محّرم الحرام کے فضائل ومسائل اور صومِ عاشوراء
زمرے
مصادر
Full Description
محّرم الحرام کے فضائل ومسائل اور صومِ عاشوراء
[الأُردية –اُردو Urdu–]
جمع وترتیب:شیخ/ مبشّرحسین لاہوری ۔حفظہ اللہ۔
مراجعہ وتنسیق:شفیق الرّحمن ضیاء اللہ مدنی
فضائل ومسائل شهر المحرّم،وصومِ عاشوراء
جمع وترتيب: الشيخ/مبشّر حسين لاهوري -حفظه الله-
مراجعة وتنسيق:شفيق الرحمن ضياء الله المدني
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
محرّم الحرام کے فضائل ومسائل اور صومِ عاشوراء (مبشّرحسین )
محدّث میگزین،لاہور،شمارہ 268:اپریل2003، صفر1424 جلد 35: عدد: 4
محرّم الحرام ہجری تقویم کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد نبی اکرمﷺکے واقعہ ہجرت پر ہے۔ گویا مسلمانوں کے نئے سال کی ابتدا محرم کے ساتھ ہوتی ہے۔ ماہِ محرم کے جو فضائل و مناقب صحیح احادیث سے ثابت ہیں، ان کی تفصیل آئندہ سطور میں رقم کی جائے گی اور اس کے ساتھ ان بدعات و خرافات سے بھی پردہ اُٹھایا جائے گا جنہیں اسلام کا لبادہ اوڑھا کر دین حق کا حصہ بنانے کی مذموم کوششیں کی گئی ہیں۔
۱۔محرّم، حرمت و تعظیم والامہینہ ہے
قرآن مجید میں ہے کہ:
﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ شَهرًا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ مِنها أَربَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ ۚ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم...﴾[سورة التوبة:36]
’’اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے چار مہینے ادب و احترام کے لائق ہیں، یہی درست دین ہے لہٰذا ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔‘‘
یعنی ابتداے آفرینش ہی سے اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرما رکھے ہیں۔ جن میں چار کو خصوصی ادب و احترام اورعزت و تکریم سے نوازا گیا۔ یہ چار مہینے کون سے ہیں، ان کی تفصیل صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ نبیﷺنے فرمایا:
)إِنَِّ الزَّمَانَ قَدْ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلَاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ)
’’زمانہ اپنی اسی حالت پر واپس لوٹ آیا ہے کہ جس پر وہ اس وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی تھی۔ سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں، تین تو لگاتار ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرّم اور چوتھا مضر قبیلے کا ماہِ رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ (بخاری:کتاب التفسیر، سورۃ التوبہ ؛۴۶۶۲/ مسلم: کتاب القسامہ، باب تغلیظ تحریم الدماء ؛ ۱۶۷۹(
مذکورہ حدیث میں دو باتیں قابل توجہ ہیں: ایک تو یہ کہ محرّم بھی حرمت والے مہینوں میں شامل ہے اور دوسری یہ کہ زمانہ اپنی سابقہ حالت و ہیئت پر واپس لوٹ آیا ہے۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ دورِ جاہلیت میں بھی لوگ حرمت والے مہینوں کا احترام کرتے اور جنگ و جدل، قتل و غارت گری اور خون ریزی وغیرہ سے اجتناب کرتے تھے۔ البتہ اگر کبھی حرمت والے مہینے میں انہیں جنگ و جدل اور قتل و غارت گری کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ اپنے طور پر مہینوں کی تقدیم و تاخیر کرلیتے۔ اگر بالفرض محرم کا مہینہ ہے تو اسے صفر قرار دے لیتے اور (محرم میں اپنے مقصد پورے کرنے کے بعد) اگلے ماہ یعنی صفر کو محرم قرار دے کر لڑائی جھگڑے موقوف کردیتے۔ قرآن مجید نے اس عمل کو نسیئ قرار دے کر زیادتِ کفر سے تعبیر فرمایا۔ (التوبہ:۳۷)
جس سال نبی اکرم ﷺ نے حج فرمایا، اس سال ذوالحجہ کا مہینہ قدرتی طور پراپنی اصلی حالت پر تھا۔ اس لئے آپ ﷺنے مہینوں کے اَدل بدل کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ زمانہ گھوم گھما کر اپنی اصلی حالت پر واپس لوٹ آیا ہے۔ یعنی اب اس کے بعد مہینوں کی وہی ترتیب جاری رہے گی جسے اللہ تعالیٰ نے ابتداے آفرینش سے جاری فرما رکھا ہے۔
