×
کیا اللہ کے علاوہ کی قسم کھانا درست ہے؟قرآن اورکعبہ کی قسم کھانا کیساہے؟ماں باپ کی قسم,بہن کی قسم, نبی ورسول کی قسم , ولى پیروبابا کی قسم, مزارومشاہد کی قسم,وطن کی قسم ,زمین کی قسم, سَرکی قسم ,جبرئیل وفرشتوں وغیرہ کی قسم کا شرعی حکم کیا ہے؟ مشروع وغیرمشروع قسمیں ان سب کو پڑھئے کتا ب وسنت کی روشنی میں. قلم کار: جناب عبد اللہ بخش اصدارات: ہفت روزہ اہل حدیث اخبار- شمارہ 10

    (باللغة الأردية)

    تأليف

    فضيلة الشيخ/ عبد الله بخش حفظہ اللہ

    مراجعة

    شفیق الرحمن ضیاء اللہ المدنی

    الناشر

    المكتب التعاوني للدعوة والإرشاد وتوعية الجاليات بالربوة – الرياض

    ہفت روزہ اہلحدیث بسم الله الرحمن الرحيم

    جناب عبداللہ بخش

    دعوت و اصلاح

    غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے

    قسم کو عربی لغت میں حلف یا یمین کہتے ہیں جس کی جمع احلاف اور ایمان ہے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر تاکید اور پختگی کیلئے رب ذوالجلال کی قسم کھانا ( یمین کہلاتا ہے ) اور قسم صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماءو صفات کی کھانا جائز ہے اللہ رب العزت کے اسماءو صفات کے علاوہ کسی بھی چیز کی قسم کھانا مطلقاً حرام ہے ۔

    قسم کی تین قسمیں ہیں ۔

    * لغو قسم :

    وہ قسم ہے جو انسان بات بات پر بغیر ارادہ و نیت کے کھاتا رہتا ہے ایسی قسم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔

    * غموس :

    وہ جھوٹی قسم ہے جو انسان دوسرے کو دھوکہ اور فریب دینے کیلئے کھائے ، یہ کبیرہ گناہ ہے لیکن اس پر کفارہ نہیں صرف توبہ ہی ہے ۔

    * معقدہ :

    وہ قسم ہے جو انسان اپنی بات میں پختگی کیلئے ارادتاً ونیتاًکھائے ، ایسی قسم اگر توڑے گا تو اس پر کفارہ ادا کرنا لازم ہے ۔

    قسم کی مشروعیت قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے

    ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    {لاَّ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِيَ أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ} (225)سورة البقرة
    ” اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا ، لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مستحکم کر دو ۔ “

    ایک آیت میں ارشاد ربانی ہے :
    {وَأَوْفُواْ بِعَهْدِ اللّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلاَ تَنقُضُواْ الأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلاً إِنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ} (91) سورة النحل)
    ” اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب تم آپس میں قول و قرار کرو ، اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو ، باوجودیکہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو ۔ “
    یعنی قسم کھا کر اللہ کو ضامن بنا لیا ہے اب اسے توڑنا نہیں ، بلکہ اس عہد و پیمان کو پورا کرنا ہے جس پر قسم کھائی ہے ۔

    قسم کھانے کا حکم

    اللہ جل شانہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں تین مقامات پر اپنے رب کی قسم کھانے کا حکم دیا ۔

    ( 1 ) فرمایا :
    {وَيَسْتَنبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ وَمَا أَنتُمْ بِمُعْجِزِينَ} (53) سورة يونس ( 2 ) اور فرمایا :
    {وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ} (3) سورة سبأ

    ( 3 ) تیسرے مقام پر فرمایا :
    {زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن يُبْعَثُوا قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ} (7) سورة التغابن

    سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی قسم کا اثبات ہے ۔ بخاری شریف کی حدیث ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : واللہ اگر اللہ نے چاہا تو میں جب بھی کوئی قسم کھالوں اور پھر دوسری چیز کو اس کے مقابل بہتر سمجھوں تو وہی کروں گا جو بہتر ہو گا اور اپنی قسم توڑ دوں گا ۔ “ ( بخاری 6721 )

    غیر شرعی کاموں پر قسم کھانا سراسر ناجائز ہے اگر کوئی آدمی ایسی قسم کھالے تو اس کو توڑ دینا ضروری ہے ، بالغرض کوئی شخص لاعلمی میں اس طرح کی قسم کھالے تو معلوم ہونے پر اسے اپنی قسم توڑ دینی چاہیے اس پر کسی قسم کا کفارہ وغیرہ نہیں ہوگا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ” ومقلب القلوب “ و ” مصرف القلوب “ یا ” والذی نفسی بیدہ “ کے الفاظ کےساتھ قسم کھایا کرتے تھے ۔

    عہد قدیم اور دور حاضر کے تمام ائمہ و علماءاسلام کا قسم کے مشروع ہونے اور اس کے احکام پر اجماع ہے ۔

    تمام ادوار میں تاکید کیلئے قسم کا معروف طریقہ چلا آرہا ہے قسم متعدد مواقع پر کھائی جا سکتی ہے ۔

