×
بچوں اور جوانوں کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کا طریقہء تعامل

بچوں اور جوانوں کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کا طریقہء تعامل

بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اس سے مدد طلب کرتے ہیں اور مغفرت چاہتے ہیں۔ ہم اپنے نفس کے شر، اور عمل کی برائی سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے وہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ ان پر، ان کے آل واصحاب پر بے انتہا درود وسلام بھیجے۔

حمد وصلاۃ کے بعد:

اے اللہ کے بندو! اللہ سے کما حقہ ڈرو اوراس سے خلوت وتنہائی میں بھی خوف کھاؤ۔

اے مسلمانو!

اللہ تعالی نے زندگی میں ایک قوت عطا کی ہے جو دو کمزوریوں کے درمیان ہوا کرتی ہے، یہی وہ قوت ہے جو زندگی کا ستون ہے، اور آخرت کا ثمر اور پھل ہے۔ جوانی کی عمر ہی کمزور ی کے بعد آنے والی قوت ہے، اسی عمر میں عزم جواں اور ہمت بلند رہتی ہے۔ ہر زمانہ میں نوجوانوں کی نفع رسانیاں عظیم رہی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے ان کے بارے میں کہا: ﴿سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ﴾۔ یعنی: ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا، جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالی نے یحیی علیہ السلام کے بارے فرمایا: ﴿وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا﴾۔ یعنی: اور اسے ہم نے لڑکپن ہی سے دانائی عطا فرما دی۔ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " یعنی اللہ نے بچپن اور کم سنی ہی کی عمر میں انہیں فہم، علم، سنجیدگی، عزم، خیر کی رغبت، اس سے بے انتہا دلچسپی اور اس کی انجام دہی کےتئیں انتھک کوشش کی توفیق سےنواز دیا تھا"۔

اللہ تعالی نے اصحاب کہف کے بارے فرمایا: ﴿إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى﴾۔ یعنی: یہ چند نوجوان اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: "اللہ تعالی نے ذکر کیا کہ وہ نوجوان تھے اور یہی لوگ بوڑھوں کے بہ نسبت حق کو زیادہ قبول کرنے والے اور راہ راست کی زیادہ ہدایت پانے والے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہنے والے زیادہ تر نوجوان تھے"۔

اور ان سات خوش نصیبوں میں جنہیں اللہ قیامت کے دن اپنے سائے میں جگہ دے گا ایک وہ نوجوان بھی ہوگا جس کی نشو ونما اللہ کی اطاعت پر ہوئی ہو۔ متفق علیہ۔

ہمارے نبی محمد ﷺ کا کم عمر اور نوجوان صحابہ کے ساتھ تعامل بڑا شاندارتعامل تھا، آپ ﷺ ان کے لیے تواضع اختیار کرتے، ان کے ساتھ بیٹھتے، ان کی زیارت کرتے، انہیں تعلیم دیتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے، جس کی بدولت ان میں سے ایک عظیم ترین نسل تیار ہوئی۔

آپ ﷺ کے تواضع کا ایک نمونہ یہ ہے کہ "جب آپ ﷺ بچوں کے پاس سے گذرتے تو انہیں سلام کرتے"۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی ﷺ کا بچوں کو سلام کرنا آپ کےعظیم اخلاق، شریفانہ آداب اور تواضع کا ایک حصہ ہے۔

آپ ﷺ ان کی تعلیم پربےانتہاءتوجہ دیتے تھے، جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ہم بلوغت کے قریب پہنچنے والے نوجوان نبی ﷺ کے ساتھ ہوتے تھے؛ تو ہم نےقرآن سے پہلے ایمان سیکھا، پھر قرآن سیکھا جس سے ہمارے ایمان میں مزیداضافہ ہوگیا"۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

ان کے دلوں میں عقیدہ کی بیج بوتے تھے، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "میں ایک دن نبی ﷺ کے پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: اے پیارے! میں تجھے چند کلمات سکھاؤوں گا؛ اللہ کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا۔ اللہ کی حفاظت کر تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ جب مانگنا ہو تو اللہ سے مانگ اور مدد طلب کرنی ہو تو اللہ سے طلب کر۔۔۔۔الحدیث۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

