×
سوال: کیا نصرانی عورت سے شادی کی جاسکتی اوراسے قبول اسلام پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟

کیا نصرانی عورت سے شادی کی جاسکتی اوراسے قبول اسلام پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی:شعبۂ علمی اسلام سوال وجواب سائٹ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق :عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

هل يتزوج نصرانية ويرغمها على الإسلام

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوى:القسم العلمي بموقع الإسلام سؤال وجواب

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي


۲۰۲۲۷:کیا نصرانی عورت سے شادی کی جاسکتی اوراسے قبول اسلام پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟

سوال:

میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں اورمستقبل میں ہم شادی کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ میرے اس فیصلہ پر والدین بھی رضامند ہیں اوراسی طرح لڑکی کے والدین بھی رضامندی کا اظہار کرچکے ہیں ،اورسب کچھ بہتر حالت میں ہے ۔۔
لیکن مجھے ایک مشکل درپیش ہے کہ وہ لڑکی عیسائی ہے ، آپس میں بات چیت کے دوران میں نے اسے اسلام قبول کرنے کو کہا اوراسے اسلامی معلومات بھی مہیا کیں ، سب کچھ سمجھنے کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسلام قبول نہیں کرنا چاہتی ہے ۔ بلکہ اس نے تو یہ بھی کہا ہے کہ میں متشدد قسم کی عیسائی لڑکی ہوں ،عیسایت کے علاوہ اورکسی بھی دین کو قبول نہیں کرسکتی اورنہ ہی مسلمان ہوسکتی ہوں ، نہ تو وہ خنزیر کا گوشت کھاتی ہے اورنہ ہی شراب نوشی کرتی ہے ، وہ احساسات میں حقیقتا پاک صاف عورت ہے اورصاف دل کی مالک ہے اورحقیقت میں وہ میرے دین پر بھی کوئی اعتراض نہیں کرتی ہے ، بلکہ وہ اس پر موافق ہے اورمجھے قبول بھی کرتی ہے وہ چاہتی ہے کہ میں بھی اسے اس کے دین میں ہی قبول کروں اور ہمارا فیصلہ ہے کہ ہمارے بچے بھی مسلمان ہوں گے ۔
میرے کچھ دوستوں نے مجھے نصیحت کی ہے کہ میں اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور کروں یعنی اسے یہ دھمکی دوں کہ اگر اس نے اسلام قبول نہ کیا تو میں اس سے شادی نہیں کرونگا ، میرے دوست تویہی نصیحت کررہے ہيں لیکن میرے ناقص علم کے مطابق ایسا کرنا مطلقا اس کے ساتھ ناانصافی ہے ۔
آپ سے میری گزارش ہے کہ مجھے بتائيں کہ کیا میرے لیے ضروری ہے کہ میں اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور کروں ؟
میرے خیال میں وہ مسلمان اس وقت ہو جب اس میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اوریہ بھی ضروری ہے کہ اس کے احساسات بھی حقیقی ہونے چاہیے نا کہ عارضی ، میں اسے اسلام پر مجبور نہیں کرنا چاہتا کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا تو وہ ظاہر میں مجھے دکھانے اورمجھ سے شادی کرنے کے لیے مسلمان ہو جائے گی ، اوریہ اس کی غلطی ہوگی ..
میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ اپنے حقیقی احساسات کی بنا پر اسلام قبول کرے اوراس کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر اس کے حقیقی احساسات ہوں ، میری یہ پوری کوشش ہے کہ میں اسے صحیح اسلامی معلومات مہیا کروں اورسیدھا راستہ بھی دکھا دوں ۔۔۔ آپ سے میری گزارش ہے کہ مجھے یہ بتائيں کہ کیا اسے قبول اسلام پر مجبور کرنا واجب ہے ؟
اورکیا اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کرتی ہے تو میرے لیے اس سے شادی کرنا جائز ہے ، اورکیا ہم شادی کرکے خاوند اوربیوی کی زندگی بسر کرسکتے ہیں ؟

بتاریخ ۸۔۴۔ ۲۰۱۴کونشرکیا گیا

جواب

الحمد للہ:

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہودی اورعیسا‏ئی عورت سے مسلمان مرد کو شادی کرنے کی اجازت دی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ عفت وعصمت کی پاسدار ہونی چاہیے یعنی زانیہ نہ ہو، اور اس پر مسلمان کو ولایت حاصل ہوگی ۔

اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿اَلْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾[ المائدۃ :5]۔

'' کل پاکیزه چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعده نکاح کرو یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پوشیده بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وه ہارنے والوں میں سے ہیں ''۔[سورہ مائدہ:۵]

