زكاة سے متعلق اہم فتاوے
زمرے
- زکاۃ << عبادات << فقہ
- اسلام کی دعوت << دعوت الی اللہ
- فتاوی << فقہ
مصادر
Full Description
زكو'ۃ سے متعلق
اہم فتاوے
(ما خوذاز: فتاوى ارکان اسلا م )
فتاوی مہمۃ تتعلق بالزکاۃ
(مقتبسة من فتاوی أرکان الإسلام)
( باللغۃ الأردیة)
تالیف
سماحۃ الشیخ عبد العزیزبن عبد اللہ بن باز ؒ
سابق مفتی اعظم سعودی عرب
جمع وترتیب
محمدبن شایع بن عبد العزیزالشایع حفظہ اللہ
ترجمة
ابوالمکرم بن عبد الجلیل ؒ - عتیق الرحمن اثری حفظہ اللہ
مراجعة (نظرثانى)
شفیق الرحمن ضیا ءاللہ مدنی
نشرواشاعت
دفترتعاون برائے دعوت وارشاد (شعبہ بیرونی شہربان)
سلطانہ - ریاض - سعودی عرب
الناشر
المکتب التعاونی للدعوة والإرشاد وتوعية الجاليات بسلطانة
الرياض –المملكة العربية السعودية
سوال 1:
تارك زکاۃ کا کیا حکم ہے ؟ اورکیا زکاۃ کا منکرہوکرزکاۃ نہ دینے , اوربخل وکنجوسی کی وجہ سے زکاۃ نہ دینے , اورغفلت ولا پرواہی کی وجہ سے زکاۃ نہ دینے کی صورتو ں میں فرق ہے ؟
جواب:
بسم الله ,والحمد الله ,والصلاة والسلام على رسول الله ,وعلى آله وأصحابه ,وبعد:
تارک زکاۃ کے حکم کے بارے میں قدرے تفصیل ہے جویہ ہے :
تارک زکاۃ اگرزکاۃ کے وجوب کا منکرہے اوراس کے اوپرزکاۃ واجب ہونے کی شرطیں پائی جارہی ہیں تو وہ متفقہ طورپرکافرہے , اگروہ زکاۃ کے وجوب کا انکارکرتے ہوئے زکاۃ دیدے تو بھی اسکا یہی حکم ہے ,اوراگرکوئی شخص بخل وکنجوسی یا غفلت ولا پرواہی کی وجہ سے زکاۃ نہیں اداکرتا تووہ فاسق اورایک عظیم کبیرہ گناہ کا مرتکب شمارہوگا ,اوراسی حال میں اگراس کی موت آگئی تو اللہ کی مشیت کے تحت ہوگا ,کیونکہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
) إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء } ( 48) سورة النساء
بے شک اللہ تعالى اپنے ساتہ شرک کئے جانے کو کبھی معاف نہیں کرے گا , البتہ اسکے علاوہ گناہ جس کے لئے چاہے معاف کرسکتا ہے –
قرآن کریم نیز سنت مطہرہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ قیامت کے دن تارک زکاۃکو اسی مال کے ذریعہ عذاب دیا جا ئیگا جس کی اس نے زکاۃ نہیں دی تھی ,پھر اسے جنت یا جہنم کا راستہ دکھادیا جائیگا –
یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جوزکاۃ کے وجوب کا منکرنہ ہو ,اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشادہے :
) وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ} (34- 35) سورة التوبة
جو لوگ سونے اورچاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اوراسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے , انہیں دردناک عذاب کی بشارت دیدو, جس دن انکا جمع کردہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائیگا ,پھراسی سے ان کی پیشانیوں ,پہلوؤں اورپیٹھوں کو داغا جائیگا اورکہا جائیگا کہ یہ وہی مال ہے جسے تم اپنے لیے جمع کرتے تھے , تو اپنے جمع کئے ہوئے کا مزہ چکھو-
سونے اورچاندی کی زکاۃ نہ دینے والے کے حق میں قرآن کریم کا جو فیصلہ ہے نبی ﷺکی صحیح احادیث بھی اسی بات پردلالت کرتی ہیں, نیز اس بات پردلالت کرتی ہیں کہ جس کے پاس چوپائے , اونٹ ,گائے اوربکریاں ہوں اوروہ ان کی زکاۃ نہ دے تو اسے قیامت کے دن انہی چوپایوں کے ذریعہ عذاب دیا جائیگا-
سامان تجارت اورکاغذ کی کرنسیوں کی زکاۃ نہ دینے والے کاحکم بھی وہی ہے جو سونے اورچاندی کی زکاۃنہ دینے والے کا ہے, کیونکہ یہی اب سونے اورچاندی کے قائم مقام ہیں-
رہے وہ لوگ جوزکاۃ کے وجوب ہی کے منکرہوں تو وہ کافروں کے حکم میں ہیں, قیامت کے دن کفارکےساتہ انکا حشرہوگا اورانہی کے ساتہ وہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے , اورانکا عذاب بھی دیگرکفارکی طرح دائمی اورابدی ہوگا , کیونکہ انکے اورانہی جیسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
) يُرِيدُونَ أَن يَخْرُجُواْ مِنَ النَّارِ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنْهَا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ} (37) سورة المائدة
وہ چاہیں گے کہ جہنم کی آگ سے نکل جائیں , حالانکہ وہ اسمیں سے نکلنے نہ پائیں گے , اوران کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہے-
سوال 2:
ایک شخص کے پاس کئی قسم کے جانورہیں ,لیکن کسی ایک قسم کے جانورتنہا نصاب زکاۃ کونہیں پہنچتے , کیا ایسی صورت میں ان جانوروں کی زکاۃ نکالی جائے گی؟ اوراگرنکالی جائے تو اسکی کیا کیفیت ہوگی ؟
جواب :
