×
سوال : میں نے پڑھا ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لئےروزہ ترک کرنا جائزہے اوران پرکوئی قضا نہیں ہے بلکہ روزے کے بدلے صرف کھانا کھلانا کافی ہوگا،اوراس کی دلیل میں ابن عمررضی اللہ عنہما کی روایت پیش کی جاتی ہے،کیا یہ صحیح ہے؟ ہمیں اس کے متعلق دلیل کے ساتھ جانکاری دیں،اللہ تعالیٰ آپ کو برکت سے نوازے۔

حاملہ اورمرضعہ کوروزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے لیکن بعد میں ان کی قضاضروری ہے ،ان کا کھاناکھلانا روزے سے کافی نہ ہوگا

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی :اسلام سوال وجواب سائٹ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنیسق: عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

الحامل والمرضع تفطران وتقضيان ولا يجزئهما الإطعام

فتوى:موقع الإسلام سؤال وجواب

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق: عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي

:49794 حاملہ اورمرضعہ(دودھ پلانے والی عورت) (شرعی عذر کی بنا پر)روزہ نہیں رکھیں گی لیکن بعد میں ان کی قضاضروری ہے،انکا کھانا کھلانا روزے سے کفایت نہیں کرے گا۔

سوال : میں نے پڑھا ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لئےروزہ ترک کرنا جائزہے اوران پرکوئی قضا نہیں ہے بلکہ روزے کے بدلے صرف کھانا کھلانا کافی ہوگا،اوراس کی دلیل میں ابن عمررضی اللہ عنہما کی روایت پیش کی جاتی ہے،کیا یہ صحیح ہے؟ ہمیں اس کے متعلق دلیل کے ساتھ جانکاری دیں،اللہ تعالیٰ آپ کو برکت سے نوازے۔

Published Date: 2007-12-25

جواب:

الحمد للہ
حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت اگر روزے نہ رکھے تواس کے حکم میں علماء کرام کے کئی ایک اقوال ہیں :

پہلاقول : انہیں صرف روزوں کی قضاء کرنا ہوگی ، امام احمد ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے اورصحابہ کرام میں سے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی یہی کہا ہے ۔

دوسرا قول : اگرانہیں اپنے آپ پر خدشہ ہوتوصرف قضاء ہوگی ، اوراگرانہیں اپنے بچے کا خدشہ ہو توقضاء کے ساتھ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا بھی کھلانا ہوگا ، امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کا مسلک یہی ہے ، جصاص نے ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما سے یہی بیان کیا ہے ۔

تیسرا قول : انہيں صرف کھانا کھلانا ہوگا ،اوران پرقضاء نہيں ، صحابہ کرام میں سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کایہی قول ہے ، اورابن قدامہ رحمہ اللہ نے ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما سے بھی یہی بیان کیا ہے ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 3 / 37 ) ۔

ابوداود رحمہ اللہ تعالی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ :

اوران پرجواس کی طاقت رکھتے ہیں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ہے " ابن عباس کہتے ہیں کہ بوڑھے مرد اوربوڑھی عورت کے لیے رخصت تھی کہ وہ روزے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی روزہ نہ رکھیں بلکہ اس کے بدلے میں ہردن ایک مسکین کوکھانا کھلائيں ، اورحاملہ اوردودھ پلانے والی عورت بھی اگرخوف محسوس کرے تو وہ بھی ۔

ابو داود کہتے ہیں : یعنی اگر انہيں اپنے بچے کا خدشہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں بلکہ اس کے بدلے میں کھانا کھلائيں ۔سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2318 )

امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہيں : اس کی سند حسن ہے ۔

بزار نے نے بھی اسے روایت کیا ہے اوراس کے آخر میں یہ زیادہ کیا ہےکہ :

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنی حاملہ ام ولد کو کہتے تھے :''تواس کی مانند ہے جوروزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھے اس لیے تجھ پر فدیہ ہے قضاء نہيں ''۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ((التلخیص)) میں کہا ہے کہ : دار قطنی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔

جصاص رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب((احکام القرآن )) میں اس مسئلہ کے بارے میں صحابہ کرام کا اختلاف ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :

اس میں سلف رحمہ اللہ تعالیٰ نے تین وجہوں میں اختلاف کیا ہے :

علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے : جب وہ روزہ نہ رکھیں تو انہيں قضاء کرنا ہوگی ان پر فدیہ نہيں ہے ، اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں : ان پرقضاء نہیں بلکہ فدیہ ہے ، اورابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے : انہيں قضاء اورفدیہ دونوں ادا کرنا ہونگے ۔ اھ.

