں میں۔

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: ﴿وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ﴾ (بقرۃ:177) "بلکہ حقیقتاً اچھا وه شخص ہے جو اللہ تعالی پراور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والا ہو"۔

نیز اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِين ٤٧﴾ (انبیاء: 47) "قیامت کے دن ہم درمیان میں لارکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو۔ پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم اسے لاحاضر کریں گے، اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے"۔

§ آخرت کے دن پر ایمان شامل ہے اس چیز پر ایمان کو جو قبر میں سوال وجواب ، نعمت اورعذاب ہوگا، اوراس بات پر ایمان کو کہ لوگوں کو ان کی قبروں سے اٹھایا جائے گا،انہیں محشر میں جمع کیا جائے گا، ان کا حساب وکتاب ہوگا اور انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائےگا،اسی طرح آخرت کے دن پر ایمان شامل ہے میزان اور صراط پر ایمان رکھنے کو اور جو کتابیں دائیں ہاتھ میں یا پیچھے سے بائیں ہاتھ میں دی جائیں گی ان پر ایمان رکھنے کو۔

§ قیامت کے عظیم ہولناک مناظر ہوں گے۔ ارشا دربانی ہے: ﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيم ١ يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُم بِسُكَارَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ ﭱﭲ﴾ ( حج :1-2) ترجمہ:"لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہےجس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور تمام حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے، حالانکہ درحقیقت وه متوالے نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے"۔ نيز اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ رَأْيُ عَيْنٍ فَلْيَقْرَأْ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ، وَإِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ، وَإِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ»"جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ قیامت کے دن کو اس طرح دیکھے جیسے کہ وہ اسے اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہے تو اسے پڑھنا چاہیے: ﴿إِذَا الشَّمْسُ ﭓﭔ﴾، وَ﴿إِذَا السَّمَاء ﭓﭔ﴾ وَ ﴿إِذَا السَّمَاء ﭞﭟ﴾" (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے)۔

§ جو آخرت کے دن پر ایمان لایا اس کے اندر طاعتوں کو بجالانے کی رغبت میں اضافہ ہوگا ، وہ معاصی ومنکرات کے کرنے سے ڈرے گا، اس سے ان لوگوں کو تسلی ملے گی جنہیں اللہ تعالی نے معاش کی تنگی میں مبتلا کیا ، یا جن پر ظلم ہوا، کیوں کہ ا ن کےلیے ایک ایسا دن ہے جس میں ان کےمظالم لوٹائے جائیں گے، جب مؤمنین جنت میں داخل ہوں گے تو وہ اپنےمتاعب وآلام بھول جائیں گے، اور جب جہنمی جہنم میں داخل ہوں گے –العیاذ باللہ – تو وہ ان تمام لذتوں کو بھول جائیں گے جو انہیں ملی ہوئی تھیں۔

اللہ تعالی ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو قیامت کے دن پُراَمْن آئیں گے، ہمیں ہمارے نبی محمدﷺ کے زمرہ میں جمع فرمائے، ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، اللہ کےحکم سےہم اگلے درس میں قیامت کی نشانیوں کے سلسلے میں باتیں کریں گے۔

قیامت کی نشانیاں

اس درس میں ہماری گفتگو قیامت کی نشانیوں سے متعلق ہے، یہ وہ نشانیاں ہیں جو یومِ قیامت سے قبل ظاہر ہوں گی اور اس کے قریب ہونے پر دلالت کریں گی۔

§ اصطلاحی طور پراس کی تقسیم علاماتِ صغری وکبری سے کی گئی ہے، تو علاماتِ صغری عمومی طور پر قیامت سے طویل مدت قبل ظاہر ہوں گی، ان میں سے بعض واقع ہو چکی ہیں اور ختم ہو چکی ہیں، ان میں سے بعض بار بار واقع ہوں گی، ان میں سے بعض وہ ہیں جو ظاہر ہو چکی ہیں اور لگاتار اور پے در پے ظاہر ہورہی ہیں، ان میں سے بعض وہ ہیں جو اب تک ظاہر نہیں ہوئی ہیں، اور حتمی طور پر واقع ہوں گی جیسا کہ صادق ومصدوق ﷺنے ا ن کے بارے میں خبر دی ہے۔

§ قیامت کی علامات صغری بہت زیادہ ہیں، ان میں سے: علم کا اٹھا لیا جانا، فتنوں کا پھیل جانا، فواحش کا عام ہوجانا، قتل اورزلزلوں کی کثرت، زمانے کا قریب ہوجانا، دجالین کی طرف سے نبوت کا دعوی کیےجانے کی کثرت،ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور تنگ دست بکریوں کے چرواہوں کابلند وبالا عمارتوں کی تعمیر اور ان پر فخر کرنا اور قوموں کا مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنا ہے، پھر مسلمانوں کو آخیر میں یہودیوں پر ایک ایسے مقابلے میں فتح حاصل ہوگی جس میں پتھر اور درخت بولیں گے، وہ دونوں مسلمانوں کو یہودیوں کے چھپے ہونے کی جگہ کی رہنمائی کریں گے، اور ان کے بھی علاوہ دوسری علامتیں ہیں،جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: «إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ، وَيَكْثُرَ الْجَهْلُ، وَيَكْثُرَ الزِّنَا، وَيَكْثُرَ شُرْبُ الْخَمْرِ، وَيَقِلَّ الرِّجَالُ، وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ، حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةً الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ»، " قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت کی کثرت ہوجائےگی، زنا بڑھ جائے گا، شراب پینے کی کثرت ہوگی، مرد کم ہوجائیں گے اور عورتیں زیادہ ہو جائیں گی،یہاں تک پچاس عورتوں کا سنبھالنےوالا(خبر گیر) ایک مردہوگا" اور ایک روایت میں ہے: «يَقِلُّ الْعِلْمُ وَيَظْهَرُ الْجَهْلُ»" علم کم ہوجائے گا اور جہالت غالب ہوجائے گی"۔ (متفق علیہ)

§ جہاں تک قیامت کی بڑی علامتیں ہیں: تو یہ وہ عظیم امور ہیں جن کاظہور قیامت کے قریب ہونے او ر اس عظیم دن کے وقوع پر مختصر مدت باقی رہنے پر دلالت کرتے ہیں۔

§ مسلم نے اپنی صحیح میں حذیفہ بن اسید الغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ ہمارے بیچ ظاہر ہوئے، ہم لوگ باہم مذاکرہ کررہے، تو آپﷺ نے پوچھا کہ کس چیز کا باہم ذکر کررہے ہو؟ صحابۂ کرام نےعرض کیا: ہم لوگ قیامت کا ذکر کررہے ہیں، تو آپﷺ نے فرمایا:«إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ فَذَكَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّابَّةَ وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ﷺ وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَثَلاثَةَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ»،"یقینا قیامت ہرگز قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم لوگ اس سے قبل دس نشانیاں دیکھ لوگے،پھر آپ نے ذکر کیا: دھواں، دجال، زمین کا چوپایہ،سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، عیسى بن مریم علیہ السلام کا ظہور، یاجوج ماجوج، تین جگہوں پر زمین کا دھنسنا، مشرق میں دھنسنا، مغرب میں دھنسنا، جزیرۃ العرب میں دھنسنا، اور ان میں آخری ایک آگ ہوگی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ان کے محشر کی طرف ہانکے گی"۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں صحیح راہ کی ہدایت فرمائے، فتنے جو ظاہر ہو چکے ہیں اور جو ابھی ظاہر نہیں ہوئے ہیں ان سب کے شر سےہمیں محفوظ رکھے۔ ہم اللہ کے حکم سے اگلے درس میں ایمان کے چھٹے رکن کے سلسلے میں بات کریں گے اور وہ تقدیر کے اچھے اور برے ہونے پر ایمان لانا ہے۔

تقدیر کے اچھے اور برے ہونے پر ایمان لانا

آج کے درس میں ہماری گفتگو ایمان کے چھٹے رکن سے متعلق ہے، جان لو وہ : تقدیر کے اچھے اور برے ہونے پر ایمان لانا ہے۔

تقدیر کے اچھےاور برے ہونے پر ایمان لانا یہ ہےکہ ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ ہر خیر اورشر اللہ کے قضاء وقدرکےمطابق ہے،اللہ تعالی کو چیزوں کے رونما ہونے سے قبل سے ہی ان کے رونما ہونے کا علم ہے، اللہ تعالی نے انہیں اپنے یہاں لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے، کوئی چیز نہیں ہوسکتی مگر اللہ کی مشیئت سے، اور اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے اور جو چاہتا ہے اسے کرنے والا ہے۔

§ اللہ تعالی نے ہر چیز کےلیے اپنے سابق علم اور انہیں لکھے جانے سےمتعلق خبر دیتے ہوئےفرمایا: ﴿أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاء وَالأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ ﯕﯖ﴾ (حج:70) ترجمہ:"یا آپ نے نہیں جانا کہ آسمان وزمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے۔ یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے"۔ عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتےہیں کہ میں نےاللہ کےرسولﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: «كَتَبَ اللـه مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ»۔" اللہ تعالی نے مخلوقات کی تقدیریں آسمان وزمین پیدا کرنے سے 50 ہزار سال قبل لکھ دیں،آپ فرماتے ہیں: اور اللہ تعالی کا عرش پانی پر تھا"۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے) اللہ تعالی نے ہر چیز میں اپنی نافذ ہونے والی مشیئت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَا تَشَاؤُونَ إِلاَّ أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ ﯵﯶ﴾ (تکویر: 29)ترجمہ:"اور تم بغیر پروردگارِ عالم کے چاہے کچھ نہیں چاه سکتے" اور اللہ تعالی نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ اسی نےکائنات اوراس کےاعمال کو پیدا فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا ﯘﯙ﴾ (الصافات:96) ترجمہ:"حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے"۔

§ تقدیر پر ایمان لانے کی صحت کے لوازم میں سےیہ ہےکہ ہم اس بات پر ایمان لائیں :

· بندے کےلیے مشیئت اور اختیار ہے جس کے مطابق اس کے افعال ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿لِمَن شَاء مِنكُمْ أَن ﯬﯭ﴾ (تکویر:28)ترجمہ:"(بالخصوص) اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی راه پر چلنا چاہے"۔ نیز فرمایا: ﴿لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا﴾ (بقرۃ: 286) ترجمہ:"اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتا"۔

· بندہ کی مشیئت اور اس کی قدرت اللہ کی قدر ومشیئت سے خارج نہیں ہے۔ اس لیےکہ اسی نے اسے وہ چیز عطا کی ہے اور اسے اختیار کرنے پر قادر بنایا ہے۔ ارشاد ر ربانی ہے: ﴿وَمَا تَشَاؤُونَ إِلاَّ أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ ﯵﯶ﴾، ترجمہ:"اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاه سکتے"۔

· ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ تقدیر اللہ کی مخلوق کےسلسلے میں اس کاراز ہے،تو جو اس نے ہمارے لیے بیان فرمادیا ہے ہم نے اسے جانا اور اس پر ایمان لائے، اور جو ہم سےغائب ہے ہم نے اسے تسلیم کیااور اس پر ایمان لائے، ہم اللہ تعالی سے اس کے افعال واحکام کےسلسلےمیں اپنی قاصر عقلوں اور کمزور فہم کی بنیاد پرنہیں جھگڑتےہیں،بلکہ اللہ کے پختہ انصاف اور اس کی حکمتِ بالغہ پر ایمان رکھتےہیں اور یہ کہ اللہ تعالی سےنہیں پوچھا جائےگااس چیز کے متعلق جو وہ کرتا ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے خیر کو مقدر کردے، ہمارے لیے اس کے اسباب مہیا فرمادے، ہمارے لیے جو مقدر کیا گیا ہے اس پر راضی ومطمئن ہونے کی توفیق دے، ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں، اگلے درس میں ہم اللہ کی مشیئت سے تقدیر کے اچھے یا برےہونے پر ایمان لانے کے ثمرات پر گفتگو کریں گے۔

تقدیر پر ایمان لانے کے ثمرات

ہم نے پچھلے درس میں تقدیر پرایمان لانے کے سلسلے میں گفتگو کی تھی اوروہ شامل ہے: ہر چیز کےلیے اللہ کے سابق علم پر ایمان لانے کو اور یہ کہ اللہ تعالی نےانہیں لوحِ محفوظ میں لکھ لیا ہے، اور کوئی چیز واقع نہیں ہوتی ہےمگر اللہ سبحانہ کی مشیئت سے اوریہ کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے۔

اس درس میں ہماری گفتگوتقدیر پرایمان لا نے کے ثمرات کے سلسلے میں ہے، اور ان میں سے ہے:

§ وہ عمل ونشاط اور ایسی کاوشوں پر ابھارنے والی سب سے بڑی چیزوں میں سے ہے جو اس دنیا میں اللہ کو راضی کریں،کیونکہ مؤمن کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالی پر توکل کرکے اسباب اختیار کرے،اس بات پر ایمان رکھے کہ اسباب نتائج نہیں دیں گے مگر اللہ کےحکم سے، اس لیےکہ اللہ تعالی نے ہی اسباب کو پیدا کیا ہے، اور اسی نے نتائج کو پیدا کیاہے، اللہ کےنبیﷺ نے فرمایا: «احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِالله وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ: لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ: قَدَرُ الله وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ»، "ان چیزوں کے حریص رہو جو تمہیں نفع پہنچائے، اللہ تعالی سے مدد طلب کرو اور بےبس نہ ہوجاؤ، اگر تمہیں کوئی مصیبت لاحق ہو تو یہ نہ کہو: اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو ایسا اورایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: اللہ تعالی نے جو مقدر کیا، ہوا، اور جو اس نے چاہا وہ کیا، اس لیے کہ "اگر مگر" شیطان کی راہ کھولتاہے"۔(مسلم) اوراللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ» "عمل کرو، اس لیےکہ ہر شخص کےلیے وہ آسان کردیا گیا ہے جو اس کے لیے پیدا کیا گیا ہے"۔ (بخاری)

§ تقدیر پر ایمان لانے کے ثمرات میں سے ہے:جب اللہ تعالی مؤمن پر انعام فرمائے تووہ شکر ادا کرے، اترائے نہیں اور نہ ہی تکبر کرے،اور جب اللہ تعالی اسے بعض دنیا کی مصیبتوں کے ذریعہ آزمائے تو صبرکرے، گھبرائے نہیں اورنہ ہی بے چین ہو، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الأَرْضِ وَلاَ فِي أَنفُسِكُمْ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِير ٢٢ لِكَيْلاَ تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلاَ تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُور ٢٣﴾ (حدید: 22-23) ترجمہ:"نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وه ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے تاکہ تم اپنے سے فوت شده کسی چیز پر رنجیده نہ ہو جایا کرو اور نہ عطا کرده چیز پر اترا جاؤ، اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا"۔

§ تقدیر پر ایمان لانے کے ثمرات میں سے ہے: حسد کی برائی سے مکمل دور رہے، اس لیےکہ مؤمن اس چیز پر لوگوں سے حسد نہیں کرتا ہے جو اللہ تعالی نے اسے اپنے فضل میں سے دیا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالی نے ہی اسے روزی دی ہے اور اس کےلیے اسے مقدر کیا، حاسد جب دوسرے سے حسد کرتا ہے تو وہ ایسا کرکے اللہ تعالی کی تقدیر وتقسیم پر اعتراض کرتا ہے۔

§ اوران ثمرات میں سے یہ ہے :تقدیر پر ایمان دلوں میں مصیبتوں کے بڑداشت کرنے پرشجاعت کو ابھارتا ہے، ان میں عزائم کو تقویت دیتاہے، اس لیے کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ موت اور روزیاں مقدر ہیں، اور انسان کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی مگر وہی جو اس کےلیے مقدر کردی گئی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلاَّ مَا كَتَبَ اللّهُ لَنَا هُوَ مَوْلاَنَا وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُون ٥١﴾ (توبہ:51) ترجمہ:"آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں سوائے اللہ کے ہمارے حق میں لکھے ہوئے کے کوئی چیز پہنچ ہی نہیں سکتی وه ہمارا کار ساز اور مولیٰ ہے۔ مؤمنوں کو تو اللہ کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے"۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ایمان او ریقین میں اضافہ فرمائے، اپنے دین پر ثابت قدم رکھے، اور ہماراحسنِ خاتمہ فرمائے۔ہم اگلے دروس میں اللہ کی مشیئت سے ارکان اسلام کے متعلق گفتگو کریں گے۔

أركان اسلام

شہادتین- اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں

اس درس ميں ہماری گفتگو ارکان اسلام سے متعلق ہے، یہ پانچ ارکان ہیں جن پر دینِ اسلام قائم ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ»"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، اور محمد اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا،زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کا روزہ رکھنا"۔ (متفق علیہ)

پہلا رکن شہادتین ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور محمد اللہ کےرسول ہیں۔

یہ دونوں گواہیاں اسلام کی چابی ہے،ان دونوں کے بغیر اسلام میں داخل ہونا ممکن نہیں ہے۔ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «أُمِرْتُ أنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حتَّى يَشْهَدُوا أنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وأنَّ مُحَمَّدًا رَسولُ اللَّهِ، ويُقِيمُوا الصَّلَاةَ، ويُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذلكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وأَمْوَالَهُمْ إلَّا بحَقِّ الإسْلَامِ، وحِسَابُهُمْ علَى الله» " مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دے دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور محمد اللہ کےرسول ہیں، اور نماز قائم کریں، زکوۃ ادا کریں، جب وہ ایسا کرنے لگیں تو مجھ سے اپنے جان ومال کو محفوظ کرلیں گے سوائے اسلام کے حق کے،اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے"۔ (بخاری)

اور اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا: «مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا الله دَخَلَ الْجَنَّةَ» "جس کی آخری بات لاالہ الا اللہ ہوگی وہ جنت میں داخل ہوگا" (اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔)

§ (لاالہ الا اللہ ) کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنی زبان سے اس بات کا اعتراف کرے اور اپنے دل سے اعتقاد رکھےکہ : کوئی سچا معبود نہیں ہے سوائے اللہ عزوجل کے، جہاں تک اس کے علاوہ معبودوں کامعاملہ ہے تو وہ سب کے سب باطل ہیں، اور یہ کہ باطل طریقے سےان کی عبادت کی جاتی ہے۔

تو لاالہ اللہ " کا مطلب ہےکہ اللہ کے علاوہ ہر ایک کی الوہیت کا انکار کرکےاسے صرف ایک اللہ کےلیے ثابت کیا جائے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ﴾ (بقرۃ:256) ترجمہ:"اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان لايا اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا"۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: " طاغوت کا معنی یہ ہےکہ جس کی بندہ عبادت یا اتباع یا اطاعت کررہا ہواس کی حد کو پار کر جائے""۔ امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ تعالی نے کہا ہے:" طاغوت بہت سے ہیں، اور ان کے سردار پانچ ہیں: ابلیس ، اللہ کی اس پرلعنت ہو، اور وہ جس کی عبادت کی جائے اور وہ راضی ہو، اور جو لوگوں کو اپنے نفس کی عبادت کی طرف دعوت دے، اور جو علم غیب میں سے کسی چیز کا دعوی کرے، اور جو، اللہ نے جو کچھ نازل کیا ہے، اس کے علاوہ سے فیصلہ کرے([2])"۔

رسولوں کو بھیجنے کا عظیم مقصد اللہ تعالی کی توحید اور عبادت میں اس کو ایک جاننا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ ﭾ﴾ (نحل: 36) ترجمہ:"ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو"۔

اللہ تعالی ہمیں اللہ کے نبیﷺ کے طریقہ کی پیروی کرنے والے مخلص موحد بندوں میں سے بنائے، ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، ہم اگلے درس میں اللہ کی مشیئت يہ بتائیں گے کہ اس بات کی گواہی دینے کا کیا مطلب ہے کہ محمدﷺ اللہ کےرسول ہیں؟

شہادتین- اس بات کی گواہی دینا کہ محمدﷺ اللہ کےرسول ہیں

اسلام کے پہلے رکن کے سلسلے میں ہماری گفتگو چل رہی ہے،"لا الہ الا اللہ " کے معنی کی وضاحت مکمل ہوگئی تھی، اب آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ اس بات کی گواہی دینے کا کیا مطلب ہے کہ محمدﷺ اللہ کےرسول ہیں۔

§ اس کامعنی یہ ہے کہ اس بات کا اقرار کیا جائے کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی نے انہیں اپنے دین کی تبلیغ اور پوری مخلوق کی ہدایت کےلیے بھیجا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا﴾ (سبا:28) ترجمہ:"ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے واﻻ اور ڈرانے واﻻ بنا کر بھیجا ہے"۔ نیز فرمایا: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً ﮔﮕ﴾ (انبیاء :107) ترجمہ:"اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے"۔

§ یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ جو انہوں نے خبر دی ہے ان کی تصدیق کی جائے، جو انہوں نےحکم دیا ہے ان کی اطاعت کی جائے، جن چیزوں سےمنع کیا ہے ان سے بچا جائے، اللہ تعالی کی عبادت نہیں کی جائے مگر اس طریقہ سے جو اس نےمشروع کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَالَّذِي جَاء بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ ﭫﭬ﴾ (زمر: 33) ترجمہ:"اور جو سچے دین کو لايا اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پارسا ہیں"۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى ٣ إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ ﭤﭥ﴾ (نجم:3-4) ترجمہ:"اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں، وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے"۔ نیز فرمایا: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ﴾ (نساء:64) ترجمہ:"ہم نے ہر ہر رسول کو صرف اسی لیے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے"۔ نیز فرمایا: ﴿فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ ﯮﯯ﴾ (نساء:65) ترجمہ:"سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مؤمن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں"۔

§ شہادتین صرف قلبی اعتقاد سے صحیح نہیں ہوگا، بلکہ جو اسلام میں داخل ہونا چاہے اس کے لیے ان دونوں کو ادا کرنے اور ان کے مطابق عمل کرنے کی بھی شرط لگائی جائے گی۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتےہیں کہ ہمیں نبی ﷺ کے پیروکاروں میں سے بنائے۔ ہم اسی پراکتفا ء کرتے ہیں ، اگلے درس میں اللہ کی مشیئت سےہم اس گناہ کے بارے میں گفتگو کریں گے جس کا ارتکاب بعض مسلمان یہ سوچ کر کرتےہیں کہ وہ اچھا کام کررہےہیں۔

دین میں بدعت

اس درس میں ہماری گفتگو اس گناہ سے متعلق ہے جسے بعض مسلمان یہ سمجھ کر انجام دیتے ہیں کہ وہ اچھا کام کررہےہیں، حالانکہ وہ بدعت کررہے ہوتے ہیں۔تو آئیے جانتے ہیں بدعت کیا ہے؟

دین میں بدعت: اللہ تعالی کی اس طرح عبادت کرنا جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے،یا اللہ تعالی کی اس طرح عبادت کرنا جو نبی کریمﷺ اوران کے خلفاءِ راشدین رضی اللہ عنہم کا طریقہ نہیں تھا۔

یقینا اللہ تعالی نے خبر دی ہےکہ دین مکمل ہوگیا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا﴾ (مائدہ:3)ترجمہ:" آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"۔ ہمارےنبی نےاپنی امت کو بدعت اور دین میں نئی چیزوں کے ایجاد کرنے سے ڈراتے ہوئے کہا: «مَن أَحْدَثَ في أَمْرِنَا هذا ما ليسَ فِيهِ، فَهو رَدٌّ» ترجمہ:" جس نے ہمارے معاملے میں کسی ایسی چیز کی ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ (متفق علیہ) اس حدیث میں رد کا معنی مردود اور غیر مقبول ہے۔ نیز اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «أُوصيكُم بتقوى اللهِ والسمعِ والطاعةِ وإنْ عبدًا حَبشيًّا، فإنَّه من يَعِشْ منكم بعدي فسيرى اختلافًا كثيرًا، فعليكم بسُنَّتِي وسُنَّةِ الخُلَفاءِ المهدِيِّين الراشِدِين تمسَّكُوا بها، وعَضُّوا عليها بالنواجِذِ، وإياكم ومُحدَثاتِ الأمورِ فإنَّ كلَّ مُحدثةٍ بدعةٌ، وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ» "میں آپ سب کو اللہ کے تقوی اور حاکم کےسمع وطاعت کی وصیت کرتا ہوں گرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو،تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، تو تمہارےاوپر میری سنت اورہدایت یافتہ نیک خلفاءِ راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ہے، انہیں مضبوطی سے تھامے رہو، اور ان پر سختی سے عمل پیرا رہو،نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں ہرگز نہ پڑنا ، اس لیے کہ دین میں ہر نئی ایجاد بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اوراسے البانی نے صحیح کہا ہے۔)

بدعت کی کئی قسمیں ہیں۔ ان میں سے بعض اعتقادی بدعتیں ہیں، جیسے اللہ تعالی کے اسماء وصفات کا انکار کرنا یاانبیاء ورسل علیہم السلام کےعلاوہ انسانوں میں سے کسی کی عصمت کا اعتقادرکھنا، یا کسی ایسی چیز میں نفع وضرر اور برکت کا اعتقاد رکھنا جس میں اللہ تعالی نےبرکت نہیں رکھی ہے،اوراس کےعلاوہ ایسے اعتقادات رکھنا جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔

بدعت کی قسموں میں سے عملی بدعت بھی ہےاور اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ان میں سے:

1. ایسی عبادت ایجاد کرنا ہےجس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے،جیسے ایسی نماز ایجاد کرنا جو مشروع نہیں ہے ،ایسا روزہ ایجاد کرنا جو مشروع نہیں ہے، ایسی عیدیں ایجاد کرنا جو مشروع نہیں ہیں،جیسے عید میلاد النبی اور اس طرح کی دوسری ایجاد کردہ عیدیں۔

2. مشروع عبادت میں اضافہ کرنا: جیسےکوئی شخص نماز ِظہر میں پانچویں رکعت کا اضافہ کرے، ایسا وہ جان بوجھ کر اور اسے مشروع سمجھ کر کرے۔

3. مشروع عبادت کوغیر مشروع طریقہ سے ادا کرنا، جیسے اجتماعی ذکر (ایک آواز میں([3])) کرنا، وضوء میں دونوں ہاتھوں کو دھونے سے قبل دونوں پاؤں کو دھونا اور ایسا اس کی مشروعیت کا اعتقاد رکھتے ہوئے کرنا۔

4. مشروع عبادت کےلیے ایک ایسا وقت مخصوص کرنا جسے شریعت نے مخصوص نہیں کیا ہے، جیسے نصفِ شعبان کے دن ورات کو صیام وقیام کےلیے مخصو ص کرنا، اس لیے کہ صیام وقیام کی اصل یہ ہےکہ وہ مشروع ہے، لیکن اسے کسی وقت سے مخصوص کرنا دلیل کا محتاج ہے۔

بدعت کے ظہور کےاسباب میں سے : دین کے احکام سے جہالت ، خواہشات کی پیروی، شخصی آراء کے لیے تعصب اور انہیں کتاب وسنت پر مقدم کرنا، کفار سےمشابہت اختیارکرنا، نبی کریم ﷺکی طرف منسوب کی ہوئی جھوٹی اور ضعیف حدیثوں پر اعتماد کرنا ہے اور بدعت کے عظیم ترین اسباب میں سے غلو ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو نبی کی سنت کی پیروی کرتے ہیں او رہمیں بدعات ومحدثات سے بچائے، ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں ، اگلے درس میں ہم اللہ کی مشیئت سے اسلام کے دوسرے رکن اور اس کے ستون نماز سےمتعلق گفتگو کریں گے۔

نماز

آج کے درس میں ہماری گفتگو اسلام کے دوسرے رکن سے متعلق ہے اور وہ نماز ہے۔

§ نماز ہی مسلمان وکافر کے مابین فرق کرنے والی ہے۔ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ»"انسان اورشرک وکفرکے مابین نماز کا چھوڑنا ہے"۔(اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔) یہ اسلام کاستون ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ، وَعَمُودُهُ َالصَّلَاةُ»"دین کی اصل اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے"۔(اسےترمذی نے روایت کیا ہے) یہ پہلی چیز ہے جس کابندہ سے محاسبہ کیا جائےگا۔