جانوروں – اونٹ ,گائے اوربکری – کانصاب مقررہے ,ان جانوروں میں زکاۃ واجب ہونے کے لئے ان کا مقررہ نصاب تک پہنچنا ضروری ہے ,ساتہ ہی دیگرشرطوں کاپایا جانا بھی ضروری ہے, ان شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جانور,اونٹ ,گائے اوربکری سائمہ ہوں ,یعنی پورے سال یا سال کے بیشتر حصہ باہرچرکرپیٹ بھرتے ہوں, اونٹ یا گائے یا بکری اگرمقدارنصاب کو نہ پہنچیں تو ان میں زکاۃ واجب نہیں , اورنہ ہی ایک قسم کے جانورکو دوسرے قسم کے جانورکے ساتہ ملایا جائےگا – مثلاً کسی کے پاس تین پالتو اونٹ , بیس پالتوبکریاں اوربیس پالتوگائیں ہوں تو کسی قسم کے جانورکو دوسرے کے ساتہ نہیں ملائے گا, کیونکہ ان میں سے کوئی بھی قسم نصاب تک نہیں پہنچتی ہے-
لیکن یہی جانوراگرتجارت کی غرض سے رکھے گئے ہوں توسب کو ایک ساتہ ملا کران کی زکاۃ سونے چاندی کے نصاب کے مطابق اداکی جائے گی , کیونکہ مذکورہ صورت میں وہ سامان تجارت شمارہوں گے, جیسا کہ اہل علم نے صراحت کے ساتہ لکھا ہے, اورغورکرنے والے کے لئے اس باب میں دلائل بھی واضح ہیں-
سوال 3:
کیا یہ جائز ہے کہ زکاۃ کی وجہ سے دویا تین آدمی اپنے مویشی باہم ملا لیں؟
جواب :
زکاۃ سے بھاگنے کے لئے یا مقدارواجب سے کم دینے کے لئے زکاۃ کے مال کو ایک ساتہ ملا لینا یا الگ کردینا جائز نہیں, صحیح حدیث میں رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
"صدقہ کے ڈرسے الگ الگ مال کو اکٹھا نہ کیا جائے اوریکجا مال کو الگ نہ کیا جائے "(صحیح بخاری)
لہذا کسی کے پاس اگرچالیس بکریا ں ہوں اورزکاۃ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے وہ انہیں الگ الگ کردے توزکاۃ اس سے ساقط نہیں ہوگی , بلکہ اللہ کے مقررکردہ فریضہ کو ساقط کرنے کی حیلہ جوئی کرنے کی وجہ سے وہ گنہگاربھی ہوگا-
اسی طرح زکاۃ کے ڈرسے الگ الگ مال کو اکٹھا کرنا بھی جائز نہیں, مثلاً کسی کے پاس بکریاں یا اونٹ یا گائیں ہوں جونصاب زکاۃکو پہنچ گئی ہوں ,اوروہ انہیں دوسرے کی بکریوں یا اونٹ یا گایوں کے ساتہ ملادے, تاکہ ان دونوں کو کم مقدار میں زکاۃ دینی پڑے ,یعنی ان دونوں اشخاص کا اپنے مال کو باہم ملالینا کسی معقول بنیاد پرنہیں بلکہ صرف اس وجہ سے کہ زکاۃ کے محصل کے آنے کی صورت میں ان پرکم مقدارمیں زکاۃ واجب ہو, توایسی صورت میں ان سے واجبی زکاۃ ساقط نہیں ہوگی , بلکہ اس حیلہ کے سبب وہ دوکے دونوں گنہگارہوں گے اورانہیں پوری زکاۃ نکالنی ہوگی-
مثلاً ایک شخص کے پاس چالیس بکریاں تھیں اوردوسرے کے پاس ساٹہ بکریاں, محصل کے آنے پردونوں نے اپنی اپنی بکریا ں ملالیں , تاکہ زکاۃ میں صرف ایک بکری واجب ہو, توایساکرنے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا ,اورنہ ہی ان سے باقی واجب ساقط ہوگا, کیونکہ یہ حرام حیلہ ہے , بلکہ انہیں زکاۃ میں ایک دوسری بکری نکال کرفقراء کو دینی ہوگی ,اوراس بکری کے پانچ حصوں میں سے دوحصے (5/2) چالیس بکری والے کے ذمہ ہوں گےاورتین حصے(5/3) ساٹھ بکری والے کے ذمہ ہوں گے – اسی طرح جوبکری انہوں نے محصل کے حوالہ کی ہے وہ بھی اسی حساب سے تقسیم ہوگی – ساتہ ہی ان دونوں کو اللہ کے حضورسچی توبہ اورآئندہ اس طرح کے حیلے بہانے نہ کرنے کا عہد کرنا ہوگا-
لیکن اگروہ شخص باہمی تعاون کے لئے اپنے اپنے مال ملالیں , کسی واجب کےساقط کرنے یامقدارواجب کو کم کرنے کا حیلہ بہانہ ان کے پیش نظرنہ ہو, توایساکرلینے میں کوئی حرج نہیں , بشرطیکہ شرکت کے جو شروط وضوابط اہل علم کی کتابوں میں مذکورہیں وہ پورے ہورہے ہوں , کیونکہ مذکورہ بالا صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :
"جومال دوشریکوں کے درمیان ہو تو وہ آپس میں برابر, برابراپنے اپنے حصہ کے مطابق زکاۃ اداکریں گے"
سوال 4:
ایک شخص کے پاس سو اونٹ ہیں , لیکن سا ل کا بیشترحصہ وہ انہیں چارہ دے کرپالتا ہے ,کیا ان اونٹوں میں زکاۃ ہے؟
جواب:
جانور,اونٹ یا گائے یا بکری اگرپورے سال ,یا سال کا بیشترحصہ خود چرکراپنے پیٹ نہیں بھرتے توان میں زکاۃ واجب نہیں , کیونکہ نبی ﷺ نے جانوروں میں زکاۃ واجب ہونے کے لئے انکا سائمہ ( یعنی خود چرکرپیٹ بھرنے والا) ہونا شرط قراردیا ہے, اسلئے اگرمالک نے سال کا بیشترحصہ یا نصف حصہ جانوروں کو چارہ کھلا کرپالا ہے تو ان میں زکاۃ واجب نہیں , الا یہ کہ وہ جانور تجارت کی غرض سے رکھے گئے ہوں , توایسی صورت میں ان میں زکاۃ واجب ہوگی , اوروہ دیگرسامان تجارت مثلاً خرید وفروخت کے لئے تیارکی گئی زمین اورگاڑی وغیرہ کے حکم میں ہوں گے , اورسونے اورچاندی کے اعتبارسے نصاب کو پہنچ جانے پران میں اسی حساب سے – جیسا کہ پہلے مذکورہوچکا ہے – زکاۃ واجب ہوگی –