اس آیت میں[ احصان] سے مراد یہ ہے کہ زانیہ نہ ہو ۔

ابن کثیررحمہ اللہ کہتے ہیں :

''یہاں پر جمہورعلماء کرام کا قول بھی یہی ہے جوکہ صحیح ہے تا کہ اس میں دو چيزیں جمع نہ ہوں جائيں یعنی ایک تو وہ کتابیہ ہو اورپھر عفت وعصمت کی مالک بھی نہ ہو تواس طرح اس کی حالت کلیتا ہی خراب ہوجائیگی ، اورپھر خاوند کو بھی ویسے ہی حاصل ہوگا جس طرح کہ مثال پیش کی جاتی ہے [ ایک تو خراب کھجور اوروہ بھی تول میں کم ] یعنی دوہرا ظلم ، اورظاہر یہی ہے کہ آیت میں محصنات سے مراد زنا سے عفت وعصمت والی ہونی چاہیے ''۔ ا ھـ دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 3 / 55 ) ۔

اورولایت کی شرط پر مندرجہ ذیل فرمان باری تعالیٰ دلالت کرتا ہے : ﴿ وَلَن يَجْعَلَ اللَّـهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا﴾[النساء:141]

'' اور اللہ تعالیٰ کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راه نہ دے گا ''۔[ النساء: 141] ۔

ہمارے بھائی اس کے باوجود ہم آپ کو یہ نصیحت نہیں کرتے کہ آپ کسی غیر مسلم لڑکی سے شادی کریں بلکہ ہم تو یہ بھی نصیحت نہیں کريں گے کہ آپ کسی بھی مسلمان لڑکی سے شادی کرلیں کیونکہ ازدواجی زندگی صرف خوبصورتی اورپسند پر ہی مشتمل نہیں ہوتی ہے بلکہ عقل مند مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس میں اپنی بصیرت کو استعمال کرے جواس سے بھی زيادہ اچھی چيز ہے اسے دیکھے ۔

کیونکہ وہ گھر سے غائب ہونے کی صورت میں اپنے گھر کی حفاظت کا محتاج ہے اورپھر اسے اپنی اولاد کی تربیت کی بھی ضرورت ہے ، تو خود وہ اوراسی طرح ہر عقل مندخاوند ایسی اشیاء صرف اور صرف دین والی مسلمان لڑکیوں میں ہی پائے گا اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وصیت یہی ہے ۔

ابوہریرہ رضي اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (تُنكح المرأة لأربع لمالها ولحسبها وجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك .)

''عورت سے شادی چاروجوہات کی بنا پر کی جاتی ہے ، اس کے مال ودولت کی وجہ سے ، اس کے حسب و نسب کی وجہ سے ، اس کی خوبصورتی وجمال کی وجہ سے ، اس کے دین کی وجہ سے ، تیرے ہاتھ خاک میں ملیں دین والی کو اختیار کر '' صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4802 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1466 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں :

''اس حدیث کا صحیح معنیٰ یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی عادت کے بارے میں بتایا ہے کہ لوگ عام طور پر انہیں چار خصلتوں کی وجہ سے شادی کرتےہیں ، اوران کے یہاں سب سے آخری چيز دین ہوتی ہے ، اس لیے اے راہنمائی چاہنے والے آپ بھی دین والی کو اختیار کریں اوراسے ہی تلاش کریں کیونکہ حکم بھی اسی کا دیا گيا ہے ۔

اوراس حدیث میں اس بات پر ابھارا گيا ہے کہ اچھے ،نیک ا ور صالح قسم کے لوگوں سے ہی ہر قسم کےتعلقات رکھنے چاہیے اوران ہی لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چاہیے ، کیونکہ ان سے تعلقات رکھنے والا ان کے اخلاق اوربرکت سے مستفید ہوگا ، اور ان کے اچھے طریقے حاصل کرے گا ، اور اسی طرح ان کی جانب سے فساد والی چيزوں سے محفوظ رہے گا ۔'' دیکھیں شرح مسلم للنووی : 10 / 52 ) ۔

دوسری بات یہ ہے کہ کتابی عورتوں سے شادی کرنے کی بہت سی خرابیاں ہیں جن میں سے چند ایک ذيل میں پیش کی جاتی ہيں :

۱۔ خاوند اپنی بیوی سے اس کے دین کے معاملہ میں نرم رویہ اختیار کرے گا اورخاص کر جب وہ اپنے دین پر سختی سے کاربند ہو ، اس وجہ سے وہ صلیب بھی لٹکائے گی اورگرجا گھر میں بھی عبادت کےلیے جائے گی اورپھر اس پر یہ بھی مرتب ہوگا کہ اس کی اولاد اس حالت میں محفوظ نہیں رہے گی اس پر بھی ماں کے دین کا اثر ہوگا ۔