دونوں باتوں کا حاصل یہی ہے کہ محرم ادب و احترام والامہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ادب و احترام والا بنایا جبکہ اس کے آخری رسولﷺ نے اس کی حرمت کو جاری رکھا اور عرب کے جاہل بھی اس کا اس قدر احترام کرتے کہ احترام کے منافی کسی عمل کے جواز کے لئے کم از کم اتنا حیلہ ضرور کرلیتے کہ فرضی طور پر حرمت والے مہینے کو کسی دوسرے غیر حرمت والے مہینے سے بدل لیتے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے یہ بات از خود سمجھ آجاتی ہے کہ ماہِ محرم کی حرمت و تعظیم کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں جو اس مہینے کی حرمت کی کڑیاں واقعہ کربلا اور شہادتِ حسین ؓسے ملاتے ہیں۔ اس لئے کہ ماہِ محرم کی حرمت تو اس دن سے قائم ہے جس دن سے یہ کائنات بنی ہے۔ جیسا کہ سورئہ توبہ کی گذشتہ آیت: ﴿يَومَ خَلَقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ﴾ سے واضح ہے۔
علاوہ ازیں سانحہ کربلا، قطع نظر اس سے کہ اس میں حضرت حسینؓ کی مظلومانہ شہادت ہوئی، کا دین اسلام سے اس معنیٰ میں کوئی تعلق نہیں کہ اس میں دین کی حفاظت کا کوئی مسئلہ درپیش تھا بلکہ اوّل تو دین اسلام حضرت حسین ؓکے واقعہ شہادت سے کئی عشروں پہلے ہی نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں مکمل ہوچکا تھا،جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے:﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا... ﴾ [سورة المائدة:۳]
اور دوم یہ کہ دین کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اُٹھا رکھا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴾[ سورة الحجر:۹]
معلوم ہوا کہ یہ تصوّر جہالت ولاعلمی پر مبنی ہے کہ ماہِ محرم کا ادب و احترام شہادتِ حسین کا مرہونِ منت سمجھا جائے بلکہ شہادتِ حسین سے پہلے اسی ماہ کی یکم تاریخ کو عمر فاروقؓ جیسے خلیفہ راشد کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آچکا تھا۔ مگر اس وقت سے آج تک کبھی حضرت عمرؓ کا واقعہ شہادت اس انداز سے پیش نہیں کیا گیا۔
حالانکہ اگر کسی بڑے آدمی کی موت یا شہادت کسی مہینے کے ادب و احترام کی علامت ہوتی تو عمرفاروقؓ جیسے صحابی ٔرسول اپنے علمی، دینی، روحانی اور خلیفہ ثانی ہونے کے حوالے سے اس بات کے حضرت حسین سے بھی زیادہ مستحق ہوتے کہ ان کی شہادت پر وہ سب کچھ کیا جاتا جو حضرت حسین کی شہادت پرکیا جاتا ہے۔
مزید برآں حضرت عثمانؓ، حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور دیگر اکابر و جلیل القدر صحابہ کرام کی شہادتیں بدرجہ اولیٰ یہ استحقاق رکھتی ہیں مگر اہل ِسنت ان تمام شہادتوں پر نوحہ وماتم اور مجالس عزا وغیرہ کا اہتمام اس لئے نہیں کرتے کہ اسلام ان چیزوں کی اجازت نہیں دیتا اور جو ایسا کرتا ہے اس کا دین و ایمان خطرے میں ہے اور اسلام کا نوحہ وماتم سے کوئی تعلق نہیں۔
محرّم کی بے حُرمتی
ویسے تو جنگ و جدل، قتل و غارت گری، خونریزی اور فتنہ و فساد کی کسی بھی مہینے، ہفتے اور دن میں اجازت نہیں تاہم حرمت والے مہینوں میں فتنہ و فساد کی ہرممکنہ شکل سے اجتناب کرنے کا تاکیدی حکم ہے۔ لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ ماہِ محرم کی حرمت کو اتنا ہی پامال کرتے ہیں جتنا کہ اس کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی گئی۔
ماہ محرم کی حرمت کی پامالی کی ایک صورت تو یہ ہے کہ حضرت حسین کے واقعہ شہادت پر نالہ و شیون اور نوحہ و ماتم کیا جاتا ہے۔ اپنے جسم کو از خود سخت تکلیفیں دی جاتی ہیں۔ تیز دھاری آلات سے جسم کو زخمی کیا جاتا ہے۔ شہادتِ حسین کے رنج و غم میں آہ و بکا کا ایسا عجیب وحشیانہ اور خوفناک منظر برپا کیا جاتا ہے کہ الامان والحفیظ! اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ کسی کی وفات یا شہادت پر رنج و غم اور افسوس کا اظہار نہ کیا جائے لیکن یہ اظہار شرعی حدو د میں رہتے ہوئے ہونا چاہئے جبکہ نوحہ و ماتم کرنے والے کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
) لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرََبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ (
’’ وہ شخص ہم (مسلمانوں) میں سے نہیں جس نے رخسار پیٹے، گریبان چاک کئے اور دورِ جاہلیت کے بین کئے۔‘‘ (بخاری: کتاب الجنائز، باب لیس منامن ضرب الخدود؛۱۲۹۷)
