راجح قول كے مطابق تين طلاقیں ايك ہى واقع ہوں گى
زمرے
مصادر
Full Description
راجح قول كے مطابق تين طلاقیں ايك ہى واقع ہوں گى
[الأُردية –اُردو Urdu–]
فتوی:شعبۂ علمی اسلام سوال وجواب سائٹ
ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ
مراجعہ وتنسیق :عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ
طلاق الثلاث يقع واحدة على القول الراجح
[الأُردية –اُردو Urdu–]
فتوى:القسم العلمي بموقع الإسلام سؤال وجواب
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي
۹۶۱۹۴:راجح قول كے مطابق تين طلاقیں ايك ہى واقع ہوں گى
سوال:ميرے ايك دوست نے اپنى بيوى كو غصہ كى حالت ميں طلاق دے دى، اس نے اسے ايك ہى بارہ تين طلاقيں ديں، ليكن ميں نے انٹرنيٹ پر پڑھا ہے كہ تين طلاقيں ايك ہى شمار ہوتى ہے، كيا يہ بات صحيح ہے كہ ايك مجلس كى تين طلاقيں ايك ہى شمار ہو گى، اور ميں نے غصہ كى بھى تين قسميں پڑھى ہيں كيا يہ بھى صحيح ہے ؟
بتاریخ 2011-06-08 کو نشر کیا گیا
جواب
الحمد للہ:
اوّل:
تين طلاق كے مسئلہ ميں فقہاء كا اختلاف ہے، اور راجح یہی ہے كہ يہ ايك طلاق ہى شمار كى جائے گى، چاہے ايك ہى كلمہ ميں'' تجھے تين طلاق ہے'' كہا جائے، يا پھر عليحدہ عليحدہ مثلا: '' تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے''۔
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اسی کو اختيار كيا ہے، اور شيخ سعدى اور شيخ ابن عثيمين رحمہما اللہ نے اسی کو راجح قرار ديا ہے.
ان لوگوں نے ابن عباس رضى اللہ تعالیٰ عنہما كى اس حديث سے استدلال كيا ہے جس میں وہ بيان كرتے ہيں كہ:
(كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ النَّاسَ قَدْ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ)
''نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك ميں اور ابو بكر رضى اللہ تعالیٰ عنہ كى خلافت ميں، اور عمر رضى اللہ تعالیٰ عنہ كى خلافت كے دو برس ميں تين طلاقيں ايك ہى شمار كى جاتى رہى، چنانچہ عمر رضى اللہ تعالیٰ عنہ كہنے لگے: لوگوں نے اس معاملہ ميں جلدبازى كى ہے جس ميں ان كے ليے وسعت تھى اس ليے اگر ہم اسے جارى كر ديں تو انہوں نے اسے ان پرجارى كر ديا ''۔ صحيح مسلم حديث نمبر ( 1472 ).
دوم:
غصہ كى حالت ميں طلاق دينے والے كى تين حالتيں ہوتی ہيں:
پہلى حالت:
غصہ تھوڑا سا ہو كہ وہ اس كے ارادہ و اختيار پر اثرانداز نہ ہو تو اس كى طلاق صحيح اور واقع ہوگى.
دوسرى حالت:
اگر غصہ اتنا شديد ہو كہ پتہ ہى نہ چلے وہ كيا كہہ رہا ہے اور اسے شعور ہى نہ رہے تو اس حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہیں ہو گى كيونكہ يہ پاگل و مجنون كى طرح ہے جس كے قول كو نہیں ليا جائے گا.
ان دونوں حالتوں كے حكم ميں علماء كرام كا كوئى اختلاف نہیں ہے .
تيسرى حالت:
اتنا شديد غصہ ہو كہ آدمى كے ارادہ پر اثرانداز ہو اور وہ ايسى بات كرنے لگے گويا كہ اسے اس پرمجبور كيا جا رہا ہے پھر كچھ ہى دير ميں غصہ زائل ہونے پر وہ اس پر نادم ہو ليكن يہ غصہ اس حد تك نہ پہنچا ہو كہ اس سے احساس و شعور اور ادراك ہى ختم ہو جائے، اور اپنے قول و فعل پر كنٹرول نہ کرسکے۔ تو غصہ كى اس قسم كے حكم ميں علماء كا اختلاف پايا جاتا ہے، اور راجح یہی ہے جيسا كہ شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے كہ اس ميں بھى طلاق واقع نہیں ہوگى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
( لا طَلاقَ وَلا عَتَاقَ فِي إِغْلاقٍ(
''اغلاق كى حالت ميں نہ تو طلاق ہے اور نہ ہى آزاد كرنا''۔
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2046 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 2047 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
علماء كرام نے [ الاغلاق ] كى شرح كرتے ہوئے كہا ہے كہ اس كا معنى جبر اور شديد غصہ ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم نے بھى یہی قول اختيار كيا ہے، اور انہوں نے اس سے متعلق [ اغاثةاللھفان فى حكم طلاق الغضبان] كے نام سے ايك مشہور كتابچہ بھى تاليف كيا ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 45174 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.
اس قول كى بنا پر اگر آپ كے دوست نے شديد غصہ كى حالت ميں طلاق کی بات كى ہےتو يہ طلاق واقع نہیں ہو گی ، اور اگر اس كا غصہ اتنا شديد نہ تھا بلکہ تھوڑا سا تھا تو ايك طلاق واقع ہو جائے گی .
واللہ اعلم .
اسلام سوال و جواب
(طالبِ دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہazeez90@gmail.com: )