×
سوال : كيا ايك ہى جانور عقيقہ اور قربانى كى نيت سے ذبح كرنا جائز ہے ؟

عقیقہ اور قُربانی کے لئے ایک ہی جانور

ذبح کرنے کا حُکم؟

[الأُردية –اُردو Urdu]

اعداد:اسلام سوال وجواب سائٹ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق :عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

حكم الجمع بين الأُضحية والعقيقة في ذبيحةٍ واحدة

إعداد:موقع الإسلام سؤال وجواب

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي

: 106630عقیقہ اور قُربانی کے لئے ایک ہی جانور ذبح کرنے کاحُکم؟

سوال : كيا ايك ہى جانور عقيقہ اور قربانى كى نيت سے ذبح كرنا جائز ہے ؟

جواب:

الحمد للہ

اگر عقيقہ اور قربانى ایک ساتھ جمع ہو جائيں، اور انسان عيد الاضحى كے دن ايامِ تشريق ميں اپنے بيٹے كا عقيقہ بھی كرنا چاہے تو كيا قربانى عقيقہ كے لیے کفایت کرجائے گی؟

اس مسئلہ میں علماء كرام كے دو قول پائے جاتے ہيں:

پہلا قول:

قربانى عقيقہ سے كفایت نہيں كرے گی، مالكيہ اور شافعيہ كا يہى مسلك ہے، اور امام احمد سے ايك روايت ہے.

ان كى دليل يہ ہے كہ: يہ دونوں ـ يعنى قربانى اور عقيقہ ـ بذاتہ مقصود ہيں، اس ليے ايك دوسرى سے كفایت نہيں كرے گی، اور ان دونوں میں سے ہر ایک کا سبب دوسرے سے مختلف اور جدا ہے۔ چنانچہ ان دونوں میں سے ايك دوسرے كے قائم مقام نہيں ہو سکتے ہیں، جیسے: حجِ تمتع كى قربانى اور فديہ كا جانور ہے.

علامہ الھيتمى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

''اصحاب كى كلام كا ظاہر يہ ہے كہ اگر كوئى ايك بكرا ذبح كرتے وقت قربانى اور عقيقہ كى نيت كرے تو ان دونوں ميں سے کوئی ايك بھى حاصل نہيں ہوگا، اور يہ یہی ظاہر ہے؛ كيونكہ ان دونوں میں سے ہر ايك سنّت مقصودہ ہے'' انتہى

ديكھيں: (تحفۃ المحتاج شرح المنھاج : 9 / 371 ).

اور حطاب رحمہ اللہ كا قول ہے:

'' اگر اس نے قربانى كا جانور قربانى اور عقيقہ دونوں كے لیے ذبح كيا، يا اسے وليمہ ميں پكا كر كھلا ديا چنانچہ((الذخیرہ)) ميں كہا ہے: صاحب القبس فرماتے ہيں: ہمارے شيخ ابو بكر الفھرى كا كہنا ہے: ''جب اس نے قربانى كا جانور قربانى اور عقيقہ دونوں كے ليے ذبح كيا تو يہ كفایت نہيں كريگا، اور اگر اسے وليمہ ميں پكا كر كھلا دے تو كفایت كر جائيگا،اور فرق یہ ہے کہ پہلے دونوں ميں تو خون بہانا مقصود ہے، اور ايك (جانور)کا خون بہانا دو (جانور) کی طرف سے خون بہانے کے لئے کافی نہیں ہوگا،اور وليمہ كا مقصد كھانا كھلانا ہے، اور يہ خون بہانے كے منافى نہيں ہے ، تو اس ليے اسے جمع كرنا ممكن ہے '' انتہى.ديكھيں: (مواھب الجليل : 3 / 259 ).

دوسرا قول:

قربانى ، عقيقہ سے كفایت كر جائيگى، يہ امام احمد سے ايك روايت اور احناف كا مسلك ہے، اور حسن بصرى اور محمد بن سيرين اور قتادہ رحمہم اللہ كا بھى يہى قول ہے.