ماہِ محرّم کی حرمت کی پامالی کی ایک صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے مختلف گروہ آپس میں نہ صرف یہ کہ دست و گریبان ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے ہیں۔ تقریباً ہر سال ماہ محرم میں کسی نہ کسی 'مسجد' یا 'امام بارگاہ' میں معصوم لوگ دہشت گردی کی کارروائی کا شکار ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ کہ اسلام تو عام دنوں میں بھی خونریزی، دہشت گردی اور فتنہ و فساد کی کسی بھی شکل کو پسند نہیں کرتا پھر بھلا ماہِ محرم میں اسے کیسے پسند کرسکتا ہے؟ اس لئے اسلام سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی کسی بھی دہشت گردی کی کاروائی سے کلی اجتناب کیا جائے۔ ویسے بھی یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر کوئی شخص فی الواقع کفروشرک اور ارتداد کا مرتکب ہو رہا ہو اور واقعی وہ قتل کی سزا کا مستحق ہوچکا ہو تو تب بھی ایسے شخص یا گروہ کو سزاے قتل دینے کی مجاز صرف حکومت ِوقت ہے۔ ہر کہ ومہ کو اسلام یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو نافذ کرنا شروع کردے!
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بعض دفعہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں دشمن عناصر قوتوں کا ہاتھ ہوتا ہے اور وہ مسلمانوں کے مسلکی و گروہی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی فرقے کے لوگوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنا کر دوسرے فرقے پر اس کا الزام لگا دیتے ہیں۔ پھر دوسرا فرقہ تحقیق کئے بغیر محض جوشِ انتقام میں مخالف فرقے کو نشانہ بناتا ہے اور اس طرح تخریب کاری کا ایک غیر متناہی سلسلہ چل نکلتا ہے۔ اس لئے امن و امان کے قیام کے لئے ہمیں ان تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کی نگاہ میں خونِ مسلم کی حرمت انتہائی اہم حیثیت رکھتی ہے۔
۲۔محرّم کے روزوں کی فضیلت
رمضان المبارک کے روزے سال بھر کے دیگر تمام روزوں سے افضل ہیں۔ البتہ رمضان کے ماسوا محرم کے روزوں کی فضیلت سب سے بڑھ کر ہے جیسا کہ درج ذیل صحیح احادیث سے ثابت ہے:
۱۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ) (مسلم: کتاب الصیام: باب فضل صوم المحرّم:۱۱۶۳)
’’رمضان المبارک کے بعد اللہ کے مہینے محرم کے روزے سب روزوں سے افضل ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز آدھی رات (یعنی تہجد) کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہے۔‘‘
۲۔ صحیح مسلم ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ
(أَيُّ الصَّلاةِ أَفْضَلُ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ ؟وَ أيّ الصّومِ أفضلُ بعدَ رَمضان؟)
’’فرض نمازوں کے بعد کون سی نما زسب سے افضل ہے اور رمضان المبارک کے بعد کون سے روزے سب سے افضل ہیں؟ تو آپﷺ نے وہی جواب دیا جو پہلی حدیث (مسلم: ۱۱۶۳) میں مذکور ہے۔‘‘
۳۔ حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سے ایک آدمی نے عرض کیا:’’ اے اللہ کے رسولﷺ! اگر رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں، میں روزے رکھنا چاہوں تو آپﷺ کس مہینے کے روزے میرے لئے تجویز فرمائیں گے؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر تو رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں روزے رکھنا چاہے تو محرم کے مہینے میں روزے رکھنا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور ایک قوم کی توبہ )آئندہ بھی) قبول فرمائیں گے ‘‘ (ترمذی: کتاب الصوم، باب ماجاء فی صوم المحرم ؛ ۷۴۱)
واضح رہے کہ امام ترمذی نے اس روایت کو 'حسن' قرار دیا ہے جبکہ اس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحق نامی راوی کو جمہور محدثین نے ضعیف قرا ردیاہے۔ لہٰذا سنداً یہ روایت ضعیف ہے۔ تاہم محرم کا 'شہراللہ' ہونا اور اس کے روزوں کا رمضان کے سوا دیگر مہینوں کے روزوں سے افضل ہونا دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے۔
۳۔ یومِ عاشوراء کے روزے کی فضیلت
۱۔ حضرت ابو قتادہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (صِيَامِ عَاشُورَاءَ :إنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ).