    ( 1 ) مخاطب کو اپنی بات پر یقین دلانے کیلئے کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا اور نہ ہی وعدہ خلافی کرے گا ۔

    ( 2 ) خود کو اس بات کا پابند کرنے کیلئے کہ وہ کوئی ممنوع کام سرانجام نہیں دے گا یا کسی کام کے کرنے میں کوئی چیز ترک نہیں کرے گا ۔ یہ اس لیے کہ بسا اوقات انسان کی طبیعت کسی کام کے کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے جبکہ وہ کام شرعاً جائز نہیں ہوتا ، ان دونوں صورتوں میں جب آدمی اس پر قسم کھا لے گا تو وہ قسم کی عظمت اور مخاطب کے ساتھ کئے وعدے کی پاسداری کرے گا اور حتی الوسع قسم کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا ۔

    قسم اگرچہ مشروع عمل ہے لیکن ہر بات پر قسم کھانا مستحسن نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام بن جاتا ہے کہ وہ ہر بات پر قسم کھائے بغیر نہیں رہ سکتے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    {وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ} (10) سورة القلم ” کہ تو کسی ایسے شخص کا بھی کہا نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا ہے ۔ “

    اس سے معلوم ہوا کہ کثرت سے اور بغیر ضرورت کے قسم کھانا مکروہ ہے اس لیے کہ دوران گفتگو زیادہ قسمیں کھانا انسان کو جھوٹ کی طرف لے جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کے دل سے قسم کی عظمت و وھیبت جاتی رہتی ہے اور پھر اس کا انسان کی شخصیت پر بھی کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا ۔

    لیکن آج کل لوگوں کا رویہ اس کے برعکس ہے خصوصا تاجر و دوکاندار حضرات جھوٹی سچی قسمیں کھا کر اپنا مال فروخت کرتے ہیں ، اشیاءکے عیوب چھپانے اور ناقص و گھٹیا مال پر زیادہ منافع کمانے کی خاطر پے در پے قسمیں کھائے چلے جاتے ہیں اور کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” قسم کی وجہ سے سامان تو جلدی فروخت ہو جاتا ہے لیکن وہ قسم برکت کو مٹا دینے والی ہوتی ہے “ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا : کہ اس حدیث میں خرید و فروخت کرتے وقت زیادہ قسمیں کھانے کی ممانعت ہے اور بغیر ضرورت کے قسم کھانا مکروہ ہے کیونکہ اس میں مشتری کو دھوکہ کھانے کا اندیشہ ہوتا ہے ، ابن حجرعسقلانی رحمۃاللہ علیہ کا قول ہے کہ جھوٹی قسم کے ذریعے کمائے گئے مال میں برکت نہیں رہتی ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( سامان فروخت کرتے وقت دوکاندار کے ) قسم کھانے سے سامان تو جلدی بک جاتا ہے لیکن وہ قسم برکت کو مٹا دیتی ہے یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر کمائے گئے مال میں برکت نہیں رہتی ، گو وقتی طور پر انسان منافع کما کر خوش ہو جاتا ہے لیکن ایسا مال برکت والا نہیں ہوتا ۔

    قسم کا اعتبار

    براءبن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات کاموں کے کرنے کا حکم دیا ، ان میں سے ایک ” ابرار المقسم “ بھی ہے کہ قسم کھا لینے والے کی قسم پوری کرانا ، اگر کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے یا معمولات زندگی میں کسی کام پر قسم دلائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی قسم پر اعتبار کرے ، اسے رد نہ کرے ، بشرطیکہ وہ کام غیر شرعی نہ ہو ۔ اور نہ ہی اس کام میں کسی قسم کے نقصان وغیرہ کا اندیشہ ہو ۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسلمان بھائی کی قسم کا اعتبار کرنا اور اس کو پورا کرنا مستحب ہے بشرطیکہ وہ کام شریعت کے عین مطابق ہو اور اس میں دھوکہ دہی وغیرہ کا امکان نہ ہو ۔

    قسم کا حکم

    قسم کا حکم اس کے مختلف احوال کے مطابق ہو گا ۔

    * واجب قسم :

    جب آدمی خود کو یا کسی دوسرے انسان کی جان کو محفوظ کرنے کیلئے قسم کھائے جیسا کہ قتل کے الزام میں جب کسی شخص پر قصاص و پھانسی کی سزا عائد کر دی جائے ، حالانکہ وہ شخص بے قصور ہو تو ایسے موقع پر سچی قسم کھانا اور اس کا اعتبار کرنا واجب ہے ۔

    *مستحب قسم :

    ایسے امور و معاملات جو شرعی مصلحت کے متقاضی ہوں جیسے باہم ناراض فریقین کے درمیان صلح کرانا یا فساد وغیرہ سے بچنے کیلئے قسم کھانا مستحب ہے کیونکہ اس سے بہت سارے مفسدات سے بچا جا سکتا ہے ۔

    * جائز قسم :

    کسی جائز و مباح کام کے کرنے پر قسم کھانا ، جبکہ قسم کھانے والے کو یقین ہو کہ وہ سچا ہے ایسی قسم جائز ہے ۔

