×
سوال: ایک شخص میقات سے احرام باندھتا ہے، اور اپنے عمرہ کا ثواب تمام مسلمانوں کو ہدیہ کرنے کی نیت کرتا ہے، تو کیا اس کا عمرہ مقبول ہوگا؟ اور کیا اس کے اس عمل کا اجر مسلمانوں کو پہنچے گا؟

نیک اعمال کا ثواب تمام مسلمانوں کو ہدیہ کرنے کا حکم

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی : اسلام سوال وجواب سائٹ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق:عزیزالرّحمن ضیاءاللہ سنابلیؔ

حكم إهداء ثواب العمل الصالح لعموم المسلمين

فتوى: موقع الإسلام سؤال وجواب

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي

: 226347 نیک اعمال کا ثواب تمام مسلمانوں کو ہدیہ کرنے کا حکم

سوال: ایک شخص میقات سے احرام باندھتا ہے، اور اپنے عمرہ کا ثواب تمام مسلمانوں کو ہدیہ کرنے کی نیت کرتا ہے، تو کیا اس کا عمرہ مقبول ہوگا؟ اور کیا اس کے اس عمل کا اجر مسلمانوں کو پہنچے گا؟

بتاریخ 2015-08-02کو نشر کیا گیا

جواب:

الحمد للہ:

نیک اعمال کا ثواب کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان کو ہدیہ کرنے کے بارے میں اہل علم رحمہم اللہ کا اختلاف ہے، اور اس مسئلہ کے بارے میں ویب سائٹ پر تفصیلی گفتگو گزر چکی ہے، اور وہاں پر اس بات کو راجح قرار دیا گیا ہے کہ میت کو صرف انہیں نیک اعمال کا ثواب پہنچتا ہے جن کے بارے میں نصوص موجود ہیں، جیسے کہ صدقہ ، دعا وغیرہ؛ اس کی بنیادی وجہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے کہ:﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾ [النجم:39]

''اور انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی اس نے خود کوشش کی''۔[سورہ نجم:۳۹]
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (46698) اور (103966) کا مطالعہ کریں۔

چنانچہ نیک اعمال کا ثواب تمام مسلمانوں کیلئے ہدیہ کرنا تو بالاولی منع ہوگا، بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ایصالِ ثواب کا یہ طریقہ سلف صالحین میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ایصالِ ثواب کا یہ طریقہ سلف صالح سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا، جو مکمل قرآن مجید یا کچھ حصہ پڑھ کر کہتا ہے: '' یا اللہ! جو کچھ میں نے پڑھا ہے اسے میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ فرما دے، یا زمین پر موجود مشرق سے مغرب تک تمام لوگوں کو میری طرف سے یہ ہدیہ کر دے'' تو کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟ یا مستحب ہے؟ کیا ایسے شخص کو اس کے عمل سے روکنا ضروری ہے؟ اور کیا کسی مسلمان عالم نے پہلے ایسا کیا ہے؟
تو ابن تیمیہؒ نےجواب میں درج ذیل گفتگو فرمائی:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید پڑھنے کا ثواب ہدیہ کرنا، یا تمام اہل زمین کو ہدیہ کرنا بعض کے نزدیک ایسے ہے، جیسے نفل روزوں ، نمازوں، اور دیگر [بدنی]نفل عبادات کا ثواب ہدیہ کیا جائے، اور کچھ نے اسے صدقہ ، غلام آزاد کرنا، اور حج [یعنی: مالی عبادات]کا ثواب ہدیہ کرنے سے مشابہ قرار دیا ہے، [یعنی: اس کے بارے میں دو اقوال ہیں] ہمیں سلف صالحین، صحابہ کرام، تابعین عظام یا تبع تابعین میں سے کسی سے بھی ایسی بات نہیں ملی کہ انہوں نے ایسے کیا ہو، سب سے پہلے جس نے -ہمارے علم کے مطابق- یہ کام کیا وہ علی بن موفق ہیں جو کہ احمد الکبار کے ہم عصر، اور جنید کے مشایخ میں سے ہیں۔۔۔۔ (آگے فرماتے ہیں)لیکن ۔۔ تمام لوگوں کو نیک اعمال کا ثواب ہدیہ کرنا ! اس بارے میں کبھی نہیں سنا کہ کسی نے ایسا کیا ہو، اور نہ یہ بات میں نے سنی ہے کہ کوئی نبی ﷺ کو ثواب ہدیہ کیا کرتا تھا، ماسوائے علی بن موفق وغیرہ کے، اور [یہ بات مسلّم ہے کہ] صحابہ کرام، تابعین عظام، اور تبع تابعین کی اقتدا ان کی اقتدا سے بہتر ہے، چنانچہ انسان کو وہی عمل کرنا چاہیے جو شرعی طور پر صحیح ہو، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھے، کیونکہ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے، چنانچہ سنن میں یہ روایت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جمعہ کے دن اور رات میں مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔۔۔''

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم -آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں-پر درود پڑھنے کے فضائل اتنے زیادہ ہیں کہ اس کیلئے یہاں ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ہے، اسی طرح مومن مرد وخواتین کیلئے دعا کرنا، ان کیلئے اللہ سے بخشش طلب کرنا بھی ایسا عمل ہے جس کے بارے میں کتاب و سنت میں ترغیب دلائی گئی ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاسْتَغْفِرْلِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾

[محمّد:19] ''اور اپنے گناہوں کی،اور مؤمن مرد و خواتین کیلئے بخشش طلب کریں''[سورہ محمّد:۱۹]

چنانچہ ایک مؤمن کو شریعت میں ثابت شدہ افعال ہی تلاش کرنے چاہییں۔ واللہ اعلم''انتہی
)
جامع المسائل لابن تيمية :4/209- 213( مذکورہ بالا تفصیل کے بعد :
عمرے کا ثواب تمام مسلمانوں کو ہدیہ نہیں کرنا چاہیے، تاہم اس شخص نے جو عمل کر لیا ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اس کی اچھی نیت پر ثواب سے نوازے، لیکن اسے چاہیے کہ دوبارہ ایسا مت کرے، اور انہی باتوں پر اکتفا کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے شرعی قرار دی ہیں، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''چنانچہ ایک مؤمن کو شریعت میں ثابت شدہ افعال ہی تلاش کرنے چاہییں''۔

واللہ اعلم

اسلام سوال وجواب سائٹ

(طالبِ دُعا: [email protected])