عید کے آداب
اس مادہ کے ترجمے
زمرے
- عام فتاوی << فتاوی << فقہ
- عید << بار بار آنے والے مواقع << الثقافة الإسلامية
- عید << بار بار آنے والے مواقع << الثقافة الإسلامية
مصادر
Full Description
عید کےآداب
[الأُردية –اُردو Urdu–]
فتوی :اسلام سوال وجواب سائٹ
ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ
مراجعہ وتنسیق:اسلام ہاؤس ڈاٹ کام
آداب العيد
فتوى:موقع الإسلام سؤال وجواب
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
مراجعة وتنسيق:موقع دارالإسلام
عید کے آداب
: 36442 سوال: عيد کی آداب اور سنتیں كيا ہيں ؟
Published Date: 2013-10-14
جواب:
الحمد للہ :
مسلمان شخص كے ليے عيد كے روز مندرجہ ذيل كام كرنے مسنون ہيں:
۱۔ نماز ِعيد كے ليے جانے سے پہلے غسل كرنا.
موطا امام مالك وغيرہ ميں عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالیٰ عنہ سے صحيح حديث مروى ہے كہ:
''ابن عمر رضى اللہ تعالیٰ عنہ عيدگاہ جانے سے قبل غسل كيا كرتے تھے''
موطا امام مالك حديث نمبر ( 428 )۔
امام نووى رحمہ اللہ تعالیٰ نے نمازِ عيد كے ليے غسل کرنے كے استحباب پر علماء كرام كا اتفاق ذكر كيا ہے.
لہذا جمعہ اور اس طرح کے عام اجتماعات ميں جانے كے ليے غسل كرنے كا جو سبب اور باعث ہے وہى سبب اور معنیٰ عيد کی نماز ميں بھى پايا جاتا ہے، بلكہ عيد ميں تو يہ سبب اور بھى زيادہ ظاہر اور واضح ہے.
۲۔ عيد الفطر كى نماز سے پہلے كچھ نہ كچھ كھا كر جانا، اور عيد الاضحٰى ميں نمازِ عيد كے بعد كھانا:
عيد كے آداب ميں سے ہے كہ عيد الفطر کی نماز كے ليے جانے سے پہلے كچھ نہ كچھ كھانا چاہيےخواہ چند كھجوريں ہى كيوں نہ كھائى جائيں.
امام بخارى رحمہ اللہ تعالیٰ نے انس بن مالك رضى اللہ تعالیٰ عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
''رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر كے روز چند كھجوريں كھانے سے پہلے نمازِ عيد كے ليے نہيں جاتے تھے، اور كھجوريں طاق ( یعنی ايك يا تين ) کی تعداد میں كھاتے تھے''۔
صحيح بخارى حديث نمبر ( 953 )۔
عيد الفطر کی نماز سے پہلے كچھ كھا كر جانا اس ليے مستحب كيا گيا ہے تاکہ اس دن روزہ نہ ركھا جائے، اور يہ روزہ کے ختم ہونے كى علامت اور نشانى ہے.
ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس كى تعليل بيان كرتے ہوئے كہا ہے كہ:'' اس ميں روزہ کے اندر اضافہ کا سدباب ہےاور اللہ تعالیٰ كے حكم كى اتباع اور پيروى ہے''۔ ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 446 )۔
اور جسے كھجور نہ ملے تو اس كے ليے كوئى بھى چيز كھانا مباح ہے.
ليكن عيد الاضحٰى ميں مستحب يہ ہے كہ نمازِ عيد سے پہلے كچھ نہ كھايا جائے، بلكہ نمازِ عيد كے بعد قربانى كر كے قربانى كا گوشت كھایا جائے ، اور اگر قربانى نہ كى ہو تو نماز سے پہلے كھانے ميں كوئى حرج نہيں ہے۔
۳۔ عيد كے روز تكبيريں كہنا:
عيد كے روز تكبيريں كہنا عظيم مسنون عمل ہے، كيونكہ ارشاد بارى تعالیٰ ہے:
﴿وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾[البقرة:158]
'' تا كہ تم گنتى پورى كرو، اور اللہ تعالیٰ نے جو ہدايت تمہيں دى ہے اس پر اس كى بڑائى بيان كرو، اور اللہ تعالیٰ كا شكر ادا كرو''۔[سورہ بقرہ:۱۵۸]
وليد بن مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ كہتے ہيں: ميں نے اوزاعى اور مالك بن انس سے عيدين ميں بلند آواز سے تكبيريں كہنے كے متعلق دريافت كيا تو وہ كہنے لگے:
''جى ہاں، عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالیٰ عنہما عيد الفطر كے روز امام كے آنے تك بلند آواز سے تكبيريں كہتے تھے''۔
اور عبد الرحمن بن سلمى سے صحيح روايت كے ساتھ ثابت ہے كہ:
''عيد الاضحٰى كى بنسبت وہ عيد الفطر ميں(تکبیر کے اعتبار سے) زيادہ شديدتھے''۔
وكيع رحمہ اللہ كہتے ہيں: یعنی تكبير ميں. ديكھيں: ارواء الغليل ( 3 / 122 )۔
دار قطنى وغيرہ نے روايت كيا ہے كہ: ابن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر وعیدالاضحیٰ کی صبح کثرت سے تکبیر کہتے یہاں تک کہ عیدگاہ تشریف لاتے،پھروہاں بھى امام كے آنے تك تكبيريں كہتے رہتے تھے.