اگر یہ درست رہا تو بندہ کا سارا عمل درست ہوگا، اگر وہ بگڑ گیا توبندہ کا سارا عمل بگڑ جائے گا۔ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ» " قیامت کے دن بندہ کے عمل میں سےسب سے پہلی چیز جس کا محاسبہ کیا جائے گا وہ اس کی نماز ہے، اگر وہ درست رہا تو وہ کامیاب ہوجائےگااور فلاح پالے گا اور اگر وہ ٹھیک نہ ہوا تو ناکام ہوجائے گا اور گھاٹے میں رہے گا"۔ (اسے ابوداؤد، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔)

§ یہ اس دنیا میں نبی کریم ﷺکی آنکھ کی ٹھنڈک ہے۔ اللہ کے نبیﷺ نےفرمایا: «وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلاةِ»" میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے"۔ (اسےنسائی نے روایت کیا ہے) قرۃ العین کا معنی ہے کہ جس سے آنکھ کو ٹھنڈک ملے اور دل کو قرار ملے۔)

§ نماز بندے اور رب العالمین کے مابین ایک تعلق ہے۔یہ اس شخص کو فحش ومنکر سے روکتی ہے جس نے اخلاص کے ساتھ اسےقائم کیا اورخلوص کے ساتھ اسے ادا کیا۔اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿إِنَّ الصَّلاَةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ﴾ (عنکبوت:45) ترجمہ: "یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے"۔

§ نماز تبھی درست ہوگی جب اسے نبیﷺ کے طریقے کے مطابق قائم کیا جائے، جیسا کہ اللہ کےرسولﷺنے فرمایا: «صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي»" تم ویسے ہی نماز پڑھو جیساکہ تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا" (متفق علیہ)مسلمان کےلیے ضروری ہے کہ وہ نماز کے احکام اور اس کی کیفیت کو سیکھنے کا حریص ہوجیساکہ نبیﷺ سے وارد ہے، تاکہ وہ اسے کامل ترین طریقےسے انجام دے سکے اور اس طرح وہ ثواب اور عظیم فائدہ حاصل کرسکے۔

ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، ہم اگلے دروس میں اللہ کی مشیئت سے نماز کے احکام کے بارے میں بات کریں گے۔

طہارت

اس درس میں ہماری گفتگونماز کی صحت کے شرائط میں سے ایک شرط کے بارے میں ہے اور جان لو وہ طہارت ہے۔

طہارت کا معنی لغت میں : گندگیوں سے صفائی ہے۔ شریعت میں حدث کے دور کرنےاور نجاست کو زائل کرنے کو طہارت کہتے ہیں۔

طہارت کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم : حدث سےطہارت: اگر انسان کو حدث اکبر لاحق ہوا ہے تو اس سےغسل کےذریعہ طہارت حاصل کی جاتی ہے۔ اگر حدث اصغرلاحق ہوا ہے تو اس سے وضوء کے ذریعہ طہارت حاصل کی جاتی ہے۔

طہارت پانی سے حاصل ہوتی ہے، اگر پانی کاحصول مشکل ہو اور اس کے استعمال کی قدرت نہ ہو تو تیمم کے ذریعہ طہارت حاصل کی جائے گی۔

دوسری قسم : نجاست سے طہارت:یہ بدن اور لباس سے نجاست کو زائل کرکے اور جس جگہ نماز پڑھی جائے اس جگہ سے نجاست کو زائل کرکے حاصل ہوگی، نجاست کا رنگ اوربو اگر زائل نہ ہو لیکن عین نجاست زائل ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

§ جن نجاستوں کابدن، کپڑوں اور جگہ سے زائل کرنا واجب ہے وه ہیں: آدمی کا پیشاب وپائخانہ،خون([4]) (تھوڑا خون معاف ہے)وہ جانور جس کا کھانا حرام ہے اس کاپیشاب وپاخانہ نجس ہے( لیکن جس حیوان کا کھانا مباح ہے تو اس کاپیشاب اور پاخانہ پاک ہے) اور نجاستوں میں سے: مردار([5])، خنزیر، کتا([6])، مذی اور ودی([7]) ہے۔ وہ تھوڑی سی نجاست معاف ہے جس سے بچنا مشکل ہو۔

§ جب مسلمان سبیلین سے خارج ہونے والی نجاست پیشاب وپائخانہ کو زائل کرنا چاہے تو وہ پانی سے استنجاء کرے یا پتھر سے یا ٹیشو پیپر سے یا ان دونوں جیسی چیزوں سے صفائی کرے([8])۔ جب بھی وہ غسل کرے تو اس کےلیے استنجاء کرنا واجب نہیں ہے بلکہ جب اس کی شرمگاہ سے پیشاب وغیرہ نکلے تبھی استنجاء کرے گا، اور اگر پائخانہ نکلے تو دبر کو دھوئےگا، جہاں تک ہوا خارج ہونے کا معاملہ ہے تو اس سے استنجاء نہیں کیا جائے گا۔

اللہ تعالی ہمارے دلوں اور ہمارےبدنوں کو حسی ومعنوی گندگیوں سے پاک کردے۔ ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔ اگلے درس میں ہم انشاء اللہ حدث اصغر سے طہارت کے سلسلے میں باتیں کریں گے۔

وضوء کا طریقہ

اس درس میں ہماری گفتگو حدث اصغر سے پاکی کے سلسلے میں ہوگی۔حدثِ اصغر سے پاکی وضوء کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے:

§ وضوء کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ پاک پانی سے کیا جائے، اگر پانی کا رنگ، مزہ یا بو نجاست کی وجہ سے بدل گیا، تو اس پانی سے وضوء وغسل درست نہیں ہوگا ۔

§ وضوء کی شرط یہ ہے کہ ان چیزوں کوزائل کیاجائے جو اعضاء وضوء تک پانی کے پہنچنے کو روکتی ہیں، جیسےمٹی، گوندھا ہوا آٹا،موم،دبیز رنگ یا ناخون کا طلا(التا) جسے عورتیں یا دوسرے لوگ استعمال کرتے ہیں ۔

§ صحیحین میں ہے کہ اللہ کےنبیﷺ نے فرمایا: «مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي هَذَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ فِيهِمَا نَفْسَهُ غَفَرَ الله لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» " جس نے میرے اس وضوء کی طرح وضوء كيا، پھر دو رکعت نماز ادا کرے، اوران دونوں میں اپنے نفس سےکچھ بھی بات نہ کرے، تو اللہ تعالی اس کے سارے سابقہ گناہ معاف فرمادیتا ہے"۔

اللہ کےنبیﷺ کے طریقے کے مطابق وضوء کا طریقہ یہ ہے:

§ دل سےوضوء کی نیت کرے، زبان سے نیت کا ادا کرنامشروع نہیں ہے۔

§ پھر "بسم اللہ" کہے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو تین مرتبہ دھوئے۔

§ پھر تین مرتبہ کلی کرے اور ناک میں پانی ڈال کر ناک صاف کرے، ایسا تین چلو پانی سے کرے،پھر اپنے چہرہ کو تین مرتبہ دھوئے، چہرہ کی حد : چوڑائی میں کان سے لے کر کان تک اور لمبائی میں پیشانی کے دونوں کناروں سے لے کر داڑھی کے نیچے تک ہے، اگر داڑھی ہلکی ہوجس کے نیچے سے چمڑے کا رنگ دکھائی دیتا ہو تو اس کے ظاہر وباطن دونوں کا دھونا واجب ہوتا ہے، اگر داڑھی گھنی ہو جو چمڑے کو ڈھانکے ہوئی ہو، تو اس کے ظاہر کا دھونا واجب ہوگا اور اس کا خلال کرنامستحب ہوگا۔

§ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھوئے گا،انگلیوں کے کنارے سے لے کردونوں کہنیوں تک(اور کہنی دھونے کے ضمن میں داخل ہے)، پہلے دائیں ہاتھ کو دھوئے گا پھر بائیں کو ۔

§ پھر اپنے سر اور دونوں کانوں کا نئے پانی سے مسح کرے، اس کا طریقہ یہ ہوگا:اپنے دونوں ہاتھ کو سر کے اگلے حصے سے گدی تک پھیرے، پھر ان دونوں کو اس جگہ تک لوٹائے جہاں سے شروع کیا تھا، یعنی ان دونوں کو اپنی گدی سے لے کر سر کے اگلے حصے تک لےجائے، پھر اپنی دونوں شہادت کی انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں میں داخل کرے، اور دونوں کانوں کے باہری حصے کو اپنے دونوں انگوٹھے سے ایک مرتبہ مسح کرے([9]

§ پھر اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھوئے، دائیں پاؤں سے شروع کرے پھر بائیں پاؤں کو۔ دونوں ٹخنے سے مراد وہ ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں جو پنڈلی اور قدم کے جوڑ کے پاس ہیں۔

§ وضوء کے فرائض میں سے : اعضاءِ وضوء کے مابین ترتیب ہے، اور یہ بھی فرض ہے کہ دو عضووں کے مابین طویل فاصلہ نہ ہونے پائے۔

§ مسنون یہ ہےکہ وضوء کے بعد یہ کہے: أشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمداً عبدُالله ورسُولُه" " میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور یہ کہ محمد اللہ کے بندہ ورسول ہیں"۔ ( اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)

اے اللہ ہمیں توبہ کرنے والوں میں سے بنا، ہمیں پاکی اختیار کرنے والوں میں سے بنا، ہم اسی پر اکتفاء کرتےہیں، ہم اگلے درس میں ان غلطیوں کے متعلق باتیں کریں گے جو بعض حضرات سے وضوء میں سرزد ہوجاتی ہیں۔

وضوء کی غلطیاں

ہم نے پچھلے درس میں وضوء اور اس کے طریقے کے بارے میں گفتگو کی تھی، آج کے درس میں ہم ان غلطیوں کے متعلق گفتگو کریں گے جو بعض حضرات سے وضوء کے دوران سرزد ہوتی ہیں۔ ان میں سے یہ ہیں:

§ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈال کر ناک صاف کرنے کو چھوڑدینا، تو یہ وضوء کو باطل کرنے والا ہے، اس لیے کہ یہ دونوں چیزیں چہر ہ کو دھونے میں داخل ہیں جن کا حکم دیا گیا ہے۔

§ دونوں ہتھیلیوں کو دونوں ہاتھوں کے ساتھ نہ دھونا اور ان کے وضوء کی ابتداء میں دھونے پر ہی اکتفاء کرنا، حالانکہ صحیح یہ ہےکہ ہاتھ دھوتے وقت دونوں ہتھیلیوں کو بھی دھویا جائے ، اس لیے کہ وضوء کے شروع میں ان کا دھونا مستحب ہے جب کہ دونوں ہاتھوں کے ساتھ ان کا دھونا واجب ہے۔

§ وضوء کی غلطیوں میں سےدونوں کہنیوں کو اور دونوں ٹخنوں اور ایڑیوں کو یا تو نہ دھونا یا دھونےمیں سستی کرنا ہے، اس سلسلےمیں وعید آئی ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کےنبیﷺ نےفرمایا: "ایڑیوں کو اچھی طرح نہ دھلنے والوں کےلیے جہنم کی وعید ہے ، وضوء کو اچھی طرح پورا کرو"۔ (مسلم)

نبی کریمﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنےقدم پر ناخن کی جگہ کو چھوڑ دیا ہے، تو آپﷺ نے فرمایا: "لوٹ جاؤ اوروضوء اچھی طرح کرو۔(مسلم) اور ایک حدیث میں ہے: " نبی کریم ﷺنے ایک شخص کو نماز پڑھتےہوئے دیکھا، اس کے قدم کی پشت میں درہم کے بقدر چمک تھی جسے پانی نہیں پہنچا تھا ، تو آپﷺ نے اسے فرمایا: "لوٹ جاؤ او راچھی طرح وضوء کرو" (مسلم) اور ایک حدیث میں ہے: "نبی کریمﷺ نے ایک شخص کونماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اس کے قدم کے پشت پر درہم کے بقدر چمک تھی، جسے پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی کریمﷺ نے اسےحکم دیا کہ وہ دوبارہ وضوء بنائے اور نماز ادا کرے"۔ (اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہےاور البانی نےصحیح کہا ہے۔)

وضوء کی غلطیوں میں سے : اعضاء وضوء کے دھونے میں زیادتی کرنا ہےیا ان میں سے بعض کو تین مرتبہ سے زیادہ دھونا ہے اور یہ سنت کےخلاف ہے۔

بہت زیادہ پھیلی ہوئی غلطیوں میں سے پانی کے استعمال میں اسراف کرنا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ ﯠﯡ﴾ (أعراف : 31) ترجمہ:"اور حد سے مت گزرو یقیناً وه حد سے گزرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے"۔

اللہ تعالی ہمیں نبیﷺ کے طریقے کی پیروی کرنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ، ہم اگلے درس میں انشاء اللہ دونوں موزوں پرمسح کرنے کے احکام کے سلسلے میں باتیں کریں گے۔

موزوں(خف وجورب وغیرہ ) پر مسح کرنا

ہماری گفتگو طہارت کے احکام کے سلسلے میں چل رہی ہے۔اس درس میں ہم موزوں(خف وجورب وغیرہ ) پر مسح کرنے کے سلسلے میں بتائیں گے([10]

موزوں پر مسح کرنا بندہ کےلیے اللہ تعالی کی جانب سے رخصت ہے،یہ اس عظیم روادار شریعت میں آسانی کے مظاہر میں سے ہے۔

خفین پر مسح کے جواز کی پانچ شرطیں ہیں:

1- موزہ پاک ہو، ناپاک موزہ پر مسح درست نہیں ہے۔

2- موزہ مباح ہو،حرام موزے پر مسح جائز نہیں ہے،جیسے چوری کے ذریعہ حاصل کیے ہوئے اور اسی طرح مردوں کےلیےریشم کے بنے ہوئےموزےپر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔

3- انہیں طہارت کی حالت میں پہنے۔

4- ان پر حدث اصغر کی حالت میں مسح کرے، جہاں تک حدث اکبر کی بات ہے، تو ان کو اتار کر غسل کرنا واجب ہے۔

5- شرعی طور پر محدود مدت تک ہی موزہ پر مسح کیا جاسکتا ہے اوروہ مقیم کےلیے ایک دن ایک رات یعنی 24 گھنٹےاور مسافر کےلیے تین دن تین رات ہے یعنی 72 گھنٹے ہے۔ مسح کی مدت کا حساب اس وقت سے شروع ہوگا جب وہ طہارت ختم ہونے کے بعد پہلی مرتبہ مسح کرے۔

موزوں پر مسح کا طریقہ یہ ہے:

یہ کہ موزہ کے اوپر مسح کرے، وہ اس طرح کہ اپنے ہاتھ کی انگلیوں کوبھگا کر اپنے پاؤں کی انگلیوں پر رکھے ، پھر انہیں اپنی پنڈلی کےشروع ہونے کی جگہ تک لے جائے اور مسح کا اعادہ نہ کرے۔

ہم اللہ تعالی سے دین میں سمجھ اور سید المرسلینﷺ کی سنت کی اتباع کی دعا کرتےہیں۔ ہم اسی پر اکتفاء کرتےہیں ، ہم اگلے درس میں نواقض ِوضوء کے سلسلے میں باتیں کریں گے ان شاء اللہ۔

نواقضِ وضو

آج کے درس میں ہماری گفتگو نواقضِ وضوء سےمتعلق ہوگی اور جس کاوضوء ٹوٹ جائے وہ کیا کرے گا؟

نواقض وضوء درج ذیل ہیں:

1. سبیلین سےنکلنے والی چیزیں (سبیلین پیشاب پاخانہ کے نکلنےکی جگہیں ہیں) ، ان سب سے وضوء ٹوٹ جائے گا۔

2. عقل کا زائل ہونا یا انسان پر جنون، بیہوشی یا نشہ([11]) یا نیند طاری ہونا، اس لیےکہ اس حالت میں حدث نکلنے کا شبہ برقرار رہتا ہے، جہاں تک معمولی نیند کا مسئلہ ہے جس میں انسان پوری طرح غرق نہ ہوجائے، تو اس سے وضوء نہیں ٹوٹے گا۔(یہ ایسی نیند ہے جس میں اگر انسان کوحدث لاحق ہوتا ہےتو اسے حدث کا احساس ہوجاتا ہے، جیسے ہوا خارج ہونا۔(

3. اونٹ کا گوشت کھانا

4. اہل علم کا اختلاف ہے کہ شرمگاہ کو اگر براہ راست مس کرلے اور اس کےاور شرمگا ہ کے بیچ میں کوئی چیز حائل نہ ہو([12]) ، تو کیا وضوء بنائے گا یا نہیں؟ لیکن بہتر یہی ہےکہ وضوء بنالے۔

§ جس کا وضوءنواقض وضوء میں سے کسی چیز کے ذریعہ ٹوٹ جائے تواس شخص کےلیے حرام ہے کہ وہ بغیر وضوء بنائے نماز پڑھے ، یا مصحف کو چھوئے۔

§ جو شخص وضوء کرلے اور اسے شک ہوکہ کیا اسے حدث لاحق ہوا ہے یا نہیں، تو اس کےلیے وضوء بنانا لازم نہیں ہے، اس لیے کہ یقینی چیز تو وضوء ہے جو اس نے کیا ہوا ہے ، تو وہ شک کی بنیاد پر زائل نہیں ہوگا۔

اللہ تعالی ہمیں علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم اسی پر اکتفاء کرتےہیں، اگلے درس میں ہم غسل کو واجب کرنے والی چیزوں کے متعلق گفتگو کریں گےانشاء اللہ۔

غسل کو واجب کرنے والی چیزیں

اس سے قبل ہم نے حدثِ اصغر سے طہارت کے احکام کے سلسلے میں گفتگو کی تھی، آج کے درس میں ہماری گفتگو غسل کو واجب کرنے والی چیزوں کےمتعلق ہوگی اوروہ چیزیں ہیں:

1. بیداری کی حالت میں لذت کے ساتھ اچھلتی ہوئی منی کا نکلنا اور اسی طرح احتلام ہونے پر منی کا نکلنا۔

2. ذکر کو شرمگاہ میں داخل کرنا، گرچہ منی نہ نکلے، جیسا کہ اللہ کے نبیﷺنے فرمایا: «إذَا قَعَدَ بَيْنَ شُعَبِهَا الْأَرْبَعِ، ثُمَّ مَسَّ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ» " جب مرد عورت کی چارشاخوں کے مابین بیٹھے، اور دونوں کی شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوجائےگا" (مسلم) اس حدیث میں شرم گاہ سےآلۂتناسل کے ملنے کا مطلب آلۂ تناسل کا شرمگا ہ میں داخل ہونا ہے۔

3. حیض یا نفاس کے خون کا ختم ہونا

§ حدث اکبر لاحق ہونے کی صورت میں ان چیزوں کے کرنے سے بھی رک جائے جوحدث اصغر لاحق ہونے کی صورت میں منع ہیں جیسے(نماز، مصحف کا چھونا) حدث اکبر کی حالت میں قرآن کی تلاوت جائز نہیں ہے، البتہ حیض اور نفاس والی عورتوں کےلیے مصحف کو چھوئے بغیر قرآن کی تلاوت جائز ہے۔ جسے حدث اکبر لاحق ہوجائے اس کےلیے مسجد میں بیٹھنا جائز نہیں ہے([13]

اسی طرح حیض ونفاس والی عورتوں سے وطی کرنا جائز نہیں ہے، نہ ہی انہیں طلاق دینا جائز ہے، ان دونوں کے لیے نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا حرام ہے۔ ان دونوں پر روزہ کی قضا کرنی ہے لیکن نماز کی نہیں ۔

اےاللہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنا جو بات كو کان لگا کر سنتے ہیں اور جو اچھی بات ہوتی ہے اس کی اتباع کرتے ہیں۔ ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ہم اگلے درس میں غسل کے صحیح طریقے سے متعلق گفتگو کریں گے انشاء اللہ۔

غسلِ جنابت کا طریقہ

آج کے درس میں ہماری گفتگو غسلِ جنابت کے سلسلے میں ہے جیسا کہ وہ نبی کریم ﷺسےوارد ہو ا ہے اور وہ اس طرح ہے:

1. دل سے غسل کی نیت کرے۔

2. پھر بسم اللہ پڑھے اور اپنے ہاتھ کو تین مرتبہ دھوئے، پھر اپنی شرمگاہ کو دھوئے۔

3. پھر مکمل وضوء کرے۔

4. پھر اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہائے اوربال کی جڑوں کو بھگائے([14]

5. پھر اپنے جسم پر پانی بہائے،پہلے دائیں حصہ پرپھر بائیں حصہ پر، پھر پورے جسم پر پانی ڈالے،پھر اپنے جسم کے بالوں کی جڑوں کو بھگائے، اس کے لیے اپنے جسم پر ہاتھ پھیرنا مستحب ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنالے کہ پانی پورے جسم پر پہنچ گیا ہے۔

یہ نبی کریم ﷺسے وارد کامل غسل کا طریقہ ہے، جیسا کہ صحیحین میں مروی حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا اغْتَسَلَ مِنْ الْجَنَابَةِ غَسَلَ يَدَيْهِ وَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ اغْتَسَلَ ثُمَّ يُخَلِّلُ بِيَدِهِ شَعَرَهُ حَتَّى إِذَا ظَنَّ أَنَّهُ قَدْ أَرْوَى بَشَرَتَهُ أَفَاضَ عَلَيْهِ الْمَاءَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ غَسَلَ سَائِرَ جَسَدِهِ وَقَالَتْ كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ الله ﷺ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ نَغْرِفُ مِنْهُ جَمِيعًا». "اللہ کے رسول ﷺجب جنابت سے غسل کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوتے، پھر نماز جیسا وضوء کرتے، پھر غسل کرتے، پھر اپنےہاتھ سے اپنے بال کا خلال کرتے، یہاں تک کہ جب آپ کو غالب گمان ہوجاتا کہ آپ نے اپنی جلد کو ترکردیا ہے تو تین مرتبہ اپنے جسم پر پانی بہاتے اور سارا جسم دھوتے، وہ بیان کرتی ہیں : میں اور رسول اکرم ﷺایک ہی برتن سے غسل کرتے تھےاور اسی سے ہم دونوں چلو سے پانی لیتے تھے"۔

§ جہاں تک اس صفت ِغسل کا طریقہ ہے جو کافی ہوجائے تو اس کے لیے دو شرط ہے:

1. دل سے غسل کی نیت کرے۔

2. پھر کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرنے کےساتھ ساتھ پورے بدن پر پانی بہائے اور جسم میں بال کے اگنے کی جگہوں کو تر کرے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں اور جسموں کو پاک فرمادے اور انہیں آلائشوں سے صاف کردے۔ ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں اور اگلے درس میں تیمم کے احکام کے بارے میں گفتگو کریں گے إن شاء اللہ ۔

تيَمم

آج کے درس میں ہماری گفتگو تیمم سے متعلق ہے:

§ یہ اللہ تعالی کی جانب سے بندے کےلیے رخصت ہے۔ وہ اس عظیم شریعت میں آسانی کے مظاہر میں سے ہے۔

§ تیمم، پانی سے طہارت حاصل کرنے(وضوء اور غسل) کا بدل ہے، ایسا اس صورت میں ہے جب پانی معدوم ہو([15]) یا معدوم کے حکم میں ہو، یا اس شخص کےلیے ہےجو مرض کی وجہ سے اس کا استعمال نہیں کرسکتا ہو،یا پانی تھوڑی مقدار میں ہو جو اس کےپینے کےلیے درکار ہو، یا اس کے استعمال سے ضرر میں مبتلا ہونے کا خوف ہو،یا یہ کہ پانی نہایت ٹھنڈا ہو کہ اسے استعمال کرنے کی صورت میں صحت کو نقصان پہنچنے کا خوف ہو، اور اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جس کے ذریعہ وہ اسے گرم کر سکے۔

§ تیمم زمین کے اوپر موجود اس کے اجزاء سے جائز ہوگا جیسےمٹی، پتھر، ریت اور پکی ہوئی مٹی سے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: ﴿فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا﴾ (نساء: 43) ترجمہ:"تو پاک مٹی کا قصد کرو"۔ صعید ہر وہ چیز ہے جو روئےزمین پر ہے اور طیب پاک کو کہتے ہیں، مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ برتن میں مٹی یا ریت رکھ لے اور اس سے تیمم کرے۔

تیمم کا طریقہ

v تیمم کی نیت کرتےہوئے بسم اللہ کہے۔

v پھر اپنی دونوں ہتھیلیوں سے زمین کے اوپر ایک مرتبہ مارے ۔

v پھر اپنی دونوں ہتھیلیوں سے اپنے چہرے کا مسح کرے۔

v پھر اپنی دونوں ہتھیلیوں کا مسح کرے۔

v پھر تیمم کے بعد وہی اذکار پڑھے جو وضوء کے بعد پڑھا جاتا ہے۔

v تیمم کو پے در پے مکمل کرنا واجب ہے، وہ اس طرح کہ چہرہ کے مسح اور دونوں ہتھیلیوں کے مسح کے مابین طویل وقفہ نہ ہو۔

تیمم کے احکام

· تیمم بھی ان چیزوں کے ذریعہ باطل ہوجائے گا جن چیزوں کے ذریعہ پانی سے حاصل کی ہوئی طہارت باطل ہوجاتی ہے۔ یہ نواقض وضوء اور غسل کو واجب کرنے والی چیزیں ہیں۔

· اسی طرح جنابت یا حدث سے تیمم کرنےوالا اس وقت دوبارہ جنبی یا حدث کے حکم میں ہوجائے گاجب اس سے وہ عذر زائل ہوجائے جس کی وجہ سے اس کےلیے تیمم کو مباح قرارد یا گیا تھا،ایسی صورت میں جو نماز اس نےادا کرلی ہےاسے دوبارہ نہیں لوٹائےگا۔

· جو اتنا پانی پائے جو اس کے بعض اعضاء کےلیے کافی ہوجائے، تو وہ اس سے پاکی حاصل کرلے،پھر بقیہ حصہ پر تیمم کرلے۔

اللہ تعالی ہمیں ان چیزوں سےفائدہ پہنچائے جو ہم نے سنی ہیں، اور ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرمائے، ہم اسی پر اکتفاء کرتےہیں، اگلے درس میں ہم ان احکام کے سلسلے میں گفتگو کریں گے جن کا تعلق عورتوں کو لاحق ہونے والے طبعی خونوں سے ہے۔

خاتون کی طہارت

آج کے درس میں ہماری گفتگو ان احکام کے سلسلے میں ہے جو خواتین کی طہارت([16]) کےساتھ مخصوص ہیں۔ اس سلسلے میں بات شروع کرنے سے قبل ہم یہ بتا دینا چاہتےہیں کہ مسلمان عورت پر ان احکام کا سیکھنا واجب ہے جو ان کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اہل واقارب کی تعلیم کا اہتمام کریں اور انہیں وہ چیزیں بتائیں جو ان کے دین ودنیا کے معاملات میں فائدہ پہنچائیں۔

جو احکام عورتوں کےلیے مخصوص ہیں وہ حیض ونفاس کے احکام ہیں۔

§ حیض: یہ طبعی اور جبلی خون ہے جو بالغ خاتون کے رحم سےمخصوص وقت میں آتا ہے۔

§ حیض کے خون کے نکلنے کی شروعات اور اس کے ختم ہونے کی کوئی حد نہیں ہے، اس کی اقل مدت او راکثر مدت کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔بلکہ جب وہ اپنے مخصوص صفات کے ساتھ آنے لگے تو وہ حیض ہے([17]

§ جہاں تک نفاس کا معاملہ ہے تو وہ ایسا خون ہے جو عورت کو ولادت کے وقت یا اس سے دو دن یا تین دن پہلےسے کھل کر آتا ہے، نفاس کی کوئی اقل مدت نہیں ہے، اس کی اکثر مدت 40 دن ہے۔

§ حیض ونفاس والی عورتوں کےلیے حیض ونفاس کی حالت میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا حرام ہے۔ ایسی خواتین روزہ کی قضا کریں گی، نماز کی نہیں۔ان دونوں کے ساتھ ہم بستری کرنا اور انہیں طلاق دینا حرام ہے۔ اسی طرح ان دونوں کےلیے مسجد میں بیٹھنا بھی حرام ہے۔ ان دونوں پر وہ چیزیں بھی حرام ہیں جو حدثِ اصغر لاحق ہونے کی صورت میں حرام ہوجاتی ہیں۔ ان دونوں کےلیے لازم ہے کہ پاک ہوتے ہی غسل کرلیں۔