سوال 5:
جس فقیرکو زکاۃدی جانی چاہئے مختلف وقت میں اس کے فقروغربت کا اندازہ یکساں نہیں ہوتا , آخراسکا کیا معیا رہے ؟ اورجب زکاۃ دینے والے پریہ واضح ہوجائے کہ اس نے زکاۃ غیرمستحق کو دیدی ہے توکیا وہ دوبارہ زکاۃ نکالے گا ؟
جواب :
فقیرکواتنی زکاۃ دی جائے جو اسکے لئے سال بھرکے لئے کافی ہو, اورزکاۃ دینے والے کو اگریہ پتہ چل جائے کہ اسنے جسے زکاۃ دی ہے وہ فقیرنہیں ہے تواس پرقضانہیں, بشرطیکہ زکاۃ لینے والا ظاہرمیں فقیرہو, جیساکہ اس بارے میں صحیح حدیث واردہے, وہ یہ کہ گزشتہ امتوں میں سے ایک شخص نے کسی کو فقیرسمجہ کرزکاۃدیا , پھرخواب میں دیکھاکہ وہ تو مالدارہے, چنانچہ اس نے کہا ':اے اللہ! تیری ہی تعریف ہے ,میری زکاۃ ایک مالدارلے گیا" –
رسول ﷺ نے اس واقعہ کوبیان فرمانے کی بعد اسے برقراررکھا اوربتایا کہ اس شخص کی زکاۃ قبول ہوگئی –
اوریہ مقررہ اصول ہے کہ ہم سے پہلی امتوں کی شریعت ہمارے لئے بھی شریعت ہے جب تک کہ ہماری شریعت گزشتہ شریعت کے خلاف کوئی حکم نہ پیش کردے-
اوراسلئے بھی مذکورہ صورت میں زکاۃ کی قضا نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دوشخص زکاۃمانگنے کے لئے آئے , آپ نے انہیں توانا وتندرست دیکھا توفرمایا:
" اگرتم دونوں چاہتے ہی ہو تو میں تمہیں دیدوں , لیکن یادرکھو کہ مالدارکے لئے اورکمانے کی طاقت رکھنے والے توانا شخص کے لئے زکاۃ کے مال میں کوئی حصہ نہیں ہے"
اوراس لئے بھی کہ ہرپہلوسے فقیرکی ضرورت کا جاننا مشکل کا م ہے ,لہذا اسکے صرف ظاہری حالت کو دیکھا جائیگا اوراپنے کوفقیرباورکرانے سے اسے زکاۃ دیدی جائے گی, بشرطیکہ زکاۃ دینے والے کو اسکے برخلاف کوئی بات معلوم نہ ہو ,اوراگروہ بظاہرتوانا اورکمانے پرقادرنظرآرہا ہے تومذکورہ بالاحدیث کی روشنی میں اسے شرعی مسئلہ بھی بتادیا جائیگا-
سوال 6:
ایک شخص پردیس میں ہے اوروہاں اسکے پیسے چوری ہوگئے ,کیا ایسے شخص کو زکاۃ دی جاسکتی ہے ,جبکہ موجودہ دورمیں مالی معاملات (یعنی ترسیل زرکے ذرائع ) بالکل آسان ہوگئے ہیں؟
جواب :
مذکورہ مسئلہ میں ایسا شخص ابن سبیل (مسافر) شمارہوگا, اسلئے اگروہ اپنی ضرورت کا یا سفرخرچ کے کم یا چوری ہوجانے کا دعوى کرے تو اسے زکاۃ کے مال سے اتنا دیا جاسکتا ہے جس سی وہ اپنے وطن واپس پہنچ سکے ,بھلے ہی وہ اپنے وطن میں مالدارشمارہوتا ہو-
سوال 7:
بوسنیا اورہرزیگوینا کے مسلم مجاہدین اورانہی جیسے دیگرمجاہدین کوزکاۃ کامال دینے میں بعض لوگوں کو تردد ہوتا ہے , اس مسئلہ میں آپکی کیا رائے ہے ؟ اورکیا اسوقت ان مجاہدین کو زکاۃ دینا زیادہ بہترہے یا دنیا کے مختلف خطوں میں اسلامی مراکزچلانے والوں کو؟ یا خود اپنے ملک کے فقراء کو دینا زیادہ بہترہے بھلے ہی اول الذکردونوں صنف ان سے زیادہ ضروتمند ہوں؟
جواب :
بوسنیا اورہرزیگوینا کے مسلمان زکاۃ کے مستحق ہیں , کیونکہ وہ فقروفاقہ سے دوچارہیں , جہاد کررہے ہیں , ان پرظلم ہورہاہے, اوروہ مالی امداد اورتالیف قلب کے ضرورتمند ہیں , اسلئے وہ اورانہی جیسے دیگرمسلم مجاہدین زکاۃکے مستحق ترین لوگوں میں سےہیں , اسی طرح اسلامی مراکزچلانے والے جودعوت وتبلیغ اورتعلیم وتدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اگرغریب ہوں تووہ بھی زکاۃ کے مستحق ہیں , اوراسی طر ح دنیا کے عام مسلم فقراء بھی اس بات کے مستحق ہیں کہ مالدارحضرات ان سے ہمدردی ومہربانی کا برتاؤکریں, تاکہ انکی دلجوئی ہو اوروہ اسلام پرثابت قدم رہیں, بشرطیکہ انہیں جو کچہ دیا جائے وہ ثقہ اورامانت دار اشخاص کے ذریعہ ان تک پہنچ جائے , یہ لوگ زکاۃ کے علاوہ مال کے ذریعہ بھی ہمدردی ومہربانی کئے جانے کے حقدارہیں-
البتہ شہرکے فقراء جہاں زکاۃ نکالی جارہی ہے اگرانکی ضروریات دوسرے ذرائع سے پوری نہ ہوسکے تووہ دوسروں کی بنسبت وہ زکاۃ کے زیادہ حقدارہیں ,کیونکہ حضرت معاذ t کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے جب انہیںیمن کی جانب روانہ کیا تو فرمایا:
" انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں, پس اگروہ تمہاری یہ بات مان لیں توانہیں بتاناکہ اللہ نے ان پرایک دن ارورات میں کل پانچ نمازیں فرض کی ہیں , اگروہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں توانہیں بتانا کہ اللہ نے ان پرزکاۃ فرض کی ہے جوان کے مالداروں سے لی جائے گی اورانہی کے فقراء میں تقسیم کردی جائے گی"(متفق علیہ)
سوال 8:
زیراستعمال زیورات ,یا استعمال کی لئے یا عاریۃ دینے کے لئے تیارکرائے گئے زیورات کی زکاۃ کے بارےمیں علماءکا اختلاف معروف ہے ,اس بارے میں آپ کی کیا رائے ھے؟ اوراگران زیورات میں زکاۃ واجب ہونے کی بات مان لیں توکیا اسکا بھی نصاب ہے؟ اوراگرکہتے ہیں کہ انکا بھی نصاب ہے توان احادیث کا کیا جواب ہے جوزیورات میں زکاۃ کے وجوب پردلالت کرتی ہیں اورجن کے اندررسول ﷺ نے زیورات کی زکاۃ نہ دینے والوں کو جہنم کی آگ کی وعید سنائی ہے ,مگران سے بظاہرمعلوم ہوتا ہے کہ وہ نصاب زکاۃ کو نہیں پہنچتے ہیں؟
جواب :
سونے اورچاندی کے زیورات جوزیراستعمال ہیں یا استعمال کے لئے یاعاریۃ دینے کے لئے بنوائے گئے ہیں ان میں زکاۃ کے واجب ہونے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف معروف ومشہورہے ,لیکن راجح قول یہی ہے کہ ان زیورات میں بھی زکاۃ واجب ہے , کیونکہ سونے اورچاندی میں زکاۃ واجب ہونے کے جودلائل ہیں وہ عام ہیں , نیز عبداللہ بن عمروبن عاص –d- کی صحیح حدیث ہے کہ ایک خاتون نبی ﷺ کے پاس آئیں اوران کی بیٹی کے ہاتہ میں سونے کے دو موٹے کنگن تھے , اسے دیکہ کرآپ نے فرمایا :
کیا تم اسکی زکاۃ دیتی ہو؟ اس نے جواب دیا :نہیں ,آپ نے فرمایا :
کیا تم کو یہ اچھا لگے گا کہ اللہ تعالى اسکے بدلے تمہیں آگ کے دوکنگن پہنائے ؟ چنانچہ اس نے وہیں دونوں کنگن نکال دئیے اورکہا :
یہ دونوں اللہ اوراسکے رسول کے لئے ہیں –
نیزام سلمہ – رضی اللہ عنہا- کی حدیث ہے کہ وہ سونے کے زیورات پہنتی تھیں , تورسول ﷺ سے دریافت کیا :
كہ كيا يہ کنزہے؟ آپ نے فرمایا :جومال زکاۃ کے نصاب کوپہنچ جائے اورپھراسکی زکاۃ دیدی جائے تو وہ کنز نہیں –آپ نے ان سے یہ نہیں فرمایا کہ زیورات میں زکاۃ نہیں ہے –
یہ ساری حدیثیں ان زیورات پرمحمول کی جائیں گی جونصاب زکاۃ کو پہنچ گئےہوں ,تاکہ ان احادیث کے درمیان اورزکاۃ کے تعلق سے وارد دیگردلائل کے درمیان تطبیق ہوجائے , کیونکہ جس طرح قرآنی آیات ایک دوسرے کی تفسیرکرتی ہیں , اوراحادیث نبوی آیات کی تفسیرکرتی ہیں, نیزآیات کے عام کو خاص اورمطلق کو مقید کرتی ہیں ,اسی طرح احادیث بھی بعض ,بعض کی تفسیرکرتی ہیں, کیونکہ یہ سب اللہ سبحانہ وتعالى کی جانب سے ہیں, اورجوبات اللہ کی جانب سے ہو اس میں باہم تعارض محال ہے, بلکہ بعض سے بعض کی تصدیق وتفسیرہوتی ہے-
زیورات میں زکاۃ واجب ہونے کے لئے جس طرح انکا مقدارنصاب تک پہنچنا ضروری ہے اسی طرح دیگراموال زکاۃ مثلاً روپے پیسے ,سامان تجارت اورچوپایوں کی طرح زیورات پرایک سال کی مدت کا گزرنا بھی ضروری ہے ,واللہ ولی التوفیق-
سوال 9:
بعض فقہاء استعمال کے زیورات میں زکاۃ واجب ہونے کی یوں تردید کرتے ہیں کہ صحابہ کرام اورتابعین عظام کے زمانہ میں زیورات کی زکاۃ دینا عام نہیں ہوا ,حالانکہ تقریباً کوئی بھی گھرزیورسے خالی نہیں ہوتا- اسلئے یہ نمازکی مانند ہے ,یعنی جس طرح نماز کے وجوب کی اورنماز کے اوقات کی تعیین کردی گئی ہے اورجس طرح زکاۃ کے وجوب کی اورزکاۃ کے نصابوں کی تعیین کردی گئی ہے اسی طرح زیورات کے زکاۃ کی بھی وضاحت کری جاتی ,لیکن ایسانہیں ہوا, بلکہ اسکے برعکس بعض صحابہ جیسے عائشہ رضی اللہ عنہا اورابن عمرd اوردیگرصحابہ سے بھی زیورات میں زکاۃ کے واجب نہ ہونے کا قول ثابت ہے – فقہاء کی اس دلیل کا کیا جواب ہے ؟
جواب:
یہ مسئلہ بھی دیگراختلافی مسائل کی طرح ہے جسمیںدلیل کا اعتبارہوگا, اورجب کوئی ایسی دلیل مل جائے جو اس نزاع کا فیصلہ کررہی ہو تو اس پرعمل کرنا ضروری ہوگا,اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً} (59) سورة النساء
اےایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو اورجو تم میں سے حکومت والے ہیں انکی اطاعت کرو, پھراگرتم کسی چیز میں اختلاف کروتو اسکو اللہ اوررسول کی طرف لوٹاؤ, اگرتم اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتے ہو ,تمہارے لئے یہی بہتراورانجام کے اعتبارسے اچھا ہے –
دوسری جگہ فرمایا :
) وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ } (10) سورة الشورى
جس بات میں تم اختلاف کرو تو اسکا فیصلہ اللہ کے حوالے ہے –
جوشخص شرعی حکم جان لینے کے بعد اسے اختیارکرلے تواہل علم کی مخالفت اسے نقصان نہیں پہنچائے گی , شریعت میں یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ باصلاحیت مجتہدین میں سے جس نے درست مسئلہ تک رسائی حاصل کرلی اسکے لئے دوہرااجرہے, اورجس سے چوک ہوگئی اسے اجتہاد پرایک اجرملے گا اوردرست مسئلہ تک پہنچنے کا اجرفوت ہوجائیگا – اس سلسلہ میں حاکم کے اجتہاد سے متعلق رسول ﷺ کی صحیح حدیث ہے , اوربقیہ مجتہد علمائے دین بھی اس سلسلے میں مجتہد حاکم کے حکم میں ہیں-