ان کو تعلیم دیتے وقت مختلف طریقے سے تلطف ونرمی اختیار کرتے تھے، کبھی ان کے ہاتھ پکڑ لیتے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: "میں آپ سے محبت کرتا ہوں، معاذ نے کہا: میں بھی اللہ کی قسم آپ سے محبت کرتا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا میں آپ کو چند کلمات نہ سکھا دوں جنہیں آپ ہر نماز کے بعدپڑھا کریں؟ معاذ نے کہا: جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: کہیے: اللَّهمَّ أعنِّي على ذِكرِك وشُكرِك وحسنِ عبادتِكَ" یعنی: اے اللہ ! تو ذکر، شکر اور حسن عبادت پر میری مدد فرما۔ بخاری نے اسے الادب المفرد میں روایت کیا ہے۔

اور کبھی ان کی ہتھیلیاں اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھ لیتے ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: " رسول اللہ ﷺ نے مجھے تشہد سکھایا - اس حال میں کہ میری ہتھیلی آپ کی ہتھلی کے درمیان تھی- جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ متفق علیہ۔

اور کبھی ان کے مونڈھے پکڑ لیتے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ نے میرا مونڈھا پکڑا اور فرمایا: دنیا میں ویسے ہی رہو جیسے کوئی اجنبی یا مسافر رہتا ہے"۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

تعلیم میں آپ کے پیار ومحبت کی وجہ سے وہ آپ کے پاس آتے اور کہتے کہ مجھے سکھائیں، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس کلام –یعنی: قرآن- میں سےسکھائیں، تو آپ نےمیرے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: "آپ سکھائے ہوئے بچہ ہیں"۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ چنانچہ ابن مسعود اس امت کے قراء میں سے ایک تھے۔

اور ان کی تعلیم پر صبر کرتے تھے، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام امور میں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے جس طرح ہمیں قرآن کی تعلیم دیتے تھے"۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

آپ کا ان سے پیار ومحبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ آپ جب سواری پر سوار ہوتے تو انہیں اپنے پیچھے بیٹھا لیتے؛ حالانکہ بڑے صحابہ موجود ہوتے۔ آپ نےحضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کوعرفہ سے مزدلفہ تک پیچھے بیٹھایا، پھر مزدلفہ سے منی تک آپ ﷺ نے حضرت فضل بن عباس کو اپنے پیچھے بیٹھالیا۔ متفق علیہ۔

آپ انہیں عبادت پر ابھارتے تھے۔ آپ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا -اور اس وقت وہ بچے تھے-: عبد اللہ بہترین آدمی ہیں کاش کہ یہ رات کی نماز پڑھا کرتے، اب کیا تھا، اس کے بعد عبد اللہ رات میں بہت کم سویا کرتے تھے۔ متفق علیہ۔

اچھے جملے سے ان کی رہنمائی کرتے اور سمجھاتے، آپ نے خریم اسدی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: آپ بہترین آدمی ہیں؛ اگر آپ میں دو خصلتیں نہ ہوں۔ میں نے کہا: وہ کیا ہیں؟ اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: آپ کا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا اور بال کو بڑھائے رکھنا۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

آپ ان پر شفقت کرتے اور ان کے اہل وعیال کے بارے دریافت کرتے، مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ہم نبی ﷺ کے پاس آئے اور ہم ایک جیسی عمر کے نو جوان تھے، ہم آپ کے پاس بیس رات ٹھہرے، تو آپ ﷺ کولگا کہ ہم اپنے اہل وعیال کو ترس گئے ہیں، اور ہم سے پوچھا کہ ہم اپنے اہل میں کن کن کو چھوڑ آئے ہیں؟ ہم نے بتلایا، -اور آپ مشفق اور رحم دل تھے-، تو آپ نے فرمایا: آپ لوگ اپنے اہل وعیال کے پاس واپس جائیں، ان کو سکھائیں، ان کو حکم دیں اور اسی طرح نماز پڑھا کریں جس طرح آپ لوگوں نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے"۔ متفق علیہ۔

