×
سوال: كيا عورت كے لئےاپنے فوت شدہ والدين كى جانب سے اعتكاف كرنا جائز ہے ؟

عورت کے لئے اپنے فوت شدہ والدین کی جانب سے اعتکاف کرنے کا حکم؟

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی : اسلام سوال وجواب

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق:اسلام ہاؤس ڈاٹ کام

هل يجوز للمرأة الاعتكاف عن والديها الأموات؟

فتوى: موقع الإسلام سؤال وجواب

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:موقع دارالإسلام

عورت کے لئے اپنے فوت شدہ والدین کی جانب سے اعتکاف کرنے کا حکم؟

66998: كيا عورت كے لئےاپنے فوت شدہ والدين كى جانب سے اعتكاف كرنا جائز ہے ؟

Published Date: 2007-10-01

جواب:

الحمد للہ :

بعض علماء كرام کسی بھی عبادت کو انجام دے کراس كا ثواب فوت شدگان كو ہبہ كرنے كے جواز كے قائل ہيں، جبکہ دوسرے لوگ كہتے ہيں كہ صرف وہى عبادات انجام دی جا سکتی ہيں جو دلیل کے ساتھ وارد ہوئی ہيں۔

شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

زندہ اشخاص كى جانب سے كون کون سى چیزیں ميت كے لئے نفع بخش ہيں ؟ اور كيا بدنى اور غير بدنى عبادات ميں كوئى فرق ہے ؟

آپ سے گزارش ہے كہ اس مسئلہ كى وضاحت فرمائيں، اور ہمارے لئے كوئى ايسا اصول اور قاعدہ بتلائیں تاکہ اس طرح كے مسائل ميں مشكل پيش آنے كے وقت ہم اس کی طرف رجوع کرسکیں۔

شيخ حفظہ اللہ نے جواب ديا:

''زندہ اشخاص كى جانب سے ميت كو وہ چيز یں نفع پہنچا سكتى ہیں جس كى كوئى دليل ثابت ہو جیسے : اس کے لیے دعاء کرنا، اس کے لئے استغفار کرنا، ميت كى جانب سے صدقہ و خيرات کرنا ، اس کی طرف سے حج و عمرہ کرنا ، اس كے ذمہ عائد قرض كى ادائيگى کرنا اور اس كى شرعى وصيت كو نافذ کرنا وغیرہ...، ان ساری چیزوں كى مشروعيت پر دلائل موجود ہيں.

اور بعض علماء نے اس کے ساتھ ہراس نیکی کے کام کو شامل کیا ہے جسے مسلمان شخص انجام دیتا ہے اوراس کے ثواب کوكسى زندہ يا مردہ شخص كو ہبہ كرتا ہے۔

ليكن صحيح بات يہى ہے كہ اسى چیز پر اکتفا كرنا چاہيے جس کے بارے میں دلیل وارد ہے، اور يہ اللہ تعالیٰ كے درج ذيل فرمان کی تخصیص کرنے والا ہوگا:

﴿ وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَى ﴾[ النجم:۳۹]

''اور انسان كے لئے وہى كچھ ہے جو اس نے كوشش كىا''۔[سور ہ نجم :۳۹] واللہ اعلم ''۔

ديكھیں : المنتقى ( 2 / 161)

اورجہاں تک والدين کی بات ہے : تو شريعت اسلامیہ نے اولاد كو والد كى كمائى قرار ديا ہے،چنانچہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالیٰ عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

(إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ : عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ ، وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ ، أَوْ بَيْتًا لابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ ، أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ ، أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ)

''مومن كى موت كے بعد اس كے اعمال اور نيكيوں ميں سے جو اسے پہنچتا رہتا ہے وہ علم ہے جو اس نے كسى كو سكھايا ہو، يا نشركيا ہو، اور نيك اور صالح اولاد چھوڑى ہو، اور قرآن وراثت ميں چھوڑا ہو، يا مسجد بنائى ہو يا مسافروں كے لئے مسافرخانہ تعمير كروايا ہو، يا نہر كھدوائى ہو، يا صحت اور تندرستى اور زندگى ميں اپنے مال سے صدقہ و خيرات كيا ہو تو اس كى موت كے بعد بھى اس (کا ثواب) اس تك پہنچتا رہتا ہے''۔

(سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 242 )،صحيح ابن خزيمہ( 4 / 121 )،ابن خزيمہ نے اسے صحيح کہاہےاور علامہ منذرى و البانىؒ نے اسے حسن قرار ديا ہے، جيسا كہ صحيح الترغيب ( 1 / 18 ) ميں ہے۔

اورسنن ابن ماجہ كے حاشيہ پر علامہ سندھى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

''صالح اولاد كےعمل اور تعلیم کو حسن یا نیکی شمار كیا گیا ہے کیونکہ والد ہى اولاد كے وجود اور اس كى اصلاح اور نيكى وہدايت كى طرف راہنمائى كا سبب ہے، جيسا كہ نفس عمل كو درج ذيل فرمان بارى تعالیٰ ميں بیان کیا گيا ہے:

﴿ إِنَه عَمَلٌ غَيْرُ صَالِح﴾[هود:46]

'' اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں''انتہى.

اور شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

''اولاد جو بھى نيك اور صالح اعمال كرتى ہے اس كا اجروثواب والدين كو بھى ملتا ہے، اور دونوں ميں سے كسى كے اجروثواب ميں كمى نہيں ہوتى؛ كيونكہ اولاد والدين كى كوشش اور كمائى كا نتيجہ ہے، اور پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ كا فرمان ہے:

﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾

''ہر انسان كے لئے وہى كچھ ہے جو اس نے كوشش كى ''[سورہ نجم : 39]

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

''سب سے بہتر اور اچھى وہ چيز ہے جو آدمى اپنى كمائى سے كھاتا ہے اور يقينا بيٹا اس كى كمائى ميں سے ہے''۔

اسے سنن اربعہ نے روايت كيا ہے، اور شيخ البانى رحمہ اللہ نے اسے شواہد كے ساتھ صحيح قرار ديا ہے '' انتہى.

ديكھيں: احكام الجنائز ( 126 - 217 )

شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

فوت شدہ يا زندہ والدين كے لئے كون کون سے اعمال نفع بخش ہيں ؟

شيخ كا جواب تھا: وہ اعمال اس طرح سے ہيں:

''ان كى زندگى ميں ان کے ساتھ حسن سلوك كا برتاؤ كرنا، اور قول و عمل ميں ان سے احسان اور اچھا برتاؤ کرنا، اور ان كى رہائش و خرچ وغيرہ كى ضروريات پورى كرنا، ان دونوں كے ساتھ اچھى طرح كلام اور بات چیت كرنا، اور ہمیشہ ان كى خدمت بجا لانا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ كا فرمان ہے:

﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَلا تَعْبُدُوا إِلا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ [الإسراء‏:‏ 23‏]

'' اور تيرے رب كا فيصلہ ہے كہ اس كے علاوہ كسى اور كى عبادت نہ كرو اور والدين كے ساتھ حسن سلوك كرو ''۔[سورہ اسراء: 23 ]

خاص طور سے جب والدين بوڑھے ہو جائيں تو ان كى جتنى خدمت ہو سكے كى جائے.

اور ان كى موت كے بعد بھى ان كے ساتھ نيكى اور حسن سلوك كا برتاؤ باقى رہتا ہے، وہ اس طرح كہ ان كے لئے دعاء كى جائے، اور ان كى جانب سے صدقہ و خيرات اور حج و عمرہ كيا جائے، اور ان كے ذمہ قرض كى ادائيگى كى جائے، اور ان كے رشتہ داروں اور دوست و احباب كے ساتھ اچھا برتاؤ اور صلہ رحمى كى جائے، اور ان كى جانب سے مشروع وصيت پر عمل كيا جائے '' انتہى.

