شديد غصّہ كى حالت ميں دى گئى طلاق اور طلاقِ معلّق کا حکم
زمرے
- الطلاق وأحكامه << الأسرة << فقه
- فتاوى عامة << الفتاوى << فقه
مصادر
Full Description
شديد غصّہ كى حالت ميں دى گئى طلاق
اورطلاقِ معلّق کا حکم
[الأُردية –اُردو Urdu–]
فتوی:شعبۂ علمی اسلام سوال وجواب سائٹ
ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ
مراجعہ وتنسیق :عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ
الطّلاق المعلّق والطّلاق في حال الغضب الشديد
[الأُردية –اُردو Urdu–]
فتوى:القسم العلمي بموقع الإسلام سؤال وجواب
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي
82400 :شديد غصّہ كى حالت ميں دى گئى طلاق اور طلاقِ معلّق کا حکم
سوال: اگر كوئى شخص اپنى بيوى پر طلاق كى قسم کھائے كہ اگر اس نے كوئى كام مثلا :قطع رحمى كى تو اسے طلاق ہے، اورخاوند اس وقت شديد غصہ كى حالت ميں تھا اور اسے اپنے نفس پر کنٹرول نہ تھا اور اسے يہ بھى ياد نہیں تھا كہ وہ كيا كہہ رہا ہے۔۔۔ تو اس كا حكم كيا ہو گا ؟
بتاریخ ۱۸- ۴- ۲۰۱۳کو نشر کیا گیا
جواب
الحمد للہ:
اول:
آدمى كو چاہيے كہ بيوى كے ساتھ جھگڑے ميں وہ طلاق كے الفاظ مت بولے، كيونكہ طلاق كا انجام خطرناك ہے، بہت سارے لوگ طلاق كے معاملہ ميں سستى كرتے ہيں، اور جب بھى بيوى كے ساتھ جھگڑا ہوا طلاق كى قسم کھا لى، جب بھى كسى دوست كے ساتھ جھگڑا ہوا تو طلاق كى قسم کھالى..
يہ تو اللہ كى كتاب كے ساتھ كھلواڑ كى ايك قسم ہے، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اكٹھى تين طلاق دينے كو اللہ كى كتاب كے ساتھ كھيل قرار دے رہے ہيں تو پھر جو شخص اسے اپنى عادت ہى بنا لے اور جب بھى بيوى كو كسى چيز سے روكنا چاہا يا اسے كچھ كرنے كى ترغيب دلانا چاہى تو طلاق كى قسم کھا لى اس كے بارے ميں كيا خيال ہے ؟!
محمود بن لبيد بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ايك ايسے شخص كے بارے ميں بتايا گيا جس نے اپنى بيوى كو اكٹھى تين طلاق دى تھيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم غصہ كىوجہ سے اٹھ كھڑے ہوئے اور پھر فرمايا: (أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ ،وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ ؟!)
'' کیا تمہارے درميان ميرى موجودگى ميں ہى وہ اللہ كى كتاب كے ساتھ كھيل رہا ہے ؟!''
چنانچہ ايك شخص كھڑا ہوا اور كہنے لگا:
اے اللہ تعالیٰ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ميں اسے قتل نہ كردوں ؟''۔ سنن نسائى حديث نمبر ( 3401 ).
حافظ رحمہ اللہ نے اس كے رجال كو ثقات قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے غايۃ المرام ( 261 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
'' وہ لوگ جو ہر بڑى اور چھوٹى چيز ميں اپنى زبان سے طلاق كے الفاظ نكالتے ہيں بے وقوف اور كم عقل ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بھى مخالف ہيں كيونكہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ہمارى راہنمائى كرتے ہوئے فرمايا ہے:
(مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ)
'' جو كوئى بھى قسم کھانا چاہتا ہے تو وہ اللہ كى قسم کھائے يا پھر خاموش رہے ''۔ صحيح بخارى حديث نمبر ( 2679 ).