نبی ﷺ اتنے بڑے آدمی ہوتے ہوئے بھی بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق کیا کرتے تھے۔ محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے یاد ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ میں پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی، اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔ یعنی نبی ﷺ نے اپنے منہ میں پانی لیا پھر بطور مذاق بچہ کے چہرے پر کلی کر دیا۔ متفق علیہ۔

بلکہ ان سے ان کے پرندوں کے بارے بھی پوچھتے اور پیار میں انہیں کنیت سے پکارتے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "نبی ﷺ ہمارےساتھ ہی اٹھتے بیٹھتے یہاں تک کہ میرے ایک چھوٹے بھائی سے کہا کرتے: اے ابو عمیر! نغیر –ایک چھوٹا پرندہ- نےکیا کیا"۔ متفق علیہ۔

ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں: آپ علیہ الصلاۃ و السلام بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق اورخوش طبعی کیا کرتے تھے تاکہ اس میں آپ کی اقتدا کی جائے اور آپ بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے، کیوں کہ اس سے نفس کو تواضع پر آمادہ کرنے اور تکبر کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔

آپ ان کو کھلانے کے لیے اپنے ساتھ اپنے گھر لے آتے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ایک دن رسول اللہ ﷺ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنا گھر لے آئے، اور آپ نے انہیں روٹی کا ایک ٹکڑا نکال کر دیا'۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

جب وہ لوگ آپ کے گھر میں جاتے تو آپ انہیں اپنے گھر کی بات سننے کی اجازت دے دیتے، ابن مسعود رضی ا للہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: 'پردہ کو اٹھا دیا جانا تمہارے لیے آگے آجانے کی اجازت کے مترادف ہے-یعنی: جب پردہ اٹھا ہوا ہو تو بغیر اجازت کے داخل ہو جاؤ- اور تم میری راز کی باتوں کو سننے کے بھی مجازہو، یہاں تک کہ میں تمہیں اس سے روک دوں"۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

آپ ان کے ساتھ کھاتے اور کھانے کے آداب سکھاتے، عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "میں رسول اللہ ﷺ کی گود –حضانت وتربیت-" میں تھا، میرے ہاتھ پلیٹ کے چاروں طرف بڑھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا: اے پیارے! بسم اللہ کہو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور سامنے سے کھاؤ۔ متفق علیہ۔

آپ اپنے چھوٹے اور نوجوان صحابہ کی دعوت قبول کرتےتھے، عبد اللہ بن بسر مازنی رضی ا للہ عنہما کہتے ہیں: "مجھے میرے والد نے رسول اللہ ﷺ کے پاس کھانے کی دعوت دینے کی غرض سے بھیجا، آپ میرے ساتھ آئے، جب میں گھر سے قریب پہونچا تو جلدی سےجاکر اپنے والدین کو بتلایا پھر وہ دونوں نکلے، رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور انہیں خوش آمدید کہا"۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

اور جب اپنے چھوٹے صحابہ میں سے کسی کی بیماری کی خبر پہنچتی تو ان کی عیادت کرتے، زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "میری آنکھ میں کوئی شکایت ہوئی تو آپ نے میری عیادت فرمائی"۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