§ جب خاتون کو نماز کے وقت نماز ادا کرنے سے قبل حیض یانفاس آجائے تو ایسی صورت میں بھی اس کےلیے اس کی قضا واجب نہیں ہے۔مگر جب اس کے ادا کرنے میں تاخیر کرے یہاں تک اسے ادا کرنے کےلیے وقت تنگ پڑ جائے، تو اس پر اس کی قضا ہے۔

§ جب حیض یا نفاس والی عورت نماز کا وقت ختم ہونے سے قبل ہی پاک ہوجائے تو اس پر اس نماز کو ادا کرنا واجب ہے۔

§ جہاں تک استحاضہ کے خون کا معاملہ ہےجو بعض عورتوں کو آتا ہے، اور وہ ایسا خون ہے جو مخصوص ومعتاد وقت کےعلاوہ میں رحم کے ابتدائی حصہ سےنکلتا ہے([18] تو اس کے احکام درج ذیل ہیں:

§ استحاضہ کے احکام طہر کےاحکام ہیں ، مگر اس پر واجب ہے کہ :

1. ہر نماز کےلیے وضو ء کرے جیسا کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «ثُمَّ تَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ وَصَلِّي»، " پھر تم ہر نماز کےلیے وضوء کرو اور نماز ادا کرو"۔ ( بخاری) یعنی ہر نماز کےلیے نماز کا وقت ہونے کے بعد ہی وضوء کرو اور نماز پڑھو([19])۔جہاں تک غیر مؤقت نمازوں کا معاملہ ہے تو ان کےلیے اس وقت وضوء بنائے جب انہیں ادا کرنےکا ارادہ کرے۔

2. جب خاتون وضوء کرنے کا ارادہ کرے تو خون کے اثر کو دھولے،اپنی شرمگاہ پر کاٹن کا ٹکڑہ رکھ لے تاکہ وہ خون کو جذب کرتا رہے۔خواتین آج کل اس مقصد کےلیے پیڈ کا استعمال کرتی ہیں جوطبی نقطۂ نظر سے بھی بہتر ہے۔

اللہ تعالی ہمیں ظاہری وباطنی طہارت کی توفیق عطا فرمائے، ہم اسی پر اکتفاء کرتےہیں ، اگلے درس میں ہم نماز کے شرائط کے بارے میں بات کریں گے۔إن شاء اللہ۔

نماز کے شروط (1)

آج ہماری گفتگو نماز کے احکام کے سلسلے میں ہے۔نماز کی کچھ شرطیں ہیں جن کا نماز سے قبل اور نماز کے دوران پایا جانا واجب ہے۔اسی طرح اس کے کچھ ارکان ہیں جن کو انجام دینا واجب ہے۔ اگر انہیں انجام نہیں دیا گیا تو نماز باطل ہوجائے گی۔اسی طرح اس کے کچھ واجبات ہیں جن کا انجام دینا واجب ہے۔

§ نماز کی صحت کے شروط میں سے إسلام، عقل اور سن تمیزہے، تو کافر کی نماز درست نہیں ہوگی، جس کی عقل غائب ہے یا جس کی عقل پر نشہ آور چیز وغیرہ نے پردہ ڈال دیا ہے، اس کی نمازدرست نہیں ہوگی۔جو سن تمیز سے کم عمر کا ہے اور وہ سات سال ہے، اس پر بھی نماز نہیں ہے۔

§ اس کے شروط میں سے نمازوں کے وقت کا داخل ہونا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا ﮩﮪ﴾ (نساء:103) "یقیناً نماز مؤمنوں پر مقرره وقتوں پر فرض ہے"۔

· نماز کے اوقات درج ذیل ہیں:

ظہر کا وقت:زوال شمس سے شروع ہوتا ہے، یعنی جب سورج بیچ آسمان میں آنے کے بعدمغرب کی جانب مائل ہوجائے، اور اسے اس طرح جانا جائے گاکہ جب سورج کا مغرب کی جانب والا سایہ ختم ہونے کے بعد مشرق کی جانب ظاہر ہونے لگے، جب ہر چیز کا سایہ اس کے طول کے مثل ہوجائے([20]) تب ظہر کا وقت ختم ہوتاہے ۔( اس سایہ کے علاوہ جو زوال کے وقت ہوتا ہے۔)

عصر كا وقت: ظہر کے وقت کے ختم ہونے سے شروع ہوتا ہے اور سورج کے زرد ہونے تک باقی رہتا ہے۔ضرورت کے وقت غروبِ شمس تک جاری رہتا ہے([21]

مغرب کاوقت : غروب شمس یعنی سورج کی ٹکیا کے مکمل غائب ہونے کے بعد سےشروع ہوکر شفقِ احمر کے غائب ہونے تک جاری رہتا ہے۔

عشاء کا وقت: مغرب کے وقت کے ختم ہونے (شفق احمر کےغائب ہونے کے وقت)سےشروع ہوکر وسط شب تک باقی رہتا ہے۔ ضرورت کی حالت میں اس کا وقت طلوعِ فجر تک باقی رہتا ہے۔

فجر کا وقت:فجر ِثانی کے طلوع ہونےسےشروع ہوتا ہے اور طلوعٍِ شمس پر ختم ہوتاہے۔ فجر ثانی کو فجر صادق بھی کہتےہیں اور یہ وہ سفیدی ہے جو افق میں مشرق کی جانب سےظاہر ہوتی ہے اور شمال سے جنوب کی طرف پھیل جاتی ہے([22]

نماز کے اوقات تفصیلی طور پرعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آئے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «وَقْتُ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ، مَا لَمْ يَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ، مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، مَا لَمْ يَغِبْ الشَّفَقُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ الأَوْسَطِ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ، مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ، مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ»، "ظہر کا وقت اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب سورج زائل ہوجائے اور اس وقت تک رہتا ہے جب انسان کا سایہ اس کے طول کے برابر ہوجائے اور جب تک عصر کا وقت نہ ہوجائے، عصر کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک سور ج میں زردی نہ آجائے، مغرب کی نماز کا وقت اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک شفق غائب نہ ہوجائے، عشاء کی نماز کاوقت نصف شب تک باقی رہتا ہے، صبح کی نماز کا وقت طلوع فجر سےشروع ہوکر اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک سورج طلوع نہ ہوجائے" (مسلم)

§ عشاء کی نماز کے علاوہ بقیہ نمازوں کو اول وقت میں مقدم کرنا مستحب ہے۔ عشاء کواس صورت میں مؤخر کرنا مستحب ہے جب وہ لوگوں پر شاق نہ ہو۔ظہر کو سخت گرمی میں گرمی کے کم ہونے تک کےلیے مؤخر کرنا مستحب ہے۔

§ جس کی نماز فوت ہوجائے، تو اس کےلیے اس کی قضاءفوری ترتیب کےساتھ واجب ہے۔ اگر وہ ترتیب بھول جائےیا ترتیب کے وجوب کا اسے علم نہ ہو تو اس پرکوئی گناہ نہیں ہے، یا اگر وہ موجودہ نماز کے وقت کے نکل جانے سے خائف ہو ، تو اس نماز او رفوت شدہ نماز کے مابین ترتیب ساقط ہوجائے گی۔

اللہ تعالی ہمیں اور ہماری آل واولاد کو وقت پر مکمل طریقہ سے نماز کی پابندی کرنے والا بنائے، ہم اسی پر اکتفاء کرتےہیں، اگلے درس میں ہم نماز کے بقیہ شروط کے متعلق گفتگو کریں گے ان شاء اللہ۔

نماز کے شروط (2)

گذشتہ درس میں ہم نے نماز کے شروط کے سلسلے میں گفتگو کی تھی، ہم نے ان میں سے اسلام، عقل ، تمیزِ عمر، اور وقت کے داخل ہونےکے کا ذکر کیا تھا۔اب ذیل میں نماز کی صحت کے شروط کو بیان کیا جارہا ہے۔

§ جسم کا ستر ایسے کپڑے سے کیا جائے جس سے چمڑا ظاہر نہ ہو، مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنہ تک ہے، جہاں تک عورت کے ستر کی بات ہے تو نماز میں اس کا پورا جسم ستر ہے سوائےاس کے چہرہ اوردونوں ہتھیلیوں کے، احتیاط کا تقاضا یہی ہےکہ دونوں ہتھیلیوں کو بھی ڈھانک لے، اگر وہ غیر محرم مردوں کے پاس ہو تو وہ اپنے پورے جسم کا ستر کرے گی۔

§ جس چیز کی طرف تنبیہ ضروری ہے وہ یہ ہےکہ بعض حضرات ایسے کپڑے یا چھوٹے پاجامے پہنتےہیں جن سے ان کی ران کا یاپشت کے نیچے کا کچھ حصہ ظاہر ہوجاتاہے جو ستر کے ضمن میں داخل ہے، تو ایسی صورت میں نماز صحیح نہیں ہوگی۔

اسی طرح جو ایسا لباس پہنے جس سے کپڑے کے نیچے کی چیزیں دکھائی پڑیں،جیسے کپڑے کے نیچے چمڑے کا رنگ دکھائی پڑے ، تو ایسے کپڑے میں نماز صحیح نہیں ہوگی۔

§ نماز کی شرائط میں سے حدث اصغر واکبر سے طہارت ہے، اوراس سلسلےمیں تفصیل سے گفتگو گذر چکی ہے۔

§ اس کی شروط میں سے: بدن، لباس اور اس جگہ سے نجاست کا زائل کرنا ہے جہاں نماز اداکی جائے گی۔

جس نے اپنے اوپر نماز کے بعد نجاست دیکھی، اور اسے اس بات کا پتہ نہیں ہےکہ وہ کب لگی یا اسے بھولا ہوا تھا، تو ایسے شخص کی نماز صحیح ہوگی۔ اگر نماز کے دوران ا س کا علم ہو اور اس کا زائل کرنا ممکن ہو تو اسے زائل کرلے اور اپنی نماز مکمل کرلے۔

نماز کی شروط میں سے قبلہ رخ ہونا ہے اور کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ہے۔

اس کی شروط میں سے نیت ہے۔ اس کا محل قلب ہے۔ زبان سے نیت کا ادا کرنا مشروع نہیں ہے۔

مقبرہ میں نماز درست نہیں ہے، صرف میت پر نمازِ جنازہ وہاں پڑھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اونٹ کے بتھان میں نماز درست نہیں ہوگی۔

اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنا جو نماز کو درست طریقہ سے قائم کرتےہیں اور ایسی نماز کی توفیق عطا کر جو تمہیں راضی کرے۔ ہم اسی پر اکتفاء کرتےہیں، اگلے درس میں ہم ارکانِ صلاۃ کے متعلق باتیں کریں گے۔ ان شاء اللہ۔

ارکانِ صلاة

اس سےقبل ہم نے نماز کے شروط کے سلسلے میں باتیں کی تھیں۔ آج کے درس میں ہماری گفتگو نماز کےارکان کے سلسلے میں ہے۔

نماز کے ارکان ساقط نہیں ہوتےہیں خواہ وہ عمداً چھوڑے جائیں یا سہوا ً، اور وہ ہیں:

پہلا رکن:قدر ت ہونے کی حالت میں کھڑا ہونا: اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ»،"کھڑے ہوکر نماز ادا کرو، اگر کھڑے ہونے کی استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر، اگر بیٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو تو پہلو کے بل"۔ (بخاری)یہ فرض نماز کا حکم ہے، جہاں تک نفل نماز کی بات ہے تو بغیر عذر کےبھی اسے بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے۔ بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں نصف اجر ملے گا۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: «وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ»،" جو بیٹھ کر نماز پڑھے تو اسے کھڑے ہوکر پڑھنے والے کا نصف اجر ملے گا"۔ (بخاری)

دوسرا رکن: احرام کی تکبیر: نماز شروع کرتے وقت تکبیر کہی جائے گی جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ، فَكَبِّرْ»، "پھر قبلہ رخ ہوجاؤ اور تکبیر کہو" (بخاری)

تیسرا رکن: ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا، جیساکہ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ»،" اس شخص کی نماز درست نہیں ہے جو فاتحۃ الکتاب (سورہ فاتحہ) نہ پڑھے"۔ (متفق علیہ) اس شخص سے فاتحہ ساقط ہوجاتا ہے جو امام کو رکوع کی حالت میں پائے یا رکوع میں جانے سے قبل پائے اور سورۂ فاتحہ پڑھنے کا اسے وقت نہ مل سکے۔

چوتھارکن : رکوع

پانچواں رکن: رکوع سے اٹھنا

چھٹا رکن: اعتدال کے ساتھ کھڑا ہونا جیسا کہ رکوع کی حالت سے قبل تھا۔

ساتواں رکن: سات اعضاء پر سجدہ کرنا، اوروہ پیشانی، ناک ، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے، اور دونوں قدم کے کنار ے ہیں۔

آٹھواں رکن : سجدہ سے اٹھنا

نواں رکن: دونوں سجدوں کے مابین بیٹھنا

دسواں اور گیارہواں رکن: آخری تشہد او ر اس میں بیٹھنا ہے، اور اس میں وارد دعا " التحیات للہ والصلوات والطیبات........." پڑھنا ہے۔

بارہواں رکن : سلام پھیرنا ہے۔

تیرہواں رکن : طمانینت ہے، اور وہ ہرفعلی رکن کے ادا کرنے میں طمانینت ہے گرچہ کم ہی کیوں نہ ہو۔

چودہواں رکن : ارکان کےمابین ترتیب ہے۔

اے اللہ ہمیں دین میں سمجھ عطا فرما، ہمیں وہ چیزیں سکھا جو ہمیں دنیا وآخرت میں فائدہ پہنچائیں، ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں، اگلے درس میں ہم ا س کا حکم بیان کریں گے جو ان ارکان میں سے کوئی رکن چھوڑ دے یا بھول جائے۔

جو ارکانِ نماز میں سے کوئی رکن بھول جائے یا چھوڑ دے

ہم نے گذشتہ درس میں نماز کے چودہ ارکان کے سلسلے میں گفتگو کی تھی۔ آج کے درس میں ہماری گفتگو اس شخص کے متعلق ہوگی جو ان میں سے کسی کو چھوڑدے یا بھول جائے۔

§ اگر احرام کی تکبیر بھول جائے یا چھوڑ دے تو اس کی نماز نہیں ہوگی، یعنی وہ نماز میں داخل ہی نہیں ہوا۔

§ اگر اس کے علاوہ کوئی اور رکن چھوڑدے، اگر اسے جان بوجھ کر چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل ہوجائےگی، اگر سہواً چھوٹ جائےتو اس میں تفصیل ہے:

أ) اگر دوسری رکعت میں اس جگہ تک پہنچنے سے قبل وہ یاد آجائے، تو لوٹ کر اسے ادا کرے ، پھر اپنی نماز پوری کرے اور سجدۂسہو کرے۔

اس کی مثال یہ ہےکہ اگر کوئی رکوع بھول گیا، پھر نفسِ رکعت کے سجدہ میں اسے یاد آیا، یا اگلی رکعت کی قراءت میں یاد آیا، تو وہ سجدہ یا قراءت چھوڑ دے گا، اور رکوع کرے گا اور پھر اپنی نماز مکمل کرےگا اور سجدۂسہوکرےگا۔

ب) اگر اگلی رکعت میں اس جگہ تک پہنچنے کے بعد وہ اسے یاد آئے، تو وہ ناقص رکعت کو کالعدم قرار دے دے، اور دوسری رکعت ہی اس کے لیے پہلی ہوگی، اس طرح وہ نماز مکمل کرے گا اور سجدۂسہوکرے گا۔

ج) اگر وہ رکن اسے سلام پھیرنے کے بعد یا د آئے اورجو چیز اس سے چھوٹی ہے وہ آخری رکعت سے ہے تو وہ اسے او راس کے بعد کی تمام چیزوں کو پوری کرلے،پھر سجدہ سہو کرلے،اگر چھوٹنے والی چیز آخری رکعت سے پہلی والی رکعت میں سے ہے، تو پوری ایک رکعت پڑھے، ایسا وہ اس صورت میں کرے جب اس کے سلام پھیرنے اور چھوٹی ہوئی چیز کے یاد آنے کے درمیان لمبا وقفہ نہ گذرا ہو ، اگر لمبا وقفہ گذر گیا ہے یا وضوء ٹوٹ گیا ہے تو وہ اپنی نماز لوٹالے۔

اللہ تعالی ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو اپنی نمازوں کو پوری کرتے ہیں او ر مکمل طور پر ادا کرتےہیں۔ ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں ، اگلے درس میں ہم نماز کے واجبات کے سلسلے میں گفتگو کریں گے ان شاء اللہ۔

نماز کے واجبات

ہم نے گذشتہ درس میں نماز کے ارکان او ران سےمتعلق احکام کے سلسلے میں بات کی تھی۔ آج کے درس میں ہم نماز کے واجبات کے سلسلے میں باتیں کریں گے اور وہ یہ ہیں:

1) احرام کی تکبیر کے علاوہ تمام تکبیرات ۔

2) امام او رمنفرد کےلیے"سمع اللہ لمن حمد ہ" کہنا ، جہاں تک مقتدی کی بات ہے تو وہ اسے نہیں بولے گا۔

3) امام ، منفرد اور مقتدی کےلیے "ربنا ولک الحمد" کہنا۔

4) رکوع میں "سبحان ربی العظیم" کہنا۔ مستحب یہ ہےکہ اسے تین مرتبہ یا اس سے زیادہ کہے۔

5) سجدہ میں "سبحان ربی الأعلی " کہنا، مستحب یہ ہےکہ اسے تین مرتبہ یا اس سے زیادہ کہے۔

6) پہلا تشہد، اور اس میں یہ کہے: «التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» "ہر طرح کی عبادتیں،نمازیں اور پاکیزگیاں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلامتی، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں"۔ (متفق علیہ)

7) تشہدِ اول کے لیے بیٹھنا

8) عمداً جو ان واجبات میں سے کسی واجب کو چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔

9) سہوا ًیا لاعلمی کی بنیاد پر جب کوئی اسے چھوڑ دے تو وہ سجدۂ سہو کے ذریعہ اس کی تلافی کرے گا۔

ہم اللہ تبارک وتعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں علم ِنافع اور عملِ صالح کی توفیق عطا فرمائے، ہم اسی پر اکتفاء پڑتے ہیں۔ ہم اگلے درس میں نماز کی طرف چلنے کے آداب کے متعلق باتیں کریں گے۔إن شاء اللہ۔

نماز کی طرف چلنے کے آداب

ہم نے اس سے قبل نماز کے شروط، ارکان اور واجبات کے سلسلے میں گفتگو کی ہے۔ اس درس میں ہم نماز کی طرف چلنے کے آداب کے سلسلے میں گفتگو کریں گے۔

1) مسلمان پر واجب ہےکہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: ﴿ﮟ ﮠ ﮡﮢ﴾ (بقرۃ:43)ترجمہ:"اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو"۔ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہےکہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَتُقَامَ ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ثُمَّ أَنْطَلِقَ مَعِي بِرِجَالٍ مَعَهُمْ حُزَمٌ مِنْ حَطَبٍ إِلَى قَوْمٍ لَا يَشْهَدُونَ الصَّلَاةَ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ بِالنَّارِ» "میں نے قصد کیا کہ میں نماز کا حکم دوں، پھر نماز قائم کی جائے،پھر میں ایک شخص کو حکم دوں اور وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، پھر میں چلوں اور میرے ساتھ کچھ لوگ ہوں، ان کے ساتھ لکڑیوں کا بنڈل ہو، پھران لوگوں کے پاس جائیں جو نماز کے لیے حاضر نہیں ہوتے ہیں، تو میں ایسے لوگوں کے گھروں کو جلا دوں"۔

2) مستحب یہ ہےکہ نماز کےلیے وضوء بناکر آئے، اور سکونت ووقار كے ساتھ آئے جیسا کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «إذا أُقيمتِ الصَّلاةُ فلا تأتوها وأنتم تَسعَونَ، ولكن ائتوها وأنتم تَمشُونَ وعليكم السَّكينةُ، فما أدركتُم فصلُّوا، وما فاتكم فأتمُّوا» "جب نماز قائم ہو جائے تو تم دوڑتے ہوئے نماز کےلیے نہ آؤ، بلکہ تم چل کر آؤ او رتمہارے اوپر سکینت ہو، جتنی نماز تمہیں مل جائے اسے پڑھ لو، او رجو تم سے چھوٹ جائے اسے پورا کرو"۔ (متفق علیہ)

3) جب مسجد میں داخل ہونے لگے تو اپنا دایاں پاؤں پہلے داخل کرےاور یہ کہے: «اللَّهُمَّ افتَحْ لي أبوابَ رَحْمَتِك» " اےاللہ ہمارے لیے اپنے رحمت کے دروازے کھول دے"۔ (مسلم)

4) جب مسجد سے نکلنا چاہے تو پہلے اپنے بائیں پاؤں کو آگے بڑھائے اور یہ کہے: «اللَّهُمَّ إنِّي أسألُكَ مِنْ فَضْلِك»، " اے اللہ میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں"۔ (مسلم)

5) نماز کے لیے جلدی جانا مستحب ہے۔ تکبیرِ تحریمہ کو پانے، صفِ اول میں شامل ہونے ، امام سے قریب رہنے، صفوں کو سیدھی کرنے اور صفوں کے مابین سے فاصلہ کو ختم کرنے کا حریص رہے۔

6) جو شخص مسجد میں داخل ہو اس کےلیے مستحب یہ ہےکہ وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ دورکعت تحیۃ المسجد نہ پڑھ لے جیسا کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلَا يَجْلِسْ حَتَّى يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ»، " جب تم میں کا کوئی مسجد میں داخل ہو تو اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ دورکعت نماز نہ پڑھ لے"۔ (متفق علیہ)

اےاللہ ہمیں اپنی رحمت ومغفرت میں شامل فرمالے، اپنے عفو وکرم سے ہمیں در گذر فرما، ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں، ہم اگلے درس میں صحیح نماز کی صفت کے بارے میں گفتگو کریں گے جیسا کہ سنت میں وارد ہوا ہے۔

نماز کا طریقہ

آج کے درس میں ہماری گفتگو نماز کے طریقہ سے متعلق ہے جیسا کہ سنت میں وارد ہوا ہےاور وہ درج ذیل ہے:

7) نمازی قبلہ رو ہوکر کھڑا ہو، "اللہ اکبر" کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کندھوں یا دونوں کانوں تک اٹھائے اور اپنے سجدہ کی جگہ کو دیکھے۔

8) پھر اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھے اوران دونوں کو اپنے سینے پر رکھے یا سینے کے نیچے ناف کےاوپر رکھے ، یا ناف کے نیچے رکھے، اور ہاتھ کے رکھنے کی کیفیت یہ ہوگی:

1) یا تو اپنی دائیں ہتھیلی کو اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت اور کلائی اوربازو پر رکھے۔

2) یا اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں بازو پر رکھے۔

§ پھر دعائے استفتاح پڑھے:«سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلا إِلَهَ غَيْرُكَ»، "تیری ذات پاک ہے اے اللہ، ہر طرح کی حمد تیرے لیے ہے، تیرا نام بابرکت ہے، تیرا مرتبہ عظیم ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں"۔ یا اس کے علاوہ جو دعاء سنت میں وارد ہوئی ہے وہ پڑھے، پھر یہ کہے: «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم، بسم الله الرحمن الرحيم»، پھر سورۂ فاتحہ پڑھے، اور اس کے آخیر میں جہری نماز میں زور سے اور سری نماز میں آہستہ "آمین" کہے۔

§ پھر پہلی دو رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد قرآن میں سے جو میسر ہو پڑھے۔

§ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں کندھوں یا دونوں کانوں تک اٹھاتےہوئےرکوع کے لیے تکبیر کہے، اپنےدونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پررکھے اوراپنی انگلیوں کوکھلا رکھے، اپنے سر کو اپنی پیٹھ کے برابر رکھے، اپنی پشت کو پھیلائے اور اسے سیدھا رکھے، رکوع میں اطمینان کےساتھ رہے اور تین مرتبہ یا اس سے زیادہ یہ کہے: "سبحان ربی العظیم" ۔

§ پھر "سمع اللہ لمن حمدہ" کہتے ہوئے اپنے سر او ردونوں ہاتھ اٹھائے، امام اور منفرد نماز پڑھنے والا " سمع اللہ لمن حمدہ " کہے گا لیکن مقتدی نہیں کہے گا۔

§ جب سیدھا کھڑا ہوجائے، تو "ربنا ولک الحمد" کہے، یا "ربنا لک الحمد" کہے، یا اللہم ربنا ولک الحمد" کہے، یا " اللہم ربنا لک الحمد" کہے، اور جو اذکار وارد ہوئے ہیں ان کے ذریعہ اس دعا میں مزید اضافہ کرے تو بہتر ہے۔

§ پھر تکبیر کہے اور سجدہ میں چلا جائے اوراپنے دونوں ہاتھوں کو نہ اٹھائے، پھر وہ سات اعضاء پر سجدہ کرے، (پیشانی اور ناک، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے، اور دونوں قدموں کے کنارے) اپنے ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھے، اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں کندھوں یا دونوں کانوں کے برابر رکھے، اپنی پیشانی اور ناک کو زمین سے لگا کررکھے،اپنے دونوں بازو کو زمین سے اٹھاکر رکھے،اپنی دونوں رانوں میں کشادگی رکھے اور اپنے پیٹ کو ان دونوں سے دور رکھے، ایساوہ اپنی استطاعت بھر کرے اس طور پر کہ اس سے بازو والے کو تکلیف نہ پہنچے، اور اپنے سجدہ میں تین مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ کہے: "سبحان ربی الأعلی" اور زیادہ سے زیادہ دعا کرے، جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: "سجدہ کی حالت میں بندہ سب سے زیادہ اللہ تعالی سےقریب ہوتا ہے، تو تم لوگ زیادہ سے زیادہ دعائیں کرو"۔ (مسلم)

§ پھر تکبیر کہتے ہوئے اٹھےاور افتراش کی حالت میں بیٹھے، افتراش یہ ہےکہ انسان اپنے بائیں پاؤں کو بچھائے اور اس پر بیٹھے اور دائیں پاؤں کو اٹھائے رکھے،اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر گھٹنےکے پاس یا گھٹنےپررکھے، اطمینا ن کے ساتھ بیٹھے، اور یہ کہے: "رب اغفر لی" تین مرتبہ یا اس سے زیادہ۔

§ پھر تکبیر کہے اور سجدہ میں جائے،اور دوسرے سجدہ میں بھی ویسے ہی کرے جیسے پہلے سجدہ میں کیا تھا۔

§ پھر تکبیر کہتے ہوئےاپنے سر کو اٹھائے، اب دوسری رکعت کےلیے کھڑ ا ہوتے ہوئے اٹھ جائے، اور دوسری رکعت میں بھی ویسےہی کرے جیسا کہ پہلی رکعت میں کیا تھا۔

پھر تین یا چار رکعت والی نماز کےلیے تشہد اول میں بیٹھے، افتراش کی اسی حالت میں بیٹھے جیسا کہ دونوں سجدوں کے مابین بیٹھتے ہیں، اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی دونوں رانوں پر رکھے، اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے وسطی کےساتھ حلقہ بنائے اور خنصر وبنصر انگلیوں کو مٹھی کی طرح کرلے اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کرے، یاتمام انگلیوں سےمٹھی بنالے اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کرےاور اس کی طرف دیکھے اور یہ کہے: «التَّحِيَّاتُ لِله وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ الله الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»، "ہر طرح کی عبادتیں ، نمازیں اور پاکیزگیاں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلامتی، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں (متفق علیہ)

§ پھر تیسری رکعت کےلیے تکبیر کہتے ہوئے اور دونوں ہاتھوں کو اٹھاتےہوئے کھڑا ہو، پھر تیسری اور چوتھی رکعت پڑھے، ہر رکعت میں سورۂفاتحہ پڑھے۔

پھر تشہد اخیر کےلیے تورُّک کی حالت میں بیٹھے، تورُّک یہ ہے کہ اپنے بائیں پاؤں کو دائیں طرف بچھاتے ہوئے نکالے اور اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا رکھے اور اپنی سرین پر بیٹھے ، پھر تشہد اخیر میں وہی چیزیں پڑھے جو پہلے تشہد میں پڑھا تھا اور اس میں اس کا اضافہ کرے: «اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ». (بخاری) "اے اﷲ! رحمت نازل فرما محمد (ﷺ) پر اور آلِ محمد (ﷺ) پر جیسے تونے رحمت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام پر اور آلِ ابراہیم علیہ السلام پر، یقیناً تو قابلِ تعریف، بڑی شان والا ہے۔ اے اﷲ! برکت نازل فرما محمد (ﷺ) پر اور آلِ محمد (ﷺ) پر جیسے تونے برکت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام پر اور آلِ ابراہیم علیہ السلام پر، یقیناً تو قابلِ تعریف، بڑی شان والا ہے"۔