یہ مسئلہ دیگراختلافی مسائل کی طرح صحابہ اورانکے بعد کے زمانہ سے ہی علماء کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے , اہل علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلہ میں اوردیگراختلافی مسائل میں بھی دلائل کے ساتہ حق کو پہچاننے کی کوشش کریں , اورجو حق تک پہنچ جائے اسے کسی مخالف کی مخالفت نقصان نہیں پہنچاسکتی – ساتہ ہی اہل علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دوسرے عالم بھائی کے سلسلے میں حسن ظن رکھیں, اوراسکے قول کو بہترین صورت پرمحمول کریں, بھلے ہی اسکی رائے مختلف ہو, جب تک کہ اسکی جانب سے بالقصد حق کی مخالفت کی بات ظاہرنہ ہو جائے – واللہ ولی التوفیق-
سوال 10:
ایک شخص کئی قسم کے سامان کی تجارت کرتا ہے , مثلاً ملبوسات (کپڑوں) کی اوربرتنوں وغیرہ کی تجارت ,وہ زکاۃ کس طرح نکالے؟
جواب :
اس كے پاس تجارت کے جوسامان ہیں جب ان پرسال کی مدت گزرجائے اوران کی قیمت سونے یاچاندی کے نصاب کوپہنچ جائے تو اس پرزکاۃ واجب ہوجاتی ہے , اس بارے میں کئی احادیث وارد ہیں جن میں سمرہ بن جندب اورابوذرغفاری d کی حدیثیں بھی ہیں-
سوال 11:
موجودہ دورمیں حصص کے ذریعہ کمپنیوں میں نام لکھوائے جاتے ہیں ( shares لياجاتا هے ) کیا ان حصص میں زکاۃ ہے؟ اوراگرہے تو کیسے نکالی جائے؟
جواب:
زمین اورگاڑیوں اوردیگرسامان تجارت کی طرح تجارتی غرض سے تیارکیے گئے حصص والوں پرسال گزرجانے کی صورت میں انکی زکاۃواجب ہوجاتی ہے , لیکن اگرایسے اموال میں حصہ لیاجائے جوبیع کے لئے نہیں بلکہ کرائے کے لئے تیارکئے گئے ہیں , مثلاً زمین اورگاڑیاں وغیرہ ,توان میں زکاۃ نہیں, البتہ ان سے جوکرایہ حاصل ہو جب اس پرسال کی مدت گزرجائے اوراسکی رقم نصاب کو پہنچ جائے تو اسمیں زکاۃ واجب ہے – واللہ ولی التوفیق-
سوال 12:
ايك شخص کا سارا دارومدارماہانہ تنخواہ پرہے, جسکا کچہ حصہ خرچ کرتا ہے اورکچہ حصہ بچا کرجمع کرتا ہے ,وہ اپنے اس جمع کردہ مال کی زکاۃ کس طرح نکالے؟
جواب:
اس شخص کے لئے ضروری ہے کہ اپنی تنخواہ کا جتنا حصہ جمع کرتا ہے اسے لکھتا جائے ,پھرسال گزرنے پراسکی زکاۃ نکال دے , وہ اسطرح کہ ہرہرمہینہ کی بچی تنخواہ پرجیسے جیسے سال پورا ہوتا جائے اسکی زکاۃ نکالتا جائے, اگرپہلے ہی مہینہ میں اس نے پورے سال کی زکاۃ نکال دی تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ,بلکہ اسے اسکا اجرملےگا, اورجن رقوم کا ابھی سال نہیں پورا ہواہے ان کی زکاۃ ,زکاۃ معجل (پیشگی زکاۃ) شمارہوگی , زکاۃ دینے والا اگربہترسمجھے توپیشگی زکاۃنکال دینے میں کوئی حرج نہیں ہے, البتہ سال پوراہونے کے بعد زکاۃ کی ادائیگی موخرکرنا کسی شرعی عذرکے علاوہ مثلاً مال چوری ہوجائے یا زکاۃ لینے والا نہ ملے, اورکسی حالت میں جائز نہیں-
سوال 13:
ایک شخص کی وفات ہوگئی اوراسنے اپنے پیچھے مال اورکچہ یتیم چھوڑے ,کیا اس مال میں زکاۃہے ؟ اوراگرہے تو کون اداکرے؟
جواب :
یتیموں کے مال میں بھی زکاۃ واجب ہے ,خواہ وہ نقدی روپے پیسے ہوں , یاتجارتی سامان ہوں, یا چرکرپیٹ بھرنے والے چوپائے ہوں , یا وہ غلے اورپھل ہوں جن میں زکاۃ واجب ہوتی ہے , یتیم کے سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ وقت پرانکے مال کی زکاۃ اداکرے , اگران یتیموں کا انکے وفات یافتہ باپ کی طرف سے کوئی سرپرست نہ ہوتو معاملہ شرعی عدالت مبں پیش کیا جائیگا تاکہ عدالت کی طرف سے یتیموں کا کوئی سرپرست متعین کیا جاسکے جوانکی اورانکے مال کی نگہداشت کرے, اورسرپرست کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے اوریتیموں اورانکے مال کی بھلائی کے لئے کام کرے, اللہ سبحانہ وتعالى کا ارشادھے:
) وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلاَحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ } (220) سورة البقرة
اے پیغمبروہ آپ سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ,کہ دیجئے کہ ان کی اصلاح کرنا ہی اچھا ہے –
نیزفرمایا:
) وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ } (152) سورة الأنعام
یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جاؤ مگراسطرح سے کہ اسکی بہتری ہو, یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے –
اس موضوع پراوربھی بہت سی آیات ہیں –
یتیم کے مال میں سال پورا ہونے کا اعتباراسوقت سے ہوگا جب سےان کے والد کی وفات ہوئی ہے , کیونکہ وفات ہی سے مال انکی ملکیت میں داخل ہوا ہے, سوال 14:
وقت حاضرمیں استعمال اورغیراستعمال کے لئے تیارشدہ زیورات کی متعدد قسمیں پائی جاتی ہیں جیسے الماس اورپلاٹینم وغیرہ ,توکیا ان میں زکاۃ ہے ؟ اوراگریہ زیورات زینت وآرائش کے لئے یا استعمال کےلئے برتن کی شکل میں ہوں تو انکا کیا حکم ہے؟ مستفید فرمائیں, اللہ تعالى آپکو اجروثواب سے نوازے-
جواب :
یہ زیورات اگرسونے اورچاندی کے ہوں اورمقدارنصاب کوپہنچ جائیں اوران پرسال کی مدت گزرجائے تو علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق ان میں زکاۃ ہے, خواہ وہ پہننے کے لئے ہوں یا عاریۃ دینے کے لئے تیارکرائے گئے ہوں ,جیساکہ اس بارے میں صحیح احادیث وارد ہیں- لیکن اگریہ زیورات سونے اورچاندی کے نہ ہوں بلکہ الماس اورعقیق(مونگے) وغیرہ سے بنے ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں, الایہ کہ ان سے تجارت مقصود ہو, تواس صورت میں یہ تجارتی سامان کے حکم میں ہوں گے اوردیگرسامان تجارت کی طرح ان میں بھی زکاۃ واجب ہوگی –
رہا سونے اورچاندی کے برتن بنوانے کا مسئلہ ,توزینت وآرائش کے لئے بھی سونے اورچاندی کے برتن بنوانا جائزنہیں, کیونکہ یہ کھانے پینے کے لئے انہیں استعمال کرنے کا ذریعہ ہے, اوررسول ﷺ کی صحیح حدیث ہے:
"سونے اورچاندی کے برتن میں نہ پیو, اورنہ ان کی تھالیوں میں کھاؤ,کیونکہ یہ کفارکے لئے دنیا میں ہیں اورتمہارے لئے آخرت میں " (متفق علیہ)
اگرکسی نے سونے اورچاندی کے برتن بنوابھی لئے تو اسکو ان کی زکاۃ دینی ہوگی , ساتہ ہی اللہ عزوجل سے توبہ کرنی ہوگی ,اوران برتنوں کو زیورات یا اسی جیسی چیزوں سے بدلنا ہوگا جربرتن کے مشابہ نہ ہوں-
سوال 15:
بعض کسان زراعت میں صرف بارش کے پانی پراکتفاکرتے ہیں ,توکیا اس پیداوارمیں زکا ۃ ہے؟ اورکیا اسکا حکم اس پیداوارسے مختلف ہوگا جسے پانی کی مشین اورموٹرکے ذریعہ سینچاگیا ہو؟
جواب :
جوغلے یاپھل مثلاً کجھور,کشمش ,گیہوں اورجووغیرہ , بارش کے پانی سے یا نہروں سے یا بہتے چشموں سے سینچائی کرکے پیدا کئے گئے ہوں ان میں دسواں حصہ زکاۃ ہے , اورجوپانی کی مشین وغیرہ کے ذریعہ سنیچ کرپیداکئے گئے ہوں ان میں بیسواں حصہ ,کیونکہ نبی ﷺ کی حدیث ہے ,آپ نے فرمایا :
" جس کو آسمان نے سیراب کیا ہو اسمیں دسواں حصہ زکاۃ ہے , اورجس کو آلات کے ذریعہ سینچاگیا ہو اس میں بیسواں حصہ " (صحیح بخاری بروایت ابن عمرd)
سوال 16:
بعض مزرعوں میں کئی طرح کے میوے اورسبزیاں پیدا ہوتی ہیں, کیا ان میں زکاۃہے؟ اوروہ کون کون سی پیداوارہیںجن میں زکاۃواجب ہوتی ہیں ؟
جواب :
میوے اوراسی طرح وہ سبزیاں جوناپی اورذخیرہ نہیں کی جاتی مثلاً تربوزاوراناروغیرہ , ان میں زکاۃنہیں, الا یہ کہ ان کی تجارت کی جائے, تجارت کی صورت میں ان کی قیمت پرجب سال گزرجائے اوروہ نصاب کوپہنج جائے تو دیگرتجارتی سامانوں کی طرح ان میں بھی زکاۃ واجب ہوگی – البتہ وہ پھل اورغلے جوناپے اورذخیرہ کئے جاتےہیں جیسے کجھور,کشمش ,گیہوں اورجو وغیرہ ,ان میں زکاۃ واجب ہے ,کیونکہ اللہ تعالى کا ارشاد عام ہے:
) وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ } (141) سورة الأنعام
جس دن ان کو کاٹو ان کا حق اداکرو-
اورفرمایا:
) وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ } (43) سورة البقرة
نمازقائم کرو اورزکاۃ اداکرو-
نیزرسول ﷺ کا ارشاد ہے :
" پانچ وسق سے کم کجھوراوردانے (غلے ) میں زکاۃنہیں ہے " ( متفق علیہ)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ غلے جوناپے اورذخیرہ کئے جاتے ہیں جب انکی مقدارپانچ وسق پہنچ جائے تو اسمیں زکاۃ واجب ہے – نیز رسول ﷺ نے گیہوں اورجو میں زکا ۃ لی ہے , جواس بات کی دلیل ہے کہ انکے مثل غلوں میں زکاۃ واجب ہے – واللہ ولی التوفیق-
سوال17:
نصاب زکاۃ کے جاننے کے پیمانے مختلف ہیں , ان پیمانوں کی تعیین کے سلسلے میں خود ہمارے علماءکے درمیان بھی اختلاف ہے , سوال یہ ھے کہ موجودہ وقت میں نصاب کے جاننے کا سب سے صحیح پیمانہ کیا ہے ؟
جواب :
اس سلسلہ میں نبی ﷺ کا صاع معیارہے , صاع نبوی ,عراقی رطل سے پانچ رطل اورایک تہائی رطل کا ہوتا ہے , اورہاتہ سے اسکا اندازہ متوسط ہاتہ سے دونوں بھرے ہوئے ہاتھوں کے چارلپ کے برابرہے , جیسا کہ اہل علم اورائمہ لغت نے اسکی صراحت کی ہے – واللہ ولی التوفیق-
سوال 18:
بہت سے لوگ بینکوں کے ساتہ معاملہ کرتے ہیں, جس میں کبھی حرام معاملات مثلاً سودی کاروباربھی شامل ہوتے ہیں, کیا اسطرح کےمال میں زکاۃ ہے؟ اوراگرہے تواسکے نکالنے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب :
سودی کاروبارکرنا حرام ہے خواہ وہ بینک کے ساتہ ہو یا غیربینک کے ساتہ , سودی کاروبارسے جوفائدہ حاصل ہو وہ کل کا کل حرام ہے, اورصاحب مال کی ملکیت نہیں , اسلئے اگراس نے سود کی حرمت جانتے ہوئے وہ مال حاصل کرلیا ہے تو اسے خیرکے کاموں میں صرف کردینا ہوگا ,لیکن اگرابھی سود ی منافع اس نے حاصل نہیں کئے ہیں تواسے صرف اصل مال(راس المال ) لے کرباقی چھوڑدینا ہوگا, کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے :
) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ} (278- 297 ) سورة البقرة
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اورجو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑدواگرتم مومن ہو ,اگرایسا نہیں کرتے تو اللہ اوراسکے رسول سے جنگ کے لئے تیاررہو, اوراگرتوبہ کرلیتے ہو توتمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے , نہ تم ظلم کرو اورنہ تم پرظلم کیا جائے –
لیکن اگرکسی نے سود کی حرمت نہ جانتے ہوئے سودی منافع حاصل بھی کرلئے تو یہ اسکی ملکیت ہیں, اپنے مال سے اسکو الگ کرنا اسکے لئے ضروری نہیں, کیونکہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے:
) وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىَ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ} (275) سورة البقرة
الله نے خرید وفروخت کو حلال کیا ہے اورسود کو حرام ٹھرایا ہے , تو جس کے پاس اسکے رب کی جانب سے نصیحت آگئی اوروہ( سودسے) بازآگیا ,تو جوکچہ پہلے ہوگیا وہ اسکے لئے ہے اوراسکا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے, اورجوپھرسود کی طرف پلٹے تویہی لوگ جہنمی ہیں , وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے-
ایسےشخص کو جس طرح اپنے اس مال کی زکاۃ دینی ہوگی جس میں زکاۃواجب ہوتی ہے اسی طرح اس مال کی زکاۃ بھی دینی ہوگی جوسودی منافع کے علاوہ ہیں, اوراسمیں اسکا وہ مال بھی داخل ہے جس میں سود کی حرمت جاننے سے پہلے سودی منافع شامل ہوگئے ہیں, کیونکہ مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں وہ اسکا مال ہے – واللہ ولی التوفیق-
سوال 19:
صدقہ فطرکا کیا حکم ہے؟ اورکیا اسمیں بھی نصاب ہے؟ اورکیا صدقہ فطرمیں جوغلے نکالے جاتے ہیں وہ متعین ہیں؟ اوراگرمتعین ہیں تو کیا کیا ہیں؟ اورکیا مرد پرگھربھرکی جانب سے ,جن میں بیوی اورخادم بھی ہیں ,صدقہ فطرنکالنا واجب ہے؟
جواب :
صدقہ فطر ہرمسلمان پرفرض ہے ,خواہ وہ چھوٹا ہویا بڑا , مرد ہو یا عورت , آزاد ہویا غلام ,ابن عمرd کی صحیح حدیث ہے :
" رسول ﷺ نے ہرمسلمان مرد اورعورت ,چھوٹے اوربڑے, آزاد اورغلام پرایک صاع کھجوریا ایک صاع جَو صدقہ فطرفرض قراردیا ہے , اورمسلمانوں کے نماز عید کے لئے نکلنے سے پہلے پہلے اداکردینے کا حکم دیا ہے " (متفق علیہ)
صدقہ فطرکے لئے نصاب شرط نہیں ,بلکہ ہروہ مسلمان جسکے پاس اپنے لئے اوراپنے بال بچوں کے لئے ایک دن اورایک رات کی خوراک سے زائد غلہ ہو اسے اپنی طرف سے اوراپنے گھروالوں کی طرف سے , جن میں اسکے بچے , بیویاں , اورزرخرید غلام اورلونڈی شامل ہیں, صدقہ فطرنکالنا ہوگا-
وہ غلام جسے اجرت – تنخواہ – پررکھا گیا ہو وہ اپنے صدقہ فطرکا خود ذمہ دارہے, الا یہ کہ مالک بطوراحسان اپنی طرف سے اداکردے, یا غلام نے مالک پرصدقہ فطرکی شرط لگارکھی ہو, لیکن زرخرید غلام کا صدقہ فطرتوجیساکہ حدیث میں مذکورہوا, مالک کے ذمہ ہےٍ-
صدقہ فطرکا علماء کے صحیح ترین قول کےمطابق شہرکی خوراک کی جنس سے نکالنا ضروری ہے , خواہ وہ کجھورہو, یا جو ہو, یا مکئی ہو,یا اسکے علاوہ کوئی اورغلہ ہو, اوراسلئے بھی کہ رسول ﷺ نے اس بارے میں کسی خاص قسم کے غلے کی شرط نہیں رکھی ہے , اوراسلئے بھی کہ اس سے غرباء ومساکین کے ساتہ ہمدردی مقصود ہوتی ہے اورغیرخوراک سے کسی کے ساتہ ہمدردی کرنا مسلمان کو زیب نہیں دیتا –
سوال 20:
بوسنیا اورہرزیگوینا وغیرہ کے مسلم مجاہدین کو صدقہ فطردینا کیسا ہے ظ اوراگرفتوى ' جوازکا ہے تو پھراس سلسلے میں افضل کیا ہے؟
جواب :
مشروع یہ ہے کہ صدقہ فطرنکالنے والا جس شہرمیں مقیم ہے صدقہ فطروہیں کے فقراءکو دے , کیونکہ عموماً وہی اسکے زیادہ ضرورتمند ہوتے ہیں , اوراسلئے بھی کہ اس سے ان کی ہمدردی وغمخواری ہوجاتی ہے , اوروہ عید کے دن دست سوال دراز کرنے سے بے نیاز ہوجاتے ہیں – لیکن اگرصدقہ فطردوسرے شہرکے فقراء کو دیدیا جائے تو بھی علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق کفایت کرجائےگا , کیونکہ اس صورت میں بھی وہ مستحقین تک ہی پہنچتا ہے , پھربھی اپنے شہرکے فقراء کو دینا افضل اوراحوط ھے-