’’مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یوم عاشورا کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔‘‘ (مسلم : کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام؛ ۱۱۶۲)
واضح رہے کہ 'عاشوراء' عشر سے ہے جس کا معنی ہے دس ۱۰ ، اور محرم کی دسویں تاریخ کو عاشوراء کہا جاتا ہے۔ البتہ مذکورہ فضیلت دسویں تاریخ کے روزے کی ہے یا نویں کی، اس میں اہل علم کا شروع سے اختلاف چلا آتا ہے۔ مزید تفصیل آگے آرہی ہے...
۲۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ: ’’قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی اکرم ﷺ بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپﷺ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپﷺ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ ‘‘ (بخاری: کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشورا ؛۲۰۰۳/ مسلم: کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء ؛۱۱۲۵)
۳۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں لوگ یومِ عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اللہ کے رسولﷺ اور مسلمان بھی اس دن روزہ رکھتے۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: )إنَّ عاشُوراء يومٌ مِنْ أيّامِ الله فَمنْ شاء صامه، ومَنْ شاءَ ترکه(
’’عاشورا اللہ تعالیٰ کے دنوں میں سے ایک (معزز) دن ہے لہٰذا جو اس دن روزہ رکھنا چاہے، وہ روزہ رکھے اور جونہ رکھنا چاہے وہ نہ رکھے۔‘‘ (مسلم: ۱۱۲۶)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دورِ جاہلیت میں قریش دسویں محرم کا روزہ کیوں رکھتے تھے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ہر سال ماہِ محرم کی اس تاریخ کو بیت اللہ کو غلاف پہنایا کرتے تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ ہی سے مروی ایک حدیث میں ہے (بخاری؛۱۵۸۲) لیکن اس پر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قریش غلافِ کعبہ کے لئے یہی دن کیوں خاص کرتے تھے؟ تو اس کا جواب (اور پہلے سوال ہی کا دوسرا جواب) یہ ہوسکتا ہے جو حضرت عکرمہؓ سے مروی ہے کہ
’’دورِ جاہلیت میں قریش نے ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کیا جو ان پر بڑا گراں گزرا تو ان سے کہا گیا کہ تم لوگ عاشورا کا روزہ رکھو یہ تمہارے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ پھر اس وقت سے قریش عاشوراء کا روزہ رکھنے لگے۔ ‘‘ (فتح الباری: ۴؍۷۷۳، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء(
۴۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ : ’’جب اللہ کے رسولﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺنے ان سے پوچھا کہ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھا (افضل) دن ہے اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات بخشی (اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت بحیرہ ٔقلزم میں غرقاب کیا) تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (بطورِ شکرانہ) اس دن روزہ رکھا (اور ہم بھی روزہ رکھتے ہیں) تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے (شریک ِمسرت ہونے میں) تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺنے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘(بخاری: ایضاً ؛ ۲۰۰۴/مسلم؛۱۱۳۰)
۵۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ : ’’میں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے رسولﷺ دنوں میں سے دسویں محرم (یوم عاشوراء) کے اور مہینوں میں سے ماہِ رمضان کے روزوں کے سوا کسی اور روزے کو افضل سمجھ کر اس کا اہتمام کرتے ہوں۔‘‘
(بخاری، ایضاً؛۲۰۰۶/ مسلم :ایضاً؛۱۱۳۲)
۶۔حضرت ابوموسیٰ ؓ سے مروی ہے کہ : ’’عاشورا کے روز یہودی عید مناتے مگر آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘
(بخاری :۲۰۰۵، مسلم :۱۱۳۱)
