×
سوال:کن اسباب کی بنا پر رمضان میں روزہ چھوڑناجائز ہے؟۔

رمضان میں روزہ چھوڑنے کےشرعی اعذار

[الأُردية –اُردو Urdu]

فتوی :موسوعہ فقہیہ کویتیہ

—™

ترجمہ: اسلام سوال وجواب سائٹ

مراجعہ وتنسیق:عزیز الرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ

الأعذار التي تبيح الفطر في رمضان

فتوى:الموسوعة الفقهية الكويتية

—™

ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب

مراجعة وتنسيق:عزيز الرحمن ضياء الله السنابلي

ماہِ رمضان میں روزہ چھوڑنے کے شرعی اعذار

: 23296 سوال:کن اسباب کی بنا پر رمضان میں روزہ چھوڑناجائز ہے؟۔

بتاریخ : 2010-07-25کو نشر کیا گیا

جواب:

الحمد للہ

بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر آسانی کا معاملہ کرتے ہوئے صرف ان لوگوں پر روزہ فرض کیا ہے جو اس کی طاقت رکھتے ہیں ، اور جو لوگ کسی شرعی عذر کی بنا پر روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ان کے لیے روزہ چھوڑنا مباح وجائزقراردیاہے۔
ذيل میں ہم ان شرعی ‏اعذار کا ذکر کررہے ہیں جن کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز ہے :

اوّل :: بیماری

ہر وہ چیز جوانسان کو صحت و تندرستی سے نکال دے اسے بیماری کہتے ہیں۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہيں :

اہل علم کا عام طور پراس بات پر اجماع ہے کہ مریض کے لیے روزہ چھوڑنا جائزو مباح ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

﴿وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾[البقرة:185]

''اورجوکوئی مریض ہویا مسافر وہ دوسرے ایام میں گنتی مکمل کرے ''۔ [سورہ بقرہ:۱۸۵]

سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:

﴿وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ﴾[البقرة:184]

''اورجواس کی طاقت رکھتےہیں وہ ایک مسکین کوبطور فدیہ کھانا دیں''تو جو شخص روزہ چھوڑنا چاہتا وہ روزہ نہ رکھتا بلکہ اس کے بدلے میں فدیہ دے دیتا تھا ، یہاں تک کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی یعنی اللہ تعالیٰ کا فرمان:

﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾[البقرة:185]

''ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے واﻻ ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزه رکھنا چاہئے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے''[سورہ بقرہ:۱۸۵]

تواس آیت نے پہلی والی آيت کو منسوخ کردیا ، لہذا وہ مریض جسے روزہ رکھنے سے مرض کی زيادتی کا خدشہ ہو یا پھر بیماری سے شفایابی میں تاخیر ہونے کا ڈر ہو یا کسی عضو کے خراب ہونے کا خطرہ ہو تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائزہے ، بلکہ اس کا روزہ چھوڑنا مسنون ہے ،اوراس کے لئے روز ہ مکمل کرنا مکروہ ہوگا ، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس کا روزہ رکھنا اسے ہلاکت تک پہنچادے،اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے ، پھریہ کہ مرض کی شدت ،بیمارشخص کے لیے روزہ چھوڑنے کوجائز کردیتی ہے ، لیکن اگر صحت مند اور صحیح سالم شخص تھکاوٹ اورشدت کا خطرہ محسوس کرے، تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہيں ،کیونکہ روزہ سے محض اسے زیادہ تھکاوٹ ہی پہنچی ہے(اورزیادہ تھکاوٹ روزہ توڑنے کو مباح نہیں کرتی)۔

دوم : سفر :

جس سفرمیں روزہ ترک کرنے کی رخصت ہے اس کی شرطیں درج ذيل ہیں:

ا - طویل سفر ہو جس میں نماز قصر کی جاسکتی ہو ۔

ب-مسافراپنےسفر میں اقامت کی نیت نہ کرے۔

ج - جمہورعلماء کہتے ہيں کہ اس کا سفر کسی معصیت اورگناہ کے لیے نہ ہو ، بلکہ کسی صحیح مقصد کے لیے ہو ۔

اس لیے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا رخصت اورتخفیف ہے لہذا گناہ کے لیے سفر کرنے والا اس کا مستحق نہيں کیونکہ اس کا سفر گناہ پر مبنی ہے ، جیسا کہ کوئی شخص ڈاکہ ڈالنے کے لیے سفر کرے ۔

سفر کی رخصت کا انقطاع(ختم ہونا) :

دووجوہات کی بنا پرسفر کی رخصت متفقہ طور پرساقط(ختم) ہوجاتی ہے :

اول : جب مسافر اپنے شہر میں واپس آجائے ، اور اپنے وطن میں دخل ہوجائےجہاں اس کی اقامت اور قیام گاہ ہے ۔