زکاۃ کی طرح صدقہ فطرکی تقسیم کے لئے بھی کسی معتبرشخص کو وکیل بنانا درست ہے, خواہ اسکی تقسیم شہرکے فقراء میں ہو یا باہرکے فقراء میں, اسی طر ح صدقہ فطرکا غلہ خرید نے اوراسے فقراء میں تقسیم کرنے کے لئے بھی کسی معتبرشخص کو وکیل بنانا درست ہے – واللہ ولی التوفیق-
فہرس
زکو'ۃ
سوال: صفحہ
1- تارک زکاۃ کا کیا حکم ہے ؟ اورکیا زکاۃ کا منکرہوکرزکاۃ نہ 2-3
دینےاوربخل وکنجوسی کی وجہ سے زکاۃ نہ دینے اورغفلت ولاپرواہی کی
وجہ سے زکاۃ نہ دینے کی صورتوں میں فرق ہے؟
2-ایک شخص کے پاس کئی قسم کے جانورہیں,لیکن کسی 3
ایک قسم کےجانورتنہا نصاب زکاۃ کونہیں پہنچتے ,کیا ایسی صورت میں ان جانوروں کی زکاۃ نکالی جائی گی؟اوراگرنکالی جائے گی تواسکی کیا کیفیت ہوگی؟
3-کیا یہ جائزہے کہ زکاۃ کی وجہ سے دویا تین آدمی اپنے اپنے مویشی باہم ملالیں؟ 3 -4
4-ایک شخص کے پاس سواونٹ ہیں, لیکن سال کا بیشترحصہ وہ انہیں چارہ
دے کرپالتاہے ,کیا ان اونٹوں میںزکاۃ ہے؟ 4-5
5- جس فقیرکوزکاۃ دی جانی چاہئے مختلف وقت میں اسکے فقروغربت
کا اندازہ یکساں نہیں ہوتا,آخراسکا معیارکیا ہے؟اورجب زکاۃ دینے والے
پریہ واضح ہوجائے کہ اسنے زکاۃ غیرمستحق کودیدی ہے توکیا وہ دوبارہ زکاۃ نکالے؟ 5-6
6-ایک شخص پردیس میں ہے اوروہاں اسکے پیسے چوری ہوگئے,کیا ایسے شخص کو زکاۃ دی جاسکتی ہے ,جبکہ موجودہ دورمیں مالی معاملات بالکل
آسان ہوگئے ہیں؟ 6
7-بوسنیا اورہرزیگوینا کے مسلم مجاہدین اورانہی جیسے دیگرمجاہدین کو
زکاۃ کامال دینے میں بعض لوگوں کو تردد ہوتا ہے, اس مسئلہ میں آپ کی
کیارائے ہے؟اورکیا اسوقت ان مجاہدین کوزکاۃ دینا زیادہ بہترہے یا دنیا کے
مختلف خطوں میں اسلامی مراکزچلانے والوں کو؟ یا خود اپنے ملک کے
فقراء کودینا زیادہ بہترہے بھلے ہی اول الذکردونوں صنف ان سے زیادہ
ضرورتمند ہوں؟ 6
8-زیراستعمال زیورات یا استعمال کے لئے یا عاریۃ دینے کے لئے تیار 7-8
کرائے گئے زیورات کی زکاۃ کے بارے میں علماء کا اختلاف معروف
ہے ,اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
9- بعض فقہاء استعمال کے زیورات میں زکاۃ واجب ہونے کی یوں 8-9
تردید کرتے ہیں کہ صحابہ کرام اورتابعین عظام کے زمانے میں
زیورات کی زکاۃ عام نہیں ہوا, حالانکہ تقریباً کوئی بھی گھرزیورات
سے خالی نہیں ہوتا, فقہاء کی اس دلیل کا کیا جواب ہے؟
10-ایک شخص کئی قسم کے سامان کی تجارت کرتا ہے, مثلا ملبوسات 9
کی اوربرتنوں وغیرہ کی تجارت, وہ زکاۃکس طرح نکالے؟
11- موجودہ دورمیں کمپنیوں میں شیئرلئے جاتے ہیں , کیا ان شیئر 9
میں زکاۃ ہے؟ اوراگرہے توکیسے نکالی جائے؟
12- ایک شخص کا سارادارومدارماہانہ تنخواہ پرہے, جسکا کچہ حصہ 9
خرچ کرتا ہے اورکچہ حصہ جمع کرتا ہے , وہ اپنے اس جمع کردہ
مال کی زکاۃ کسطرح نکالے؟
13-ایک شخص کی وفات ہوگئی اوراس نے اپنے پیچھے مال اورکچہ 10
یتیم چھوڑے ,کیا اس مال میں زکاۃ ہے ؟ اوراگرہے تو کون اداکرے؟
14-وقت حاضرمیں استعمال اورغیراستعمال کے لئے تیارشدہ زیورات کی
متعدد قسمیں پائی جاتی ہیں, توکیا ان میں زکاۃ ہے؟ اوراگریہ زیورات
زینت وآرائش کے لئے یا استعمال کے لئے برتن کی شکل میں ہوں 10-11
توانکا کیا حکم ہے؟
15-بعض کسان زراعت میں صرف بارش کے پانی پراکتفا کرتے ہیں , 11
توکیا اس پیداوارمیں زکاۃ ہے؟ اورکیا اسکا حکم اس پیداوارسے
مختلف ہوگا جسے پانی کی مشین اورموٹرکے ذریعہ سینچاگیا ہو؟
16-بعض مزرعوں میں کئی طرح کے میوے اورسبزیاں پیدا ہوتی 11-12
ہیں,کیا ان میں زکاۃ ہے ؟ اوروہ کون کون سی پیداوارہیں جن میں
زکاۃ واجب ہوتی ہے؟
17- نصاب زکا ۃ کے جاننے کے پیمانے مختلف ہیں, ان پیمانوں کی 12
تعیین کے سلسلہ میں خود ہمارے علماء کے درمیان بھی اختلاف ہے,
سوال یہ ہےکہ موجودہ وقت میں نصاب کے جاننے کا سب سے
صحیح پیمانہ کیا ہے؟
18-بہت سے لوگ بینکوں کے ساتہ معاملہ کرتے ہیں ,جس میں کبھی 12-13
حرام معاملات مثلاسودی کاروباربھی شامل ہوتے ہیں ,کیا اسطرح کے
مال میںزکاۃ ہے؟ اوراگرہے تواسکے نکالنے کا کیا طریقہ ہے؟
19- صدقہ فطرکا کیا حکم ہے؟ اورکیا اس میں بھی نصاب ہے؟ اور 13-14
کیا صدقہ فطرکے غلے متعین ہیں؟ اوراگرمتعین ہیں توکیا کیا ہیں؟
اورکیا مرد پرگھربھرکی جانب سے ,جن میں بیوی اورخادم بھی ہیں
,صدقہ فطرنکالنا واجب ہے؟
20- بوسنیا اورہرزیگوینا وغیرہ کے مسلم مجاہدین کو صدقہ فطردینا 14
کیسا ہے؟ اوراگرفتوى' جوازکا ہے توپھراس سلسلہ میں افضل کیا ہے؟