۷۔ ابوموسیٰ ؓ سے مروی مسلم ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ : ’’اہل خیبر عاشوراء کے روز، روزہ رکھتے اور ا س دن عید مناتے اور اپنی عورتوں کو اچھے اچھے لباس اور زیورات پہناتے مگر اللہ کے رسول ﷺنے صحابہؓ سے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھو۔ ‘‘ )مسلم:۲۶۶۱)
۸۔ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قبیلہ بنواسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں جاکر یہ اعلان کرے کہ:
’’جس نے کچھ پی لیا ہے، وہ اب باقی دن کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے کچھ نہیں کھایا، وہ روزہ رکھے کیونکہ آج عاشوراء کا دن ہے۔ ‘‘(بخاری؛۲۰۰۷/ مسلم؛۱۱۳۵(
۹۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے جب دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ:’’اے اللہ کے رسولﷺ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں۔ (یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ آپﷺ تو ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور یوم عاشوراء کے معاملہ میں تو ان کی موافقت ہورہی ہے۔، تو آپ ﷺنے فرمایا کہ :(فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ، صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ)
’’آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں تاریخ کو روزہ رکھیں گے۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے اللہ کے رسول ﷺانتقال فرما گئے۔‘‘
( مسلم:۱۱۳۴)
۱۰۔ مسلم کی ایک روایت کے لفظ یہ ہیں کہ:
(لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ )
’’اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو ضرور نو کا روزہ رکھوں گا۔(مسلم: ایضاً)
روزہ نو محرم کو یا دس کو؟
عاشورا کے روزے کے بارے میں اہل علم کا شروع سے ہی اختلاف چلا آرہاہے کہ یہ روزہ نو تاریخ کو رکھا جائے یا دس کو ؛ یا نو اور دس دونوں کے روزے رکھے جائیں؟ وجہ ِاختلاف صحیح مسلم کی مندرجہ بالا حدیث (نمبر۹) ہے جس میں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے پیش نظر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ : ’’آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو تاریخ کا روزہ رکھوں گا۔‘‘
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اگرچہ آنحضرت ﷺکو عملی طور پر نو کا روزہ رکھنے کا موقع نصیب نہ ہوسکا تاہم آپﷺ کا یہ فرمان دسویں محرم کے روزے کے لئے بطورِ ناسخ ہے اور اب صرف اور صرف نو ہی کا روزہ رکھنا چاہئے۔ جبکہ بعض اہل علم اس کے برعکس اس موقف کے حامل ہیں کہ نو اور دس دونوں کا روزہ رکھنا چاہئے۔ کیونکہ اصل فضیلت والا دن تو دسویں محرم کا ہے۔ جبکہ یہود ونصاریٰ کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ بھی شامل ہوجائے گا اور اس طرح دونوں صورتوں یعنی فضیلت ِعاشوراء اور مخالفت ِیہود و نصاریٰ پر عمل ہوجائے گا۔ لہٰذا نو اور دس دونوں تاریخوں کے روزے از بس فضیلت کے لئے ضروری ہیں۔ ہمارے خیال میں اس مسئلہ میں وسعت پائی جاتی ہے، اس لئے مندرجہ دونوں صورتوں میں سے کسی ایک صو رت کے ساتھ ہی اسے خاص کردینا اور اس کے برعکس دوسری کو غلط قرار دینا درست معلوم نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ ان دونوں صورتوں کے الگ الگ مضبوط دلائل موجود ہیں ، مثلاً:
صرف نو کا روزہ رکھنے کی دلیل صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے کہ آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو کا روزہ رکھوں گا۔ اب حدیث کے ظاہری الفاظ کا یہی تقاضا ہے کہ نو ہی کا روزہ رکھا جائے باقی رہی یہ بات کہ اصل فضیلت تو دسویں محرم کی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فضیلت کا معیار شریعت ہے۔ اگر شریعت دس کی بجائے نو کو باعث ِفضیلت قرار دے دے تو پھر نو ہی کی فضیلت سمجھی جائے گی اور یہی وجہ ہے کہ جب حکم بن اَعرج نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے یومِ عاشورا کے روزے کا سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ :’’جب محرم کا چاند دیکھ لو تو دن گننا شروع کردو اور نویں تاریخ کو روزہ کے ساتھ صبح کرو۔‘‘ سائل نے پوچھا:’’ کیا اللہ کے رسول ﷺاسی دن روزہ رکھتے تھے؟’’ تو ابن عباسؓ نے جواب دیا: ہاں!‘‘ (مسلم: کتاب الصیام، باب اَی یوم الصیام فی عاشوراء؛۱۱۳۳(
