×
سوال:کیا محرم کے مہینے میں شادی کرنا مکروہ ہے؟ میں نے کچھ لوگوں سے ایسا ہی سنا ہے۔

محرّم کے مہینے میں شادی بیاہ مکروہ سمجھنا


ما يُشاع من كراهية النِّكاح في شهر الله المحرّم

سوال:کیا محرم کے مہینے میں شادی کرنا مکروہ ہے؟ میں نے کچھ لوگوں سے ایسا ہی سنا ہے۔

جواب:

الحمد للہ:

اسلامی سال کی ابتداء یعنی ماہِ محرم میں شادی یا منگنی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور نہ ہی یہ مکروہ یا محرّم ہے، اسکے متعدد دلائل ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:

۱۔جس چیز کے بارے میں کوئی مخصوص حکم نہ ہو تو وہ کام اصل کے اعتبار سے مباح ہوتا ہے، اور علمائے کرام کے مابین یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ عادات میں جب تک حرمت کی دلیل نہیں ملتی تو اصل جواز ہی ہے، چنانچہ کتاب وسنت ، اجماع، یا قیاس ، اور آثار وغیرہ میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جو ماہِ محرم میں نکاح وغیرہ سے مانع ہو، اس لئے اباحتِ اصلیہ کی بنا پر ماہِ محرم میں نکاح جائز ہے۔

۲۔اس بارے میں علمائے کرام کا کم از کم اجماعِ سکوتی ہے، کہ ہمیں صحابہ کرام، تابعین، ائمہ کرام اور انکے علاوہ دیگر متقدمین یا متاخرین میں سے کوئی بھی ایسا عالم نہیں ملا جو اس ماہ میں شادی ، بیاہ، اور منگنی کو حرام یا کم از کم مکروہ ہی سمجھتا ہو۔

لہٰذا اگر کوئی منع کرتا ہے تو اسکی تردید کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، اور علمائے کرام میں سے کوئی بھی اسکے موقف کا قائل نہیں ہے۔

۳۔ماہِ محرم اللہ تعالیٰ کے عظمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، اور اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: ( أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ ) رواه مسلم (1163)

(رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کے ہیں) مسلم: (1163)

تو یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی ہے۔ اس ماہ میں نفل روزوں کا ثواب دیگر مہینوں سے زیادہ ہے، اس لئے اس ماہ کی برکت، اور فضیلت پانے کیلئے پوری کوشش کرنی چاہیے، چنانچہ اس ماہ میں غمگین رہنا، یا شادی کرنے سے ہچکچانا، یا جاہلی دور کی طرح بد فالی لینا سب غلط ہے۔

۴۔اور اگر کوئی شیعہ حضرات کی طرح اس مہینے میں شادی کی ممانعت کیلئے حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو دلیل بنائے ، تو اسے کہا جائے گاکہ:

''بلا شبہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دن اسلامی تاریخ میں بہت ہی تاریک دن ہے، لیکن اس عظیم سانحہ کی وجہ سے شادی یا منگنی کو حرام کر دینے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہماری شریعت میں سالانہ برسی وغیرہ کے موقعوں پرغم تازہ کرنے اور سوگ منانےکی اجازت نہیں ہےاور نہ ہی ان دنوں میں خوشی کا اظہار کرنا منع ہے۔

اگر اس بات پر وہ اتفاق نہ کریں تو ہمیں یہ پوچھنے کا حق بنتا ہے کہ : کیا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے وہ دن امت کیلئے سب سے غمگین دن نہیں ہے؟! تو پھر مکمل ماہِ ربیع الاول میں شادی کرنا منع کیوں نہیں کرتے؟! یا اس ماہ میں شادی بیاہ کی حرمت یا کراہت صحابہ کرام سے منقول کیوں نہیں ہے؟ یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اولاد اور انکے بعد آنے والے علمائے کرام سے منقول کیوں نہیں ہے؟!

اگر ہمارا یہی حال رہا کہ جس دن بھی کوئی اسلامی شخصیت یا اہل بیت کا کوئی فرد فوت ہویا اسے شہید کیا گیا ہو، ہم ہر سال اس غم کو تازہ کرنے لگ جائیں، تو ہمارے لئے خوشی اور مسرت کا کوئی دن باقی نہیں رہے گا، اور لوگوں کو ناقابل برداشت حد تک مشقت اٹھانی پڑے گی۔

یقیناً دین میں نت نئے احکام ایجاد کرنا اسلام مخالف لوگوں کا کام ہے، اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکمل کر دیے جانے والے دین میں بھی کمی اور کوتاہی نکالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ بات پھیلانےاور ماہِ محرم میں سوگ کی ابتداکرنے والا شاہ اسماعیل صفوی (907 تا 930 ہجری) ہے ، چنانچہ ڈاکٹر علی وردی " لمحات اجتماعية من تاريخ العراق " (1/59) میں کہتے ہیں کہ : "شاہ اسماعیل صفوی نے شیعی مذہب پھیلانے کیلئے صرف دہشت گردی ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کیلئے ایک اور مضبوط وسیلہ بھی اپنایا ؛ اور وہ تھا شیعی مذہب کی ترویجی مہم اور ذہن سازی، اس کے لئے بالکل اسی طرح "مجالس شہادتِ حسین" منعقد کی گئیں جیسے آج کل کی جاتی ہیں، سب سے پہلے ان محفلوں کو بنی بَوَیہ نے بغداد میں چوتھی صدی ہجری میں شروع کیا تھا، لیکن بنی بویہ کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ مجالس بھی ختم ہوگئیں، اس کے بعد شاہ اسماعیل صفوی نے آکر دوبارہ نئے جذبے سے ان مجالس کو شروع کیا، اور اس میں عزاء داری کا بھی اضافہ کر دیا، جس کی وجہ سے دلوں میں ان مجالس کا خوب اثر رچ بس گیا، اور یہ کہنا بھی بعید از حقیقت نہیں ہوگا کہ : ایران میں شیعی مذہب کے انتشار کا سبب بھی یہی تھا؛ کیونکہ ان مجالس میں رونا دھونا ہوتا ،آل بیت کے لئے غم کا اظہار کیا جاتااور طبلےبجائے جاتےتھے۔ ان تمام چیزوں کے جمع ہونے سے شیعی نظریات کی دل پر مؤثر ضرب لگتی تھی ''انتہی

۵۔کچھ مؤرخین نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی صحیح ترین تاریخ جو بتلائی ہے وہ ہجرت کے تیسرے سال کی ابتدا ہے۔ جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ''بیہقی نے ابو عبد اللہ بن مندہ کی کتاب: (المعرفہ) میں ذکر کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہجرت سے ایک سال بعد کی، اور رخصتی مزید ایک سال بعد ہوئی، چنانچہ اس طرح سے رخصتی کا سال ہجرت کے تیسرے سال کی ابتدا بنتا ہے'' انتہی '' البداية والنهاية '' (3/419)

اس بارے میں دیگر اقوال بھی ہیں، لیکن اسے بیان کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ محرم میں شادی کو کسی بھی عالمِ دین نے برا نہیں جانا ہے، بلکہ جو اس ماہ میں شادی کریگا اس کیلئے امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ اور آپ کی زوجہ محترمہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ اور قدوۂ حسنہ موجود ہے۔ واللہ اعلم.