اس ليے جب بھی مومن قسم کھائے تو اسے اللہ عزوجل كى قسم ہى کھانى چاہيے، اور پھر قسم كثرت سے نہیں کھانى چاہيے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ كا فرمان ہے: ﴿وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ﴾
(اور اپنى قسموں كى حفاظت كرو )۔[سورہ مائدہ : 89 ]
اس آيت ميں من جملہ طور پر یہ تفسير کی گئى ہے كہ كثرت سے اللہ كى قسميں مت کھاؤ.
رہا مسئلہ طلاق كى قسم کھانے كا مثلا: اگر تو نے ايسا كيا تو مجھ پر طلاق، يا تم ايسا نہ كرو مجھ پر طلاق، يا اگر ميں نے ايسا كيا تو ميرى بيوى كو طلاق، اگر تو نے ايسا نہ كيا تو ميرى بيوى كو طلاق اور اس جيسے دوسرے الفاظ كہنا تو يہ اس چیز كے خلاف ہے جس كى طرف ہميں رسول كريم صلى اللہ نے راہنمائى کی ہے ''۔ انتہى
ماخوذ از: فتاوى المراۃ المسلۃ ( 2 / 753 ).
دوم:
كسى شخص كا اپنى بيوى كو يہ كہنا كہ: اگر تونے ايسے كيا تو تجھے طلاق، يا پھر يہ كہا: [ اگر تونے ايسے نہ كيا تو تجھے طلاق ] يہ شرط پر معلق طلاق كہلاتى ہے، جس ميں جمہور فقہاء كا مسلك يہ ہے كہ شرط پورى ہونے كى صورت ميں يہ طلاق واقع ہو جائے گى.
اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ اس معلق كردہ طلاق ميں تفصيل ہے جو قائل كى نيت پر منحصر ہوگى اگر اس نے اس سے قسم والا مقصد ليا كہ كسى چيز كی ترغيب دلانا يا كسى چيز سے منع كرنا، يا كسى كى تصديق كا تكذيب كرنا، تو يہ قسم كے حكم ميں ہوگا اور اس سے طلاق واقع نہیں ہوگى بلكہ قسم ٹوٹنے كى صورت ميں قسم كا كفارہ لازم آئے گا، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے یہی قول اختيار كيا ہے.
اور اگر اس سے طلاق مراد لى گى ہو تو شرط پورى ہونے كى صورت ميں بيوى كو طلاق واقع ہو جائےگى، اور اس كى نيت كا معاملہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہى جانتا ہے جس پر كوئى چيز بھى مخفى نہیں ہے ، اس ليے مسلمان كو اپنے پروردگار پر حيلہ سازى اور اپنے آپ كو دھوكہ دينے سے اجتناب كرنا چاہيے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
'' راجح يہى ہے كہ جب طلاق قسم كے معنى ميں استعمال كى جائے مثلا : كسى آدمى كا اس سے مراد كسی چيز پر ابھارنا يا پھر كسى چيز سے روكنا يا تصديق كرنا يا تكذيب كرنا يا تاكيد كرنا مراد ہو تو اس كا حكم قسم كا ہوگا.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ كا فرمان ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ قَدْ فَرَضَ اللَّـهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّـهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴾[التحريم:1-2]
'' اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جس چيز كو اللہ نے آپ كے ليے حلال كر ديا ہے اسے آپ كيوں حرام كرتے ہيں ؟ ( كيا ) آپ اپنى بيويوں كى رضامندى حاصل كرنا چاہتے ہيں، اور اللہ بخشنے والا رحم كرنے والا ہے، تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہارے ليے قسموں كو كھول ڈالنامقرر كر ديا ہے، اور اللہ تمہارا كارساز ہے اور وہى پورے علم والا ،حكمت والا ہے ''۔[التحريم : 1 - 2 ]
تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تحريم كو قسم بنايا ہے، اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: (إنَّما الأَعمالُ بالنِّيَّات، وإِنَّمَا لِكُلِّ امرئٍ مَا نَوَى ... (
'' اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ''۔ اسے بخارى نے روايت كيا ہے.