ابن ابى شيبہ نے زہرى سے صحيح سند كے ساتھ بيان كيا ہے كہ:
''جب لوگ گھروں سے نكلتے تو عيد گاہ پہنچنے تك بلند آواز كے ساتھ تكبيريں كہتے، حتى كہ جب امام آ جاتا تو لوگ تكبيريں كہنا بند كردتیے اور جب امام تكبيريں كہتا تو لوگ بھى تكبيريں كہتے تھے''۔
ديكھيں: ارواء الغليل ( 2 / 121 )۔
سلف رحمہ اللہ ميں عيد كے روز گھر سے نكلنے سے ليكر عيد گاہ جانے اورامام كے آنے تك بلند آواز سے تكبيريں كہنا بہت ہى مشہور امر تھا، بہت سارے مصنفين جیسے ابن ابى شيبہ، عبد الرزاق، اور فريابى نے '' احكام العيدين'' کتاب ميں اس چیز کوسلف كی ايك جماعت سےنقل كيا ہے، انہی میں سے نافع بن جبير ہيں جو تكبيريں كہتے تھے اور لوگوں كے تكبيريں نہ كہنے پر تعجب كرتے اور كہتے: '' تم تكبيريں كيوں نہيں كہتے ؟''ـ
اور ابن شہاب زہرى رحمہ اللہ تعالیٰ كہا كرتے تھے:
''لوگ گھروں سے نكل كر عيد گاہ جانے اور عيد گاہ ميں امام كے آنے تك تكبيريں كہا كرتے تھے''۔
عيد الفطر ميں تكبيريں كہنے كا وقت چاند رات سے شروع ہو كر نمازِ عيد كے ليے امام كے آنے تك رہتا ہے.
ليكن عيد الاضحٰى ميں يكم ذوالحجہ سے شروع ہو كر آخرى ايام ِتشريق كا سورج غروب ہونے تك رہتا ہے.
تكبير كے الفاظ يہ ہيں:
مصنف ابن ابى شيبہ ميں صحيح سند كے ساتھ ابن مسعود رضى اللہ تعالیٰ عنہ سے مروى ہے كہ:
" وہ ايامِ تشريق ميں (ان الفاظ کے ساتھ) تكبيريں كہا كرتے تھے:
''الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد ''۔
اور ابن ابى شيبہ نے ہى ايك روايت ميں اسى سند كے ساتھ تين بار تكبير كے الفاظ روايت كيے ہيں.
اور محاملى نے صحيح سند كے ساتھ عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالیٰ عنہما سے يہ الفاظ بيان كيے ہيں:
''الله أكبر كبيراً الله أكبر كبيراً الله أكبر وأجلّ ، الله أكبر ولله الحمد''۔ ديكھيں: اراوء الغليل ( 3 / 126 )
4 ۔عيد كى مباركباد دينا:
عيد كے آداب ميں سے ايك دوسرے كو عيد كے روز اچھے الفاظ ميں مباركباد دينا شامل ہے، چاہے اس كے الفاظ كوئى بھى ہوں، مثلا ايك دوسرے كو يہ كہیں: تقبل اللہ منا و منكم''اللہ تعالیٰ ہم اور آپ سے قبول فرمائے''، يا عيد مبارك يا اسی طرح كے كوئى اور الفاظ كہیں جو مباركباد كے ليے مباح اور جائز ہوں.
جبير بن نفير رحمہ اللہ تعالیٰ كہتے ہيں:
عيد كے روز جب نبى كريم صلى اللہ كے صحابہ كرام ايك دوسرےسے ملتے تو وہ ايك دوسرے كو يہ الفاظ كہا كرتے تھے:
'' تُقُبِّل منا ومنك ''ہم سے اورآپ سے قبول کیا جائے۔
ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے. ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 446 )۔
لہذا عيد كى مباركباد دينا صحابہ كرام كے ہاں معروف اور مشہور تھا ، اور امام احمد وغيرہ اہل ِ علم نے اس كى رخصت دى ہے، اورمختلف مواقع پر مباركباد دينے كى مشروعيت پر صحابہ كرام سے ثابت ہے، كہ جب كسى كو كوئى خوشى حاصل ہوتى مثلا كسى شخص كى اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتا تو صحابہ كرام اسے مباركباد وغيرہ ديا كرتے تھے.