آپ ﷺ ان میں سے ہر ایک کی مہارت کوپرکھ کر ایسی چیز کی طرف اس کی رہنمائی کرتےجو خود اس کے لیے اور پوری امت کے لیے مفید ہو۔ آپ علیہ السلام مدینہ تشریف لائے اور زید بن ثابت کو دیکھا کہ وہ اچھی کتابت کرتے ہیں حالانکہ ان کی عمر پندرہ سال سے بھی کم ہے تو آپ نے انہیں کاتب ِوحی مقرر کر لیا، آپ نے ان میں ذہانت دیکھی تو ان سے یہود کی زبان سیکھنے کو کہا تاکہ ان کی زبان میں لکھی ہوئی چیزوں کا ترجمہ کریں۔ زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے آپ ﷺ کے لیے ان کے خطوط پڑھنا سیکھے، اور پندرہ ہی دن میں اس میں مہارت حاصل کر لی، آپ ﷺ کو جب یہود خطوط لکھتے تو میں ہی پڑھتا اور آپ لکھتے تو آپ کی طرف سے میں جواب دیتا۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

آپ نے اپنے چھوٹے صحابہ سے قرآن سیکھنے پر ابھارا، آپ نے فرمایا: "چار لوگوں سے قرآن اخذ کرو؛ ابن مسعود، معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور سالم جو ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام تھے"۔ متفق علیہ۔

آپ ان کے مقام کو نمایاں کرنے اور ابھارنے کے لیے ان کی تعریف کیا کرتے تھے، آپ نے ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم کی تلاوت سنی، وہ چھوٹے تھے، قرآن بڑی اچھی آواز میں پڑھتے تھے تو آپ نے فرمایا: "تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اس امت میں اس جیسا قارئ پیدا فرمایا"۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی فقہی بصیرت دیکھی تو فرمایا: "حلال وحرام کے سب سے زیادہ جاننے والے معاذ بن جبل ہیں"۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

آپ چھوٹے اور نوجوان صحابہ سے اپنی محبت کا اظہار فرماتے، انہیں محبت سے مخاطب فرماتے تاکہ انہیں اور دیگرلوگوں کو یہ بتلائیں کہ آپ کے نزدیک ان کی کیا قدر ومنزلت ہے۔ آپ نےزید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے فرمایا: "یہ میرے نزدیک محبوب لوگوں میں سے ہیں، اور ان کا یہ فرزند - یعنی اسامہ- بھی ان کے بعد میرے نزدیک محبوب لوگوں میں سے ہیں"۔ متفق علیہ۔آپ نے انصار کے بچوں اور خواتین کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: "آپ سب میرے محبوب ترین لوگوں میں سے ہیں"۔ متفق علیہ۔

چھوٹے صحابہ سےمحبت اورتکریم کرتے ہوئے ان کی دنیاوی واخروی بھلائی کے لیے دعا فرماتے: ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سینے سے لگایا اور یہ دعا دی: "اے اللہ! تو اسے قرآن کا علم دے"۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے لیے یوں دعا فرمائی: "اے اللہ! اسے خوب مال و اولاد دے، اور اس میں برکت ڈال دے"۔ متفق علیہ۔

ان پر اعتماد کرتے ہوئے دوسروں کو چھوڑ کر انہیں ہی راز بتلاتے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "۔مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک راز بتلایا، میں نے وہ راز کسی کو نہیں بیان کیا، میری والدہ نے بھی اس راز کے بارے پوچھا؛ ان کو بھی نہیں بتلایا". متفق علیہ۔

آپ بڑی بڑی ذمہ داریاں ان کے حوالہ کرتے، عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو مکہ کا گورنر مقرر کیا، چنانچہ انھوں نے حج کا انتظام وانصرام کیا اور سن 8 ہجری میں لوگوں کے ساتھ حج کیا، ان کی عمر اس وقت بیس سال سے کم تھی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ حدیثیں پانچ کم عمرصحابہ نے روایت کیں: انس، جابر، ابن عباس، ابن عمر اور عائشہ اور یہ سب کے سب چھوٹی عمر کے صحابہ تھے۔

آپ اپنے بڑے بڑے امور میں چھوٹے صحابہ سے مشورہ طلب کیا کرتے، واقعہ افک میں جب وحی رک گئی تو آپ نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو مشورہ کے لیے بلا بھیجا۔ متفق علیہ۔