    * مکروہ قسم :

    کسی مستحب کام کو ترک کرنے پر قسم کھانا مکروہ ہے ۔

    * حرام قسم :

    سراسر جھوٹی قسم کھانا حرام ہے
    قرآن کریم میں اس کی مذمت کی گئی ہے ارشاد ربانی ہے :
    { وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ} (14) سورة المجادلة” کہ وہ سب کچھ جاننے کے باوجود جھوٹی قسمیں کھاجاتے ہیں ۔ “
    یعنی منافقین قسمیں کھا کر مسلمانوں کو باور کراتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری طرح ہیں یا یہودیوں سے ان کے رابطے نہیں ہیں ۔

    قسم صرف اللہ رب العزت کی کھائی جائے غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے ۔ قسم صرف اور صرف رب ذوالجلال کے اسماءو صفات کی کھانی چاہیے جیسے اللہ کی قسم ، رب کعبہ کی قسم ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے ، مجھے پیدا کرنے والے یا رزق دینے والے رب کی قسم وغیرہ اور کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے اسماءو صفات کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائے ، چاہے وہ چیز کتنی ہی باعث تعظیم و متبرک کیوں نہ ہو ، جیسے قرآن کی قسم(اگراس سے مراد کلام اللہ ہے تواس صورت میں قسم کھانےمیں کوئی حرج نہیں کیونکہ کلام اللہ تعالى کی صفت ہےاوراللہ کے صفت کی قسم کھانی جائزہے, واللہ أعلم بالصواب.شفیق الرحمن م. ر.) ، کلمہ کی قسم ، کعبہ کی قسم( البتہ رب کعبہ کی قسم تویہ جائزہے م.ر. ) ، رسول کی قسم ، پیرو مرشد کی قسم ، والدین کی قسم ، (دهرتى (زمين) اوروطن كی قسم ,جبرئیل کی قسم ,م.ر.), ایمان کی قسم یا سَر کی قسم یا جان کی قسم وغیرہ وغیرہ ، اس طرح کی تمام قسمیں حرام ہیں ۔ کیونکہ اللہ اور اسکے رسول نے غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے اور غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے ۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اپنے باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خبردار ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہیں اپنے آباؤ اجداد کی قسمیں کھانے سے منع فرمایا ہے جو شخص قسم کھانا چاہے اسے چاہیے کہ صرف اللہ کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے ، اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے باپ دادا ، ماں اور دیگر بزرگ ہستیوں کی قسم کھانے سے منع فرمایا ، اور اللہ کی قسم کھانے میں بھی احتیاط سے کام لینے کا حکم دیا کہ اگر آدمی سچا ہو اور اسے اپنی بات پر بھرپور یقین ہو تو پھر قسم کھائے ۔

    ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ غیر اللہ کی قسم کھانے کو شرک اس لیے قرار دیا گیا ہے کیونکہ قسم کھانے والا اللہ کے علاوہ جس کی قسم کھاتا ہے گویا وہ اس کی تعظیم کر رہا ہے جو رب کی تعظیم کے مشابہہ ہوتی ہے اور اللہ کی تعظیم کے مشابہہ کسی مخلوق چیز کی تعظیم نہیں ہو سکتی ، لہٰذا غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے ، ابن قدامہ مزید فرماتے ہیں کہ جو شخص غیر اللہ کی قسم کھالے اسے چاہیے کہ وہ ” لا الہ الا اللہ “ کہے ، یعنی شرک سے توبہ کرتے ہوئے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرے ۔

    امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جو شخص غیر اللہ کی قسم کھائے اسے چاہیے کہ وہ استغفراللہ کہے ( اپنے اس کبیرہ گناہ پر اللہ رب العزت سے معافی طلب کرے )
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے لات اور عزیٰ ( زمانہ جاہلیت کے بتوں ) کی قسم کھائی ، اسے چاہیے کہ وہ لا الہ الا اللہ کہے ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا ۔

    قسم توڑنے کا کفارۃ

    اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
    { فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَيْمَانَكُمْ } (89) سورة المائدة” قسم توڑنے کا کفارۃ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے ، اوسط درجے کا ، جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو ، یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے ، اور جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ تین دن روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو ، اور اپنی قسموں کا خیال رکھو ۔ “

    کفارے کے طور پر کھانے کی مقدار میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے اس مسئلہ میں اختلاف ہے ، البتہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے جس میں رمضان میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستری کرنے والے کے کفارہ کا ذکر ہے ایک مد ( تقریبا 10 چھٹانک ) فی مسکین خوراک قرار دی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو کفارہ جماع ادا کرنے کیلئے 15 صاع کھجوریں دی تھیں جنہیں ساٹھ مسکینوں پر تقسیم کرنا تھا اور ایک صاع میں 4 مد ہوتے ہیں اس اعتبار سے بغیر سالن کے دس مسکینوں کے لیے دس مد ( یعنی سوا چھ کلو ) خوراک گندم یا چاول کفارہ ہوگی ۔
    ( واللہ اعلم بالصواب ) (هفت روزه اهل حديث اخبارشماره نمبر10,صفر1429ه)