دوم : جب مسافر مطلق طور پر اقامت کی نیت کرلے ، یا مدت اقامت ایک ہی جگہ میں ہو ، اوروہ جگہ رہنے کے قابل ہو ، تواس طرح سے وہ مقیم ہوجائے گا ، چنانچہ وہ پوری نماز ادا کرے گا اوررمضان کا پورا روزہ بھی رکھے گا، اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہيں ہوگا، کیونکہ اس کے سفر کا حکم ختم ہوچکا ۔

تیسرا عذر : حمل اوردودھ پلانا :

فقہا ء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حاملہ عورت اوردودھ پلانے والی دونوں ہی رمضان میں روزہ چھوڑ سکتی ہيں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ انہیں اپنے آپ یا بچے کے بیمار ہونے کا خدشہ ہو یا پھر بیماری کے زيادہ ہونے یا ضررپہنچنے اورہلاک ہونے کا خطرہ ہو ۔

ان دونوں کے روزہ چھوڑنے کی دلیل یہ ہے کہ :

﴿وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾[البقرة:185]

''اورجوکوئی مریض ہو یا مسافر اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنی ہوگی'' ۔ [سورہ بقرہ:۱۸۵]

اس مرض سے مراد مرض کی صورت یا عین ِمرض مراد نہيں ہے ، اس لیے کہ جس مريض کو روزہ ضرر نہيں دیتا اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہيں ہے،اس سے یہ پتہ چلا کہ بیماری کے ذکر کرنے سے ایک ایسی چیز کی طرف اشارہ کرنا ہے جس کے ہوتے ہوئے روزہ نقصان پہنچاتا ہے، اور یہی بیماری کا معنیٰ ہے،اوروہ یہاں موجود ہے،اس لئے وہ دونوں(حاملہ ومرضعہ) روزہ توڑنے کی رخصت میں شامل ہوجاتی ہیں۔

اوران دونوں کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت کی دلیلوں میں سے انس بن مالک کعبی رضی اللہ تعالی عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہےکہ :

(إنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلَاةِ , وَعَنْ الْحَامِلِ أَوْ الْمُرْضِعِ الصَّوْمَ أَوْ الصِّيَامَ } وَفِي لَفْظِ بَعْضِهِمْ : { عَنْ الْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ(

''یقینا اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اورآدھی نماز کو،اورحاملہ یادودھ پلانے والی عورت سے روزہ یا روزے کومعاف کردیا ہے ''۔اوربعض روایت کے الفاظ ہیں: ''حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت سے''۔

چہارم : بڑھاپا :

بڑھاپے کے حکم میں مندرجہ ذيل لوگ شامل ہیں:

-شيخ فانی(کھوسٹ بوڑھا):یعنی جس کی قوت اور طاقت بالکل ختم ہوچکی ہو یا پھر وہ فنا ہونے کے قریب ہو ، اور کمزوری دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہویہاں تک کہ موت کے قریب ہو۔

-اور وہ مریض جس کے شفایاب ہونے کی امید ہی نہ ہو ، اوراس کی صحت سے ناامیدی پیدا ہوچکی ہو ۔

-اوراس میں بوڑھی عورت بھی شامل ہے اوروہ سن رسیدہ عورت ہے۔

مندرجہ بالا لوگوں کے روزہ چھوڑنے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

﴿وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ﴾[البقرة:184]

''اورجولوگ اس کی طاقت رکھتے ہیں وہ بطور فدیہ ایک مسکین کو کھانا دیں''۔

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہيں ہے بلکہ یہ بوڑھے مرد اوربوڑھی عورت کے لیے ہےجوروزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں،اسلئے وہ ہردن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گے''۔

پنجم : پیاس اوربھوک کی شدت :

جس شخص کو زيادہ بھوک یا پیاس نڈھال کردے تو وہ روزہ توڑدے گا اوراتنی ہی مقدار میں کھائے گا جس سے اس کی ضرورت پوری ہوجائے،اوربقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہے گا،اوربعد میں اس روزہ کی قضا کرے گا۔

نیز بھوک اورپیاس کے ساتھ دشمن سے متوقع یا یقینی مقابلہ(دشمن سے گھرے ہونے کی صورت) میں کمزوری کے خوف کو بھی ملحق کیا گیا ہے،لہذا اگرغازی اس بات کو یقینی طور پر یا غالب گمان سے جانتا ہو کہ دشمن سے لڑائی ہونے والی ہے ،کیونکہ وہ دشمن کے مقابلے میں موجود ہے ،اوروہ روزہ رکھنے کی وجہ سے لڑائی کرنے سے کمزوری کا خوف محسوس کرتا ہے ،اوروہ مسافر بھی نہيں ہے تواس کے لیے جنگ سے قبل روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔

ششم : اکراہ اورجبر :

اکراہ کسی شخص کو دھمکی یا اسلحہ کے زور پر کسی فعل کے کرنے یا پھر کسی ناپسندیدہ فعل کو ترک کرنے پر مجبور کیا جائے۔

دیکھیں :(الموسوعۃ الفقھيۃ :ج۲۸/ ص73 ) واللہ اعلم

(طالبِ دُعا: [email protected])