حائضہ عورت كا تعليم يا حفظ قرآن كے ليے مسجد ميں داخل ہونا
زمرے
مصادر
Full Description
حائضہ عورت كا تعليم يا حفظ قرآن كے ليے
مسجد ميں داخل ہونا
[الأُردية –اُردو Urdu–]
فتوی:شعبۂ علمی اسلام سوال وجواب سائٹ
ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ
مراجعہ وتنسیق :عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ
دخول الحائض المسجد لحضور مجلس علم أو حلقة لتحفيظ القرآن
[الأُردية –اُردو Urdu–]
فتوى:القسم العلمي بموقع الإسلام سؤال وجواب
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي
۶۰۲۱۳: حائضہ عورت كا تعليم يا حفظ قرآن كے ليے مسجد ميں داخل ہونا
سوال:ايك حائضہ عورت مسجد كى علمى مجلس يا حفظ قرآن كى كلاس ميں شامل ہونا چاہتى ہے، يہ علم ميں رہے كہ وہ كلاس سے غائب نہیں ہوتى اور اگر غائب ہو تو بہت سے مسائل كا حصول ناممكن ہو جائے گا جو بعد ميں حاصل نہیں ہو سكتے، تو كيا اس كے ليے كسى معين شروط كے ساتھ مسجد ميں داخل ہونا جائز ہے، اور اس مسئلہ ميں علماء كرام كى راجح رائے كيا ہے ؟
بتاریخ 23-2-2007 کو نشر کیا گیا
جواب
الحمد للہ:
مذاہب اربعہ كے جمہور فقہاء كے یہاں حائضہ عورت كے ليے مسجد ميں ٹھرنا جائز نہیں ہے، ان كے دلائل درج ذيل ہيں:
ام عطيہ رضى اللہ تعالیٰ عنہا بيان كرتى ہيں كہ ہميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ:
(أَنْ نُخْرِجَ فِي الْعِيدَيْنِ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، وَأَمَرَ الْحُيَّضَ أَنْ يَعْتَزِلْنَ مُصَلَّى الْمُسْلِمِينَ)
''عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں بالغ اور كنوارى عورتيں بھى عيد گاہ جائيں، اور حائضہ عورتيں بھى ليكن وہ مسلمانوں كى نماز والى جگہ سے دور رہيں''۔
صحيح بخارى حديث نمبر: ( 974 ) ،صحيح مسلم حديث نمبر: ( 890 ).
چنانچہ اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حائضہ عورت كو عيدگاہ ميں نماز والى جگہ سے دور رہنے كا حكم ديا ہے، كيونكہ نماز والى جگہ كو مسجد كا درجہ حاصل ہے، جو اس بات كى دليل ہے كہ حائضہ عورت مسجد ميں داخل نہیں ہو سكتى ہے۔
اس كے علاوہ اور احاديث سے بھى استدلال كيا ہے ليكن وہ احاديث ضعيف ہيں ان سے حجت پكڑنى صحيح نہیں ہے، ان ضعيف احاديث ميں يہ بھى شامل ہے:
(لا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلا جُنُبٍ )
''ميں حائضہ اور جنبى شخص كے ليے مسجد حلال نہیں كرتاہوں ''
اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے ضعيف سنن ابو داود حديث نمبر ( 232 ) ميں ضعيف قرار ديا ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
صرف خطبہ سننے كے ليے حائضہ عورت كا مسجد ميں داخل ہونے كا شريعت اسلاميہ ميں كيا حكم ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
'' حيض يا نفاس والى عورت كے ليے مسجد ميں داخل ہونا حلال نہیں ہے... ليكن اگر صرف گزرنے كى ضرورت ہو تو اس ميں كوئى حرج نہیں ہے، ليكن اس ميں بھى شرط يہ ہے كہ مسجد ميں گندگى نہ پھيلے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ كا فرمان ہے:
﴿وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُواhttp://tanzil.net/ - 4:43﴾
'' اور نہ ہى جنبى شخص مگر يہ كہ راہ عبور كرنے والا ہو حتىٰ كہ تم غسل كر لو''۔ [النساء : 43 ].
اور حائضہ عورت بھى جنبى كے معنى ميں ہے؛ اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالیٰ عنہا كو حالتِ حيض ميں حكم ديا كہ وہ مسجد سے كوئى چيز پكڑائيں''۔ انتہى.
ديكھيں: [فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء: 6 / 272 ]۔
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
كيا حائضہ عورت مساجد كے اندر درس ميں شريك ہو سكتى ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالیٰ كا جواب تھا:
'' حائضہ عورت كے ليے مسجد ميں ٹھرنا جائز نہیں ہے ، ليكن بطور ضرورت وہ مسجد سے گزر سكتى ہے بشرطيكہ مسجد ميں خون كى گندگى نہ پھيلے، اور جب اس كے ليے مسجد ميں ٹہرنا جائز نہیں ہے تو درس سننے اور قرآن كى تلاوت كے ليے مسجد ميں عورت كا جانا بھى حلال نہیں ہوگا .