اگرچہ آنحضرتﷺ دسویں محرم کو روزہ رکھتے رہے مگر عبداللہ بن عباسؓ نے نویں محرم کے روزے کی نسبت اللہ کے رسول ﷺکی طرف اس لئے کردی کہ آنحضرتﷺ یہ فرما چکے تھے کہ آئندہ سال میں نو کا روزہ رکھوں گا۔ گویا اب نویں کو ہی کو سنت سمجھا جائے گا، اگرچہ عملی طور پر حضور کو یہ موقع نہیں مل سکا کہ آپﷺ نو کا روزہ رکھتے۔
دس کا روزہ رکھنے والوں کی پہلی دلیل تو یہی ہے کہ اصل فضیلت والا دن دس محرم ہے اور اسی دن آنحضرتﷺ اور صحابہ کرامؓ روزہ رکھتے رہے۔تاہم اللہ کے رسولﷺ کا یہ فرمان کہ آئندہ سال میں نو کا روزہ رکھوں گا، اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ میں دس کا روزہ چھوڑ دوں گا۔ بلکہ آپﷺ کی مراد یہ تھی کہ دسویں کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھوں گا تاکہ یہود و نصاریٰ کی بھی مخالفت ہوسکے۔ اور عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ایک روایت سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے فرمایا:(صُومُوا التّاسع والعاشِر وَخَالِفُوا الْيَهُودَ ) (السنن الکبری للبیہقی : ص۲۷۸؍ ج۴(
’’نو اور دس (دونوں کا) روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ ‘‘
شیخ احمد عبدالرحمن البنائؒ نے اس موقوف روایت کی سند کو صحیح قرار دیاہے۔)الفتح الربانی :۱؍۱۸۹، مصنف عبدالرزاق؛۷۸۳۹، طحاوی:۲؍۷۸(
اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی یہ حدیث بھی ذکرکی جاتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: )لإنْ بقيتُ لآمرنَّ بصيامِ يومٍ قبله أو يومٍ بعد يومِ عاشُوراء(
’’ اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو میں یہ حکم ضرور دوں گا کہ دسویں محرم سے پہلے یا اس کے بعد (یعنی گیارہویں محرم) کا ایک روزہ (مزید) رکھو۔‘‘
یہ روایت مسندحمیدی (۴۸۵) اور سنن کبریٰ از بیہقی (۴؍۲۸۷) میں موجود ہے مگر اس کی سند میں ابن ابی لیلی (جن کا نام محمد بن عبدالرحمن ہے) ضعیف راوی ہے۔ جبکہ امام ابن عدی نے یہ روایت 'الکامل' (۳؍۹۵۶) میں درج کی ہے اور اس کی سند میں داود بن علی نامی راوی کو ضعیف قرار دیاہے۔
ایک تیسری صورت
بعض اہل علم مندرجہ بالا اختلاف سے بچتے ہوئے ایک تیسری صورت یہ پیش کرتے ہیں کہ نو، دس اور گیارہ تینوں تاریخوں کے پے در پے روزے رکھ لئے جائیں۔ بطورِ دلیل عبداللہ بن عباسؓ سے مروی یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
(صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا)
’’یومِ عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ (اس مخالفت کا طریقہ یہ ہے کہ) یوم عاشورا (دس محرم) کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھو۔‘‘
یہ روایت مسنداحمد (۱؍۲۴۱)، ابن خزیمہ (۲۰۹۵) ، الکامل (۳؍۹۵۶)، السنن الکبریٰ للبیہقی (۴؍۲۸۷) وغیرہ میں موجود ہے مگر اس کی سند میں بھی ابن ابی لیلیٰ اور داود بن علی نامی دو راوی ضعیف ہیں لہٰذا یہ قابل حجت نہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ روایت میں 'أو' (قبلہ یوما 'أو' بعدہ یوما) بمعنی 'یا' ہے۔ جبکہ بعض طرق میں یہاں 'و' بمعنی 'اور' ہے۔جس کے پیش نظر بعض اہل علم نے تین دن (۹،۱۰،۱۱) کے روزے رکھنے کا رجحان ظاہر کیا ہے۔ (دیکھئے فتح الباری:۴؍۷۷۳) مگر محل استشہاد روایت ہی ضعیف ہے، اس لئے یہ موقف کمزور ہے۔
احتیاط کا تقاضا
مذکورہ اختلافی مسئلہ میں اگر احتیاط کا پہلو مدنظر رکھا جائے تو پھر یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ نو اور دس دونوں کا روزہ رکھا جائے کیونکہ اگر شریعت کی منشا نو اور دس دونوں کا روزہ رکھنے میں ہوئی تو اس پر عمل ہوجائے گا اور اگر نو کا روزہ رکھنے میں ہوئی تو تب بھی نو کا روزہ رکھا جائے گا اور دس کا روزہ اضافی نیکی قرار پائے گا۔ علاوہ ازیں اس طرح یوم عاشوراء کی فضیلت اور یہود و نصاریٰ کی مخالفت دونوں ہی پر عمل بھی ہوجائے گا جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ رقم طراز ہیں کہ:
)وقال بعض أهل العلم: قوله صلى الله عليه وسلم في صحيح مسلم: لإن عشتُ إلی قابل لأصومنّ التاسع، يحتمل أمرین أحدهما: أنه أراد نقل العاشر إلی التاسع، والثاني: أراد أن يضيفه إليه في الصوم، فلما توفي قبل بيان ذلك کان الاحتياط صوم اليومين) (فتح الباری: ایضاً)
’’بعض اہل علم کے بقول صحیح مسلم میں مروی اس حدیث نبوی کہ ’’اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو کا ضرور روزہ رکھوں گا۔‘‘ کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں: ایک تو یہ کہ آنحضرت ﷺکی مراد یہ تھی کہ یوم عاشوراء کے روزہ کے لئے دس کی بجائے نو کا روزہ مقرر کردیا جائے اور دوسرا یہ کہ آپﷺ دس کے ساتھ نو کا روزہ بھی مقرر فرمانا چاہتے تھے۔ (اب اگر آنحضرتﷺ اس کے بعد اگلے محرم تک زندہ رہتے تو آپﷺ کے عمل سے مذکورہ دونوں صورتوں میں سے ایک صورت ضرور متعین ہوجاتی) مگر آپﷺ کسی صورت کو متعین کرنے سے پہلے وفات پاگئے تھے، اس لئے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ نو اور دس دونوں کا روزہ رکھا جائے۔‘‘
واضح رہے کہ بغرضِ احتیاط نو اور دس دونوں کا روزہ رکھنے کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ صرف نو کا روزہ رکھنے والوں کے خلاف فتویٰ بازی کی جائے بلکہ صرف نو کے روزہ کی گنجائش بھی بہرحال موجود ہے۔ (واللہ اعلم)
محرّم میں روزوں کے منافی اُمور
گذشتہ احادیث سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ماہِ محرم میں روزے رکھنا مسنون اور افضل ترین عمل ہے حتیٰ کہ رمضان المبارک کے بعد ماہِ محرم کے روزوں کو سب سے افضل قرار دیا گیا ہے اور محرم میں بھی نویں اور دسویں کا روزہ دیگر دنوں کے روزوں سے افضل ہے، لیکن افسوس کہ جیسے ہی محرم کا مہینہ شروع ہوتا ہے، روزوں کے منافی اُمور کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ شہادتِ حسین کی یاد میں دودھ، پانی یا مشروبات کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں، دیگیں پکا کر لوگوں میں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے، خوش ذائقہ ماکولات و مشروبات کا اہتمام کرکے فاتحہ خوانی کی محفلیں قائم کی جاتی ہیں اور جوں جوں دسویں محرم کا دن قریب آتا ہے، توں توں ان امور کے دائرہ میں وسعت اور تیزی آتی چلی جاتی ہے۔ گویا محرم اور یوم عاشوراء کے موقع پر آنحضرتﷺ جتنا اہتمام روزے کا فرمایا کرتے اور صحابہ کرامؓ کو اس کی ترغیب دلاتے، دورِ حاضر کے مسلمان ماہِ محرم میں اتنا ہی اس کے منافی دعوتوں اور ضیافتوں کا اہتمام کرنے لگے ہیں اور پھر اسے یقینی بنانے اور مسلسل قائم رکھنے کے لئے سرکاری طور پر ملک بھر میں چھٹی بھی منائی جاتی ہے۔
چنانچہ ایک طرف تو بعض لوگ مذکورہ اُمور کی شرعی حیثیت کی چھان پھٹک کئے بغیر ہر اس رسم، رواج اور طریقے کی اتباع شروع کردیتے ہیں جسے کسی قوم، قبیلے یا فرقے میں خاصا مقام اور شہرت حاصل ہو جبکہ دوسری طرف بعض لوگ مذکورہ اُمور کے ثبوت کے لئے شرعی و عقلی دلائل بھی پیش کرنے لگتے ہیں مثلاً یہ کہ:
۱۔ یزید کے لشکروں نے شہداے کربلا کا پانی بند کردیا تھا، اس لئے شہداے کربلا سے اظہارِ محبت کے لئے ضروری ہے کہ ان کے نام پر پانی ہی نہیں بلکہ اچھے اچھے مشروبات کی بھی سبیلیں لگائی جائیں۔
۲۔ شہداے کربلا کی اَرواح کے ایصالِ ثواب کے لئے ماکولات و مشروبات کا اہتمام کرکے فاتحہ خوانی کی محفلیں قائم کرنی چاہئیں۔
۳۔ یہ (من گھڑت) روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ:
’’جس شخص نے عاشوراء کے روز اپنے اہل و عیال (کے رزق کے معاملہ) پر فراخی وکشادگی کی، اللہ تعالیٰ سال بھر اس پر کشادگی فرماتے رہیں گے۔‘‘
اگر قرآن و سنت کی تعلیمات کا غیر جانبدرانہ جائزہ لیا جائے تو مذکورہ اُمور کے جواز کی نہ کوئی گنجائش ملے گی اور نہ ہی کوئی معقول وجہ ...!