اور اگر اس شخص نے طلاق كى نيت نہیں كى ہے ، بلكہ قسم كى نيت كى ہے، يا پھر قسم كے معنى كى نيت كى ہے ، چنانچہ جب وہ اس كو توڑےگا تو اس كے ليے قسم كا كفارہ كافى ہوگا، يہى قول راجح ہے ''۔ انتہى ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 754 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے اپنى بيوى سے كہا: مجھ پر طلاق تم ميرے ساتھ اٹھو، ليكن وہ اس كے ساتھ نہ اٹھى تو كيا اس سے طلاق واقع ہو جائے گى ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
'' اگر اس سے آپ كا مقصد طلاق دينا نہ تھا، بلكہ صرف بيوى كو اپنے ساتھ جاگنے پر ابھارنا مقصود تھا تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگى، صحيح قول كے مطابق خاوند پر كفارہ لازم آ ئے گا.
اور اگر خاوند كا مقصد طلاق دينا تھا اور بيوى نے اس كى بات نہ مانى تو اسے ايك طلاق واقع ہو گی ''۔ انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 86 ).
سوم:
يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اكثر طور پر طلاق غصہ اور تنگى اور جذبات كى حالت ميں صادر ہوتى ہے، نہ كہ خوشى و رضامندى اور شرح صدر كى حالت ميں،پس خاوند نے جوغصہ كى حالت ميں طلاق دى ہے تو اس كا يہ معنى نہیں ہے كہ طلاق واقع نہیں ہوتى ہے جيسا كہ اكثر لوگوں كا خيال ہے.
ليكن يہ ہو سكتا ہے كہ خاوند كو غصہ آيا ہو اور وہ اپنے ہوش و حواس كھو بيٹھا ہو اور اسے ادراك بھى نہ ہو كہ زبان سے كيا كچھ نكال رہا ہے اور اسے سمجھتا بھى نہ ہو تو سب علماء كا اتفاق ہے كہ ايسے شخص كى اس حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہیں ہوگى.
ليكن اگر غصہ شديد ہو مگر وہ اس حد تك نہ جائے جس سے ہوش و حواس کھوبیٹھے اور ادراک نہ رہے، ليكن غصہ شديد ہو كہ وہ اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھ سكے اور غصہ اسے طلاق كى طرف لے جائے.
تو اس صورت ميں جمہور علماء كہتے ہيں كہ يہ غصہ طلاق واقع ہونے ميں مانع نہیں ہوگا(یعنی ایسی صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی)۔
اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ يہ غصہ بھى طلاق واقع ہونے ميں مانع ہوگا، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ یہی فتوى ديا كرتے تھے، اور ان شاء اللہ راجح بھى یہی ہے .اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 45174 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
ہم نے جمہور فقہاء كے مسلك كى طرف اشارہ اس ليے كيا ہے كہ سائل اور قارئ كو طلاق جيسے الفاظ كى ادائيگى كے خطرہ كا ادراك ہو سكے، چاہے يہ الفاظ غصہ كى حالت ميں بولے گئے ہوں يا عام حالت ميں يہ بہت خطرناك ہيں.
اور پھر ہو سكتا ہے ان الفاظ كو نكالنے كى جلد بازى سے اس كے گھر اور خاندان كا شيرازہ بكھر جائے، ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے عافيت و سلامتى چاہتے ہے.
(الحاصل یہ کہ ) اگر اس کی اپنی بیوی پر کھائی ہوئی(طلاق کی) قسم شدید غصہ کی حالت میں تھی(لیکن اس کے عقل وشعور وادراک پورے طور سے ختم نہیں ہوئے تھے) تو ان شاء اللہ اس کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم .
اسلام سوال وجواب
(طالبِ دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔazeez90@gmail.com: )