کیا میّت اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے؟
"[۱] قربانی اصل میں زندوں کی طرف سے مشروع ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اپنی طرف سے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے قربانی کرتے تھے لہذا بعض لوگوں کا اپنی طرف سے قربانی نہ کرکے مردوں کی طرف سے قربانی کرنا خلاف سنت ہے، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اپنی قربانی کے اجر میں جس کو چاہے شریک کرے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےکیا ہے
[۲] مردوں کی طرف سے مستقل قربانی کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟
اس سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، البتہ راجح قول یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کی نیت سے قربانی کی جاسکتی ہے ، امام ابن تیمیہ ، سعودیہ کے دائمی کمیٹی اور بہت سے علماء اہل حدیث کا یہی مسلک ہے ، کیونکہ قربانی مالی عبادت ہے اور مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
البتہ ضروری ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنے والا پہلے اپنی طرف سے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے قربانی کرے پھر اگر چاہے تو میت کی طرف سے قربانی دے سکتا ہے ، البتہ اگر میت وصیت کرکے جارہا ہے اور اس کے لئے کوئی وقف چھوڑ کر جارہا ہے تو اس کی طرف سے قربانی واجب ہوگی ۔
[۳] بہت سے لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرتےہیں ، یہ عمل بھی بلا دلیل اور صحابہ و علماء کے خلاف ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع اور آپ پر کثرت درود وسلام ہی ہمارے لئے کافی ہے ۔"
زمرے
- الحج والعمرة فضائل وأحكام << العبادات << فقه
- الأضحية << عيد الأضحي << العيد << مناسبات دورية << دراسات إسلامية