۲۔ کتابی بیوی حیض کے بعد غسل کرنے کی احتیاط نہیں کرے گی ، اورنہ ہی وہ حالت حیض میں خاوند سے ہم بستری کو منع کرے گی ، جس کی بنا پر شرعی حرج اورجسمانی و جسدی نقصان بھی ہوگا ۔

۳۔ کتابی بیوی کے لباس اور مردوں سے میل جول اوران سے بات چیت کی وجہ سے اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

۴۔ خاوند اوربیوی کے مابین اختلاف اورطلاق کی صورت میں کافرحکومتیں ان کتابی عورتوں کا ساتھ دیں گی کہ ان کی اولاد ماں کے سپرد کی جائے ، جوکہ ایک مسلمان کی اولاد کے ضیاع اورکفرمیں واقع ہونے کا سبب ہوگا ، اس طرح کہ واقعات بے شمار ہيں جویہاں پر ذکر نہیں کیے جاسکتے ۔

کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے :

نصاریٰ سے شادی کرنا بہت ہی زيادہ قبیح کام ہے جویقینا اولاد کو کفر میں لے جانے کا باعث بنتا ہے ۔

اورجواپنے بیٹے کے کفر پر راضی ہو وہ بھی کافر ہے ، اگرچہ وہ قولی طور پر اسلام کا ہی دعوی ٰکرتا رہے ۔

اوربعض اوقات بیوی کے پیچھے چلتے ہوئے خاوند بھی کفر کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل ہوگا ۔

اگر تم صحیح شادی کرنا چاہتے ہو اوراس کی رغبت رکھتے ہو تو کسی دین والی صالحہ عورت سے شادی کرو یہ تمہارے لیے بہتر اور اچھا ہے ۔

اوراپنے آپ سے کافروں کو دور رکھو اوران سے شادی کرنے سے بھی پہلو تہی اختیار کرو ، کیونکہ ان کا شربہت ہی زيادہ اور واضح ہوتا ہے ۔

اوراس شادی سے پیدا شدہ اولاد صالح نہیں ہوگی ، اصل اورفروعی طور پر غلط اورخبیث قسم کی نسل بڑھ جائے گی ۔

دوم :

جب آپ نصرانی عورت سے شادی کرلیں تو پھر آپ اسے اسلام قبول کرنے پر مجبورنہیں کر سکتے ۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّـهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾[البقرة:256]

'' دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی ہے، اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان ﻻئے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے واﻻ، جاننے واﻻ ہے ''۔[ البقرۃ : 256] ۔

ابن کثیر رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں کہتے ہيں :

''اللہ تعالیٰ فرماتے ہيں [ دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے ] یعنی تم کسی کو بھی دین اسلام میں داخل ہونے کے لیے مجبور نہ کرو کیونکہ دین اسلام کے حق ہونے کے دلائل وبراہین واضح اور ظاہر ہيں ، جس میں کوئی ضرورت نہیں کہ اسلام میں داخل ہونے کےلیے کسی پر بھی زبردستی کی جائے ۔

بلکہ اللہ تعالیٰ نے جسے اسلام کی ہدایت نصیب فرمادی اوراس کے سینہ ودل کو اسلام کے لیے کھول دیا اوراس کی بصیرت کو روشن اورمنور کردیا تو وہ خود ہی دلیل کے ساتھ اسلام میں داخل ہوگیا ۔

اورجس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے اندھا کردیا اوراس کی آنکھوں ، کانوں پر مہر لگا دی اس کا مجبورا دین اسلام میں داخل ہونا بھی کوئی فائدہ نہیں دے گا ، اس آیت کا سبب نزول یہ ذکر کیا گيا ہے کہ کچھ انصاریوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی ، لیکن اس کا حکم عام ہے ۔''

دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 1 / 311 ) ۔

ہم ایک بار پھر آپ کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ آپ اس سے شادی نہ کریں اوراسے ترک کردیں ، اوراللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ آپ کے دین کے لیے آپ کے دل کو اس سےبہتر اوراچھائی کی طرف مائل کردے ، جب اسے اللہ تعالیٰ کے لیے ترک کیا جائے گا تو پھراللہ تعالیٰ ان شاء اللہ اس کا نعم البدل بھی عطا فرمائے گا ۔کیونکہ حدیث میں نبی ﷺ کا فرمان موجود ہے :(من ترك شيئاً لله عوّضه الله خيراً منه) ''جو بھی کسی چيز کو اللہ تعالیٰ کے لیے ترک کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے''۔

واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب

(طالبِ دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہazeez90@gmail.com: )