۱۔ اوّل تو اس لئے کہ ماہِ محرم میں روزے رکھنا مسنون ہے جبکہ ماکولات و مشروبات کے اہتمام سے نہ صرف روزوں کی مسنون حیثیت مجروح ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک بدعت بھی رواج پاتی ہے۔
۲۔دوم اس لئے کہ شہداے کربلا یا دیگر فوت شدگان کی ارواح کو ثواب پہنچانے کے لئے فاتحہ خوانی کی یہ صورتیں قرآن و سنت اورعمل صحابہ سے ثابت ہی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان صو رتوں کو دین کا حصہ اور اجروثواب کا ذریعہ سمجھ کر قائم کرنا بدعت نہیں تو پھر کیا ہے؟
۳۔ رہی یہ بات کہ شہداے کربلا کا پانی بند کیا گیا تھا تو یہ قصہ ہی جھوٹا اور بے سند ہے جبکہ خود شیعہ ہی کی بعض کتابوں سے اس کے برعکس یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسینؓ کو جب قافلے کے لئے پانی کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ زمین کھودتے اور فوراً میٹھے پانی کا چشمہ بہہ نکلتا۔(تفصیل کے لئے دیکھئے: جلاء العیون باب ۵ ص۴۵۹، ناسخ التواریخ ص۳۲۶ ج۲، تصویر کربلا از سید آلِ محمد، ص۳۱)
اگر بالفرض بندشِ آب کے قصہ کو درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر چاہئے تو یہ تھا کہ حضرت حسین سے اظہارِ محبت کے لئے ماہ محرم میں اتنے دن پیاسا رہنے کا مظاہرہ کیا جاتا جتنے دن ان سے پانی روکے رکھا گیاتھا !
۴۔ماکولات و مشروبات کے خصوصی اہتمام کی جو روایت بطورِ دلیل پیش کی جاتی ہے وہ محدثین کے ہاں بالاتفاق جھوٹی (موضوع) روایت ہے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ:
’’عاشورا کے روز فضائل کے سلسلہ میں اہل و عیال پر فراخی و کشادگی اور مصافحہ و خضاب وغسل کی برکت وغیرہ کے متعلق جو روایتیں بیان کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس دن ایک خاص نماز پڑھنی چاہئے ... یہ سب رسول اللہ ﷺ پر کذب و افترا ہے۔ محرم میں عاشوراء کے روزے کے سوا کوئی عمل بسند صحیح ثابت نہیں۔‘‘ (منہاج السنۃ: ۴؍۱۱)
مذکورہ مسئلہ کی مزید تفصیل اور من گھڑت روایات کی تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو: الموضوعات لابن جوزی (۲؍۲۰۳)، اللآئی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعۃ (۲؍۹۴) الموضوعات الکبریٰ (ص۳۴۱) اور مجموع الفتاویٰ (۲؍۳۵۴)
۵۔یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سانحۂ کربلا کے رنج و غم میں رافضی وغیرہ اس انتہا کو پہنچ گئے کہ نوحہ و ماتم سے دور جہالت کی ان قبیح رسومات کو زندہ کرنے لگے کہ جن سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔جبکہ ناصبی اور خارجی قسم کے لوگ رافضیوں کی عداوت میں سانحۂ کربلا پر خوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ایام میں ماکولات و مشروبات کا انتظام کرنے لگے۔ پھر ایصالِ ثواب اور سوگ کے نام پر یہ دونوں باتیں دیگر مسلمانوں میں بھی بڑی تیزی سے سرایت کرگئیں۔
حالانکہ راہِ اعتدال یہی ہے کہ ان تمام بدعات و خرافات سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے واقعہ کربلا کو مسلمانوں کے لئے عظیم سانحہ اور حادثہ فاجعہ قرار دیا جائے۔اور حضرت حسینؓ اور یزید کے سیاسی اختلافات اللہ کے سپرد کرکے دونوں کے بارے میں خاموشی کی راہ اختیار کی جائے۔
اس سلسلے میں' محدث' میں شائع شدہ درج ذیل مضامین ملاحظہ کریں:
۔یوم عاشوراء کی شرعی حیثیت شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ شمارہ۲۳۴ اپریل ۲۰۰۰ء
۔محرم الحرام ، غلطی ہائے مضامین ! حافظ صلاح الدین یوسف شمارہ۲۳۴ اپریل ۲۰۰۰ء
۔سانحۂ کربلا اور غزوہ قسطنطنیہ عبد الرحمن عزیز الہ آبادی شمارہ۲۲۴ مئی ۱۹۹۹ء
۔سانحۂ کربلا کے بارے میں افراط وتفریط مولانا ارشاد الحق اثری شمارہ۲۲۷ اگست ۱۹۹۹ء
۔محرم الحرام کی شرعی حیثیت پروفیسرسعید مجتبیٰ سعیدی شمارہ ۱۶۶ اگست ۱۹۸۸ء
۔محرم الحرام کے فضائل اور یوم عاشورائ مولانا عبد السلام رحمانی ؒ شمارہ ۱۱۵ نومبر ۱۹۸۳ء
۔محرم الحرام کی شرعی وتاریخی حیثیت شیخ الحدیث محمد کنگن پوریؒ شمارہ ۱۴ مارچ ۱۹۷۲ء
پیکش:
اسلام ہاؤس ڈاٹ کام (بواسطہ:محدّث میگزین، شمارہ 268:اپریل2003، صفر1424 جلد 35: عدد: 4 http://magazine.mohaddis.com/shumara/164-apr-2003/2088-
(طالبِ دُعا : [email protected])