اس قول كے قائلين كى دليل يہ ہے كہ: ان دونوں كا مقصد جانور ذبح كر كے اللہ تعالیٰ كا تقرب حاصل كرنا ہے، تو اس طرح سے ايك دوسرے ميں داخل ہو گيا، جس طرح مسجد ميں داخل ہونے والے کےلئے فرض نماز میں تحیۃ المسجد داخل ہوجاتی ہے۔

ابن ابى شيبہ رحمہ اللہ نے (( المصنف )) ميں حسن رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے كہ: ''جب وہ بچے كى جانب سے قربانى كريں تو يہ اس كے عقيقہ كے ليے كافى ہو جائيگى''

ديكھيں: (مصنف ابن ابى شيبۃ: 5 / 534 ).

اور ہشام اور ابن سيرين رحمہما اللہ كہتے ہيں: ''اس كى جانب سے قربانى كرنا ، اس كے عقيقہ كے ليے كفایت كر جائيگى''.

اور قتادہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: ''اس سے كفایت نہيں كريگى، بلكہ اس كا عقيقہ كيا جائيگا''۔

اور علامہ بہوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

''اور اگر عقيقہ اور قربانى كا وقت اكٹھا ہو گيا، وہ اس طرح كہ عيد الاضحى يا قربانى كے ايام بچہ كى پيدائش كے ساتويں روز كے موافق ہوں تو عقيقہ كرنا قربانى سے كفایت كر جائيگا، يا پھر اس نے قربانى كى تو دوسرے سے كفایت كر جائيگى، جس طرح كہ اگر عيد اور جمعہ اكٹھا ہو جائے تو دونوں كے ليے وہ ايك ہى غسل كرے تو كفایت كر جائيگا، اور اسى طرح حجِ تمتع يا حجِ قران ادا كرنے والے كا يوم نحر(دسویں ذی الحجہ ) كے دن واجب ہدى اور قربانى سے كفایت كر جائيگى '' انتہى.

ديكھيں: (شرح منتھى الارادات : 1 / 617 ).

اور (( كشاف القناع )) ميں بہوتی رحمہ اللہ كہتے ہيں:

''اور اگر عقيقہ اور قربانى دونوں ایک ساتھ جمع ہو جائیں ، اور آدمى دونوں كى نيت سے ذبح كرے يعنى عقيقہ اور قربانى كى نيت سے تو دونوں کی جانب سے بالنص كفایت كر جائيگى، يعنى امام احمد نے يہى بيان كيا ہے '' انتہى.

ديكھيں: (كشاف القناع : 3 / 30).

اور شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كرتے ہوئے كہا ہے:

'' اگر قربانى اور عقيقہ دونوں ایک ساتھ جمع ہو جائيں تو اپنى جانب سے قربانى كا عزم ركھنے والے گھر والوں كى جانب سے ايك ہى كفایت كر جائيگى، تو وہ يہ قربانى پیش كریں اور عقيقہ اس ميں داخل ہو جائيگا''۔

اور کچھ لوگوں کے کلام سے یہ اخذ کیا گیاہے كہ: دونوں كا ايك ہى شخص كى جانب سے ہونا ضرورى ہے، يعنى عقيقہ اور قربانى چھوٹے بچے كى جانب سے ہى ہو.

اور كچھ دوسروں كى كلام ميں يہ شرط نہيں ہے ، یعنی جب والد قربانى كرنا چاہے تو والد سے قربانى اور بچے كا عقيقہ ادا ہو جائيگا.

حاصل کلام يہ ہوا كہ: جب وہ قربانى كى نيت سے ذبح كرے اور اس سے عقيقہ كى نيت كر لے تو يہ كافى ہو جائيگى'' انتہى۔

ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 6 / 159 ).

واللہ اعلم۔

سائٹ اسلام سوال وجواب

(مُحتاج دُعا:azeez90@gmail.com)