×
سوال: غیرحاجی مسلمان کے لیے عشرہ ذوالحجہ کے ابتدائی ایام ميں كيا کیا کرنا واجب ہے ؟ يعنى كيا قربانى كرنے سے پہلے ناخن اور بال کاٹنا جائز نہیں ہے اورکیا مہندی لگانا اور نیالبا س پہننا قربانی کے بعد ہی جائز ہے؟

قُربانی کا ارادہ رکھنے والے کے لیے کن چیزوں کا کرنا ممنوع ہے؟

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی :شعبۂ علمی اسلام سوال وجواب سائٹ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق:عزیزالرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

ما الذي يمتنع عنه من أراد أن يضحّي؟

فتوى: القسم العلمي بموقع الإسلام سؤال وجواب

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي

70290 :قربانى كا ارادہ ركھنے والے كے ليے کن چیزوں کا کرنا ممنوع ہے ؟

سوال: غیرحاجی مسلمان کے لیے عشرہ ذوالحجہ کے ابتدائی ایام ميں كيا کیا کرنا واجب ہے ؟
يعنى كيا قربانى كرنے سے پہلے ناخن اور بال کاٹنا جائز نہیں ہے اورکیا مہندی لگانا اور نیالبا س پہننا قربانی کے بعد ہی جائز ہے؟

بتاریخ2010-11-08کونشر کیا گیا

جواب:

الحمد للہ:

جب ذوالحجہ كا چاند نظر آ جائے تو جو شخص قربانى كرنے كا ارادہ ركھتا ہو اس كے ليے اپنے جسم كے بال اور ناخن كاٹنے يا پھر جلد كاٹنا حرام ہے، ليكن اس كے ليے نيا لباس زيب تن كرنا اور مہندى اور خوشبو لگانا يا پھر بيوى سے جماع اور مباشرت كرنى حرام نہیں ہے.

يہ حكم صرف اس شخص كے ليے ہے جو شخص قربانى كرنا چاہتا ہے اس كے اہل خانہ كے باقى افراد كے ليے نہیں ہے، اور جسے قربانى كرنے كا وكيل بنايا گيا ہے اس كے ليے بھى يہ حكم نہيں ہے چنانچہ اس كى بيوى اور بچوں اور وكيل پر يہ اشياء حرام نہيں ہیں۔

اس حكم ميں عورت اور مرد دونوں برابر ہيں، اس ليے اگر عورت اپنى جانب سے قربانى كرنے كا ارادہ ركھتى ہے چاہے وہ شادى شدہ ہو يا شادى شدہ نہ ہو تو عمومى نصوص كى بنا پر اس كے ليے اپنے بال اور ناخن كاٹنے منع ہيں.

اور اسے احرام كا نام نہیں ديا جا سكتا؛ كيونكہ احرام تو صرف حج يا عمرہ كے ليے ہوتا ہے، اور پھر محرم شخص احرام كى چادريں زيب تن كرتا ہے اور اس كے ليے خوشبو كا استعمال ،بيوى سے جماع كرنا اور شكار كرنا جائز نہيں ہے، ليكن قربانى كا ارادہ ركھنے والے شخص كے ليے ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد يہ سب كچھ جائز ہے، صرف اس كے ليے بال اور ناخن كٹوانے اور اپنى جلد كاٹنى ممنوع ہے.

ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

(إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ)

''جب تم ذوالحجہ كا چاند ديكھ لو تو تم ميں سے قربانى كرنے كا ارادہ ركھنے والا شخص اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے ''۔

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1977 )

اور ايك روايت ميں ہے كہ:

'' تو وہ اپنے بال اور جلد ميں سے كچھ بھى نہ كاٹے ''۔

اور بشرہ انسان كى ظاہرى جلد كو كہتے ہيں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

''قربانى كا ارادہ ركھنے والے شخص كے ليے ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد مشروع ہے كہ وہ قربانى كرنے تك اپنے بال اور ناخن اور اپنى جلد نہ كاٹے؛ اس كى دليل بخارى كے علاوہ باقى ائمہ حديث كى درج ذيل روايت ہے:

ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

( إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ )

''جب تم ذوالحجہ كا چاند ديكھ لو اور قربانى كرنا چاہو تو اپنے بال اور ناخن نہ كاٹو''۔

اور ابو داود ،مسلم اور نسائى كے الفاظ يہ ہيں:

(مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا أَهَلَّ هِلَالُ ذِي الْحِجَّةِ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحِّيَ)

''جس کے پاس قربانی کا جانور ہے اور اسے (عید کے روز) ذبح کرنا چاہےتو ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد قربانى كرنے تك اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے''۔

چاہے اپنے ہاتھ سے قربانى كرنى ہو يا كسى كو قربانى كرنے كا وكيل بنايا ہو، ليكن جس كى طرف سے قربانى كى جا رہى ہے اس كے حق ميں ايسا كرنا مشروع نہیں ہے، مثلا بيوى بچے كيونكہ اس كے متعلق كوئى دليل نہیں ہے، اور اسے احرام كا نام نہیں ديا جا سكتا ہے، بلكہ محرم شخص تو وہ ہے جو حج يا عمرہ يا پھر دونوں كا احرام باندھے ۔'' انتہى۔ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 397 )

مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:

حديث ميں ہے كہ:

'' جو شخص قربانى كرنا چاہے يا اس كى جانب سے قربانى كى جائے تو وہ ذوالحجہ كا چاند نظر آنے سے ليكر قربانى كرنے تك اپنے بال اور ناخن اور اپنى جلد نہ كاٹے ''

توكيا يہ ممانعت سارے گھر والوں چھوٹے بڑےسب کے لیے ہے، يا كہ صرف بڑوں كے ليے ہے چھوٹوں کے لیے نہیں ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

''ہمارے علم ميں نہیں ہے كہ حديث كے الفاظ يہى ہيں جو سائل نے بيان كيے ہيں، بلكہ ہم تو يہ جانتے ہيں كہ امام بخارى رحمہ اللہ كے علاوہ باقى ائمہ نے جو حديث روايت كى ہے اس كے الفاظ درج ذيل ہيں:

ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

'' جب تم ذوالحجہ كا چاند ديكھ لو اور تم ميں سے كوئى شخص قربانى كرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ كٹائے ''۔

اور ابو داود كے الفاظ يہ ہيں ـ اور مسلم اور نسائى كے بھى يہى ہيں کہ:

''جس شخص كے پاس قربانى كا جانور ہو اور وہ اس كى قربانى كرنا چاہتا ہو تو ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد قربانى كرنے تك وہ اپنے بال اور ناخن اور اپنى جلد نہ كٹوائے ''۔

چنانچہ يہ حديث قربانى كرنے والے شخص كے ليے ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد سے ليكر قربانى كرنے تك بال اور ناخن كاٹنے كى ممانعت پر دلالت كرتى ہے.

پہلى روايت ميں امر اور ترك كا حكم ہے اور اس ميں اصل وجوب كا مقتضى ہے، اس اصل سے كسى اور معنىٰ ميں لينا ہمارے علم ميں تو نہیں ہے، اور دوسرى روايت ميں كاٹنے كى ممانعت ہے، اوراس كا تقاضا تحريم ہے يعنى كاٹنے كى حرمت، اس ميں بھى اس معنىٰ كے علاوہ كوئى معنىٰ لينے كى كوئى دليل ہمارے علم ميں تو نہیں ہے .

تو اس سے يہ واضح ہوا كہ يہ حديث صرف اس شخص كے ليے خاص ہے جو قربانى كرنا چاہتا ہے، اور جس كى جانب سے قربانى كى جارہى ہے چاہے وہ چھوٹا ہو يا بڑا اس كے ليے اپنے ناخن اور بال كاٹنے كى كوئى ممانعت نہیں ہے، اصل ميں اس كے ليے جائز ہے، اور اس اصل كے خلاف ہمارے علم ميں تو كوئى دليل نہيں ہے۔ ''انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 426)

دوم:

استطاعت نہ ہونے كى بنا پر جو شخص قربانى نہیں كرنا چاہتا ہے اس كے ليے ناخن اور بال كاٹنا حرام نہیں ہے، اور جو شخص قربانى كرنا چاہتا ہو اور وہ اپنے بال اور ناخن كاٹ لے تو اس پر كوئى فديہ لازم نہيں آتا، ليكن اس كے ليے توبہ و استغفار كرنا واجب ہے.

ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جو شخص بھى قربانى كرنا چاہتا ہو تو اس پر فرض ہے كہ ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد قربانى كرنے تك وہ اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے، نہ تو حلق کرائے اور نہ ہى بال چھوٹے كروائے، اور جو شخص قربانى نہیں كرنا چاہتا ہے اس كے ليے يہ ضروری نہیں ہے۔

ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 6 / 3)

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

''جب يہ ثابت ہو گيا تو پھر ناخن اور بال نہيں كاٹے جائيں گے، اور اگر كوئى ايسا كرے تو اسے توبہ و استغفار كرنا ہوگى، بالاجماع اس پر كوئى فديہ نہیں ہے، چاہے وہ يہ فعل عمدا ًكرے يا بھول كر.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 346 )

فائدہ:

امام شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس نہى ميں حكمت يہ ہے كہ: كامل اجزاء آگ سے آزادى كے ليے باقى رہيں، اور ايك قول يہ ہے كہ: محرم كے ساتھ تشبيہ كى بنا پر.

يہ دونوں وجہيں امام نووى ؒنے بيان كى ہيں، اور اصحاب شافعى سے بيان كيا جاتا ہے كہ دوسرى وجہ غلط ہے؛ كيونكہ نہ تو وہ عورتوں سے عليحدہ ہوتا ہے، اور نہ ہی خوشبو اور لباس كا استعمال اس كے ليے ممنوع ہے اس كے علاوہ باقى اشياء جو حالت احرام ميں ممنوع ہيں وہ بھى ممنوع نہیں ہیں۔

ديكھيں: نيل الاوطار ( 5 / 133 )

واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب

(طالبِ دُعا: azeez90@gmail.com)