ليكن اگر مسجد سے باہر كوئى ايسى جگہ ہو جہاں لاؤڈ سپيكر كے ذريعہ آواز آرہى ہو تو وہاں جا كر بيٹھنے ميں كوئى حرج نہیں ہے، كيونكہ حائضہ عورت كے ليے قرآن كى تلاوت اور درس وغيرہ سننے ميں كوئى حرج نہیں ہے جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ عائشہ رضى اللہ تعالیٰ عنہا كى گود ميں ٹيك لگا كر قرآن كى تلاوت كيا كرتے تھے اور عائشہ رضى اللہ تعالیٰ عنہا حيض كى حالت ميں ہوتى تھیں .
ليكن اس كا مسجد ميں اس ليے جانا كہ وہ وہاں بيٹھ كر درس سنے يا قرآن مجيد كى تلاوت كرے تو يہ جائز نہیں ہے ، اسى ليے جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو حجۃ الوداع كے موقع پر پتہ چلا كہ صفيہ رضى اللہ تعالیٰ عنہا كو حيض آ گيا ہے تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: (أحابستنا هي ؟ )
'' كيا وہ ہميں روكنے والى ہے ؟ ''
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خيال تھا كہ انہوں نے ابھى طواف افاضہ نہیں كيا ہے، تو صحابہ كرام نے جواب ديا كہ وہ طواف افاضہ كر چكى ہيں.
يہ اس بات كى دليل ہے كہ حائضہ عورت كا مسجد ميں ٹہرنا جائز نہیں ہے ، چاہے وہ عبادت كے ليے ہى كيوں نہ ہو، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ بھى ثابت ہے كہ آپ نے عورتوں كو عيد كے موقع پر عيد گاہ جانے كا حكم ديا اور فرمايا كہ حائضہ عورتيں نماز والى جگہ سے دور رہيں''۔ انتہى.
ماخوذ از: [فتاوى الطہارۃ صفحہ] نمبر ( 273 ).
فقہاء كے مذاہب كى مزيد تفصيل آپ درج ذيل كتب ميں ديكھ سكتے ہيں:
المبسوط ( 3 / 153 ) حاشيۃ الدسوقى ( 1 / 173 ) المجموع ( 2 / 388) المغنى ( 1 / 195 ).
دوم:
حائضہ عورت قرآن مجيد چھوئے بغير زبانى تلاوت كر سكتى ہے، اس كى تفصيل سوال نمبر (۲564 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے.
اور وہ تفسير والا قرآن مجيد بھى پڑھ سكتى ہے اس ميں كوئى حرج نہیں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
'' كتب تفسير كو چھونا جائز ہے، كيونكہ وہ تفسير شمار ہونگى، اور اس ميں جو آيات ہيں وہ اس تفسير والى عبارت سے كم ہيں ''
اس كا استدلال نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ان خطوط سے كيا گيا ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كفار كو لكھے، ان ميں قرآنى آيات بھى لكھى جاتى تھيں، جو اس بات كى دليل ہے كہ حكم اغلب اور اكثر پر لگتا ہے.
ليكن اگر تفسير اور قرآن برابر ہو، تو جب مباح اور ممنوع دونوں جمع ہو جائيں اور ان ميں سے كسى كى راجح اور زيادہ ہونے كى تميز نہ ہو تو ممنوعہ جانب غالب ہو گى اور اسے قرآن كا حكم ديا جائيگا.اور اگر تفسير زيادہ ہو چاہے تھوڑى ہى تو اسے تفسير كا حكم ہى ديا جائيگا '' انتہى. الشرح الممتع ( 1 / 267 ).
سوم:
سوال ميں جو يہ بيان ہوا ہے كہ جب اسے مسجد ميں داخل ہونے سے منع كر ديا گيا تو بعض مسائل اور دروس حائضہ عورت نہیں سن سكے گى، اس كى تلافى اس طرح ہو سكتى ہے كہ وہ درس ريكارڈ كر ليے جائيں يا پھر اگر ممكن ہو تو اسے مسجد كے باہر سے سن ليا جائے.
مسجد كے ساتھ كچھ ملحقات ايسے ہونے چاہيں جنہیں مسجد كا حكم نہ ديا جائے، مثلا: مسجد كے باہر لائبريرى بنا دى
جائے، يا پھر حفظ قرآن كى كلاس جہاں پر عذر والى عورتيں بيٹھ كر بغيركسى حرج كے درس سن سكيں.
واللہ اعلم .
اسلام سوال و جواب
(طالبِ دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہazeez90@gmail.com: )