§ پھر چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے اور یہ کہے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ»، "اے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اورموت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنےکے شر سے"۔(مسلم) اور جو چاہے دعا کرے۔

§ پھر دائیں اور بائیں جانب یہ کہتے ہوئے سلام کرے" السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ... السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ"

§ جب سلام پھیر لے تو یہ کہے: استغفر اللہ ، تین مرتبہ، اور یہ دعا پڑھے: «اللهم أنت السلام، ومنك السلام، تباركت يا ذا الجلال والإكرام» پھر نماز کے بعد کے جو اذکار وارد ہوئے ہیں انہیں پڑھے۔

ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں، ہم اگلے درس میں نماز کی غلطیوں کے سلسلےمیں باتیں کریں گے جن میں بعض لوگ مبتلا ہوتےہیں۔ ان شاء اللہ ۔

نمازیوں کی غلطیاں (1)

ہم نے گذشتہ درس میں نماز کے طریقہ کے سلسلے میں گفتگو کی تھی۔ آج کے درس میں ہماری گفتگو ان غلطیوں کے سلسلے میں ہوگی جن میں بعض نمازی مبتلا ہوتے ہیں۔ ہم انہیں اختصار کے ساتھ بیان کرتےہیں، تاکہ ہم ان سے بچ سکیں ، ان کے سلسلے میں دوسروں کو متنبہ کرسکیں، ان غلطیوں میں سے درج ذیل ہے:

§ نماز کے شروع میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺاور آپ کے صحابۂ کرام نےایسا نہیں کیا۔ نیت کا مقام دل ہے، لفظ کے ذریعہ اسے ادا کرنا مشروع نہیں ہے۔

§ غلطیوں میں سے یہ ہےکہ بعض لوگ جب مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور امام رکوع کررہا ہوتا ہے تو وہ احرام کی تکبیر کہتے ہوئے رکوع کے لیے جھک جاتےہیں، حالانکہ یہ نماز کو باطل کرنے والا ہے۔ اس لیے کہ احرام کی تکبیر واجب ہے کہ کھڑے ہوکر کہی جائے، پھر رکوع کے لیے تکبیر کہے اور رکوع کرے، اگر جلدی کرے اور رکوع کی تکبیر کو چھوڑدے اور احرام کی تکبیر پر اکتفا کرے اور وہ کھڑا ہوا ہے تو اس کی نماز درست ہوگی۔

§ غلطیوں میں سےاقامت سنتے ہی یا رکعت فوت ہونے کے خوف سے تیزی میں جانا ہے، جبکہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «إِذَا سَمِعْتُمْ الْإِقَامَةَ، فَامْشُوا إِلَى الصَّلَاةِ، وَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ وَالْوَقَارِ، وَلَا تُسْرِعُوا، فَمَا أَدْرَكْتُمْ، فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا» "جب تم اقامت سنو، تو سکینت ووقار اختیار کرتے ہوئےنماز کےلیے چلواور جلدی نہ کرو، جتنی نماز تمہیں مل جائے اسےپڑھو اور جو فوت ہوجائے اسے پورا کرو"۔ (بخاری) تو سنت یہ ہےکہ اطمینان کے ساتھ چلے جیسے عام طریقہ سے چلتے ہیں۔

§ غلطیوں میں سے یہ ہے کہ صفوں کو درست نہ کیا جائے۔ اللہ کےرسولﷺنے فرمایا: «سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ»"اپنی صفوں کو درست کرو، اس لیے کہ صفوں کو سیدھی کرنا نماز قائم کرنے میں سے ہے"۔( بخاری)

صفوں کو درست کرنے میں معتبر یہ ہےکہ کندھے سے کندھا ملا ہو، جو بدن کا اعلی حصہ ہے، اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا ہو جو بدن کا نچلا حصہ ہے۔

§ غلطیوں میں سے لہسن اور پیاز کھاکر مسجد آنا ہے۔ جیساکہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا، فَلْيَعْتَزِلْنَا، أَوْ قَالَ: فَلْيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا، وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ»، "جس نے لہسن اور پیاز کھایا تو وہ ہم سے الگ رہے، یا کہا: وہ ہماری مساجد سے الگ رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے"۔ (متفق علیہ)اس کی وجہ سے کریہہ بو آئے گی جو نمازیوں کو تکلیف پہنچائے گی جیسا کہ دھواں، تو وہ بذات خود منکر ہے، اور نمازیوں کو کریہہ بو کے ذریعہ اذیت پہنچانا دوسرا منکر ہے۔

§ غلطیوں میں سے نماز میں یا نماز کےلیے مسجد نکلتے وقت انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالنا ہے، اورایسا کرنا مکروہ ہے، جیسا کہ اللہ کےنبیﷺ نے فرمایا: «إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ ثُمَّ خَرَجَ عَامِدًا إِلَى الْمَسْجِدِ فَلا يُشَبِّكَنَّ يَدَيْهِ، فَإِنَّهُ فِي صَلاةٍ»، " جب تم میں سے کوئی وضوء کرے تواچھی طرح وضوء کرے ، پھر قصد کرتے ہوئے مسجد کی طرف نکلے تو اپنے دونوں ہاتھ کو ایک دوسرے سے نہ ملائے، اس لیےکہ وہ نماز میں ہے"۔ ( اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)

اللہ تعالی ہمیں غلطی او رلغزش سے محفوظ رکھے اور ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے۔ ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں، اگلے درس میں اسی موضوع پر اپنی بات مکمل کریں گے ان شاء اللہ۔

نمازیوں کی غلطیاں (2)

ہم نے گذشتہ درس میں بعض نمازیوں کی غلطیوں کے سلسلے میں جو باتیں کی تھیں،آج کے درس میں اسی سلسلہ کو جاری رکھیں گے:

§ ان غلطیوں میں سے نماز کےلیے تزیین کو چھوڑ دینا ہے، تو بعض لوگ نماز کےلیےبطور خاص فجر کی نماز کےلیے نکلتے ہیں، اور وہ نائٹ ڈریس میں یا گھٹیا کپڑے میں ہوتے ہیں جسے وہ اپنی آفسوں یا پروگراموں میں نہیں پہنتےہیں۔ جبکہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ﭑ ﭒ ﭓ ﭔ ﭕ ﭖ ﭗ ﭘ﴾ (أعراف :31) "اے اوﻻد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو"۔

§ غلطیوں میں سےبغیر عذرکےفرض نماز میں قیام کے دوران دیوار یا کھنبے سے ٹیک لگانا ہے۔ یہ نماز کو باطل کرنے والا ہے، اس لیےکہ طاقت کی حالت میں قیام، نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔

§ غلطیوں میں سے: نماز کے دوران آسمان کی طرف نگاہ بلند کرنا ہے، اور وہ حرام ہے، جیساکہ بخاری نے انس رضی اللہ عنہ سےروایت کیا ہے وہ کہتےہیں کہ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي صَلَاتِهِمْ -فَاشْتَدَّ قَوْلُهُ فِي ذَلِكَ حَتَّى قَالَ-: لَيَنْتَهُنَّ عَنْ ذَلِكَ أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُهُمْ» "ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو اپنی نمازوں میں اپنی نگاہوں کو آسمان کی طرف بلند کرتےہیں ،آپ نے اپنی اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا: وہ اس سے رک جائیں ورنہ ان کی نگاہیں اچک لی جائیں گی"۔

§ غلطیوں میں سے:امام کے: ﴿ﭢ ﭣ ﭤ ﭥ ﭦ﴾ " کہتے وقت بعض مقتدی کا "استعنّا بالله" کہنا ہے، حالانکہ یہ سنت کےخلاف ہے، اورامام نووی رحمہ اللہ نےاسے بدعت قرار دیا ہے۔

§ غلطیوں میں سے مقتدی کا فرض نماز میں قرآن اور اذکار کے ذریعہ آواز بلند کرنا ہے جس سے وہ بازو کے نمازیوں میں تشویش پیدا کریں، جبکہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا كَانَ فِي الصَّلاةِ، فَإِنَّمَا يُنَاجِي رَبَّهُ فَلا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ بِالْقُرْآنِ فتُؤذوا المؤمنين» "تم میں سے کوئی جب نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، تو تم قرآن کے ذریعہ اپنی آواز بلند نہ کرو جس سے مؤمنوں کو تکلیف پہنچاؤ"۔ (البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)

§ غلطیوں میں سے بعض مقتدیوں کا امام کے ساتھ آمین نہیں بولنا ہے، جبکہ اللہ کےنبیﷺ نےفرمایا: «إذا أمَّنَ الإمامُ فأمِّنوا، فإنه من وافقَ تأمينُه تأمينَ الملائكةِ، غُفِرَ له ما تقدَّمَ من ذنبِه»"جب امام آمین بولے تو تم بھی آمین بولو، اس لیے کہ جس کی آمین فرشتے کی آمین سے مل گئی ، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے"۔ ابن شہاب نے کہا ہے: اور اللہ کےرسولﷺکہا کرتے تھے، "آمین" (بخاری)

اللہ تعالی ہمیں دین کی سمجھ اور سید المرسلینﷺ کی سنت کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم اسی پراکتفا کرتے ہیں۔ اگلے درس میں ہم اسی موضوع پر اپنی گفتگو جاری رکھیں گے۔

نمازیوں کی غلطیاں (3)

ہماری گفتگو بعض نمازیوں کی غلطیوں کے سلسلے میں چل رہی ہے۔ ہم اسی سلسلے کو جاری رکھتےہیں:

§ ان غلطیوں میں سے یہ ہےکہ جو اس وقت مسجد میں پہنچے جب امام سجدہ میں ہو یا بیٹھا ہوا ہو تومقتدی امام کا اس وقت تک انتظار کرے جب تک کہ وہ کھڑا نہ ہوجائے، حالانکہ مشروع یہ ہےکہ امام جس رکن میں بھی ہو،مقتدی اسی حالت میں نماز میں شامل ہوجائے، اس لیےکہ اللہ کےنبیﷺ کے قول کا عموم اسی بات پر دلالت کرتا ہے: ارشاد نبوی ہے: «فَمَا أَدْرَكْتُمْ، فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا» " جتنی نماز تم پالو اسے ادا کرو، اور جو تم سے فوت ہوجائے اسے مکمل کرو"۔ (بخاری)

§ غلطیوں میں سے جو نماز کو باطل کرتی ہے، وہ سات اعضاء پرسجدہ نہیں کرنا ہے، جبکہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: «أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ: عَلَى الْجَبْهَةِ - وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَى أَنْفِهِ، وَالْيَدَيْنِ، وَالرُّكْبَتَيْنِ، وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ»، "مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں،پیشانی پر اور اپنے ہاتھ سے اپنی ناک کی طرف اشارہ کیا، دونوں ہاتھوں پر، دونوں گھٹنوں پر، اورقدموں کے دونوں کناروں پر"۔ (متفق علیہ)تو ا ن میں سے بعض لوگ جب سجدہ کرتے ہیں تو اپنے دونوں قدموں کو زمین سے تھوڑا سا اٹھالیتے ہیں، یا ان دونوں میں سے ایک کو دوسرے پر رکھ لیتے ہیں، ان میں سے بعض اپنی ناک یا پیشانی کو زمین پر نہیں ٹکاتےہیں، حالانکہ یہ چیز نماز کو باطل کرنے والی ہے۔

§ غلطیوں میں سے سجدہ میں اپنی دونوں کہنیوں کو زمین سے ملا دیناہے، حالانکہ اللہ کےرسول ﷺنے اس سے منع فرمایا: «اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ وَلَا يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ»، " سجدہ میں اعتدال اختیار کرو، اور تم میں سےکوئی اپنی دونوں کہنیوں کو زمین پر نہ پھیلائے جیساکہ کتا پھیلاتا ہے"۔ (متفق علیہ)اعتدال سےمقصود بچھانے ، موڑنے اور کمان کی طرح پھیلانےکے مابین توسط ہے ، اور سجدہ میں مسنون یہ ہےکہ اپنی دونوں کہنیوں کو اٹھائے، اپنے دونوں بازوؤں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے الگ رکھے، اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں سے الگ رکھے، اوراپنی دونوں رانوں کو اپنی دونوں پنڈلیوں سے الگ رکھے، ایسا اپنی استطاعت بھر بلا مبالغہ کرے، اس طور پر کہ اس میں دوسروں کےلیے تکلیف نہ ہو۔

§ غلطیوں میں سے نماز کے افعال میں امام کی پیروی نہ کرنا ہے ، بایں طور کہ امام سے سبقت کرجائے یا اس کے ساتھ کرنے لگے یا اس کی پیروی میں تاخیر کرے، جبکہ اللہ کےنبیﷺ نےفرمایا: «إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا»، "امام کو اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، جب اٹھے توتم بھی اٹھو"۔ (متفق علیہ) اور آپ علیہ السلام نے کہا: «أَمَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ أَوْ لَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يَجْعَلَ الله رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ أَوْ يَجْعَلَ الله صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ»، "کیا تم میں کاکوئی شخص نہیں ڈرتا ہے کہ جب وہ اپنا سر امام سے پہلے اٹھائے تو اللہ تعالی اس کے سر کو گدھے کا سر بنادے یا اس کی شکل کو گدھے کی شکل کا بنادے"۔ (بخاری)

اللہ تعالی ہمیں علم نافع کی راہوں پر چلنےوالا بنادے، اس کی روشنی سے روشنی حاصل کرنےوالا بنائے، ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں، اگلے درس میں ہم اسی موضوع پر گفتگو کریں گے۔

نمازیوں کی غلطیاں (4)

بعض نمازیوں کی غلطیوں کے سلسلے میں ہم اپنی بات مکمل کررہے ہیں،تاکہ ہمارے نفسوں کےلیےتذکیر اور غیروں کےلیے تنبیہ ہو:

§ نماز کو باطل کردینے والی غلطیوں میں سے نماز میں طمانینت کو اختیار نہیں کرنا ہے، جبکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہےکہ اللہ کے رسولﷺ مسجد میں داخل ہوئے، تو ایک شخص داخل ہوا اوراس نےنماز پڑھی، پھر آپ کو سلام کیا تو آپﷺ نے سلام کا جواب دیا اورفرمایا: "لوٹ جاؤ اور نماز پڑھو اس لیے کہ تم نے نماز نہیں پڑھی" تو وہ شخص لوٹ گیا اور جیسے پہلے نماز پڑھی تھی ویسے ہی اسے دہرایا، پھر آیا اور نبی کریمﷺ کو سلام کیا، نبیﷺ نے اسے پھر کہا: " لوٹ جاؤ اور نماز پڑھو اس لیے کہ تم نے نماز نہیں پڑھی" یہاں تک کہ اس نےایسا تین مرتبہ کیا، پھر اس شخص نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے تجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے اچھا نہیں پڑھ سکتا ، آپ مجھے سکھا دیجیے، تو آپﷺ نےفرمایا: «إذا قمتَ إلى الصلاةِ فكَبِّرْ، ثم اقرأْ ما تيسَّرَ معكَ من القرآنِ، ثم ارْكَعْ حتى تطمئِنَّ راكعًا، ثم ارفعْ حتى تعتدلَ قائمًا، ثم اسجُدْ حتى تطمئِنَّ ساجدًا، ثم ارفعْ حتى تطمئِنَّ جالسًا، وافعلْ ذلكَ في صلاتِكَ كُلِّهَا»، "جب نماز کےلیے کھڑے ہوؤ تو تکبیر کہو، پھر جو تمہیں قرآن میں سے میسر ہو اسے پڑھو،پھر رکوع میں جاؤ اور اطمینان سے رکوع کرو،پھر کھڑے ہوؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاؤ، پھر سجدہ کرو اور اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر سجدہ سے اٹھو یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ، اور ایسا اپنی پوری نماز میں کرو" (بخاری) ہر فعلی رکن جیسے رکوع ، سجود ، قیام اور جلوس میں اعضاء کے استقرار وسکون سے طمانینت حاصل ہوتی ہے۔

§ نماز کو باطل کردینے والی غلطیوں میں سے یہ ہےکہ نماز کے اذکار کو تلفظ اور زبان کو حرکت دیے بغیر ادا کیا جائے، جیسے سورہ فاتحہ یا اس کے علاوہ اذکار جیسے تسبیح او ر تکبیر پڑھے،تو انہیں زبان سے ادا کیے بغیر دل ہی دل میں پڑھے، تو یہ ایسی غلطی ہے جونماز کو باطل کردینے والی ہے، واجب یہ ہےکہ اس کو لفظ کے ذریعہ اداکرے اور اس کو ادا کرنےکےلیے زبان کو حرکت دے، جو زبان کو حرکت نہیں دیتا ہے تو اس کا ایسا کرنا تفکر ہےقراءت نہیں ۔

§ غلطیوں میں سے یہ ہے کہ دونوں سلاموں کے مابین سر کو اوپر اٹھائے او رنیچے کرے، حالانکہ ایسا کرنا سنت میں وارد نہیں ہو ا ہے اور نہ ہی اہل علم میں سے کسی کے ذریعہ اسے بیان کیا گیا ہے۔

§ غلطیوں میں سے سلام کے بعد فوراً بغل میں بیٹھےہوئے نمازی سے مصافحہ کرنے پر مداومت برتنی اور "تقبل اللہ" یا "حرما" کہنا ہے،توایسا کرنا مشروع نہیں ہے اور یہ دین میں نئی ایجاد میں سے ہے۔

§ غلطیوں میں سے یہ ہےکہ جو جماعت سے پیچھے رہ گیاہے وہ فوت شدہ حصہ کو پورا کرنے کے لیے امام کے دوسرے سلام سے قبل کھڑا ہوجائے۔

§ غلطیوں میں سے یہ ہےکہ مسجد میں دوسری جماعت شروع کردی جائے حالانکہ ابھی امام نماز کی حالت میں ہی ہو، حالانکہ اہل علم نے اس سے منع کیا ہے، کیونکہ اس سے مسلمانوں کے مابین تفریق اور بعض کے سلسلے میں بعض کو تشویش لاحق ہوگی۔

اللہ تعالی ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو باتیں غور سنتےہیں اور اچھی باتوں پر عمل کرتےہیں، ہم اسی پر اکتفاء کرتےہیں، ہم اگلے درس میں اسی موضوع پر اپنی بات جاری رکھیں گے ان شاء اللہ۔

نمازیوں کی غلطیاں (5)

ہماری گفتگو بعض نمازیوں کی غلطیوں سے متعلق چل رہی تھی۔ ہم اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں:

§ انہیں غلطیوں میں سے مختصر لباس میں نماز ادا کرنا ہے۔ ایسا لباس جس کے پہننے کے باوجود بھی ستر کا ایک حصہ کھل جائے، جیسے ران، یا پشت کا نچلا حصہ، حالانکہ یہ نماز کو باطل کردینی والی چیز ہے۔ (مرد کا ستر ناف سے لیکر گھٹنے تک ہے، جبکہ عورت کا ستر اس کا پورا جسم ہے سوائےچہرہ اور دونوں ہتھیلوں کے، اور زیادہ مناسب یہ ہےکہ وہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کو بھی ڈھانک کر رکھے،اور اگر وہ غیر محرم مردوں کے پاس ہو تو پورے جسم کا پردہ کرے۔)

§ غلطیوں میں سے بعض مریضوں کا استطاعت کے مطابق نماز کی ادائیگی میں سستی کرنا ہے ، چنانچہ بعض استطاعت رکھتے ہیں کہ وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھیں، لیکن وہ رکوع تک قیام کو مکمل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتےہیں، تو ان پر واجب ہےکہ استطاعت بھر کھڑے رہیں اور جب تھک جائیں تو بیٹھ جائیں، اسی طرح جو سجدے کی استطاعت رکھتے ہیں لیکن وہ رکوع کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں، تو ان پر واجب ہےکہ مشروع طریقہ پر سجدہ کریں، جہاں تک رکوع کی بات ہے تو بیٹھ کر رکوع کریں یا استطاعت کے بقدر ، جیساکہ اللہ کےنبیﷺ نےفرمایا: «صَلِّ قائمًا، فإن لم تستَطِع فقاعدًا، فإن لم تستَطِعْ فعلى جَنبٍ»، "کھڑے ہوکر نماز پڑھو، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر، اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہوتو پہلو کے بل"۔ (بخاری) اور اللہ کےرسول نےفرمایا: «وَمَا أَمَرْتُكُمْ بِهِ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ»، "میں نےجو تمہیں حکم دیا ہے اسے اپنی استطاعت بھر انجام دو"۔ (متفق علیہ)

§ غلطیوں میں سے امامت کےلیے قرآن کی بہتر قراءت کرنے والے کو آگے نہیں بڑھانا ہے، اس صورت میں جبکہ وہ چھوٹا ہو یا لوگوں کی نگاہ میں معمولی ہو، جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا...» وفي رواية: «فَأَكْبَرُهُمْ سِنًّا...»، "قوم کی امامت وہ کرے جو ان میں کتاب اللہ کی اچھی طرح قراءت کرنےوالا ہو، اگر وہ قراءت میں برابر ہوں تو جو ان میں سنت کے زیادہ عالم ہوں، اگر وہ سنت میں بھی برابر ہوں تو جو ان میں ہجرت میں پہل کرنے والے ہوں، اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جو ان میں اسلام کے اعتبار سے پہلے ہوں" اور ایک روایت میں ہے کہ جوعمر کے اعتبار سے بڑے ہوں"۔ (مسلم)

§ غلطیوں میں سے اذان کے بعد بغیر عذر کے مسجد سے نکلنا ہے، جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں ابی الشعثاء سےروایت کیا ہے وہ کہتےہیں: ہم لوگ ابوہریرہ کے ساتھ مسجدمیں بیٹھے ہوئے تھے،اسی بیچ اذان دینے والے نے اذان دیا، تو ایک شخص مسجد سے کھڑ ا ہوا اور چلنے لگا، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسے غور سے دیکھنے لگے یہاں تک کہ وہ مسجد سےنکل گیا، تو ابوہریرہ نے کہا : جہاں تک اس آدمی کی بات ہے تو اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔ اس سے وہ مستثنی ہے جو وضوء بنانےکےلیے باہر جائے، یا لوٹنے کی نیت سے نکلے اور وقت میں وسعت ہو، جیساکہ وہ شخص جو اس لیے نکلے کہ اپنے اہل وعیال کو جگائے پھر لوٹ آئے، اسی طرح وہ شخص جو کسی اور مسجد میں نماز ادا کرنے کےلیے نکلے جب اسے اس بات کا علم ہو کہ وہ وہاں جماعت پالے گا۔

اللہ تعالی ہمیں ہمارے علم او ردین کی سمجھ میں اضافہ فرمائے، ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں، ہم اگلے درس میں سجدۂسہو کے متعلق اور نماز میں سہو سے متعلق بعض مسائل کے سلسلے میں گفتگو کریں گے ان شاء اللہ۔

سجدۂ سہوکے احکام (1)

آج کے درس میں ہماری گفتگو سجدۂسہو اور نماز میں بھول چوک کے مسائل سے متعلق ہے:

سجدۂ سہو ان دو سجدوں کو کہتے ہیں جنہیں نمازی سہو ونسیان کے سبب نماز میں حاصل ہونے والی کمی کی بھرپائی کے لیے کرتا ہے۔ سجدۂ سہو کے تین اسباب ہیں: نماز میں زیادتی یا کمی یا شک۔

پہلا سبب: نماز میں زیادتی

§ جب نمازی سے نماز میں سہو ہوجائے،چنانچہ وہ سہو ونسیان کے سبب قیام یا رکوع زیادہ کرلے یا ان دونوں جیسےنماز کے افعال زیادہ کرلے ، اور اسے اس کی اس وقت تک یاد نہ آئے جب تک کہ وہ اس سے فارغ نہ ہوجائے، تو اس پرسجدۂسہوکے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔

اس کی مثال یہ ہےکہ ایک شخص نے ظہر کی نماز مثلا پانچ رکعت ادا کی، اوراسے زیادتی کی یاد صرف اس وقت آئی جب وہ تشہد میں تھا، تو وہ اپنی نماز مکمل کرکے سلام پھیرے گا، پھر سجدۂسہوکرے گااور سلام پھیرے گا، اور اگر اس نے سلام پھیرنے سے قبل ہی سجدۂسہوکرلیا تو کوئی حرج نہیں ہے۔

§ لیکن اگر اسے زیادتی کا علم اس کے کرنے کے دوران ہی ہوجائے تو اس پراس سےفوراً رجوع کرنا واجب ہے،اور وہ اپنی نماز مکمل کرے گااورسلام کے بعد سجدۂسہوکرے گا اور اگر سلام سے قبل ہی سجدۂسہو کرلیا تو کوئی حرج نہیں ہے۔

اس کی دلیل: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ اللہ کےنبی ﷺ نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھی تو ان سے کہا گیا کہ کیا نماز میں اضافہ کردیا گیا ہے؟ تو آپﷺ نے پوچھا او روہ کیا ہے؟تو صحابی نے کہا: آپ نے پانچ رکعت نماز پڑھی ہے،تو آپﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدہ کیا، اور ایک روایت میں ہے: تو آپﷺ نےاپنے دونوں پاؤں موڑ لیے اور قبلہ رخ ہوئے اور دو سجدہ کیا پھر سلام پھیرا۔ (متفق علیہ)

§ اگر نماز ی بھول کر نماز مکمل کرنے سے قبل ہی سلام پھیر لے، اور اگر اسے طویل وقفہ کے بعد یاد آئےکہ اس نے نماز میں کچھ چھوڑ دیا ہے یا تب یاد آئے جب اس کا وضو ٹوٹ گیا ہو، تو اس کی نماز باطل ہوجائےگی او راسےنماز کا اعادہ کرنا ہوگا، لیکن اگر اسے مختصر وقفہ کے بعد ہی یاد آجائے کہ اس سے کچھ چھوٹ گیا ہے، تو اس پر ضروری ہے کہ وہ نماز کے چھوٹے ہوئے حصہ کو مکمل کرے اور سلام کے بعد سجدۂ سہو کرے، اگر سلام سے قبل سجدۂ سہو کرلے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

اس کی دلیل : عمران بن حصین کی حدیث ہے کہ اللہ کےرسولﷺ نے عصر کی نماز ادا کی اور تین ہی رکعت میں سلام پھیر دیا، پھر اپنے گھر میں داخل ہوئے ، تو ایک شخص ان کے پاس آیا جس کا نام خرباق تھا ، اس کے ہاتھ لمبے تھے، اس نےکہا: اے اللہ کےرسول! پھراس نے پوچھا کہ آپ نے صرف تین رکعتیں کیوں ادا کی؟ تو آپ غصہ میں اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے نکلے یہاں تک کہ لوگوں کے پاس پہنچے،پھر آپ نے پوچھا: کیا اس شخص نے سچ کہا ہے؟ تو صحابۂ کرام نے کہا : ہاں، پھر آپ نے ایک رکعت نماز پڑھی اور سلام پھیرنے کے بعد دو سجدہ کیا اور پھرسلام پھیرا۔ (مسلم)

ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں، ہم اگلے درس میں سجدۂ سہو کے اسباب میں سے دوسرے سبب کو بیان کریں گےاور وہ شک ہے۔

سجدۂ سہوکے احکام (2)

ہم اپنی بات سجدۂسہو کے احکام کے سلسلے میں جاری رکھیں گے اور آج کے درس میں ہماری گفتگو سجدۂسہوکے دوسرے سبب سےمتعلق ہے اوروہ دو معاملوں کے مابین شک وتردد ہے۔

§ اگرنمازی شک وتردد میں پڑ جائے اور اس کے ظن پر دو میں سے ایک چیز غالب آجائے ،تووہ ظنِ غالب پر اعتماد کرےگا، اور سلام پھیرنے کے بعد سجدۂسہوکرےگا، اگر سلام پھیرنے سے قبل بھی سجدۂسہوکرلےتو کوئی حرج نہیں ہے۔

جیساکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہےکہ اللہ کےنبی ﷺنے فرمایا: «إذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ ثُمَّ يُسَلِّمْ ثُمَّ يَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ» "جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو تو وہ صحیح کی تلاش کرے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیرے اور دوسجدہ کرے"۔ (متفق علیہ)

§ اگرنماز میں جس چیز کے متعلق شک میں پڑا ہے اور اس کے سلسلے میں دونوں میں سے کوئی ایک ظن اس کے نزدیک غالب نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یقین پر عمل کرے اور وہ کم سےکم تر ہے، وہ اس کے مطابق اپنی نماز پور ی کرے اور سلام سے قبل سجدۂسہوکرے۔

اس کی دلیل ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہےکہ اللہ کےنبی ﷺنے فرمایا: «إذا شَكَّ أحدُكُم في صلاتِهِ فلم يَدرِ كَم صلَّى؟ ثلاثًا أمْ أربعًا؟ فليطرَحِ الشَّكَّ وليبنِ على ما استيقنَ. ثمَّ يسجُدُ سجدتينِ قبلَ أن يسلِّمَ. فإن كانَ صلَّى خَمسًا، شفَعنَ لَه صلاتَه. وإن كانَ صلَّى إتمامًا لأربعٍ، كانتَا تَرغيمًا للشَّيطانِ»، " جب تم میں کا کوئی شخص اپنی نماز میں شک میں پڑے اور اسے پتہ نہ ہو کہ کتنی رکعت پڑھی ہے؟ تین یا چار؟ تو وہ شک کو چھوڑ دے اور یقین پر بناء کرے، پھر سلام پھیرنے سے قبل دو سجدہ کرے، اگر پانچ رکعت پڑھی ہوگی تو وہ دونوں سجدے اس کی نماز کو جوڑا بنادیں گے(چھ رکعت ہوجائیں گے) اور اگر پوری چار پڑھی ہیں تو وہ دونوں سجدے شیطان کے منہ پر خاک ڈالنے کا سبب بنیں گے"۔ (اسے البانی نے صحیح قرار دیاہے)

· عبادتوں میں شک پیدا ہوجائے تو درج ذیل دو حالتوں میں ان کی طرف متوجہ نہیں ہواجائے گا:

1. اگر عبادت سے فارغ ہونے کے بعد اسے اس طرح کا شک پیداہوتو اس کی طرف متوجہ نہیں ہوگا، مگر اس صورت میں جب کہ اسےاس کا یقین ہوجائے، اگر یقین ہوجائے تو یقین کےتقاضے کےمطابق کرےگا۔

2. اگر کسی شخص کو نماز میں بہت شک پیدا ہوتا ہو ، اس طور پر کہ جب بھی وہ عبادت کرتا ہو تو اسے شک پیدا ہوجاتا ہو ، تو وہ ایسی صورت میں اس کی طرف متوجہ نہیں ہوگا۔

اللہ تعالی ہمیں زیادہ سے زیادہ علم وہدایت اور توفیق عطا فرمائے، ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں، ہم اگلے درس میں سجدۂسہوکے اسباب میں سے تیسرے سبب کے سلسلے میں بات کریں گے انشاء اللہ، اور وہ نماز میں نقص ہے۔

سجدۂ سہوکے احکام (3)

سجدۂسہوکے احکام کے سلسلے میں ہماری گفتگو مکمل ہونے جارہی ہے۔ آج کے درس میں سجدۂ سہو کے اسباب میں سے تیسرے سبب : "نماز میں نقص" پربات کرکے اسےمکمل کریں گے۔إن شاء اللہ

نقص کی صورت میں نقص کے مطابق حکم مختلف ہوگا خواہ نقص رکن کےچھوٹنے سے ہو یاواجب کے چھوٹنے سے:

پہلا: اگر چھوٹنےوالی چیز رکن ہے جیسے رکوع یا سجدہ یا فاتحہ وغیرہ، تو ایسی صورت میں :

§ اگر وہ رکن اگلی رکعت میں اس جگہ تک پہنچنے سے قبل یاد آجائے تو بھولنے والا لوٹ کر اسے مکمل کرے گا اور پھر اپنی نماز پوری کرے گا اور سجدۂسہوکرے گا۔

اس کی مثال یہ ہےکہ اگر کوئی رکوع بھول گیا، پھر اسے اسی رکعت کے سجدہ میں یاد آیا یا دوسری رکعت کی قرأت میں یاد آیا ، تو وہ سجدہ یا قرأت کو چھوڑ دے گا ، اور وہ اپنا چھوٹا ہوا رکوع کرے گا، پھر اپنی نماز مکمل کرے گا اور سلام کے بعد سجدۂسہوکرےگا، اگر سلام سے قبل سجدۂسہوکرلے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

اگر وہ اگلی رکعت میں اس جگہ تک پہنچنے کے بعد یاد آتا ہے، تو وہ ناقص رکعت کو ملغی قرار دے دےگا، اور حالیہ رکعت کو اس کی جگہ پر رکھے گا، پھر اپنی نماز پوری کرےگا، سلام کے بعد سجدۂسہوکرے گا، اگر سلام سے قبل بھی سجدۂسہوکرلے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

اس کی مثال : اگر پہلی رکعت کے رکوع کو بھول جائے ، پھر دوسری رکعت کے رکوع کے وقت وہ کمی یاد آئے، تو پہلی رکعت ملغی قرار دی جائےگی، اور اس شخص کے لیےدوسری رکعت ہی پہلی رکعت قرار دی جائے گی۔

ا گر وہ رکن سلام کے بعد ہی یاد آئے : تو جو چیز اس سے چھوٹی ہےاگر وہ آخری رکعت میں سےہے، تو وہ اسے او راس کے بعد والی چیزوں کو ادا کرے پھر سجدہ سہو کرے، لیکن اگر اس کا تعلق اس سے پہلی والی رکعت سے ہے تو پوری ایک رکعت پڑھے، ایسا وہ اس صورت میں کرے جب سلام پھیرنے اور اس کے یاد آنے کے مابین طویل وقفہ نہیں گذرا ہے ، لیکن اگر طویل وقت گذر گیا ہو یا وضوء ٹوٹ گیا ہو تو وہ اپنی نماز کا اعادہ کرے ۔

§ جس رکن کو وہ بھولا ہے اگر وہ تکبیر تحریمہ ہے، تو اس کی نماز نہیں ہوگی اور اسے اس کا اعادہ کرنے پڑے گا۔

§ دوسرا: اگر نماز میں جو چیز چھوٹی ہے وہ واجب ہے (جیسے ایک حالت سےدوسری حالت میں منتقل ہونے کی تکبیر یا تشہد اول یا رکوع میں "سبحان ربی العظیم" کا کہنا وغیرہ) تو ایسی صورت میں:

§ اگر اسے اس کی یاد اس کی جگہ سے جدا ہونے سے قبل آئے ، تو اس کےلیے اسے پورا کرناواجب ہے، اور اس پر کچھ بھی نہیں ہے، اور ایسی صورت میں سجدۂسہونہیں ہے۔

§ لیکن اگر اسے وہ چیز اس کی جگہ سے الگ ہونےکے بعد یا د آئے، اور اس کے بعد والے رکن تک پہنچنے سےقبل یاد آئے، تو وہ لوٹ جائے گا اور اس چھوٹے ہوئے حصے کوپورا کرےگا، اس طرح وہ اپنی نماز پوری کرے گا، پھر وہ سلام کے بعد سجدہ کرے گا، اگر سلام پھیرنے کے پہلے بھی سجدہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

§ اگر اس کے بعد والے رکن تک پہنچنے کے بعد چھوٹی ہوئی چیز یاد آتی ہے، تو وہ اس کی طرف نہیں لوٹے گا، بلکہ اپنی نماز پوری کرےگا،اور سلام سے قبل سجدۂسہوکرےگا([23]

اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے بخاری ومسلم نے عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کےنبیﷺ نے انہیں ظہر کی نماز پڑھائی پھر پہلی دو رکعتوں کے بعد بیٹھے بغیر کھڑے ہوگئے ، تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے، یہاں تک کہ جب نماز ختم ہوگئی اور لوگ آپ کے سلام پھیرنے کےمنتظر تھےتو آپ نے بیٹھی ہوئی حالت میں ہی تکبیر کہی اور سلام پھیرنے سے قبل دوسجدے کیے پھر سلام کیا۔

اللہ تعالی ہمیں اپنی رضامندی کی توفیق عطا کرے، ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں، اگلے درس میں ہم عذر والوں کی نماز سے متعلق مسائل کے سلسلےمیں باتیں کریں گے۔ انشاء اللہ۔

عذر والوں کی نماز کے احکام

آج کے درس میں ہم ان مسائل پر گفتگو کریں گے جو عذر والوں کی نماز سےمتعلق ہیں، او ر وہ ہیں: مریض، مسافر اور ڈرا ہوا:

§ مریض:اگر مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے سے مریض کو مشقت یا ضرر لاحق ہورہا ہو، یا جماعت میں حاضر ہونے کی صورت میں مرض کے لاحق ہونے یا مرض میں اضافہ یا شفایابی میں تاخیر کا خطرہ ہو ، تو ایسے شخص کےلیے گھر میں اسے ادا کرنا جائز ہوگا۔

§ وہ اسے اپنی استطاعت کےمطابق ادا کرےگا، جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ﮧ ﮨ ﮩ ﮪ﴾ (تغابن:16)"پس جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو" اور جیساکہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتےہیں کہ مجھےبواسیر تھا، تو میں نے نماز کے سلسلےمیں نبی کریمﷺ سے پوچھا، تو آپﷺ نے فرمایا: «صَلِّ قائمًا، فإن لم تستَطِع فقاعدًا، فإن لم تستَطِعْ فعلى جَنبٍ»، "کھڑے ہوکر نماز پڑھو، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھو، اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو پہلو کے بل پڑھو" ( اسے بخاری نےروایت کیا ہے)

§ اگر انسان کھڑے ہوکر نماز پڑھنےکی استطاعت رکھتاہو لیکن قیام سے رکوع میں جانے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس کےلیے حکم یہ ہے کہ وہ استطاعت بھر کھڑے ہوکر نماز پڑھے اور جب تھک جائے تو بیٹھ جائے، اسی طرح جو شخص سجدہ کرنے کی استطاعت رکھتا ہو لیکن رکوع کی استطاعت نہیں رکھتا ہے تو اس کےلیے ضروری ہے کہ مشروع طریقے سےسجدہ کرے، جہاں تک رکوع کا معاملہ ہے تو وہ بیٹھ کر رکوع کرے یا اپنی استطاعت بھر کرے، جیساکہ سابقہ حدیث میں گذرا اور جیساکہ اللہ کےرسولﷺ کا فرمان ہے«وَمَا أَمَرْتُكُمْ بِهِ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ» " اور جس چیز کا میں نے تمہیں حکم دیا ہے تو حسب استطاعت انہیں انجام دو"۔(متفق علیہ)

§ اگر عذر والے شخص کو، ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرناشاق ہو، تو اس کےلیے ظہر کو عصر کے ساتھ ، مغرب کو عشاء کےساتھ جمع کرنا جائز ہو گا، جن دو نمازوں کو جمع کررہا ہو، ان دونوں میں سے کسی ایک کے وقت میں جمع کیا جائے گا۔

§ جہاں تک مسافر کی بات ہے:

§ تووہ چار رکعت والی نمازوں(ظہر ، عصر اور عشاء) کو دورکعت قصر کرے گا جیساکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہےوہ کہتی ہیں: «فُرِضَتِ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ، وَزِيدَ فِي صَلَاةِ الْحَضَرِ»، "نماز حضر وسفر میں دو دو رکعت فرض کی گئی ، تو سفر کی نماز اتنی ہی رکھی گئی اور مقیم کی نماز میں اضافہ کیا گیا"۔ (متفق علیہ)

§ مسافر کےلیے جمع بین الصلاتین (ظہر وعصر اور اسی طرح مغرب وعشاء کے مابین جمع کیا جائے گا اور جن دونمازوں کو جمع کریں گے ان میں سے کسی ایک کے وقت میں جمع کریں گے) کرنا جائز ہے۔ سعید بن جبیر ،عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں وہ کہتےہیں: " اللہ کےرسولﷺ نے اپنے اس سفر میں نماز کوجمع کیا جو سفر غزوۂ تبوک کے موقع سے کیا، تو آپﷺ نے ظہر او ر عصر اور مغرب اور عشاء کے مابین جمع کیا، سعید کہتےہیں:میں نے ابن عباس سےکہا: آپ نےایساکیوں کیا؟ تو انہوں نے کہا:آپ ﷺنے چاہا کہ اپنی امت کو پریشانی میں نہ ڈالیں" (مسلم)یعنی تاکہ اس کی وجہ سے امت پریشانی ومشقت میں نہ پڑے۔

§ جہاں تک ان لوگوں کی با ت ہے جو خوف کی حالت میں ہوتے ہیں جیسے مجاہدین فی سبیل اللہ، جب وہ میدان کارزار میں ہوں اور کفار کے ان پرحملہ آور ہونے کا انہیں خو ف ہو:

§ تو ان کےلیے جائز ہے کہ وہ اس طریقہ سےصلاۃِ خوف ادا کریں جیساکہ اللہ کے رسولﷺ نے اسے ادا کیا ہے،اگر خوف شدید ہوجائے تو وہ پیادہ اور سوار ی پر نماز پڑھیں گے، یعنی اپنے قدموں پر چلتے ہوئے اور اپنے چوپایوں پر سوار ہوکر ، خواہ قبلہ رو ہوں یا نہ ہوں، وہ اشارہ سے رکوع وسجود کریں گے، جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ﭚ ﭛ ﭜ ﭝ ﭞﭟ﴾ (بقرۃ: 239) "اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہی یا سوار ہی سہی"۔

§ اسی طرح ہر شخص جو اپنے نفس پر خائف ہو، وہ اپنی حالت کے مطابق نماز پڑھے گا، او رہر چیز کرے گا جس کی اسےضرور ت ہے جیسے بھاگنا یا اس کےعلاوہ کچھ اور، مگر کسی حق سے روگردانی کی صورت میں بھاگنے والا جیسے چور اور اس جیسا، تو اس کےلیے صلاۃ الخوف پڑھنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ وہ تو رخصت ہے اور رخصت معصیت کے ذریعہ حاصل نہیں کی جاسکتی۔

ہم اللہ تعالی سے دین میں فقہ وسمجھ کی دعا کرتے ہیں، ہم اسی پر اکتفاء کرتےہیں، ہم اگلے درس میں نمازِ جمعہ کے احکام کے سلسلے میں گفتگو کریں گے انشاء اللہ۔

جمعہ کے دن کے احکام وآداب

آج کے درس میں ہماری گفتگو جمعہ کی نماز کے آداب واحکام کے سلسلے میں ہے:

§ جمعہ کی نماز اسلام کے عظیم شعائر میں سے ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿ﭑ ﭒ ﭓ ﭔ ﭕ ﭖ ﭗ ﭘ ﭙ ﭚ ﭛ ﭜ ﭝ ﭞ ﭟﭠ ﭡ ﭢ ﭣ ﭤ ﭥ ﭦ ﭧ﴾ (جمعہ : 9) "اے وه لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو" جو بغیر عذر شرعی کے اس سے پیچھے رہ جاتےہیں اللہ کے نبیﷺ نے ان لوگوں کے سلسلے میں دل پر مہر لگنے کی دھمکی ہے۔اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «لَيَنتهِينَّ أقوامٌ عن وَدْعِهم الجُمُعاتِ، أو لَيختمنَّ اللهُ على قلوبِهم، ثم لَيكونُنَّ مِنَ الغافلِينَ» " کچھ لوگ اپنے جمعہ کی نماز چھوڑنے سے باز آجائیں یا اللہ تعالی ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا،پھر وہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے"۔ (مسلم)

§ یہ آزاد، مکلف اور مقیم مردوں پر واجب ہے جن کے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔

§ جو جمعہ کی نماز ادا کرنے کےلیے آئے اس کےلیے مستحب ہے کہ وہ غسل کرے، خوشبو لگائے،عمدہ لباس زیب تن کرے، اس کےلیے جلدی کرے،جب مسجد میں داخل ہو تو دورکعت نماز ادا کرے، اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: «لا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَتَطَهَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ، وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَلا يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ، ثُمَّ يُصَلِّي مَا كُتِبَ لَهُ، ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الإمَامُ إِلا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الأُخْرَى»، " کوئی شخص نہیں ہے جو جمعہ کے دن غسل کرے ،حسب استطاعت پاکی حاصل کرے، جو تيل اس کے پاس موجود ہے اسے لگائے یا جو خوشبو اس کے گھر میں موجود ہے اسے استعمال کرے، پھر مسجد کےلیے نکلے، اور مسجد میں دو لوگوں کے بیچ سے نہ پھلانگے،پھر جو نماز ا س پر فرض کی گئی ہے اسے ادا کرے، پھر جب امام خطبہ دے تو اسے خاموشی سے سنے،مگر ایسے شخص کے اس جمعہ اور اس کے بعد والے جمعہ تک کے مابین گناہ بخش دیے جاتےہیں"۔ (بخاری)

§ جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن نبی کریمﷺ پر کثرت سے درود پڑھنا مستحب ہے، جیسا کہ اللہ کےنبی ﷺنےفرمایا: «إنَّ مِن أفضلِ أيَّامِكم يومَ الجُمعةِ فيه خلَق اللهُ آدَمَ وفيه قُبِض وفيه النَّفخةُ وفيه الصَّعقةُ فأكثِروا علَيَّ مِن الصَّلاةِ فيه فإنَّ صلاتَكم معروضةٌ علَيَّ»، "تمہارے ایام میں سے سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے، اسی دن اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صورپھونکا جائے گا، اسی دن چیخ ہوگی، اس لیے تم لوگ اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجو،اس لیے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے"۔( اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)

§ جو شخص جمعہ کے لیے حاضر ہو اس پرواجب ہے کہ وہ جمعہ کے خطبہ کو خاموشی کے ساتھ سنے، کسی اور چیز میں مشغول نہ ہو جیسے سجادہ یا موبائل فون وغیرہ سے کھیلنا، جیساکہ اللہ کےنبی ﷺ نے فرمایا: «إذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ أَنْصِتْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ»، "جب تم نے اپنے ساتھی کو جمعہ کو دن اس وقت جب کہ امام خطبہ دے رہا ہو،یہ کہا: "خاموش ہو جاؤ"، تو تم نے لغو کام کیا"۔ (متفق علیہ) اور آپ ﷺ نے فرمایا: «وَمَنْ مَسَّ الحَصَا فَقَدْ لَغَا» " جس نے كنكڑیوں کو چھوا تو اس نے لغو کیا"۔(اسے مسلم نے روایت کیا ہے)

§ جس نے امام کے ساتھ ایک رکعت جمعہ کی نماز پالی تو اس نے نماز ِجمعہ پالیا، جیسا کہ اللہ کےنبیﷺ نے فرمایا: «مَن أَدْرَك ركعةً من الصَّلاة، فقد أدركَ الصَّلاة» "جس نے ایک رکعت نماز پالی تو اس نے نماز جمعہ کو پالیا"۔ (متفق علیہ) تو جس نے امام کے ساتھ رکوع کو پالیا اس نے گویا تو اس نے جمعہ کو پالیا، ورنہ وہ ظہر کی نیت کرکے چار رکعت نماز پڑھے گا۔

اللہ تعالی ہمیں جمعہ کے دن کے فضائل کو غنیمت جاننے کی توفیق عطا فرمائے،ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں ، ہم اگلے درس میں عیدین کی نماز کے احکام کے سلسلے میں باتیں کریں گے ان شاء اللہ ۔

عیدین کی نماز کے احکام

اس درس میں ہماری گفتگو عیدین کی نماز کے مسائل سے متعلق ہوگی۔

§ عیدین دین کے ظاہری شعائر میں سے ہے۔جب نبی کریم ﷺمدینہ تشریف لائے اور انصار کو پایا کہ وہ سال کے دو دنوں میں کھیلتے اور خوشیاں مناتے ہیں تو آپ ﷺنے فرمایا: «قدْ أبْدَلكم اللهُ تعالى بهما خيرًا منهما؛ يومَ الفِطرِ والأضحى»، "یقینا اللہ تعالی نےان دونوں کے بدلے ان دونوں سے بہتر عطا کیا ہے وہ یوم الفطر اور یوم الأضحی ہے۔" اسے ابوداؤد نےروایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے)

§ عید کانام عید اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ لوٹتا اور بار بار آتا ہے۔ اس کے لوٹنے سےنیک فال لیتے ہوئے اسے عید کہا گیا ہے، تو یہ معصیت کا ارتکاب کیے بغیر فرحت وشادمانی کے اظہار کرنے کےدن ہیں۔

§ عید کی نماز بغیر اذان اور اقامت کے دو رکعت ہے،امام ان میں جہری قرأت کرے گا، پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کےعلاوہ چھ تکبیریں کہے گا، اور دوسری رکعت میں سجود سے قیام کی تکبیر کے علاوہ پانچ تکبیریں کہے گا،ہر تکبیر کےساتھ ہاتھ اٹھائےگا،جب امام سلام پھیر لے گاتب لوگوں کےبیچ دو خطبےدے گا جیسے جمعہ میں دیتا ہے۔

§ مسلمان کےلیےمستحب ہےکہ پاک وصاف ہوکر خوشبو لگائے، اپنا سب سے بہتر کپڑا زیب تن کرے،ایک راستے سے عیدگا ہ جائے اور دوسرے راستے سے واپس آئے۔

§ عید الفطر کے دن مستحب یہ ہےکہ نماز عید کےلیے نکلنے سے قبل طاق کھجوریں کھائے،جب کہ عید الاضحی میں نماز عید کے بعد اپنی قربانی سے کھائے۔

§ عورتوں کے لیے مسنون یہ ہےکہ وہ عید کی نماز کےلیے ظاہری زینت اختیار کیے بغیر اور عطر لگائے بغیر جائے۔ ام عطیہ کی روایت ہےوہ کہتی ہیں «أَمَرَنَا تَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ أَنْ نُخْرِجَ فِي الْعِيدَيْنِ: الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، وَأَمَرَ الْحُيَّضَ أَنْ يَعْتَزِلْنَ مُصَلَّى الْمُسْلِمِينَ»" آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا،اور وہ نبی کریم ﷺ مراد لےرہی تھیں، کہ ہم نوخیز اور پردہ پوش خواتین کو عیدین میں نکاليں ، اور حائضہ عورتوں کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کی نمازسے الگ رہیں۔ (متفق علیہ)

§ تکبیر کہنا مستحب ہے،تکبیر کا مستحب وقت عید کی رات غروب شمس سےلے کرنماز عید کے ختم ہونے تک ہے([24]

§ عید میں جو چیزیں مشروع ہیں وہ یہ کہ اللہ تعالی کی عبادت اور اس کی ہدایت وتوفیق پر اس کا شکر بجالاکر خوشی منائی جائے،اس میں مشروع ہےکہ عام طور پرلوگوں کے دلوں میں خوشی داخل کی جائے،صلہ رحمی کی جائے اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے"۔

§ عیدین کے دونوں دنوں کا روزہ رکھنا حرام ہے، اسی طرح عید کےدن کو قبرستانوں کی زیارت کے لیےمخصوص کرنا حرام اور ایجاد کردہ بدعت ہے۔

اللہ تعالی ہماری عیدوں کوایسی خوشی بنائے جس میں اعمال قبول کیے جائیں، گناہ معاف کیے جائیں، درجات بلند کیے جائیں، ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں۔

جنازے کے احکام (1)

اس درس میں ہماری گفتگو جنازے کے احکام ومسائل سے متعلق ہے۔

اس موضوع کے مسائل کی تفصیل میں داخل ہونے سے قبل ہمارے اوپر ضروری ہے کہ ہم اس دن کی تیاری کریں جس میں ہمیں اس دنیا سے رخت سفر باندھنا ہے اور موت کا مزہ چکھنا ہے۔ جس دن قیامت قائم ہوگی،اس دن کی تیاری اس طرح کریں کہ توبہ کرنے میں جلدی کریں،اگر آپ نے کسی کا حق مارا ہے یا کسی پر ظلم کیا ہے تو اس کا حق اس کے اہل کی طرف لوٹادیں اور معافی تلافی کرلیں، طاعتوں کی طرف متوجہ ہوں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿ﰐ ﰑ ﰒ ﰓ ﰔ ﰕ ﰖ ﰗ﴾ (کہف:110) ترجمہ:"تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے"۔ تو باشعور عاقل وہ ہے جو ہمیشہ اس لحظہ کو یاد کرتا رہتا ہے جس میں اس کا عمل منقطع ہوجائے گا اور اس کے بعد حساب شروع ہوجائےگا۔ واللہ المستعان

§ جو شخص مریض کی زیارت کرے اسے چاہیے کہ وہ اس کےلیےشفایابی کی دعا کرے، اس میں نیک فال اور اللہ سے حسنِ ظن کو ابھارے۔ جیساکہ نبی کریم ﷺجب بھی کسی مریض کی زیارت کرتے تو کہتے: «لَا بَأْسَ، طَهُورٌ إِنْ شَاءَ الله» " کوئی بات نہیں، ٹھیک ہوجائیں گے ان شاء اللہ" (بخاری)

§ اگر مریض کے موت کے قریب ہونے کی نشانیاں ظاہر ہوجائیں تو اسے کلمۂ توحید اور جنت کی کنجی "لاالہ الا اللہ" کے کہنے پر حکمت کے ساتھ اور اچھے اسلوب میں ابھارے اوراس کی تلقین کرے، اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله»"اپنے مرنے والوں کو لاالہ إلا اللہ کی تلقین کرو"۔ (اسےمسلم نے روایت کیا ہے)ا گر اس بات کا خوف ہو کہ وہ جھنجھلا جائے گا تو صراحتا اس کی تلقین نہیں کی جائے بلکہ اس کے نزدیک شہادت کی تکرار کی جائے، اس لیے کہ اللہ کےنبیﷺ نےفرمایا: «مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ مِنَ الدُّنْيَا لَا إِلَهَ إِلَّا الله دَخَلَ الْجَنَّةَ»، " اس دنیا میں جس کا آخری کلمہ لاإلہ إلا اللہ ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا"۔ (اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اسے البانی نے حسن قرار دیاہے)

§ جب مسلمان مر جائے تو مستحب ہے کہ اس کی دونوں آنکھیں بند کردی جائیں ، اس کےلیے رحمت ومغفرت کی دعا کی جائے، اس کے تجہیز وتکفین میں جلدی کی جائے، اس کے اہل خانہ کی اعانت ومدد کی جائے۔اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَةِ فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا إِلَيْهِ وَإِنْ تَكُ سِوَى ذَلِكَ فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ» "جنازہ میں جلدی کرو، اس لیے کہ اگر وہ نیک ہےتو نعمتوں میں سے جو بہتر ہے تم اسے اس کی طرف پیش کررہے ہو، اور اگر اس کے علاوہ ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتار رہے ہو"۔ جب جعفر بن أبی طالب رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے تواللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا، فَقَدْ أَتَاهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ»، "آل جعفر کےلیے کھانا تیار کرو، ا س لیے کہ ان پر ایسا امر وحادثہ پیش آگیا ہے جس نے انہیں اس کاموقع نہیں دیا ہے"۔ (اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اسے البانی نے حسن قرار دیا ہے۔)

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ حسنِ عمل اور حسنِ خاتمہ کی توفیق عطا فرمائے۔اپنے سیدھے راستے پر ثابت قدم رکھے۔ ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں۔ اگلے درس میں ہم میت کے تکفین وغسل اور اس پر نماز جنازہ ادا کرنے کے سلسلےمیں گفتگو کریں گے ان شاء اللہ۔

جنازے کے احکام (2)

ہم نے گذشتہ درس میں جنازہ کے بعض احکام کے سلسلےمیں گفتگو کی تھی۔اس درس میں ہماری گفتگو میت کے غسل وتکفین اور ا س پر نماز جنازہ ادا کرنےسے متعلق ہے:

§ ایک مسلمان کی موت کے بعد واجب ہے کہ اسے غسل دیا جائے۔پہلے اس کے ستر کی پردہ پوشی کی جائے، پھر غسل دینے والا میت سے گندگی کو دور کرے، پھر اسے شرعی وضوء کرائے، پھر اسے پانی اور بیر کے پتے سے تین مرتبہ غسل دے، پھر پانی اس کے جسم پر تین مرتبہ بہائے،پانی دائیں سے بائیں کی طرف بہائے،اگر زیادہ کی ضرورت پڑے تو زیادہ کرے لیکن طاق ہی اضافہ کرے، آخری مرتبہ جو پانی ڈالے وہ کافور والا ہو، یہ مستحب طریقہ ہے، اور غسل اتنے سے بھی کافی ہوگاجس سے میت سے گندگی دور ہو جائے،پانی اس کے جسم پر بہایا جائے، خاتون اپنے ہم مثل خاتون کو غسل دے گی یا اپنے شوہر کو غسل دے گی۔

§ مرد کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا جائے گا اور حنوط – ایک قسم کی خوشبو – میت کے منافذ یعنی سر، آنکھ، ناک، کان، پیشانی اور داڑھی اور سجدہ کی جگہوں پر اور کفنوں کے مابین لگایا جائے گا، عورت کو ایک تہہ بند، چادر، دوپٹہ اور دو لفافے میں کفن دیا جائے، کفن کےلیے کم ازکم اور واجب ایک ایسا کپڑا ہے جو میت کے پور ے جسم کو ستر کردے۔

§ پھر جنازہ لایا جائے گا تاکہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے، تو امام مرد کے سر کے پاس کھڑا ہوگا اور عورت کے وسط میں کھڑا ہوگا،وہ چار تکبیریں کہے گا، پہلی تکبیر کے بعدسورۂ فاتحہ سرِّی طور پر پڑھےگا، پھر تکبیر کہےگااور نبیﷺ پردرود بھیجےگا، پھر تکبیر کہے گا اور میت کے لیے دعا کرےگا، پھر تکبیر کہے گا اور دائیں جانب ایک سلام کرے گا۔

جسے نمازِ جنازہ میں سے کچھ بھی چھوٹ جائےتووہ اسے امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کرلے، اگر اسےخوف ہو کہ جنازہ اٹھا لیا جائے گا توتکبیروں کی متابعت کرے اور سلام پھیر لے، جس کی نماز جنازہ چھوٹ جائے وہ میت پر دفن سےقبل نماز جنازہ پڑھ لے،دفن کے بعد بھی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔

§ جنازہ پر نماز کی فضیلت میں سے یہ ہےکہ اللہ کےرسولﷺ نےفرمایا: «مَن شَهِدَ الجَنازَةَ حتَّى يُصَلَّى عليها فَلَهُ قِيراطٌ، ومَن شَهِدَها حتَّى تُدْفَنَ فَلَهُ قِيراطانِ، قيلَ: وما القِيراطانِ؟ قالَ: مِثْلُ الجَبَلَيْنِ العَظِيمَيْنِ»، "جو جنازہ میں شریک ہو ا اور اس وقت تک رہا یہاں تک کہ اس پر نماز پڑھی جائے تو اس کےلیے ایک قیراط ہے، اور جو دفن کیے جانے تک موجود رہا تو اس کے لیے دو قیراط ہے، کہا گیا کہ قیراط کیاہے؟ تو آپﷺ نےفرمایا: دو عظیم پہاڑوں کےہم مثل"۔ (متفق علیہ)

§ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا لَا يُشْرِكُونَ بِالله شَيْئًا إِلَّا شَفَّعَهُمْ الله فِيهِ» " کوئی مسلمان شخص نہیں ہے جو وفات پاجائے، اور اس کے جنازہ میں چالیس افراد کھڑے ہوں ، وہ اللہ کے ساتھ کچھ بھی شریک کرنے والے نہ ہوں ، مگر اللہ تعالی اس کے سلسلے میں ان کی سفارش ضرور قبول فرمائےگا"۔ (مسلم)

اے اللہ ہمارے سب سے بہتر اعمال، ان میں سے آخری اعمال کو بنادے،ہماری عمروں میں سے سب سے بہتر عمر، ان میں سے آخری عمر کو بناد ے، ہمارے سب سے بہتر ایام میں اس کو بنادے جس دن ہم تم سے ملیں اور تم ہم سے راضی ہو، ہم اسی پراکتفا کرتے ہیں، ہم اگلے درس میں اللہ کے حکم سے ان غلطیوں اور منکرات کے سلسلے میں بات کریں گے جن میں ایک مسلمان کی موت کےبعدبعض لوگ مبتلاہوتے ہیں۔

جنازے کے احکام (3)

ہم نے اس سے قبل جنازہ کے احکام اور اس پر نماز ادا کرنے کے سلسلے میں گفتگو کی تھی۔ آج ہم ان بعض غلطیوں اور منکرات کے سلسلے میں بات کریں گے جن میں بعض لوگ مسلمان کی موت کے بعد مبتلاہوتےہیں:

§ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نےکہا ہے: ان امور میں مسلمانوں پر واجب ہےکہ صبر کریں ، ثواب کی امید رکھیں،نوحہ نہ کریں، کپڑے نہ پھاڑیں،گالوں کو نہ پیٹیں، اسی طرح کی ہدایت اللہ کےنبیﷺنےدی اور فرمایا: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ»، "ہم میں سے نہیں ہے جو گالوں کو پیٹے اور گریبان کو چاک کرے اور جاہلیت کی باتیں بکے" اور اللہ کے رسو لﷺ نے صحیح حدیث میں کہا: «أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يَتْرُكُونَهُنَّ الْفَخْرُ فِي الْأَحْسَابِ وَالطَّعْنُ فِي الْأَنْسَابِ وَالْاسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ وَالنِّيَاحَةُ وَقَالَ: النَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ»" "میری امت میں چار چیزیں جاہلیت کے امور میں سے ہیں جنہیں وہ نہیں چھوڑیں گی، حسب پر فخر کرنا، نسب میں طعن وتشنیع کرنا، ستاروں سے بارش طلب کرنااور نوحہ کرنا، اورکہا: نوحہ کرنے والا اگر اپنی موت سے قبل توبہ نہ کرے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھایا جائےگا کہ اس کے بدن پر تارکول کا لباس اورخارش کی قمیص ہوگی"۔ (مسلم)نوحہ میت پر روکر آواز بلند کرنا ہے۔ ابوموسی عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتےہیں: «أنّ رسول الله ﷺ بَرِيءَ من الصَّالِقَةِ وَالحَالِقةِ وَالشَّاقَّةِ» " اللہ کے رسولﷺ بری ہیں مصیبت کے وقت رونے پیٹے والی ، مصیبت کے وقت بال نوچنےوالی اور مصیبت کے وقت کپڑے پھاڑنے والی سے"۔ تو مصیبت کے وقت رونا چلانا، بال نوچنا اور کپڑے پھاڑنا یہ سب غیر درست عمل ہے۔نہ ہی عورت اورنہ مرد کےلیے ان میں سےکچھ بھی کرنا جائز ہے۔

§ اور ان غلطیوں میں سے جن میں بعض لوگ مبتلاہوتےہیں میت کے قرض کی ادائیگی یا اس کی وصیت کو نافذ کرنے میں تاخیر کرناہے۔اللہ کےنبیﷺ نے فرمایا: «نفْسُ المؤمِن مُعلَّقة بدَيْنِه؛ حتى يُقضَى عنه»، "مؤمن کا نفس اس کے قرض کی وجہ سے معلق رہتا ہے، یہاں تک کہ اسے ادا کردیا جائے" ( اسے ابن ماجہ نےروایت کیا ہے اور البانی نے صحیح قراردیاہے۔)

§ اور منکر بدعتوں میں سے جن سے اللہ کےرسولﷺ نے منع فرمایا ہےقبروں کو نماز کی جگہ بنانا ہے،یا اس پر مسجد بنانا ہے، یا میت کو مسجد میں دفن کرنا ہے۔ اللہ کےنبیﷺ نےفرمایا: «أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ»، " جان لو تم سے پہلے جو لوگ تھےوہ اپنے انبیاء وصالحین کی قبروں کو مسجدیں بنالیتے تھے، جان لوتوتم قبروں کو مسجد یں نہ بناؤ، یقیناً میں نے تمہیں اس سےمنع کیا ہے"۔ (مسلم)

§ مسلم نے اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہےکہ اللہ کےرسولﷺ نے منع فرمایا اس بات سےکہ قبر پر چونا لگایا جائے یا اس پر بیٹھا جائے یا اس پر عمارت تعمیر کی جائے" اور ترمذی نے اضافہ کیا ہے: " اور یہ کہ اس پرلکھاجائے"۔

§ قبروں کی بدعتوں میں سے قبروں پر پھول رکھنا ہے۔

اے اللہ ہمیں تو اپنے رسولﷺ کی پیروی کرنے والوں میں سےبنا جو آپ کے نقش قدم پر چلیں اور آپ کی سنت کو مضبوطی سے تھامیں۔ ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں۔ہم اگلے درس میں ارکانِ اسلام میں سے تیسرے رکن زکوۃ کے سلسلےمیں گفتگو کریں گے ان شاء اللہ۔

زکوۃ کےاحکام (1)

اس درس میں ہماری گفتگو اسلام کے ارکان میں سے تیسرے رکن سے متعلق ہے اور وہ زکوۃ ہے۔ زکوۃ مالی فريضہ ہے جسے اللہ تعالی نےمالدار مسلمان پرفرض قرار دیا ہے۔اس کا مقصد مال کی پاکی اورفقراء ومساکین وغیرہ مستحقینِ زکوۃ کی غمخواری ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: ﴿ﮛ ﮜ ﮝ ﮞ﴾ (بقرۃ: 43) ترجمہ: "اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰة دو" اور اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ﮚ ﮛ ﮜ ﮝ ﮞ ﮟ ﮠ﴾ (توبہ:103) ترجمہ:"آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں"۔

§ اللہ تعالی نےان مصارف کی تحدید فرمائی ہے جن میں زکوۃ خرچ کی جائےگی۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿ ﮡ ﮢ ﮣ ﮤ ﮥ ﮦ ﮧ ﮨ ﮩ ﮪ ﮫ ﮬ ﮭ ﮮ ﮯ ﮰﮱ ﯓ ﯔ ﯕﯖ ﯗ ﯘ ﯙﯚ﴾ (توبہ :60) ترجمہ:"صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راه میں اور راہرو مسافروں کے لیے، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم وحکمت والاہے"۔

فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، یا جتنا اس کے لیے کفایت کرے اس کے نصف سے بھی کم ہو۔

مسکین وہ ہے جس کے پاس کفایت کرنے کی مقدار سے نصف یا زیادہ ہو لیکن جتنا کفایت کرے اس سے کم ہو۔

عاملین علیہا سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس کے جمع کرنے، اس کی حفاظت کرنے اور اس کی تقسیم کرنے کے مکلف اور ذمہ دار ہیں، انہیں ان کے عمل کے بقدر دیا جائےگا۔

تالیف ِقلب کیے جانے والوں سے وہ کفار مراد ہیں جن کے اسلام کی امید کی جائے یا جن کے شر سے بچاسکے،یا ایسے مسلمان مراد ہیں جن کےتالیف قلب یاایمان میں اضافہ کی امید کی جائے ۔

رقاب سے مراد غلام آزاد کرنا اور مسلمان قیدیوں کو چھڑانا ہے۔

غارم سے وہ شخص مراد ہے جس پر قرض ہو اوروہ اسے ادا کرنے سے عاجز ہو، یا اس کا قرض باہمی تعلقات کی اصلاح کے لیے ہواگرچہ وہ اس پر قادر ہو۔

فی سبیل اللہ سےمراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔

ابن السبیل سے مراد وہ مسافر ہے جو اپنے سفر میں الگ تھلگ پڑ گیا ہو، اس کو اتنا دیا جائے گا جتنے سے وہ اپنے ملک لوٹ جائے۔

§ زکوۃ اس کافر کو دینا جائز نہیں ہے جس کا تالیف قلب نہ ہو پائے، اور نہ اسے دیا جائے گا جس پر اس کا نفقہ لازم ہے جیسے بیوی، اور اصول جیسےباپ اور فروع جیسے اولاد، اور نہ بنی ہاشم کو دیا جائےگااور وہ آل نبی ہیں۔

زکوۃ واجب نہیں ہے مگر صرف اس پر جو نصاب کو پہنچ گیا ہو، ان چیزوں پر زکوۃ واجب نہیں ہے جو انسان کے اپنے ذاتی فائدے کی ہوں جیسے گھر، گاڑی، کپڑے۔ (سونے چاندی کے ایسے زیورات جو استعمال کےلیے ہوں تجارت کےلیے نہیں، ان میں زکوۃ کے وجوب کے سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔)

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتےہیں کہ وہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو صحیح طریقے سے اپنے مال کا زکوۃ دیتے ہیں۔ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں، ہم اگلے درس میں ان اصناف کے متعلق باتیں کریں گے جن میں زکوۃ واجب ہے۔

زکوۃ کےاحکام (2)

ہم نے پچھلے درس میں زکوۃ کے مصارف اور اس کے بعض احکام کے سلسلے میں گفتگو کی تھی۔ اس درس میں ہماری گفتگو ان اصناف کے سلسلے میں ہوگی جن میں زکوۃ واجب ہوتی ہے، اور وہ ہیں:

1. پہلی صنف: اثمان (نقد مال یا سامان) اور وہ ہیں: سونا: (وجوب زکوۃ کے لیےاس کا نصاب 85 گرام ہے۔) چاندی (اس کانصاب 595 گرام ہے۔) کیش جیسے ریال وغیرہ ، اس کا نصاب سونے یا چاندی کےنصاب کی قیمت ہے۔ ان دونوں میں سے جو کم ہو،جب مال نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر حولان حول ہوجائے، (یعنی مسلمان کی ملکیت میں اس پر ایک پورا سال گذر جائے)تو اس پر عشر کا ربع نکالنا واجب ہوگا جو2.5 فیصد کے مساوی ہے۔

مال کی زکوۃ کا حساب نکالنے کا آسان طریقہ یہ ہےکہ آپ مجموعی مال کو 40 حصے میں تقسیم کریں ، تو ان میں کا ایک حصہ وہ مال ہوگا جسےآپ کو زکوۃ میں نکالنا ہے۔ تو اس طرح آپ کےلیے زکوۃ کی اس مقدار کی معرفت آسان ہوجائے گی جس کا نکالنا واجب ہے۔

2. دوسری قسم جس میں زکوۃ نکالنا واجب ہے، بہمیۃ الانعام ہیں۔ اور وہ ہیں: (اونٹ ،بکری ، گائے) اور اس میں شرط یہ ہےکہ وہ سال کے زیادہ تر اوقات میں چرے، اور اس کا مالک اسے خود سے چارہ دے کر نہ کھلائے،اور اسے افزائش نسل کے لیے رکھا گیا ہو، (کام کےلیے نہیں جیسے کھیتی باری اور پانی نکالنے کےلیے) اس کا نصاب اونٹ میں 5، گائے میں :30، اور بکری میں :40 ہے۔ بہیمۃ الأنعام کے زکوۃ کی تفصیلات صحیح حدیثوں میں اور فقہ کی کتابوں میں شرح وبسط سے بیان کی گئی ہیں۔

3. تیسری قسم جس میں زکوۃ واجب ہوتی ہے وہ ہے جو زمین سےنکلتی ہے جیسے غلے ، پھل اور فصلیں۔ صرف ان پھلوں میں زکوۃ واجب ہے جو وزن کیے جاسکتے ہوں، یعنی صاع یا اس جیسے کسی ذریعہ سے، اور جنہیں جمع اورذخیرہ کیا جاسکتا ہے، جیسے گیہوں، کھجور، منقی اور مکئی، لیکن جنہیں ذخیرہ نہیں کیا جاسکتا جیسے خربوزہ، انار، کیلا تو اس میں زکوۃ نہیں ہے۔

اللہ کےنبی ﷺ نےزمین سےنکلنے والی چیز میں زکوۃ کے نصاب کو بیا ن کرتے ہوئے فرمایا: «وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ صَدَقَةٌ»، "کھجور میں پانچ وسق سےکم میں صدقہ نہیں ہے"۔وسق ایک ایسا وزن کرنے کا آلہ ہے جس میں حجم کے ذریعہ تولا جاتا ہے وزن کے ذریعہ نہیں،اور وہ تین سو صاع کے مساوی ہوتا ہے۔ اس کا وزن اچھے گیہوںمیں تقریبا 612 کیلوگرام ہے۔

زمین سے نکلنے والی چیز میں زکوۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب دانہ پک جائے اورپختہ ہوجائے، پھل صحیح سالم طریقہ سےتیار ہوجائے اور کھیتی کی پیداوار تیار ہوجائے جیساکہ اللہ تعالی نےفرمایا: ﴿وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾ (أنعام:141) "اور اس میں جو حق واجب ہے وه اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو"۔

زکوۃ کی مقدار: بغیر مشقت کے جو سیراب ہو( جیسے جو بارش کے پانی یا رواں چشمے سے سیراب ہو) اس میں عشر یعنی دسواں حصہ ہے، اور جو مشقت سے سیراب ہو یعنی جسے آلات یا پمپ سے سیراب کیاجائے تو اس میں بیسواں حصہ ہے۔

4- چوتھی قسم جس میں زکوۃ واجب ہوگی وہ تجارت کےسامان ہیں،اور وہ ہر چیز ہے جو فائدہ کی غرض سے خرید بکری کے لیے رکھی گئی ہو۔ اس کی نقد قیمت لگا کر اس کے چالیسواں حصہ میں سے ایک حصہ زکوۃ نکالا جائے گا۔

اےاللہ ہمارے نفوس میں تقوی ڈال دے،ان کاتزکیہ فرما، تو بہترین تزکیہ کرنے والا ہے، تو ہی ان کاولی ومولی ہے، ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں، اگلے درس میں ہم اللہ کے حکم سے زکوۃ الفطر کےاحکام کے سلسلے میں گفتگو کریں گے۔

زكاة الفطر کے احکام

اس درس میں ہماری گفتگو زکوۃ الفطر کے احکام کے سلسلے میں ہے:

زکوۃ الفطر روزہ دار کےلیے پاکی، مساکین کے لیے غذا اور ما ہ رمضان کے تکمیل پر اللہ تعالی کا شکرانہ ہے۔

زکوۃ الفطرہر اس شخص پر واجب ہے جو عید کا دن اور اس کی رات پائے، اور اس کے پاس اپنی اور جن کی کفالت کرتا ہے ان کی خوراک اور ان کی بنیادی ضرورتوں سے زائد ہوتو اس کےلیے ایک صاع زکوۃ الفطر دینا ہے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتےہیں: «فَرَضَ رَسُولُ الله ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّكَرِ وَالأنْثَى وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ»"اللہ کے رسول نے زکوۃ الفطر ایک صاع کھجور یاایک صاع جو مسلمانوں میں سے غلام وآزاد، مردوعورت اور چھوٹے اور بڑے پر فرض قرار دیا"۔( متفق علیہ)

اس کی مقدار: ملک کی عام خوراک (جو، گیہوں، کھجور، کشمش ،پنیر ، چاول یا مکئی وغیرہ)سےایک صاع ہے۔ صاع ایسا وزن ہے جسے حجم کے ذریعہ ناپا جاتا ہے وزن نہیں کیا جاتا،تو ناپی گئی خوراک کے اختلاف کی وجہ سے اس میں بھی اختلاف ہوگا۔ دائمی کمیٹی برائے فتوی نے اس کے وزن کا تخمینہ کچھ اس طرح لگایا ہے کہ چاول میں صاع کاوزن تین کیلو گرام ہوگا۔ جمہور اہل علم کے نزدیک غلہ کی قیمت نکالنی جائز نہیں ہے۔

زکوۃ الفطر نکالنےکا وقت:عید کی رات غروب شمس سے لے کرنماز عید کےلیے امام کے پہنچنے تک رہے گا۔ اس کا ایک یا دو دن قبل نکالنا بھی جائز ہے۔ (یعنی 28 تاریخ کے غروب کے بعد) جو اسے اس کے وقت پر نہ نکال سکے ، اس پر اس کا بعد میں بطور قضا نکالنا واجب ہے۔ اگر تاخیر بغیر کسی شرعی عذر کے ہے تو اس کےلیے اس کا توبہ واستغفار کے ساتھ نکالنا واجب ہے۔

اصل یہ ہےکہ زکوۃ الفطر اس ملک میں نکالا جائے گا جس میں زکوۃ دینے والا موجود ہے، مگر اگر کوئی شرعی مصلحت ہو تو جہاں مقیم ہے وہاں سے باہر بھی اسے منتقل کرسکتا ہے، مثلا بلد اقامت میں فقراء کانہیں پایا جانا، یا ان لوگوں کے پاس اسے بھیجنا جو اس کے زیادہ ضرورت مند ہیں، یا اپنے اقارب فقراء کو بھیجنا۔ بغیر مصلحت کے زکوۃ کو منتقل کرنے کی صورت میں تحریم یا کراہت کے ساتھ یہ کافی ہوجائے گا۔

اے اللہ تو ہمارے لیے اپنے حلال کو کافی بنادے، حرام سےبچا دے، تو اپنے فضل سے ہمیں ان تمام چیزوں سے بے نیاز کردے جو تیرے سوا ہیں۔ ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں، ہم اگلے درس میں اسلام کے ارکان میں سے چوتھے رکن کے سلسلے میں گفتگو کریں گے اور وہ صیام ہے۔

صیام کے احکام (1)

اس درس میں ہم اسلام کے ارکان میں سے چوتھے رکن کے سلسلے میں گفتگو کریں گے اور وہ رمضان کا صیام ہے۔

صیام طلوع فجر ( اور وہ اذان فجر کا وقت ہے) سے غروب آفتاب (اور وہ مغرب کی اذان کا وقت ہے) تک اللہ تعالی کی بندگی بجالانے کےلیے کھانے، پینے اور تمام مفطرات سے رکنے کا نام ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿ﭣ ﭤ ﭥ ﭦ ﭧ ﭨ ﭩ ﭪ ﭫ ﭬ ﭭ ﭮ ﭯ ﭰﭱ﴾ (بقرۃ:138)"اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو"۔

§ ماہ رمضان کے عظیم فضائل ہیں، ان میں سے:

§ اللہ کے رسولﷺ نےفرمایا: «إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتْ الشَّيَاطِينُ»"جب رمضان آجاتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتےہیں، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتےہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے"۔ (متفق علیہ)

§ اور اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «مَن صامَ رمضانَ إيمانًا واحتسابًا، غُفِرَ لَهُ ما تقدَّمَ من ذنبِهِ، ومَن قامَ ليلةَ القدرِ إيمانًا واحتِسابًا غُفِرَ لَهُ ما تقدَّمَ من ذنبِهِ»، "جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سےروزہ رکھا، تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں، اور جو لیلۃ القدر میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جاتےہیں"۔ (متفق علیہ)

§ اور اللہ کے رسولﷺ نے رمضان کی فضیلت کے سلسلے میں فرمایا: «كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ، الْحَسَنَةُ عَشْرُ أمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ، قال اللهُ تعالى: إِلا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِي وَأنَا أجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أجْلِي، لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ، وَلَخُلُوفُ فِيهِ أطْيَبُ عِنْدَ الله مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ»، "ابن آدم کا ہر عمل کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے، نیکی دس گنا سے لے سات سو گنا تک کردی جاتی ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: سوائے روزہ کے ، تو وہ میرےلیے ہے اور میں اس کا بدلہ دیتا ہوں، بندہ میری وجہ سے اپنی شہوت اور اپنا کھانا چھوڑ دیتا ہے، صائم کےلیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری خوشی اس کے رب سے ملاقات کےوقت، اور اس کے منہ کی خوشبو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے"۔ (بخاری)

§ رمضان کا روزہ ہر مسلمان بالغ عاقل مستطیع پر واجب ہے، جو بیمار ہو،اور ا س پر روزہ مشکل ہو، یا روزہ کی وجہ سےبیماری کے بڑھنے کا خطر ہ ہو، یا مسافر ہو تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے، ایسے شخص کا عذر جب زائل ہوجائےتووہ اسے قضا کرے گا، لیکن جس کا مرض دائمی ہو، جس کے شفایابی کی امید نہ ہو، تووہ روزہ چھوڑ دے گا اور ہر د ن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے گا، اسی طرح وہ شخص کرے گا جو درازئ عمر کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے([25]

§ حائضۃ اور نفاس والی عورتوں پر روزہ رکھنا حرام ہے۔ان دونوں پر طہر کے بعد اس کی قضاء کرنی واجب ہے۔

§ صائم کےلیے مستحب ہےکہ وہ سحری کرے اور سحری میں تاخیر کرے۔ اسی طرح اس کےلیے افطار میں جلدی کرنا مستحب ہے، اس پر واجب ہےکہ وہ قولی وفعلی معاصی سے اجتناب کرے،اگر اسے کوئی گالی دے یا کوئی اس سے جھگڑے تو اس سے بس یہ کہے: میں روزہ دار ہوں۔

اے اللہ ہمیں شہرِ رمضان میں پہنچا اور ان لوگوں میں سے بنا جو اس کا روزہ رکھتےہیں ، ایمان اور ثواب کی نیت سے اس کا قیام کرتےہیں، ہم اسی پراکتفا کرتےہیں، ہم اگلے درس میں اللہ کےحکم سے روزہ توڑنےاور اسے باطل کردینی والی چیزوں کے سلسلے میں گفتگو کریں گے۔إن شاء اللہ۔

صیام کے احکام

ہم نے گذشتہ درس میں ماہ رمضان، اس کی فضیلت اور اس کے بعض احکام کے سلسلے میں گفتگو کی تھی۔اس درس میں ہم اپنی گفتگو روزہ توڑنے والی اور اسے باطل کرنے والی چیزوں کے بارے میں کریں گے۔ روزہ توڑنے والی چیزیں جن سے روزہ باطل ہوجاتا ہے، وہ ہیں:

§ جماع اور منی نکالنا

§ جان بوجھ کر کھانا اور پینا ، اور ہر وہ چیز کرنا جو کھانے اور پینےکے ہم معنی ہے جیسے غذائی انجکشن لگوانا اور خون چڑھوانا ۔

§ حجامہ کے ذریعہ خون نکلوانا

§ جان بوجھ کر قےکرنا

§ عورت سے حیض ونفاس کا خون نکلنا

§ سابقہ روزہ توڑنےوالی چیزوں سے روزہ فاسد نہیں ہوگا مگر تین شرطوں کے ساتھ: یہ کہ روزہ دار حکم کا جاننے والا ہو، اسے یاد ہو، اور وہ خود اسے کرے(سوائے حیض اور نفاس کے)۔

ان امور میں سے جن کے متعلق سؤال کثرت سے کیا جاتا ہے اور وہ روزہ توڑنے والی چیزوں میں سے نہیں ہیں، وہ ہیں:

- خون ٹیسٹ کروانا، ڈاڑھ نکلوانا، غیر غذائی انجکشن لگوانا، استھما اسپرے استعمال کرنا یا اکسیجن لگوانا، دبر میں دوا Suppositoryڈالنا([26])، ناک میں دوا ڈالنا جب کہ وہ حلق تک نہ پہنچے اور آنکھ اور کان میں دوا ڈالنا۔

- مسواک کرنا،ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا(اسے گھوٹنے سے بچتے ہوئے) بخور استعمال كرنا (اسے ناک سے نہ کھینچے)

- احتلام ، ناك سے خون نکلنا اور بلغم گھونٹنا۔

- عورتوں کا استحاضہ، اورغیر مخصوص وقت میں عورتوں کو پیلے یا خاکی رنگ کا خون آنا جو معتاد وقت کے علاوہ ہو۔

اے اللہ ہمیں وہ چیزیں سکھا جو ہمیں فائدہ پہنچائیں، جو ہمیں تونےسکھایا ہے ان سے نفع پہنچا، ہمارے علم میں اضافہ فرما، ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں، ہم اگلے درس میں اللہ کے حکم ومشیئت سے اسلام کے پانچویں رکن کے سلسلے میں گفتگو کریں گے جو حج ہے۔

حج کے احكام

آج ہمارا درس ارکان اسلام میں سے پانچویں رکن سے متعلق ہے اوروہ حج ہے:

حج اسلام کے عظیم ترین شعائر میں سے ہے۔ اس میں بدنی ، قلبی اور مالی ہر قسم کی عبادتیں جمع ہوتی ہیں۔ اس میں بندوں کےلیے عظیم منافع ہیں: جیسے اللہ تعالی کی توحید کا اعلان، حجاج کو حاصل ہونے والی مغفرت، مسلمانوں کے مابین اتحاد وہم آہنگی اور اس کے علاوہ اور بھی حکمتیں اور منافع ۔