اوراس ميں كوئى شك نہيں كہ مباركباد دينا مكارم اخلاق اور مسلمانوں كے مابين حسنِ اجتماعیت میں شامل ہے.
اور مباركباد كے سلسلہ ميں كم از كم يہ كہا جا سكتا ہے كہ: جو شخص آپ كو مباركباد دے اسے آپ بھى مباركباد ديں، اور جو شخص خاموش رہے آپ بھى اس كے ليے خاموشى اختيار كريں.
جيسا كہ امام احمد رحمہ اللہ كا قول ہے:
'' اگر مجھے كوئى شخص مباركباد ديتا ہے تو ميں بھى اسے مباركباد كا جواب ديتا ہوں، ليكن ميں اس كى ابتدا نہيں كرتا''۔
5 ۔عيد كے ليے خوبصورت اور اچھا لباس پہننا:
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالیٰ عنہ سے مروى ہے كہ:
''عمر رضى اللہ تعالیٰ عنہ نے بازار سے ايك دبیزريشمى جبہ فروخت ہوتے ہوئے ديكھا تو اسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لا كر عرض كيا:
'' اے اللہ تعالیٰ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اسے خريد ليں تا كہ آپ اسے عيد كے روز اور وفود سے ملنے كے ليے بطور خوبصورتى پہنا كريں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: '' يہ تو اس كے ليے ہے جس كا آخرت ميں كوئى حصہ نہيں... ''
صحيح بخارى حديث نمبر ( 948 )۔
اس آيت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد كے ليے خوبصورتى اختيار كرنے پر انكار نہيں كيا بلكہ اس كا اقرار كيا، ليكن اس جبہ كو خريدنے سے انكار كيا كيونكہ وہ ريشم کا تھا.
جابر رضى اللہ تعالیٰ عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
'' نبى كريم صلى اللہ عليہ كا ايك جبہ تھا جو آپ صلى اللہ عليہ وسلم عيدين اور جمعہ كے روز زيب تن كيا كرتے تھے ''۔
صحيح ابن خزيمہ حديث نمبر ( 1765)۔
اور بیہقی نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے كہ: ابن عمر رضى اللہ تعالیٰ عنہ عيد كے ليے اپنا خوبصورت ترين لباس زيب تن كيا كرتے تھے.
اس ليے آدمى كو چاہيے كہ وہ عيد كے ليے خوبصورت ترين لباس زيب تن كرے.
ليكن جب عورتيں عيد كے ليے جائيں تو وہ زيب و زينت سے اجتناب كريں، كيونكہ انہيں مردوں كے سامنے زينت كے اظہار سے منع كيا گيا ہے، اور اسى طرح باہر جانے والى عورت كے ليے خوشبو لگانا بھى حرام ہے، تا كہ وہ مردوں كے فتنہ كا باعث نہ بنے، كيونكہ وہ تو صرف عبادت اور اطاعت كے ليے نكلى ہے.
6۔ نماز عيد كے ليے آنے جانے ميں راستہ بدلنا۔
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالیٰ عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
''عيد كے روز رسولِ كريم صلى اللہ عليہ وسلم راستہ تبديل كيا كرتے تھے''۔
صحيح بخارى حديث نمبر ( 986 )۔
اس كى حكمت كے متعلق يہ كہا گيا ہے كہ: تا كہ روز ِقيامت دونوں راستے گواہى ديں،اور روزِ قيامت زمين اپنے اوپر خير اور شر كئے جانے والے عمل كى گواہى دے گى.
ايك قول يہ ہے كہ: دونوں راستوں ميں اسلامى شعائر كا اظہار ہو.
اور ايك قول يہ ہے كہ: اللہ تعالیٰ كا ذكر ظاہر كرنے كے ليے.
اور يہ بھى قول ہے كہ: يہوديوں اور منافقين كو غصہ دلايا جائے، اور اپنے ساتھ موجود مسلمانوں کی کثرت سے ان کو ڈرایا جائے۔
اور ايك قول يہ بھى ہے: تا كہ تعليم اور فتوى اور اقتداء يا پھر ضرورتمندوں پر صدقہ وغيرہ كے ذريعہ لوگوں كى حاجتیں پورى ہوں، يا پھر اپنے رشتہ داروں كى زيارت اور ان سے صلہ رحمى قائم ہو سکے .
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
(مُحتاج دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ [email protected])