صرف قضاء کے قائلین نے کئی ایک دلائل سے استدلال کیا ہے :

1۔انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

'' بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے نصف نماز اورروزہ معاف کردیا ہے ، اورحاملہ اوردودھ پلانے والی عورت سے بھی''۔( سنن نسائی حدیث نمبر : 2274 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحیح سنن نسائی میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کومسافر کی مانند قرار دیا ہے ، مسافر روزہ نہيں رکھتا بلکہ بعد میں اس کی قضاء کرتا ہے تواسی طرح حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت بھی ۔ دیکھیں : احکام القرآن للجصاص ۔

2۔مریض پر قیاس : جس طرح مریض روزہ نہيں رکھتا اوربعد میں قضاء کرتا ہے ، تواسی طرح حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت بھی قضاء کرے گی ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامۃ المقدسی ( 3 / 37 ) المجموع ( 6 / 273 ) ۔

علماء کرام کی ایک جماعت نے یہی قول اختیار کیا ہے ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالیٰ مجموع الفتاوی میں کہتے ہيں :

''حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کا حکم بھی مريض کا حکم ہی ہے ، جب ان دونوں پر روزہ رکھنے میں مشقت ہو ان کے لیے روزہ نہ رکھنا مشروع ہے ، اورمريض کی طرح جب استطاعت ہو توقضاء کرنا ہوگی ، اوربعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ ہردن کے بدلے میں انہیں ایک مسکین کوکھانا کھلانا ہوگا ، تویہ قول ضعیف اور مرجوح ہے ۔

صحیح اورراجح قول یہی ہے کہ ان پرمسافر اور مریض کی طرح صرف قضاء ہوگی کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

''تم میں سے جو بھی مریض ہو یا مسافر وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کریں ''۔[ البقرۃ: (184۔ اھـ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 15 / 225 ) ۔

اورشیخ رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی قول ہے :

اس میں صحیح یہ ہے کہ حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت قضا کرے گی ، اورابن عباس اورابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے جویہ مروی ہے کہ حامل اوردودھ پلانے والی عورت کھانا کھلائے ، یہ قول مرجوح اوردلائل شرعیہ کے خلاف ہے ۔

اور پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :

''اور جوکوئي مریض ہویا مسافر وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے''۔[ البقرۃ : 185 )

حاملہ اوردودھ پلانے والی کو مریض کے ساتھ ہی ملایا جائے گا اوروہ بوڑھے اورعاجز شخص کے حکم میں نہيں ، بلکہ وہ دونوں مریض کے حکم میں ہیں لہذا وہ بھی استطاعت ہونے کے وقت بطور قضا روزہ رکھیں گی چاہے قضا میں تاخیر ہوجائے ۔ ا ھـ

دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 15 / 227 ) ۔

اوردائمی کمیٹی کے فتوی میں ہے کہ :

اگرحاملہ عورت رمضان کےروزے رکھنے سے اپنے آپ یا پھر اپنے بچے کی صحت کے بارے میں خوف محسوس کرےتواس پر صرف قضا ہوگی ، اس میں اس کی حالت بھی مریض ہی کی طرح ہوگی جوروزے رکھنے کی طاقت نہيں رکھتا یا پھراس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :

''اورجوکوئی مریض ہویا مسافر وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے ''۔[البقرۃ : 185 ]

اوراسی طرح مرضعہ (دودھ پلانے والی عورت) بھی جب اپنے بارے میں خوف محسوس کرے کہ اگر رمضان میں اس نےاپنےبچے کو دودھ پلایا توخوداسے تکلیف ہوگی یا اپنے بچے کے بارے میں خوف محسوس کرے کہ اگروہ روزہ رکھتی ہے اور اسے دودھ نہیں پلاتی تواس کے بچہ کو تکلیف ہوگی تو ایسی صورت میں روزہ نہیں رکھے گی اوربعد میں صرف قضا کرے گی ۔ اھـ

دیکھیں: فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 220 ) ۔

اورفتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں یہ بھی ہے کہ :

حاملہ عورت پر روزے رکھنا واجب ہیں ، لیکن اگراسے اپنے آپ یا بچے پرخدشہ ہو تواسے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ، لیکن وضع حمل اورنفاس ختم ہونے کے بعد روزوں کی قضاءکرنا ہوگی ۔۔۔ روزوں کے بدلے کھانا کھلانا کفایت نہیں کرے گا ، بلکہ روزے ضرور رکھنے ہونگے اورروزے ہی کھانے سے کافی ہیں۔ اھـ دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10/ 226 ) ۔

شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی شرح الممتع میں اس مسئلہ میں دونوں(حاملہ ومرضعہ) پرصرف قضا کا قول اختیار کیا ہے اورعلماء کرام کااختلاف ذکر کرنے کے بعدکہتے ہیں : میرے نزدیک یہ قول سب سے زيادہ راجح ہے ، اس لیے کہ یہ مریض اورمسافر کی طرح ہیں جس کی بنا پران پر صرف قضا لازم ہوگی ۔ اھـ

دیکھیں الشرح الممتع ( 6 / 220 ) ۔

واللہ اعلم .

سائٹ اسلام سوال وجواب

(مُحتاج دُعا:[email protected])