اپنی مجلس میں ان کی عزت وتوقیر فرماتے اور ان کے مقام کو بلند فرماتے، حالانکہ اس میں بڑے صحابہ بھی موجود ہوتے۔ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی، آپ نے اس میں سے کچھ پیا، آپ کے دائیں ایک کم عمر بچہ تھا، اور بائیں کچھ معمر لوگ تھے، آپ نے اس بچہ سے کہا: کیا تم مجھے اجازت دوگے کہ میں ان لوگوں کو یہ پینے کی چیز دوں؟ تو اس بچہ نے کہا: میں آپ کی طرف سے ملے ہوئے حصےمیں اپنے اوپر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا، تو آپ نے اسی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ متفق علیہ۔

جب کم عمر اور نوجوان صحابہ کی بابت پیش آنےوالی مصیبت کو بہت بڑی مصیبت قراردیتے، انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: انصار کے ستر نوجوان جنہیں قراء کہا جاتا تھا وہ مسجد میں رہا کرتے تھے، آپ نے انہیں (کسی مہم میں) بھیجا اور بئر معونہ کے دن سب کے سب شہید کر دیے گئے، تو آپ ان کے قاتلوں پر پندرہ دنوں تک فجر کی نماز میں بددعا کرتے رہے۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل صحیحین میں ہے ۔

جو شروع میں اسلام لائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی عموما ان کی عمر آٹھ سے تیرہ سال کے درمیان تھی جیسے علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم۔

جب قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکالنے کا ارادہ کیا تو آپ کے پاس مدینہ سے انصار آئے، جن میں سے آدھے کم عمر کے تھے، سبھوں نے عَقَبہ کے پاس آپ سے دو مرتبہ بیعت کی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اپنی ہجرت سے پہلے ایک نوجوان ہی کو بھیجا جن کا نام مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ تھاتاکہ وہاں کے باشندوں کو قرآن پڑھائے اور انہیں دین سےآگاہ اور روشناس کرائے، مصعب اپنے جیسے ایک نوجوان اسعدبن زرارہ کے گھر اترے اور انھوں نے اپنےپاس ٹھرایا۔

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا عزم کیا تو علی بن ابی طالب کو جو کہ جوان تھے حکم دیا کہ وہ ابھی ہجرت نہ کریں تاکہ وہ آپ کی طرف سے لوگوں کی تمام امانتیں واپس کر دیں جو آپ کے پاس تھیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ ہجرت میں کم عمر اور جوانوں نے آپ کی مدد کی، جب آپ اپنے ساتھی کے ساتھ غار میں پناہ گزیں تھے تب عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما آپ کے پاس آتے اور اہل مکہ کی خبریں دیتے، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: وہ ذہین وتیز فہم نوجوان تھے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

نیز اسماء رضی اللہ عنہا چھوٹی تھیں، وہی دونوں کے لیے کھانا اور پانی لاتی تھیں۔

جب آپ مدینہ تشریف لائے تو بچوں نے خوشی ومسرت کے ساتھ آپ کا ستقبال کیا، براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بچے اور نوکر چاکر راستوں میں نکل کر آواز دینے لگے: اے محمد! اے اللہ کے رسول! اے محمد! اے اللہ کے رسول!۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

جب آپ نے مدینہ کو جائے قرار بنا لیا تو صحابہ کرام نے مکہ سےمدینہ ہجرت کی اور وہ سب جوان تھے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی ﷺمدینہ آئے تو آپ کے ساتھیوں میں کوئی ایسا نہیں تھا جس کا بال سفید ہو گیا ہو سوائے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

غزوہ بدر میں نبی ﷺ نےاپنے ساتھیوں کو لڑنے اور جنگ کرنے کا حکم دیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بقول نو جوان صحابہ کرام دوڑ پڑے۔ اسے ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ اور غزوہ حنین میں نوجوان صحابہ کرام بغیر ہتھیار کےنکل پڑے تھے۔

آپ علیہ السلام نے اپنی موت سے پہلے شام میں رومیوں سے جنگ کے لیے ایک بڑا لشکر جمع کیا تھا، اور اس کا امیر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تھا، جن کی عمر اس وقت سترہ سال تھی۔

