×
سوال:ميں نے ايك حديث پڑھى ہے كہ: ’’نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبر پر كھجور كى ٹہنى ركھى تھى‘‘ تو كيا قبر كى زيارت كرنے والے شخص كے ليے ايسا كرنا سنت ہے ؟

قبر پر پھول يا كھجور كى ٹہنى ركھنى جائزنہیں ہے

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی :شعبہ ٔعلمی اسلام سوال وجواب سائٹ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق:عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

لا يشرع وضع جريدة أو زهور على القبر

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوى: القسم العلمي بموقع الإسلام سؤال وجواب

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي

۴۸۹۵۸:قبر پر پھول يا كھجور كى ٹہنى ركھنى جائزنہیں ہے

سوال:ميں نے ايك حديث پڑھى ہے كہ:
''نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبر پر كھجور كى ٹہنى ركھى تھى''
تو كيا قبر كى زيارت كرنے والے شخص كے ليے ايسا كرنا سنت ہے ؟

بتاریخ ۲۲-۶-۲۰۱۰ کو نشر کیا گیا

جواب

الحمد للہ: جس حديث كى طرف سائل نے اشارہ كيا ہے وہ حديث بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى ٰعنہما سے بيان كى ہے:

وہ كہتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دو قبروں كے پاس سے گزرے تو فرمانے لگے: (إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لا يَسْتَتِرُ مِنْ الْبَوْلِ ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ، ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ فَغَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لِمَ فَعَلْتَ هَذَا ؟ قَالَ : لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا ).

'' ان دونوں كو عذاب ہو رہا ہے، اور يہ عذاب كسى بڑى چيز ميں نہیں، ان ميں سے ايك شخص تو پيشاب كے چھينٹوں سے نہیں بچتا تھا، اور دوسرا غيبت كرتا تھا''۔

پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تازہ كھجور كى ايك ٹہنى لے كر اس کے دو حصے كيے اور دونوں قبروں پر ايك ایک ٹہنى گاڑ دى، صحابہ كرام نے عرض كيا:

اے اللہ تعالىٰ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے ايسا كيوں كيا؟

تورسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جواب ميں ارشاد فرمايا:

''اميد ہے كہ جب تك يہ خشك نہ ہوں تب تک اللہ تعالىٰ ان كے عذاب ميں تخفیف ركھے''۔

صحيح بخارى حديث نمبر ( 218 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 292 ).

بعض علماء كرام نے عذاب ميں كمى كى علت يہ بيان كى ہے كہ ہرى بھرى ٹہنى اللہ تعالى ٰكى تسبیح بيان كرتى ہے، تو يہ عذاب ميں تخفیف كا باعث بنے گى، اس علت ميں نظر يعنى اعتراض ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالىٰ كى تفسير ميں اكثر اور زيادہ مفسرين كا يہى مذہب ہے:

فرمان بارى تعالىٰ ہے: ﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ ﴾

'' اور كوئى بھى چيز ايسى نہیں جو اللہ تعالى كى پاكيزگى اور تسبیح بيان نہ كرتى ہو''۔ [ الاسراء : 44 ]

مفسرين كا كہنا ہے كہ:

'' اس كا معنىٰ يہ ہے كہ: ہر زندہ چيز، اور ان كا كہنا ہے كہ: ہر چيز كى زندگى اس كے حال كےمطابق ہے، تو لكڑى كى زندگى اس وقت تك ہے جب تك وہ خشك نہیں ہوتى، اور پتھر جب تك ٹوٹتا نہیں، اور مفسرين ميں سے محققین نے يہ مسلك اختيار كيا ہے كہ يہ آيت اپنے عموم پر ہے. اھـ

يعنى اس آيت ميں تسبیح خشك كو چھوڑ كر تازہ اورہرى بھرى كےساتھ خاص نہیں ہے ، بلكہ ہر رطب و يابس چيز اللہ تعالى ٰكى تسبیح بيان كر رہى ہے.

اور خطابى اور ان كا مسلك اختيار كرنے والوں نے اس حديث پر عمل كرتے ہوئےقبر پر كھجور وغيرہ كى ٹہنى ركھنے سے انكار كيا اور اس حديث كے متعلق كہا ہے:

يہ اس پرمحمول ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ليے دعا كى كہ جب تك يہ ٹہنى خشك نہ ہو اس وقت تك ان كےعذاب ميں تخفیف كر دى جائے، نہ كہ ٹہنى ميں كوئى معنى ٰتھا جواس كے ساتھ خاص ہے، اور نہ ہى يہ كہ جو معنى ٰرطب ہے وہ يابس ميں نہیں. اھـ

اور اس بنا پر يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خاص ہوگا، لہذا كسى كے ليے بھى ٹہنى وغيرہ قبر پر ركھنى مستحب نہیں ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے کہ:

''نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا دونوں قبروں پر كھجور كى ٹہنى ركھنا، اور جن قبروں پر ٹہنى ركھى ان كے عذاب ميں كمى كى اميد كرنا ايك معين واقعہ ہے اسے عموم حاصل نہیں ہے ، ان دوشخصوں كے متعلق ہے جن كےعذاب پر اللہ تعالىٰ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو مطلع كرديا تھا.

اور يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےساتھ خاص ہے، اور يہ ان كى جانب سےمسلمانوں كى قبروں كے ليےكوئى سنت نہیں ہے، بلكہ اگر فرض كر ليا جائے كہ اس طرح كے كئى ايك واقعات پيش آئے تو دو يا تين بار ہى ہوا، نہ كہ اس سے زيادہ بار.

اور كسى ايك صحابى سے بھى ايسا كرنا ثابت نہیں ہے، حالانكہ صحابہ كرام مسلمانوں ميں سب سے زيادہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى كى حرص ركھنے والےتھے، اور مسلمانوں كو فائدہ دينے ميں بھى سب سے زيادہ حرص ركھتےتھے.

صرف اتنا ہے كہ بريدۃ اسلمى رضى اللہ عنہ سے بيان كيا جاتا ہے كہ انہوں نے وصيت كى تھى كہ ان كى قبر پر كھجور كى دو ٹہنياں ركھى جائيں، ہميں علم نہیں ہے كہ صحابہ كرام ميں سے كسى ايك نے بھى اس ميں بريدہ رضى اللہ عنہ سے موافقت كى ہو. اھـ

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

'' يہ مشروع نہیں ہے بلكہ بدعت ہے؛ اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ان دونوں قبروں پر اس ليے ٹہنى ركھى كہ اللہ تعالىٰ نے ان كے عذاب سے انہیں مطلع كيا تھا، اور اس كےعلاوہ كسى اور قبر پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہیں ركھى.

تو اس سے علم ہوا كہ يہ قبروں پر ركھنى جائز نہیں ہے ؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:( مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ )

''جس نے ہمارے اس امر(دین) میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے''ـ

اور مسلم کی روایت میں ہے کہ:( مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ )

'' جس نے ايسا كوئى عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہیں ہے تو وہ عمل مردود ہے''۔

اوراس طرح سے مذكورہ دونوں حديثوں كى بنا پر قبروں پر كتبے لگانا اور لكھنا، اور پھول وغيرہ ركھنا جائز نہیں ہے ؛ اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو قبريں پختہ كرنے اور اس پرعمارت قائم كرنے اور اس پر بیٹھنے اور اس پر لكھنےسے منع فرمايا ہے. اھـ

ديكھيں: [مجلة البحوث الاسلامیة ]( 68 / 50 ).

واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب

(طالبِ دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہ azeez90@gmail.com)