ديكھيں: المنتقى ( 2 / 162 )

دوم:

رہا عورتوں كے متعلق اعتكاف كا مسئلہ تواس كے بارے ميں(درست) بات یہ ہے كہ:

اعتكاف مرد اور عورت دونوں كے لئے مستحب ہے، ليكن عورتوں كے لئے يہ ضرورى ہے كہ وہ اپنے اہل و عيال یا خاوند كى اجازت كے بغير اعتكاف نہ کریں، اور ان كے اعتكاف كرنے ميں كوئى فتنہ نہ ہو.

شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ كہتے ہيں:

''پس عورت اس وقت اعتكاف میں بیٹھے گى جب اس كے اعتكاف كرنے ميں كوئى فتنہ نہ ہو، اور اگر اس كے اعتكاف كرنے ميں فتنہ ہو تو پھر اسے اعتكاف بیٹھنےنہيں ديا جائيگا؛ كيونكہ جب كسى مستحب چيز كے نتيجہ ميں كوئى ممنوع چيز مرتب ہو تو اس سے ركنا واجب ہے، جس طرح كسى مباح چيز كے نتيجہ ميں كوئى ممنوعہ چيز مرتب ہوتى ہو تو اس سے ركنا واجب ہے.

پس اگر ہم فرض كرلیں كہ جب عورت مسجد ميں اعتكاف كرتی ہے تو وہاں فتنہ ہوتا ہے جیسا کہ مسجد حرام میں ہے، كيونكہ مسجد حرام ميں عورتوں كے اعتكاف كے لئے كوئى مخصوص جگہ نہيں ہے، اور جب عورت اعتكاف كرے گى تو وہ ضرور سوئےگى، چاہے رات كو سوئے يا دن كے وقت، اور آنے جانے والے مردوں كے درميان عورت كا سويا ہوا ہونا فتنہ ہے(توایسی صورت میں اس کا اعتکاف کرنافتنہ ہوگا)۔

اورعورتوں كے لئے اعتكاف كى مشروعيت كى دليل يہ ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازوجات مطہرات آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى اور آپ كى وفات كے بعد بھى اعتكاف كرتى رہی ہيں، ليكن اگر فتنہ كا خدشہ ہو تو عورت كو اعتكاف كرنے سے منع كيا جائيگا؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تواس سے بھى كم چيز ميں منع فرما یا ہے،چنانچہ(ایک مرتبہ) جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کا ارادہ کیا تو ايك روزنكلے تو ديكھا كہ ايك خیمہ عائشہ رضى اللہ تعالیٰ عنہا كا اور ايك خیمہ فلان عورت كا اور ايك خیمہ فلان عورت كا(مسجد نبوی میں) لگا ہوا ہے تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا:

'' كيا ان کا ارادہ نیکی کا ہے ؟! ''

پھر آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سب خیموں كو اكھاڑنے كا حكم دے ديا، اور اس سال خود بھى اعتكاف نہیں كيا، بلكہ شوال كے مہینہ ميں بطور قضاء اعتكاف كيا. يہ اس بات كى دليل ہے كہ اگر عورت كے اعتكاف كرنے ميں فتنہ ہو تو بالاولىٰ اسے منع كيا جائيگا '' انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 510 (

خلاصہ يہ كہ:

انسان موت آنے سے قبل اپنےلئے زيادہ سے زيادہ اعمال صالحہ کرے ، كيونكہ موت كے بعد اس كے اعمال منقطع ہو جا ئیں گے، اور ان اعمال کے اجروثواب ميں سے اس كے والدين كو حصہ ملے گا، ليكن اس کے اولاد کے اجروثواب میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔

اور اعتكاف بھى اعمال صالحہ ميں سے ہے، اور عورت كے لئے ضرورى ہے كہ وہ اعتكاف اس طرح كرے جو شرعى قواعد و ضوابط كے مطابق ہو، جيسا كہ شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ كى كلام ميں بيان ہوا ہے.

واللہ اعلم .

اسلام سوال و جواب

(مُحتاج دُعا:عزیزالرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ azeez90@gmail.com)