نبی ﷺکے اس منفرد تعامل کی وجہ سے کم عمر صحابہ کرام آپ سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے، جب آپ کسی سفر سے واپس آتے تو یہ آپ کے استقبال کے لیے مدینہ سے باہر نکل آتے۔ سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "غزوہ تبوک سے واپسی کے موقع پرمیں نبی ﷺ کے استقبال کے لیے بچوں کےساتھ ثنیۃ الوداع تک گیا تھا"۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

یہ آپ کے گھر میں رات گزارتے تھے۔ ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات گزارتا، ایک مرتبہ میں آپ کے وضو اور قضائے حاجت کے لیے پانی لایا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: مانگو، تو میں نے کہا: میں جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں"۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

ان میں سے جب کوئی آپ کے گھر سوتے تو وہ اپنا سر نبی ﷺ کے سر کے پاس ایک ہی تکیہ پر رکھتے۔ "ابن عباس رضی اللہ عنہما نےاپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ کے ہاں ایک رات گزاری، وہ کہتے ہیں: میں تکیہ کے گوشہ کی طرف لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہلیہ نےتکیہ کی لمبائی پر سر رکھ کر آرام فرمایا"۔ متفق علیہ۔

اے مسلمانو!

جب بڑے لوگوں کے اخلاق بلند ہوتے ہیں تو وہ بچوں کے لیے تواضع اختیار کرتے ہیں، بچہ فطرتا اس سے محبت کرتا ہے جو اس سے قریب ہو اور اسے تعلیم دے۔ حفظ وفہم میں بچے کا ادراک وشعور بسا اوقات بڑوں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ دین اسلام ان کی فطرت کے مطابق ہے، وہ دین اسلام سے محبت کرتے ہیں، اس کے آداب واحکام سے محبت کرتے ہیں اورنبی ﷺ کا طریقہ اسلام پر ان کی نشوو نما کرنا ہی ہے ۔ ان کو حقارت سے دیکھنا اور ان سے پہلوتہی اختیار کرنا عقل مندوں کے اخلاق وعادات کے خلاف ہے۔

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم

میں اللہ کی شیطان مردود سے پناہ چاہتا ہوں

﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ﴾۔ ترجمہ: بیشک رسول اللہ میں تمہارے لیے نہایت عمدہ نمونہ ہے ' ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو۔

اللہ قرآن کریم کو میرے اور آپ کے لیے بابرکت بنائے۔


دوسرا خطبہ

اللہ کے لیے تمام تعریفیں ہیں اس کے احسانات پر، اور ہر طرح کا شکر ہے اس کی توفیق اور انعامات پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کی شان نرالی ہے، اور گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، ان پر اور ان کے آل واصحاب پر اللہ کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں۔

اے مسلمانو!

رسول اللہ ﷺ کا طریقہ کامل طریقہ ہے، آپ کا طرز کامل طرز ہے، آپ کا تعامل بلند تعامل ہے۔ آج کے بچے (مستقبل میں) امت کی امید اور ستون ہیں۔ جو نئی نسل کا خیر خواہ ہے اسے چاہیے کہ ان کے ساتھ تعامل کرنے میں نبی ﷺ کا طریقہ اختیار کرے۔ آپ ﷺ نے اپنے کم عمر اور نوجوان ساتھیوں پر توجہ دی، جس کی بدولت ان تک علم منتقل ہوا، اور امت ان سے مستفید ہوئی۔ اللہ کی طرف سے بچوں کے لیے کامیابی یہ ہے کہ ان کے لیے کوئی عالم میسر کردے جو انہیں دین کی تعلیم دے اور انہیں انبیاء علیہم السلام کے اخلاق سے مزین کرے، اور بچوں کے سرپرست پر یہ واجب ہے کہ اس کے لیے کوشش کرے۔

پھر یہ جان لو کہ اللہ نے تمہیں اپنے نبی ﷺ پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