§ حج کی فضیلت عظیم ہے اور اس کا ثواب بھرپور ہے۔ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «مَنْ حَجَّ لِله فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ»، "جس نے اللہ کے لیے حج کیا ، اور جماع کے قریب نہیں گیااور نہ ہی فسق وفجور کیا تو وہ اس دن کی طرح لوٹا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا"۔(متفق علیہ)

§ عمر میں ایک مرتبہ حج ادا کرنا([27])مسلمان، آزاد، بالغ ، عاقل اور بدنی ومالی طور پر مستطیع([28]) شخص پر واجب ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿ﮬ ﮭ ﮮ ﮯ ﮰ ﮱ ﯓ ﯔ ﯕﯖ ﯗ ﯘ ﯙ ﯚ ﯛ ﯜ ﯝ ﯞ﴾ (آل عمران:97) ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راه پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے۔ اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ (اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بےپرواه ہے"۔

§ جس کے پاس اس کی بنیادی ضرورتوں اور جن کی کفالت کرتا ہے ان کی ضرورتوں سے زائد مال نہ ہو تو اس پر حج واجب نہیں ہوگا، نہ ہی اس پر یہ واجب ہےکہ وہ حج کےلیے کسی سے قرض لے۔

§ جو مالی طور پر حج کی استطاعت رکھتا ہے لیکن بدنی طور پر اس کی استطاعت نہیں رکھتا، جیسے کوئی عمر دراز ہو، یا دائمی مریض ہو، تو وہ ایسے شخص کو نائب بنائے گا جو اس کی طرف سے حج کرے، اور وہ شخص اس کے حج کےاخراجات کی کفالت کرےگا۔

§ حج کے شروط ،ارکان اور واجبات وممنوعات ہیں، ان کے جاننے کےلیے فقہ کی کتابوں اور اہل علم کے فتاوی کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

§ حج کی طرح عمر میں ایک مرتبہ عمرہ ادا کرنا واجب ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتےہیں: «إِنَّهَا لَقَرِينَتُهَا فِي كِتَابِ الله ﴿ﮱ ﯓ ﯔ ﯕﯖ﴾» " وہ اللہ کی کتاب میں اس کا قرین وساتھی ہے" ارشاد ربانی ہے: ﴿ﮱ ﯓ ﯔ ﯕﯖ﴾ " اور حج اور عمرہ کو اللہ کےلیے پورا کرو"۔(بخاری)

اب ہم اللہ تعالی کے فضل سے ارکانِ ایمان اور ارکانِ اسلام کے تعارف سے فارغ ہوچکے ہیں۔ اگلے دروس میں ہم اللہ کےحکم سے ایسے مختلف موضوعات پرگفتگو کریں گے جو مسلمانو ں کےلیے اہم ہیں، جیسے اسلامی اخلاق، مالی معاملات اور کھانے اور لباس کے احکام۔

مسلمانوں کےلیے اہم موضوعات

خیرخواہی

اس درس میں گفتگو ایک عظیم حدیث نبوی سےمتعلق ہے۔بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ وہ اسلام کا مدار ہے او ر وہ یہ ہے:

ابو رقیہ تمیم بن أوس الداری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہےکہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «الدِّينُ النَّصِيحَةُ». قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: «لِله، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ»، "دین خیر خواہی کا نام ہے" ہم نےکہا: کس کےلیے؟ آپ ﷺنےفرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کےلیے، اس کےرسول کےلیے، مسلمانوں کے سربراہوں اور عام مسلمانوں کےلیے" (مسلم) اور حدیث کے فوائد میں سے یہ ہے:

دین اسلام پورا کا پورا خیر خواہی پر قائم ہے، اور وہ صدق واخلاص اور بھلائی کیے جانے والے کےلیے خیر کے ارادہ کا نام ہے۔ " نصیحہ" ایسا کلمہ ہے جو دنیا وآخرت دونوں کی بھلائیوں کو جامع ہے۔قوموں کےلیے یہ انبیاء علیہم السلام کا پیغام تھا۔ کوئی نبی ایسے نہیں ہیں جنہوں نے اپنی امت کی خیر خواہی نہ کی ہو۔

§ اللہ تبارک وتعالی کےلیے خیر خواہی اس کی توحید ، اسے صفاتِ کمال وجلال سے متصف کرنے، جو چیزیں اس کے مخالف ہیں اس سے اسے منزہ کرنے، اس کے معاصی سے بچنے، اس کی طاعتیں بجالانے اور اس سے محبت کرنے، اس کےلیے محبت کرنے اور اسی کے لیے بغض رکھنے، جو اللہ تعالی کا انکار کرے اس سے جہاد کرنے، اس ذات باری کی طرف بلانے اور اس پردوسروں کو ابھارنے کا نام ہے۔

§ اس کی کتاب کےلیے خیر خواہی یہ ہے اس پرایمان لائیں، اس کی تعظیم وتنزیہ کریں، کماحقہ اس کی تلاوت کرنا، اس کی آیتوں پر غور کریں، اس کے تقاضے کے مطابق عمل کریں، اس کی طرف دعوت دیں اور اس کا دفاع کریں۔

§ اس کے رسو ل کےلیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لائیں اور ان چیزوں پر ایمان لائیں جو وہ لے کرآئے ہیں، ان کے اوامر کو بجالائیں اور نواہی سے اجتناب کریں، ان کی توقیر وتعظیم کریں، ان کی سنت کا احیاء کریں، ان کے اخلاق کو اختیار کریں، ان کی آل واصحاب سے محبت کریں،ان کا ، ان کی سنت کا ، ان کی آل واصحاب اور جو حق کے ساتھ ان کی پیروی کریں ان کادفاع کریں۔

§ مسلمانوں کے سربراہوں کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہےکہ ان کے خلفاء اور قائدین کے ساتھ خیر خواہی کی جائے، حق پران کی معاونت کی جائے اور ان کی اطاعت کی جائے، انہیں نرمی ومحبت کے ساتھ تذکیر وخیرخواہی کی جائے، ان کےلیے دعا کی جائے او ران پرخروج نہیں کیا جائے۔

§ عام مسلمانوں کےلیے خیر خواہی یہ ہےکہ ان کےلیے بھی وہ پسند کریں جو اپنے نفس کےلیے پسند کرتے ہیں، او ران کےلیے بھی وہی ناپسند کریں جو اپنے نفس کےلیے ناپسند کرتے ہیں، انہیں ان کے دینی ودنیوی مفاد کی طرف رہنمائی کی جائے، ان کی کمیوں کی پردہ پوشی کی جائے، دشمنوں پر ان کی مدد کی جائے، ان کا دفاع کیا جائے اور دھوکہ وحسد سے بچا جائے۔

ہم اللہ تعالی سےدعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو باتوں کو سنتے اور ان میں سے بہتر کی پیروی کرتےہیں۔ ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں، ہم اگلے دروس میں اللہ کے حکم سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں گفتگو کریں گے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنكر

اس درس میں ہماری گفتگو اسلام کےعظیم ترین شعاروں میں سےایک شعار کے متعلق ہے اور وہ ہے امر بالمعروف او رنہی عن المنکر:

امر بالمعروف او رنہی عن المنکرمؤمنین کے ظاہری صفات میں سے ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿ﮑ ﮒ ﮓ ﮔ ﮕﮖ ﮗ ﮘ ﮙ ﮚ ﮛ ﮜ ﮝ ﮞ ﮟ ﮠ ﮡ ﮢﮣ ﮤ ﮥ ﮦﮧ ﮨ ﮩ ﮪ ﮫﮬ﴾ (توبہ : 71)ترجمہ:"مؤمن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وه بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجالاتے ہیں، زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا، بےشک اللہ غلبے والا حکمت والاہے"۔

جب امر بالمعروف او رنہی عن المنکر عام ہوجائے،تو سنت، بدعت سے ممتاز ہوجاتی ہے، حلال، حرام سے الگ ہوجاتا ہے، لوگ واجب اور مسنون، مباح اور مکروہ کو جانتےہیں، ایسی نسل تیار ہوتی ہے جو معروف پر پروان چڑھتی ہے اور اس سے محبت کرتی ہے۔ منکر سے دور ہوتی ہے اور اس سے نفرت کرتی ہے۔

اصول وضوابط کے ساتھ امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کا فريضہ انجام دینا فرد ومعاشرہ کےلیے اللہ کے عذاب سے امان عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿ﯿ ﰀ ﰁ ﰂ ﰃ ﰄ ﰅ ﰆﰇ﴾ (ہود :117)ترجمہ:"آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیکو کار ہوں"۔ وہ سماج جس میں منکر ظاہر ہوتا ہے اور اس میں کوئی ایسا شخص نہیں ہوتا ہے جو اسے اس منکر سےروکے، تو وہ سماج عام عذاب کا شکار ہوجاتا ہے۔ صحیحین میں زینب رضی اللہ عنہا کی روایت ہے وہ کہتی ہیں : اے اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے اور ہم میں نیک لوگ ہیں؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: ہاں جب گندگی زیادہ ہوجائے، اور اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ﭧ ﭨ ﭩ ﭪ ﭫ ﭬ ﭭ ﭮ ﭯ ﭰ ﭱ ﭲ ﭳ ﭴ ﭵ ﭶ ﭷ ﭸﭹ﴾ [الأعراف: 165]. ترجمہ:"سو جب وه اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وه بےحکمی کیا کرتے تھے"۔

بعض لوگوں کے نزدیک معروف ہےکہ یہ دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی ہے، حالانکہ یہ قلت فہم اور ایمان کی کمی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتےہیں: اے لوگو، تم لوگ یہ آیت پڑھتےہو، ﴿ﭫ ﭬ ﭭ ﭮ ﭯﭰ ﭱ ﭲ ﭳ ﭴ ﭵ ﭶﭷ﴾ (مائدہ:105) ترجمہ:"اے ایمان والوں! اپنی فکر کرو، جب تم راه راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراه رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں"۔) اور میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: «إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ الله بِعِقَابٍ مِنْهُ»، "لوگ جب ظالم کو دیکھیں ، اور وہ اس کے ہاتھ کو نہ پکڑیں ، تو قریب ہےکہ اللہ تعالی انہیں اپنے عذاب کو عام کردے" (ابوداؤد وغیرہ)

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: " تم میں سے جو بھی کسی منکر کو دیکھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان سے ،اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اپنے دل سے، اور وہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے"۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

ہم اللہ تعالی سےدعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھلائی کاحکم دینے والوں اور برائی سے روکنےوالوں میں سے بنائے، ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں، ہم اگلے درس میں اللہ کے حکم سے اسلام میں اخلاق کے موضوع پر گفتگو کریں گے۔

اسلام میں اخلاق (1)

اس درس ہماری گفتگو اسلام میں اخلاق کے موضوع پر ہے:

اللہ کے رسول ﷺنے ہمیں اخلاق حسنہ اور آداب عالیہ اختیار کرنےپر ابھارا ہے۔ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «إنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا»، "تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور میرے نزدیک قیامت کے دن مجلس کے اعتبارسے سب سے زیادہ قریب وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے"۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اخلاق حسنہ میں سے جس کی طرف اسلام نے دعوت دی ہے:

§ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، بیوی اور بیٹے بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، رشتہ داری اور قرابت کا خیال رکھنا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ (اسراء:23) (اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو) اور جیسا کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لأَهْلِي»، " تم میں کا بہتر وہ ہے جو اپنے اہل کےلیے بہتر ہے، اور میں تم میں اپنے اہل کےلیے سب سے بہتر ہوں"۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اور اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ أَوْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ»" جسے یہ بات خوش کرے کہ اس کی رزق میں کشادگی کی جائے یا اس کی عمر لمبی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے" (متفق علیہ)

§ اخلاق میں سے جس پر اسلام نے ابھارا ہے، اچھی بات اور پاکیزہ گفتگو، صدق، بشاشت اور تبسم اور مؤمنین کےلیےتواضع ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ﯦ ﯧ ﯨ﴾ (بقرہ:83) ( اور لوگوں سے اچھی بات کہو) اور اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ﭲ ﭳ ﭴ ﭵ ﭶ ﭷ ﭸ ﭹﭺ﴾ (توبہ :119) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کاتقوی اختیار کرو اورسچوں میں سے ہوجاؤ) اور اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «الْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ» (اچھی بات صدقہ ہے) (متفق علیہ) اور اللہ کےرسولﷺ نےفرمایا: «تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ»، "تمہارا مسکراکر اپنے بھائی کو دیکھنا صدقہ ہے" (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور آ پ علیہ السلام نے فرمایا: «وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِله إِلَّا رَفَعَهُ الله»، " کسی نے اللہ کےلیے تواضع نہیں اختیار کیا مگر اللہ تعالی نے اسے بلند کردیا"۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

§ زبان کی حفاظت کا حکم آیا ہے اور اس کی تلقین کی گئی ہے: اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: ﴿ﭪ ﭫ ﭬ ﭭ ﭮ ﭯ ﭰ ﭱ ﭲ﴾ (ق:18) انسان منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے"۔اور اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِالله وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ»، "جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے"۔ (متفق علیہ) زبان کی حفاظت اس طرح ہوگی کہ برے الفاظ اپنی زبان سے نہ نکالیں، لعن طعن اور گالی گلوج سے اجتناب کریں اور غیبت سے بچیں، غیبت یہ ہےکہ پیچھے میں اپنے مسلم بھائی کا ایسا ذکر کریں جو اسے ناپسند ہو۔) اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ﭟ ﭠ ﭡ ﭢﭣ﴾ (حجرات:12) (تم میں کا بعض بعض کی غیبت نہ کرے) اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «ليسَ المؤمِنُ بالطَّعَانِ، ولَا اللَّعَانِ، ولَا الفَاحِشِ، ولَا البَذِيءِ»، " مؤمن بہت زیادہ لعن طعن کرنے والا، فحش گوئی کرنے والا اور بدزبانی کرنے والا نہیں ہوتا"۔ (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔) اللہ کےرسول ﷺنے کبر سے ڈرایا۔ ارشاد نبوی ہے: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ»، "جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگاجس کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر ہوگا" (مسلم)

§ اسی طرح اسلام نے خادموں کےساتھ حسنِ تعامل اور انہیں طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہ دینے اور ان کا کام مکمل ہونے کے فورا بعدان کا حق دینے کی تلقین کی ہے۔ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ -أي: خدمُكم- جَعَلَهُمُ الله تحْتَ أيْدِيكُمْ. فَمَنْ كَانَ أخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مما يأكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِما يَلْبَسُ. ولا تُكَلِّفُوهُمْ ما يَغْلِبُهُمْ فإنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فأعِينُوهُمْ»، تمہارےخادم بھائیوں کو اللہ تعالی نے تمہارے تابع بنایا ہے، تو جس کا بھائی اس کے تابع ہو تو اسےوہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے، اسے وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے، اورانہیں ایسی ذمہ داریاں نہ دو جو ان پر غالب آجائیں، اگر انہیں کوئی ذمہ داری دو تو ان کی مدد کرو" (متفق علیہ) اور آپ علیہ السلام نے فرمایا: «أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ» "مزدور کو اس کی اجرت اس کاپسینہ خشک ہونے سے قبل دےدو"۔ (اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اورالبانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)

§ اللہ کے رسولﷺ کا یہ قول اخلاق کے اصولوں کوجامع ہے۔ ارشاد نبوی ہے: «لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ»،" تم میں کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوگا جب تک وہ اپنے لیے بھی وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے"۔ (متفق علیہ)

اے اللہ تعالی ہمیں اچھے اخلاق کی ہدایت دے،کوئی اچھے اخلاق کی ہدایت نہیں دے سکتا سوائے تیرے،برے اخلاق سے ہمیں دور کردے، ان سے کوئی دور نہیں کرسکتا سوائے تیرے۔ ہم اسی پر اکتفاء کرتےہیں، ہم اگلے درس میں اسی موضوع پر اپنی گفتگو جاری رکھیں گے۔

اسلام میں اخلاق (2)

ہم نے گذشتہ درس میں اخلاق حسنہ کے سلسلے میں گفتگو کی تھی۔ اس درس میں بھی ہم اسی موضوع پر اپنی بات جاری رکھیں گے:

§ ان اخلاق میں سے جن پر اسلام نے ابھارا ہے، باہمی تعلقات کی اصلاح کرنی ہے۔ارشاد ربانی ہے: ﴿ﭜ ﭝ ﭞﭟ﴾ (انفال:1) "اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو" اللہ کے نبی ﷺ نے چغلخوری سے ڈرایا، چغلخوری لوگوں کے مابین فساد برپا کرنے کےلیے کلام نقل کرنا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ نَمَّامٌ» " جنت میں چغلخور داخل نہیں ہوگا"۔ (متفق علیہ)

§ ان اخلاق میں سے جن پر اسلام نے ابھارا ہے ما ل کے ذریعہ کرم وسخاوت کرنا ہے اور بخالت و فضول خرچی کے مابین میانہ روی اختیار کرناہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿ﯷ ﯸ ﯹ ﯺ ﯻ ﯼ ﯽ ﯾ ﯿ ﰀ ﰁ ﰂ﴾ (فرقان:67) ترجمہ:"اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں"۔

§ اخلاق میں سے جن چیزوں پر اسلام نے ابھارا ہے، ان میں دین میں اخوت کے حق کا خیال رکھنا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «حَقُّ المسلِمِ عَلى المسلِمِ سِتٌّ. قِيلَ: مَا هُنَّ يا رَسَولَ اللهِ؟، قال: إذا لقِيتَه فسلِّمْ عليه. وإذا دَعَاكَ فأَجِبْه. وإذَا استنصَحَكَ فانصَحْ لَه. وإذا عَطِسَ فَحمِدَ اللهَ فشَمِّتْهُ وإذا مرِضَ فعُدْهُ. وإذا مات فاتَّبِعْهُ» "ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر چھ حق ہے۔ کہاگیا وہ کیا ہیں اے اللہ کے رسول؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: جب تم اس سے ملو تو اسے سلام کرو، جب وہ تمہیں دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو، جب تم سے نصیحت طلب کرے تو اسے نصیحت کرو، جب چھینکے اور الحمد للہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب دو، جب بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرو، جب مر جائے تو اس کے جنازے کے پیچھے چلو" (مسلم)

§ اسی طرح اسلام نےپڑوسی کا خیال رکھنے اور مہمان کی تکریم پر ابھارا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «من كانَ يؤمِنُ بالله واليومِ الآخِرِ فلا يؤذِ جارَه، ومن كانَ يؤمِنُ بالله واليومِ الآخرِ فليُكرِمْ ضيفَه، ومن كانَ يؤمنُ بالله واليومِ الآخرِ فليقُلْ خيرًا أو ليصمُتْ» " جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے، اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہووہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے"۔ (مسلم)

§ اسلام نے بوڑھے مسلمان ،اہلِ علم اور حاملینِ قرآن اور عادل بادشاہ کی عزت کرنے پر ابھارا ہے۔ جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺنےفرمایا: «إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ الله إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ» "اللہ کی تعظیم میں سے بوڑھے مسلمان کی عزت کرنا، ایسےحاملِ قرآن کی عزت کرنا جو نہ اس میں غلو کرنے والا اور نہ ہی اس سے چسم پوشی برتنے والا ہو اور عادل بادشاہ کی عزت کرنا ہے"۔ (اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے) اسلام نے ہمیں بڑے کی عزت کرنےاور چھوٹے کے ساتھ شفقت کرنے پر ابھارا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «ليسَ منَّا من لَم يَرحَمْ صغيرَنا، و يعرِفْ حَقَّ كَبيرِنا»، "ہم میں سے وہ نہیں ہے جو ہم میں سے چھوٹے پر شفقت نہ کرے او رہم میں سے بڑے کےحق کو نہ سمجھے" (اسے ابوداؤد اور ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور اسے البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)

§ اسلام نے مسلمانوں کی مصیبتوں کو دور کرنے، ان کے ساتھ آسانی کامعاملہ کرنے اور ان کے عیوب پر پر دہ ڈالنے کی تلقین کی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: «مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ الله عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ الله عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ الله فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَالله فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ»، " جس نے کسی مؤمن کی دنیاوی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو دور کیا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت کو دورفرمائےگا، اور جس نے کسی تنگ حال پر آسانی کی تو اللہ تعالی اس پر دنیا وآخرت میں آسانی فرمائےگا، جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالی دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی کرےگا، اللہ تعالی اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے"(مسلم)

ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں ، ہم اگلے درس میں ان شاء اللہ مسلمانوں کے مابین مالی معاملات کےاحکام کے سلسلے میں گفتگو کریں گے۔

مالی معاملات کے احکام

اس درس میں ہماری گفتگو مسلمانوں کے مابین بعض مالی معاملات کےاحکام کے سلسلے میں ہوگی۔اللہ تعالی نے ہمیں زمین پر گھومنے اور حلال مال کمانے کا حکم دیا ہے۔ تو مسلمان پر واجب ہےکہ وہ مالی معاملات میں اتنی سمجھ حاصل کرے جتنی کی اسے ضرورت ہے، تاکہ وہ بصیرت و دلیل کے ساتھ ان کی سمجھ حاصل کرسکے اور ممنوعات میں نہ پڑے جن سے شارع حکیم نے منع فرمایاہے۔

§ مالی معاملات میں اصل حلال ہونا ہے، سوائے ان چیزوں کے جن کی حرمت کے سلسلے میں دلیل وارد ہو۔

§ ان معاملات میں سے جنہیں اسلام نے حرام قرارد یا ہے: سود، مَیْسِرْ (آسانی سےحاصل ہونے والی دولت) اور ان میں سے جوا ، دھوکہ دری، بیع وشراء میں جعل سازی اور ہر وہ چیز ہےجس میں ظلم ہویا باطل طریقہ سے لوگوں کا مال کھایا جائے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ ﴿ﮥ ﮦ ﮧ ﮨ ﮩ ﮪ ﮫ ﮬ ﮭ ﮮ ﮯ ﮰ ﮱ ﯓ﴾ (بقرہ: 278) ترجمہ:"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو"۔

§ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: «لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا([29])، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَكُونُوا عِبَادَ الله إِخْوَانًا، الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَكْذِبُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ، التَّقْوَى هَاهُنَا -وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ- بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ: دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ» "ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، خرید وفروخت میں بولی بڑھا کر ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو ، باہم بغض نہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو اور نہ ا یک دوسرے کے سودے پر سودا کرے ، اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرے ، نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑے اور نہ اسے جھٹلائے، نہ اسے حقیر سمجھے اور آپ نےتین مرتبہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : تقوی یہاں ہے ، نیز آپﷺ نے فرمایا : ایک شخص کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ، ہر مسلمان کا خون ، مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔(مسلم)

§ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے بیعِ حصاۃ (کنکڑی پھیک کر بیع)اور بیع غرر (دھوکہ کی بیع)سے منع کیا ([30](مسلم)

§ مطلوب اخلاق میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمان تجارت میں صدق ونزاہت اختیار کرے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: «مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا» "جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے" (مسلم) اور اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَذَبَا وَكَتَمَا مُحِقَ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا»،"خرید وبکری کرنے والے کو اختیار ہوتا ہے جب تک کہ وہ دونوں الگ نہ ہوں،اگر وہ دونوں سچ بولیں اور وضاحت کے ساتھ بیان کردیں تو ان دونوں کی بیع میں برکت دی جائےگی، اگر ان دونوں نے جھوٹ بولا اور چھپایا تو ان دونوں کی بیع کی برکت مٹا دی جائے گی"۔ (متفق علیہ)

اے اللہ ہم تم سے نفع بخش علم،پاکیزہ رزق اور عملِ صالح کی دعا کرتےہیں۔ ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں۔ہم اگلے درس میں ان شاء اللہ اسلام میں کھانے کے احکام کے سلسلے میں گفتگو کریں گے۔

کھانےکے احکام

اس درس میں ہماری گفتگو ان احکام کے سلسلے میں ہے جو مسلمان کے کھانے کو مخصوص ہیں۔ کھانے میں اصل حل ہے، سوائے اس کھانے کے جس کی حرمت پر دلیل وارد ہوئی ہے۔

§ ان کھانوں میں سے جنہیں اسلام نے حرام قراردیا ہے : مردار ہے۔ یہ وہ حیوان ہے جسے شرعی طور پر ذبح نہیں کیا گیا ہو، اس سے مچھلیاں مستثنی ہیں جو صرف پانی میں ہی زندہ رہتی ہیں، تو اس کے ذبح کرنے کی شرط نہیں ہے، اسی طرح ٹڈی بھی بغیر ذبح کیے حلال ہے۔ اس لیے کہ سنت میں ان دونوں کا استثناء وارد ہوا ہے۔

§ محرمات میں سے: خنزیر، بہتا ہواخون اور ہر وہ چیز ہے جو غیر اللہ کے لیے ذبح کی جائے، جیسے بتوں، اولیا یا جنوں کےلیے ان کی تعظیم میں یا ان کے خوف سےذبح کی جائے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ﴾ (مائدہ:3) ترجمہ:"تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو"۔

§ ان چیزوں میں سے جن کا کھانا حرام ہے:ایسے حیوانات ہیں جن کے پاس بھالے کی شکل کے نوکیلے دانت ہوں جن سے وہ شکار کرتےہیں، جیسے شیر، چیتا، بھیڑیا ، کتا اور بلا وغیرہ۔

§ جن چیزوں کا کھانا حرام ہے ان میں وہ پرندے ہیں جن کے پاس ایسے پنجے ہوں جن سے وہ شکار کرتےہیں جیسے باز ، شاہین، چیل وغیرہ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتے ہیں: «نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْر» "اللہ کےرسول ﷺ نے منع فرمایا ہر ایک نوکیلے دانت والے درندے سے اور ہر ایک پنجے سے شکار کرنے والے پرندے سے"۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

§ کھانے میں جو چیزیں حرام ہیں ان میں ہر قسم اور ہر طرح کے ناموں سے موسوم ہونے والی نشہ آور چیزیں ہیں جیسے گانجا، جو نشہ پیدا کرتا ہے اور شراب (گرچہ اسے اس کے علاوہ کسی اور نام سے جانا جائے) اورمخدرات وغیرہ جو نشہ پیدا کرے اور عقل پر پردہ ڈال دے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: «ما أَسْكَرَ كثيرُه؛ فقليلُه حرامٌ»، " جس کا زیادہ نشہ آور ہو اس کا تھوڑا بھی حرام ہے"۔ (اسے نسائی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے اور البانی نےاسے صحیح قرار دیا ہے۔)

§ خبائث کا استعمال کرنا حرام ہےاور ہر اس چیز کا استعمال کرنا جو انسان کونقصا ن پہنچاتی ہے: جس کا تعلق ماکولات ومشروبات اور دواؤں سے ہے، جیسے دخان، شیشہ اور قات وغیرہ، جيسا كہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ﭹ ﭺ ﭻﭼ ﭽ ﭾ ﭿ ﮀ ﮁﮂ﴾ (نساء: 29) ترجمہ: "اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے"۔اور اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ﮈ ﮉ ﮊ﴾ (اعراف:157) ترجمہ:"اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں"۔اور اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَار»" نہ تو تکلیف پہنچانا ہے اورنہ تکلیف میں پڑنا ہے"۔(اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اسے البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)

§ حیوانا ت میں سے جن کے حرام ہونے پر شریعت میں نص موجود ہے وہ ہیں: خچر، گھریلو گدھا، یہ وہ گدھا ہے جسے سفر کرنے اور سامان ڈھونے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتے ہیں: «ذَبَحْنَا يَوْمَ خَيْبَرَ الْخَيْلَ، وَالْبِغَالَ، وَالْحَمِيرَ، فَنَهَانَا رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنِ الْبِغَالِ، وَالْحَمِيرِ، وَلَمْ يَنْهَنَا عَنِ الْخَيْلِ»" ہم نے خیبر کے دن گھوڑا، خچر اور گدھا ذبح کیا ، تو اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں منع کیا خچر اورگدھے سے اور گھوڑے سےمنع نہیں کیا"۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیاہے اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔

ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں، ہم اگلے درس میں ان شاء اللہ کھانے کےآداب کے سلسلے میں گفتگو کریں گے۔

کھانے کے آداب

اس درس میں ہماری گفتگو کھانے کے آداب سےمتعلق ہے، اور ان میں سے یہ ہے:

§ کھانے سے قبل بسم اللہ کہنا، دائیں ہاتھ سے کھانا، کھانے کے قریب جو ہو اسے کھانا۔ عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتےہیں: جب میں چھوٹا تھا تو رسول اللہ ﷺکی گود میں بیٹھا تھااور میرا ہاتھ پوری تھالی میں گھوم رہا تھا، تو مجھے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: «يَا غُلَامُ: سَمِّ الله، وَكُلْ بِيَمِينِك، وَكُلُّ مِمَّا يَلِيك» (لڑکے! اللہ کا نام لو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور جو تمہارےقریب ہے اس میں سے کھاؤ"۔ (متفق علیہ) عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہےکہ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: «إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَلْيَقُلْ بِسْمِ الله فَإِنْ نَسِيَ فِي أَوَّلِهِ فَلْيَقُلْ بِسْمِ الله فِي أَوَّلِهِ وَآخِرِهِ» "جب تم میں کا کوئی کھانا کھائے تو وہ بسم اللہ کہے، اگر وہ اسے شروع میں کہنا بھول جائے تو یہ کہے: "بسم اللہ فی أولہ وآخرہ" (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)

اور اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «لا يَأْكُلَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ بِشِمَالِهِ، وَلَا يَشْرَبَنَّ بِهَا، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ وَيَشْرَبُ بِهَا» "تم میں کا کوئی شخص اپنے بائیں ہاتھ سے نہ کھائے،نہ ہی بائیں ہاتھ سے پیے، اس لیےکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتااور پیتاہے"۔ (مسلم)

§ کھانے کے آداب میں سے کھانے کی برائی نہیں بیان کرنی ہے، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتےہیں: «مَا عَابَ النَّبِيُّ ﷺ طَعَامًا قَطُّ، إنْ اشْتَهَاهُ أَكَلَهُ، وَإِنْ كَرِهَهُ تَرَكَهُ»"اللہ کےرسولﷺ نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا،اگر خواہش ہوئی تو کھالیا،اگر پسند نہیں آیا تو چھوڑ دیا"( متفق علیہ) کھانے میں عیب نکالنا یہ ہےکہ کہے : کھٹا ہے، نمک بہت ہے، نمک کم ہے، صحیح سے پکا ہوا نہیں ہے، وغیرہ۔

§ کھانے کے آداب میں سے یہ ہے کہ گرے ہوئے لقمے سے اس پر لگی ہوئی مٹی وغیرہ کو ہٹا کر اسے کھالے، جیسا کہ انس بن مالک کی روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: «إِذَا سَقَطَتْ لُقْمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيُمِطْ عَنْهَا الْأَذَى وَلْيَأْكُلْهَا وَلَا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَان» "جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اس سے دھول وغیرہ ہٹا کر اسے کھالے اوراسے شیطان کےلیے نہ چھوڑے" (مسلم)

§ کھانے کے آداب میں سے یہ ہے کہ کھانے کے دوران ٹیک نہ لگائے، جیساکہ اللہ کےرسولﷺ نےفرمایا: «لا آكُلُ وأنا مُتَّكِئ»، "میں ٹیک لگائی ہوئی حالت میں نہیں کھاتا ہوں"۔(بخاری)

§ مستحب یہ ہےکہ بیٹھ کر پانی پیے، تین گھونٹ میں پانی پیے، جيساكہ انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتے ہیں: «كَانَ رَسُولُ الله ﷺ يَتَنَفَّسُ فِي الشَّرَابِ ثَلَاثًا، وَيَقُولُ: إِنَّهُ أَرْوَى، وَأَبْرَأُ، وَأَمْرَأُ» " اللہ کےرسول تین گھونٹ میں پانی پیتے تھے، اور یہ کہتےتھے ایسا کرنا زیادہ سیراب کرنے والا، پیاس دو ر کرنے والا اور مرض سے محفوظ کرنے والا ہے۔(مسلم)برتن میں سانس نہ لے، جیسا کہ اللہ کےرسول ﷺنے فرمایا: «إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَعُودَ فَلْيُنَحِّ الْإِنَاءَ، ثُمَّ لِيَعُدْ إِنْ كَانَ يُرِيد»، "جب تم میں کاکوئی پانی پیے تو برتن میں سانس نہ لے، اگر سانس لینا چاہے تو برتن کو منہ سے الگ کرلے ، پھر اگر چاہے تو دوبارہ پیے"۔(ابن ماجہ)

§ اللہ تعالی نے اسراف سےمنع فرمایا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ﭙ ﭚ ﭛ ﭜﭝ ﭞ ﭟ ﭠ ﭡﭢ﴾ (أعراف:31) ترجمہ:"اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا"۔

§ جو کھانے سے فارغ ہوجائے اس کےلیے مسنون ہے کہ اللہ کی حمد وثنا بیان کرے جیسا کہ وارد ہوا ہے، اس لیےکہ اللہ کے نبیﷺ جب کھانے سے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے: «الْحَمْدُ لِله حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلا مُوَدَّعٍ وَلا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا([31])»"ہر طرح کی تعریف اللہ تعالی کےلیے ، بہت زیادہ پاکیزہ،مبارک حمد، اے اللہ اسے ہم سے ختم نہ کر، نہ ہی اسے ہمیشہ کےلیے رخصت کر اورنہ ہی ہم میں اس سے بے پروائی کا خیال ہو"۔ (بخاری)

ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں ، ہم اگلے درس میں ان شاء اللہ مسلمان مردو عورت کے لباس سے متعلق گفتگو کریں گے۔

مسلمان مردو خواتین کے لباس کے احکام (1)

اس درس میں ہماری گفتگو مسلمان مردو عورت کے لباس سے متعلق ہوگی:

· ہمارے اوپر اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے یہ ہےکہ اس نے ہمارے اوپر لباس نازل فرمایا،اس کے ذریعہ ہم اپنی شرمگاہوں کی ستر پوشی کرتےہیں،زینت اختیار کرتے ہیں، جاڑے اور گرمی میں اس کے ذریعہ اپنا بچاؤ کرتےہیں۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿ﭴ ﭵ ﭶ ﭷ ﭸ ﭹ ﭺ ﭻ ﭼﭽ ﭾ ﭿ ﮀ ﮁﮂ﴾ (أعراف :26) ترجمہ:"اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوی کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے"۔نیز ارشاد ربانی ہے: ﴿ﭷ ﭸ ﭹ ﭺ ﭻ ﭼ ﭽ ﭾ﴾ (نحل:21) ترجمہ:"اور اسی نے تمہارے لیے کرتے بنائے ہیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسے کرتے بھی جو تمہیں لڑائی کے وقت کام آئیں"۔

· مسلما ن کے لباس اور اس کی زینت میں اصل اباحت ہے، مگر جس کی حرمت پر دلیل وارد ہو، اور لباس کے ضوابط میں سے ہے:

· یہ کہ اس میں مردوں کا عورتوں سے مشابہت نہ ہو یا اس کے برعکس نہ ہو، جیسا کہ بخاری نے عبداللہ بن عباس سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں: «لَعَنَ رَسُولُ الله ﷺ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنْ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنْ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ»." اللہ کےرسولﷺ نے لعنت فرمائی ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتےہیں، اور ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں"۔

· ان ضوابط میں سے یہ ہے کہ اس میں اہل کفر یا بدعت یا فاسقوں سے مشابہت نہ ہو، جیسا کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ»، "جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہے"۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اسے البانی نے صحیح قراردیا ہے۔

· ان ضوابط میں سے یہ ہےکہ وہ لباسِ شہرت نہ ہو، اور وہ ایسا لباس ہے، سماجی رکھ رکھاؤ اور اس کی روایتیں جسے برا سمجھتی ہیں، اور جو ہیئت ورنگ میں معروف رنگوں اور شکلوں کی مخالفت کرتا ہو، جیسا کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ فِي الدُّنْيَا أَلْبَسَهُ الله ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»، "جس نے دنیا میں شہرت کا لباس زیب تن کیا تواللہ تعالی قیامت کےدن اسے ذلت کا لباس پہنائے گا"۔ (اسے احمد ، ابوداؤد ، ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے)

· ضوابط میں سے یہ ہےکہ لباس حرام نہ ہو جیسےمردوں کےلیے ریشم اور سونا پہننا، جیساکہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺنے ریشم لیا، اسے اپنے دائیں ہاتھ میں رکھا، اور سونا لیا اور اسے اپنے بائیں ہاتھ میں رکھا، پھر کہا: «إنَّ هَذينِ حرامٌ على ذُكورِ أمَّتي» " یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں"۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔

· ضوابط میں سے یہ ہےکہ لباس شرمگاہ کی پردہ پوشی کرنے والا ہو۔ مرد کے لیے ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے، جبکہ عورت کا پورا بدن اجنبی مرد کےلیے ستر ہے،جہاں تک عورتوں او رمحارم کے مابین عورتوں کے ستر کی بات ہے تو ان کے نزدیک وہ اپنے بدن کو چھپائے گی سوائے جو عام طور پر ظاہر ہوجاتاہے جیسے گردن، بال ، دونوں قدم وغیرہ۔

· خاتون کے حجاب میں یہ شرط ہے کہ وہ پورے بدن کو چھپائے، اس طور پر کہ اس کا بدن نہ جھلکے اور نہ واضح ہو، اور نہ ایسا تنگ ہو کہ اس سے اعضاء کا حجم واضح ہو، اسی طرح وہ بذات خود زینت بھی نہ ہو، نہ ہی وہ معطر ومبخر ہو۔

اے اللہ ہمیں تقوی وعافیت کا لباس پہنا، اپنے خوبصورت ستر سے ہماری پردہ پوشی فرما، ہم اسی پر اکتفا کرتےہیں، اگلے درس میں اسی موضوع پر ہم اپنی گفتگو مزید جاری رکھیں گے ان شاء اللہ۔

مسلمان مردو خواتین کے لباس کے احکام (2)

ہم نے گذشتہ درس میں مسلم مردو عورت کے لباس کے بعض احکام کےسلسلے میں گفتگو کی تھی، اسی موضوع پر ہم اپنی بات مکمل کریں گے۔

§ بلا اسراف وکبر شرعی حدود میں لباس میں خوبصورتی اختیار کرنامستحب ہے۔ جیساکہ اللہ کےنبیﷺ نےفرمایا: «إِنَّ الله جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ»، " یقینا اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے" ۔ (مسلم)اس سے وہ عورت مستثنی ہے جو غیر محرم مردوں کے پاس ہو، تو وہ وہاں اپنی زینت ظاہر نہیں کرے گی، بلکہ اپنے پورے جسم کا پردہ کرے گی۔

§ لباس پہنتے وقت دائیں طرف سے پہننا مستحب ہے، جیسا کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «إِذَا لَبِسْتُمْ وَإِذَا تَوَضَّأْتُمْ، فَابْدَءُوا بِأَيَامِنِكُمْ»، "جب تم لباس پہنو اور جب تم وضوء کرو لو تو اپنی دائیں طرف سے شروع کرو" اسے ابودؤد نےروایت کیا ہے اور البانی نےاسے صحیح قرار دیاہے۔

§ مردوں کے لیے تمام کپڑوں کو ٹخنہ سے نیچے پہننا حرام ہے، جیساکہ اللہ کےنبیﷺ نے فرمایا: «مَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ مِنْ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ»"تہہ بند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہوگا وہ جہنم میں ہوگا"۔ (بخاری)

§ ایسے کپڑے پہننا حرام ہے جس پر قرآن کریم کی آیتیں یا اللہ تعالی کا نام ہو، اس لیےکہ ایسا کرنا اس کی پامالی کا سبب ہوگا۔

§ ایسے کپڑے پہننا حرام ہے جس پر ذی روح کی تصویریں ہوں، الا یہ کہ اس سے تصویر کے سر کو ہٹا دیا گیاہو،جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتےہیں: «اسْتَأْذَنَ جَبْرَائِيلُ u عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: «اُدْخُلْ، فَقَالَ: كَيْفَ أَدْخُلُ، وَفِي بَيْتِك سِتْرٌ فِيهِ تَصَاوِيرُ؟ إمَّا أَنْ تَقْطَعَ رُؤُوسَهَا أَوْ يُجْعَلَ بِسَاطًا يُوطَأُ، فَإِنَّا مَعْشَرَ الْمَلَائِكَةِ لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ تَصَاوِيرُ»، "جبریل علیہ السلام نے نبیﷺ سے اجازت طلب کی، تو آپﷺ نے فرمایا: تشریف لے آئیے، تو انہوں نے کہا: کیسے آؤں، آپ کے گھر میں تو ایسا کپڑا ہےجس میں تصویریں ہیں؟ یاتو آپ اس کے سروں کو کاٹ دیں، يا اس پر کچھ کپڑا ڈال دیں جو اسے چھپا دے ، اس لیےکہ ہم فرشتوں کی جماعت ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے ہیں جس میں تصویریں ہوں"۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے او رالبانی نےاسے صحیح قرار دیا ہے۔

§ ایسے کپڑے پہننا حرام ہے جس پر کفار کے دینی شعار ہوں، جیسے صلیب، یہودیوں کا اسٹار وغیرہ، جیساکہ عمران بن حطان کی روایت ہے وہ کہتےہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سےبیان کیا کہ نبی کریم ﷺاپنے گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑتے تھے جس میں صلیب کے نشانات ہوتے مگر اسے توڑ دیتے" بخاری۔

أما بعد..

ہر طرح کی تعریف اللہ تعالی کےلیے ہےجس نےعقیدہ وعبادت اور معاملات واخلاق سے متعلق بہت سارے شرعی احکام ومسائل سیکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔

ہمارے اوپر واجب ہےکہ جو علم ہم نے سیکھا ہے اس کے مطابق عمل کریں،تاکہ یہ علم ایساعلمِ نافع بنے جس کا پاکیزہ اثر ہم دنیا وآخرت میں محسوس کرسکیں، اس لیے کہ جس نے علم کے مطابق عمل نہیں کیا تو اس کاوہ علم –العیاذ باللہ- قیامت کے دن اس کے خلاف حجت ہوگا۔ اور اللہ کے نبی ﷺکی دعاؤں میں سے تھا: «اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بكَ مِن عِلْمٍ لا يَنْفَعُ»، ترجمہ:" اے اللہ میں تجھ سے ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ پہنچائے"(اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)

اہل علم نے اللہ تعالی کے اس قول کی تفسیر میں کہا ہے: ﴿ﭧ ﭨ ﭩ ﭪ ﭫ ﭬ ﭭ ﭮ ﭯ ﭰ ﭱ ﭲ ﭳ ﭴ﴾ (سورۃ الفاتحۃ: 6-7) ترجمہ:"ہمیں سیدھی (اور سچی) راه دکھا، ان لوگوں کی راه جن پر تو نے انعام کیا ، ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا (یعنی وه لوگ جنہوں نے حق کو پہچانا، مگر اس پر عمل پیرا نہیں ہوئے) اور نہ گمراہوں کی (یعنی وه لوگ جو جہالت کے سبب راه حق سے برگشتہ ہوگئے"۔ اس آیت میں"أنعمت عليهم"سےوہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے علم نافع اور عمل صالح کو اکٹھا کیا، اور"مغضوب علیہم" سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے علم تو حاصل کیا لیکن عمل چھوڑ دیا، اور "ضالون" سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے بلا علم کے عمل کیا۔

اسی طرح ہمیں چاہیے کہ جو علم ہم نے اس کتاب میں سیکھا ہےاسے پھیلائیں اور دوسروں تک پہنچائیں، جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا: مجھ سے جو باتیں سیکھتے ہو وہ دوسروں تک پہنچاؤ، گرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔"(بخاری)

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اس علم کو ہمارے لیے حجت بنائے ہمارے خلاف نہیں، اور درود وسلام نازل ہو ہمارے نبی محمد پر ، ان کی آل واولاد او رتمام صحابۂ کرام پر او رہر طرح کی تعریف اللہ رب العالمین کےلیے ہے۔

مراجع ومصادر

- «رسالة ثلاثة الأصول وأدلتها» للإمام محمد بن عبدالوهاب.

- «فتاوى ورسائل سماحة الشيخ عبد العزيز بن باز».

- «فتاوى ورسائل الشيخ محمد بن عثيمين».

- كتاب: «معجم التوحيد» للشيخ إبراهيم أباحسين.

- كتاب: «البدعة تعريفها وبيان أنواعها وأحكامها» للشيخ صالح الفوزان.

- كتاب: «نور السنة وظلمات البدعة» للشيخ سعيد بن علي بن وهف القحطاني.

- كتاب: «منهج السالكين» للشيخ عبدالرحمن بن سعدي.

- كتاب: «الملخص الفقهي» للشيخ صالح الفوزان.

- كتاب: «ملخص فقه العبادات» القسم العلمي بمؤسسة الدرر السَّنيَّة.

- كتاب: «مختصر مخالفات الطهارة والصلاة» للشيخ: عبدالعزيز السدحان، اختصار:عبدالله العجلان.

- كتاب: «دليل المسلم الميسر» للشيخ: فهد باهمام.

- كتاب: «مالا يسع المسلم جهله» للشيخ: عبدالله المصلح والشيخ: صلاح الصاوي.

- كتاب: «سبل السلام» للشيخ: عبدالله البكري.

- مواقع على الإنترنت: موقع اللجنة الدائمة للإفتاء، موقع الشيخ عبدالعزيز بن باز، شبكة الدرر السنية، موقع الإسلام سؤال وجواب، شبكة الألوكة.



([1]) - ثلاثۃ الأصول وأدلتہا، للإمام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ

([2]) - ثلاثۃ الأصول وأدلتہا، امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ

([3]) - اس سےوہ چیز مستثنی ہوگی جو تعلیم کے مقصد سے ہو، وہ اس طرح کے اس میں اتنے پر ہی اکتفاء کیا جائے جتنا تعلیم کے لیے ضروری ہے ، اور اسے دائمی طور پر نہ کیا جائے۔

([4]) - نجس خون بہتا ہوا خون ہے، یہ وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت ذبیحہ سےنکلتا ہے،لیکن وہ خون جو ذبح کرنے کے بعد ذبیحہ میں باقی رہتا ہے، جیسے وه خون جو رگوں اور دل اور تلی اور کلیجی میں باقی رہتا ہے، تو وہ پاک ہے۔

([5]) - مردار سے مراد وہ جانور ہے جسے شرعی طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا ہو، مردار سے مچھلی اور وہ چیزیں مستثنی ہیں جو صرف پانی میں رہتی ہیں، تو مردار ٹڈی اور مری ہوئی مچھلی اور پانی میں رہنی والی چیزیں بغیر ذبح کیےہوئے کھانا جائز ہے۔ نجس مردار سے وہ مردار بھی مستثنی ہے جس میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا جیسے چیونٹی، مکھی، خنفساء (beetle) اوران جیسی چیزوں کا مرا ہوا پاک ہے لیکن ان کا کھانا جائز نہیں ہے۔

([6])- اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے پاک اس طرح کرے کہ اسے سات مرتبہ دھوئے، پہلی مرتبہ مٹی سے دھوئے۔ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر اس کا پیشاب ، لید، یا خون یا رگ یا بال یا لعاب یا اس کا کوئی عضوکسی پاک چیز سے مل جائے، اور ان دونوں میں سےکسی ایک میں( کتے کے عضو میں یا جس پاک چیز سے وہ مل رہا ہے اس میں ) رطوبت رہی ہوتو اس کا سات مرتبہ دھونا واجب ہوگا، ان میں سے ایک مرتبہ مٹی سے دھویا جائے گا۔

([7]) - مذی : پتلی اورلیس دار ہوتی ہے جو دل لگی کرتے وقت بلا اچھلے اورچھلکےہوئے نکلتی ہے، اس کے بعد سستی لاحق نہیں ہوتی ہے، اس سے طہارت کا طریقہ یہ ہےکہ اپنے ذکر اور دونوں خصیہ کو دھوئے، جہاں تک کپڑے کامعاملہ ہے تو اس جگہ پر پانی کا چھینٹا مارے جہاں مذی لگی ہے۔ جہاں تک ودی کا معاملہ ہے تو وہ سفید او ر گاڑھی ہوتی ہے جو پیشاب کے بعد نکلتی ہے، اور پیشاب کی طرح اس سے طہارت حاصل کی جائےگی۔

([8]) -پتھر کے ذریعہ یا ٹیشو پیپر یا ان دونوں جیسی چیزوں کےذریعہ گندگی دور کرنے اور صفائی کرنے میں واجب ہےکہ ان سے کم از کم تین مرتبہ گندگی کو دور کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ گندگی سےپوری طرح صفائی حاصل ہوگئی ہے۔

([9]) -سر سے نیچے جو بال لٹک رہے ہوں ان کا مسح کرنا واجب نہیں ہے۔

([10]) - خف وہ موزه ہے جسےانسان اپنےدونوں قدموں پر پہنتا ہے اور وہ چمڑے کابنا ہوتا ہے، جورب وہ موزہ ہے جو اون، کاٹن، سوت یا کپڑے سے بنا ہوتا ہے اور وہ شرّاب سے معروف ہے۔

([11]) -یہ بات سب کو معلوم ہےکہ شراب اور نشہ آور چیزوں کا پینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ ارشاد ربانی ہے: }يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ{ [النساء: 103].ترجمہ: "اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر، یہ سب گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں، ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو"۔

([12]) - ذکر کو یا دبر کے حلقے کو چھونا، عورت کا شرمگاہ کو چھونا اوربڑے یا چھوٹے کسی اور کی شرمگاہ کو چھونا۔

([13]) - جب جنبی وضوء بنالے تو اس کےلیے مسجد میں بیٹھنا جائز ہے، جہاں حیض اور نفاس والی عورتوں کا معاملہ ہے تو ان کے لیےمسجدمیں بیٹھنا جائز نہیں ہے، البتہ ہر ایک کےلیے مسجد سےگذرنا جائز ہے۔

([14]) - عورتوں کےلیے غسل کے وقت اپنی چوٹیوں کو کھولنا واجب نہیں ہے۔

([15]) - مسلمان پر واجب ہے کہ پانی تلاش کرے اور آس پاس اسے ڈھونڈے، لیکن جب ڈھونڈنےکے بعد بھی اسےنہ پائے اور اس کے موجود نہ ہونے کا یقین ہوجائے تو تیمم کرے۔

([16]) - اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے مطالعہ کریں شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کی تصنیف" رسالۃ فی الدماء الطبيعية للنساء"

([17]) - حيض كا خون گاڑھا ہوتا ہے پتلانہیں، وہ بدبودار اور کریہہ بو والا ہوتا ہے اور جمتا نہیں۔

([18]) -استحاضہ کے خون کی علامت یہ ہےکہ وہ باریک ہوتا ہے گاڑھا نہیں، نہ ہی اس میں بدبو ہوتی ہے اور وہ نکلنے کے بعد جمتا ہے۔

([19]) - استحاضہ والی خاتون کے لیےاگر ہر نماز کےوقت وضوء بنانا دشوار ہو تو اسے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نماز کو جمع كرکے ایک ساتھ ادا کرنا جائزہے۔

([20]) جب سورج نکلتا ہے تو ہر بلند چیز کا سایہ مغرب کی طرف ظاہر ہوتا ہے، اور جس قدر سورج اوپر کی طرف بڑھتا جاتا ہے وہ سایہ کم ہوتا جاتاہے، جب بیچ آسمان میں پہنچ جاتا ہے-اور وہ استواء کی حالت ہے- تو سایہ میں کمی آنے کا سلسلہ اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے،=

= (یعنی سایہ کے کم ہونے کا سلسلہ رک جاتا ہے) اور پھر بلند چیز کا سایہ اصلی باقی رہ جاتا ہے، اور یہ زوال کا سایہ ہے، اور یہ مہینوں کے حساب سے بدلتا رہتا ہے۔

([21]) - عصر كی نماز سورج میں زردی آنے کے بعد تک کے لیے مؤخر کرنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی اس میں تاخیر کےلیے مجبور ہوجائے تو ایسے شخص کےلیے غروب شمس سے قبل اس کے ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح عشاء کی نماز کے متعلق کہا جاتا ہے کہ نصف شب کے بعد اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے، لیکن ضرورت اور مجبوری کی بنیاد پر فجر کی نماز سے قبل تک اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔

([22]) - جہاں تک فجر اول (الکاذب) کی بات ہے تو وہ مشرق سے لے کر مغرب تک پھیلا ہوتا ہے، اور یہ مختصر وقت کےلیے ہوتا ہے پھر تاریک ہوجاتا ہے، فجر ثانی کے برخلاف، تواس کی روشنی بڑھتی رہتی ہے۔

([23]) - سجدۂسہوکی جگہ کے سلسلے میں معاملہ وسیع ہے، توان تمام حالتوں میں جن میں سلام کرنا واجب ہے ان میں سلام سےپہلے اور سلام کے بعد ہردوحالت میں سجدہ کرنا صحیح ہوگا۔

([24]) - جہاں تک عید الاضحی کامعاملہ ہے تو اس میں ذی الحجہ کی ابتداء سے ہی مطلق تکبیر ہے یعنی بغیر وقت کی تقیید کے ساتھ تکبیر پڑھتے رہنا ہے۔ مطلق تکبیرذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے شروع ہوکر ایامِ تشریق کے آخری دن یعنی 13 ذی الحجہ كے غروبِ شمس تک جاری رہے گی، جہاں تک مقید تکبیر کی بات ہے (جو پانچوں نمازوں کے بعد کہی جاتی ہے) تو وہ یوم عرفہ کے دن فجر سے لے کرایام تشریق کے آخری دن غروب شمس تک باقی رہے گی، اس کے ساتھ ساتھ ہر وقت تکبیر مطلق کہی جائے گی۔

([25]) - حاملہ اور دودھ پلانےوالی خواتین کے لیے رمضان کا روزہ نہ رکھنے کی اس صورت میں اجازت ہے جب وہ اپنے نفس یا اپنے بچے کے سلسلےمیں خائف ہوں، ایسی صورت میں وہ دونوں بعد میں روزہ کی قضا کریں گی۔

([26]) - اسی طرح عورت کی شرمگاہ میں دوا کے قطرے یا دوا یا لیکیوڈ ڈالنا۔

([27]) - شروط پورا ہوتےہی حج فورا ًواجب ہوجاتا ہے، انسان اس میں تاخیر کرنے پر گنہگار ہوگا۔

([28]) - خاتون کے لیے اس فريضہ کے ادا کرنے کے وجوب کے لیے محرم کے مرافق ہونے کی شرط ہے، اور یہ کہ وہ عدت کی مدت میں نہ ہو۔

([29]) النَّجْشُ: وہ اس شخص کی جانب سے سامان کی قیمت بڑھانا ہے جو اسے خریدنا نہیں چاہتا ہو۔

([30]) - بیع غرر : معدوم و مجہول چیز کی بیع ہے یا ایسی چیز کی بیع ہے جس کا انجام مخفی ہومثلا" ماء کثیر" میں مچھلی کی بکری، فضا میں اڑتے ہوئے پرندے کی بیع، یابند صندوق کے اندر جو چیز ہے اس کی بیع، مختلف کپڑوں کے بیچ سے تعیین کیے بغیر کسی کپڑے کی بیع اورپکنے سے قبل پھلوں کی بیع۔ بیع حصاۃ" کی تین صورتیں ہیں، ایک یہ کہ بیچنے والا یہ کہے کہ میں یہ کنکری پھینکتا ہوں، جس چیز پر یہ گرے اسے میں نے تمہارے ہاتھ بیچ دیا ،یا جہاں تک یہ کنکری جائے اتنی دور کا سامان میں نے بیچ دیا، دوسرے یہ کہ بیچنے والا یہ شرط لگائے کہ جب تک میں کنکر ی پھینکوں تجھے اختیار ہے، اس کے بعد اختیا ر نہ ہوگا ، تیسرے یہ کہ خو د کنکری پھینکنا ہی بیع قرار پائے مثلاً یوں کہے کہ جب میں اس کپڑے پر کنکری ماروں تو یہ اتنے میں بک جائے گا ۔

([31]) ابن حجر نےکہا ہے: (غير مكفي) کا مطلب ہے : یعنی بندے میں سے کسی کا وہ محتاج نہیں ہے لیکن وہ اپنے بندوں کوکھلاتا ہے اور ان کے لیے کافی ہے اور(وَلا مُوَدَّع) کا مطلب یہ ہے: یعنی انہیں چھوڑتا نہیں ہے۔